• 24 اپریل, 2024

بیت الاسلام، کینیڈا میں دس دن

یہ بہت پُرانہ تقریباً 2006ء کا لکھا ہوا مضمون ہے ۔ میری کتاب ’’من کے موتی‘‘ میں شامل ہے ۔ لیکن اب اس میں تھوڑی سی تبدیلی کر رہی ہوں ۔ حالات ایک سے نہیں رہتے بہت سے میرے پیارے جو اُس وقت میرے ہم سفر تھے ملاقاتوں میں تھے دنیا سے رُخصت ہو چکے ہیں ، اُن کی یادیں میرے ساتھ ہیں ۔ اللہ اُن سب کے درجات بلند فرمائے ۔ آ مین

جب حضرت خلیفتہ ا لمسیح الرابع رحمہ اللہ نے 17 اکتوبر 1992ء میں بیت الاسلام مسجد کا افتتاح فرمایا تو ہم سب ٹی وی کے سامنے ایسے جم کر بیٹھے جیسے کسی گاؤں میں پہلی بار tvآیا ہو ۔ ہم کیمرہ کی آنکھ سے سب مناظر دیکھ رہے تھے ۔ براہِ راست نظارہ دیکھنا کسی جادو نگری سے کم نہیں لگ رہا تھا ۔ ہم نے زندگی میں پہلے ایسے مناظر نہیں دیکھے تھے جو چیزیں دکھائی جارہی تھیں ۔ مثال کے طورپر غسلخانے میں پانی چلنے اور رُکنے کا خود کار نظام (sensor Taps) لگے اور وضو کے لئے پاؤں دھونے کی الگ سے جگہ پھر نر سری روم جو بچوں کے لئے علیحدہ سے بنایا گیا تا کہ بچوں کی وجہ سے شور نہ ہو ، دو رنگوں کا کارپٹ بے حد خوبصورت دکھائی دے رہا تھا ۔ لگتا بھی کیوں نہ جب کہ واقعی یہ سب کچھ پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا، اور دکھانے والوں نے بھی کمال کر دیا کہ آ ہستہ آہستہ ہمیں سارے کینیڈا کی ہی سیر کروادی ۔

ہم بہت خوش تھے کہ ہماری کینیڈا کی جماعت کے پاس اتنی خوبصورت دودھوں نہائی سفید ماربل کی بنی سر بلند مینار اور چمکتے گنبدوں کے ساتھ دعوت دین دیتی ہوئی ایسی شاندار مسجد ہے جو شاید ہی کینیڈ ا میں کہیں اور ہو ۔

کچھ عرصہ کے بعد میرے بیٹے کو اپنے کام کے سلسلہ میں امریکہ جانا پڑا اور اُس نے امریکہ کی ریاست Connecticut میں رہائش اختیار کر لی ۔ میں اور میری چھوٹی بیٹی پہلی بار 1993 ء میں جب اپنے بیٹے کو ملنے گئے تو اُس نے مجھے کہا :۔

’’اُمی کیا آپ نےکینیڈا کی مسجد دیکھنی ہے‘‘؟

میں بہت خوش ہوئی اور کہا بچے نیکی کرو گے میں ضرور دیکھوں گی جس کو ہم نے صرف tv پر ہی دیکھا تھا ۔ میرے ساتھ میرا بیٹا ۔چھوٹی بیٹی اور میری ممانی جان آمنہ حمید صاحبہ مرحومہ (اہلیہ چوھدری عبد الحمید صاحب مرحوم امریکہ) ہم بذریعہ کار کینیڈا کے لئے چل پڑے۔ چلنے سے پہلے میں نے اپنے چچا جان (شیخ منظور الحسن صاحب مرحوم) کو بھی اطلاع کردی کہ ہم آپ کے گھر آ رہے ہیں ۔(اللہ تعالیٰ غریق رحمت فرمائے اب میری ممانی اور چچاجان دونوں ہی اس دُنیا میں نہیں رہے۔) اُن کو بھی میں نےبہت مدت کے بعد ملنا تھا اُن کو ملنے کی بھی دل میں بہت خوشی تھی ۔ راستے میں ہم نیا گرافال کی سیر کرتے ہوئے آدھی رات کو اپنے چچاجان کے گھر پہنچے ۔ اگلے دن آرام کرنے کے بعد میرے چچا زاد بھائی ہمیں سیر کے لئے باہر لے گئے، سی این ٹاور اور کینیڈا کی مزید مشہور جگہیں دیکھیں اور اب ہمارا رُخ اُس طرف تھا جس کے لئے ہم نے یہ مسافت طے کی تھی۔

دل خوشی سے بے چین و بے قرار تھا کہ واقعی میں اتنی خوش قسمت ہوں کہ جو ٹی وی پر دیکھ دیکھ کر خوش ہو رہےتھے اب اپنی آنکھوں سے دیکھ لوں گی ۔ گاڑی کا رُخ مسجد کی طرف تھا ۔ مسجد کے چاروں طرف بالکل سنسان جنگل بیا بان دیکھ کر میرے منہ سے ایکدم نکلا :

’’ہائے یہ اتنی خالی جگہ پڑی ہے ۔۔۔۔ یہاں تو پورا ربوہ سما سکتا ہے‘‘۔

میرے ساتھ بیٹھے ہوئے سب نے ایک بہت بڑا قہقہہ لگایا کہ اُمی کو اتنی سیر کروائی ہے تو کوئی تبصرہ نہیں کیا اور اتنی کھلی جگہ دیکھ کر سارا ربوہ اُٹھا کر لے آئی ہیں ۔ اُس وقت میں بھی تھوڑی شرمندہ سی ہو گئی ، مگر میرے اللہ تعالیٰ نے ضرور مسکرا کر دیکھا ہوگا اور کہا ہوگا کہ تمہاری یہ خواہش ضرور ایک دن پوری ہوگی ، انشاء اللہ۔مگر اُس وقت میں یہ سب نہیں جانتی تھی ۔ ہم سب نے مسجد دیکھی واقعی بہت خوبصورت مسجد تھی ہم سب نے شکرانے کے نفل ادا کئے اور اگلے دن ہم واپس امریکہ آ گئے ۔

تقریباً تین سال امریکہ رہنے کے بعد میرا بیٹا واپس لندن آ گیا یہاں چار پانچ سال گزارنے کے بعد 2001ء کے آخر میں اُس نے مستقل کینیڈا میں اپنا گھر بنا لیا ، اور جب حضرت خلیفتہ المسیح الخامس اید ہ اللہ نے پہلی بار کینیڈا جلسہ سالانہ پر تشریف لے جانے کا پروگرام بنایا تو میرے بیٹے نے مجھے بھی بلا لیا کہ اُمی آپ بھی آئیں اور یہاں کی رونقیں دیکھیں اور میں کینیڈا چلی گئی ۔ میں پیس ویلج گئی ۔ کیا بتاؤں کہ حضرت رسول کریم ﷺ کی عاشق حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر کامل ایمان اور خلافت پر یقین رکھنے والی خلافتِ احمدیہ کی رہنمائی میں اُس جنگل میں جہاں میرےدل کی خواہش دعا بن کر میرے لبوں تک آ گئی تھی اُس نے حقیقت کا روپ دھار لیا تھا ۔ واقعی ربوہ جیسی بستی آباد ہو گئی تھی ۔میں وہ سب دیکھ کر اللہ تعالیٰ کے حضورسجدہ ریز ہو گئی ، کہ کس شان ِ کریمی سے اُس نے میری معصومیت میں کی ہوئی خواہش کو بڑی شان کے ساتھ پورا کردیا تھا۔ الحمد للہ

ویسے میں نے تو کھلی زمین دیکھ کر چلتے چلتے بات کر دی تھی ۔ میں نہیں جانتی تھی کہ اللہ میاں جی اتنے قریب سے سُن رہےتھے۔ پیس ولیج واقعی بہت جگمگا رہا تھا ہر گھر روشن چمکتا ہوا روشن اور بہت خوبصورتی سے اپنے امام کو خوش آمدید کہہ رہا تھا ۔ میں اب تقریباً ہر سال کینیڈا جاتی ہوں۔ ابوڈ آف پیس احمدیہ بلڈنگ اور باقی بے شمار بلڈنگ اور پیس ویلیج ماشاءاللہ احمدیوں سے بھرا ہوا ہے ۔ اللہ تعالیٰ سے دعا کرتی ہوں کہ کینیڈا کی گورنمنٹ کو بھی اللہ تعالیٰ جزائے خیر عطا فر مائے ۔آ مین

2006ء میں میں نے اپنے بیٹے کو بتا دیا تھا کہ اس سال میں جلسہ پر نہیں آؤں گی بلکہ رمضان شریف آپ سب کے ساتھ مل کر گزاروں گی ،اور اپنی اس خواہش کا بھی اظہار کر دیا کہ میں انشاء اللہ اعتکاف بھی بیت الاسلام مسجد میں بیٹھوں گی ۔ کیونکہ اس سے پہلے بیت الفتوح میں مجھے اعتکاف کی سعادت نصیب ہوئی تھی (میری خوش نصیبی ہے کہ بیت الفتوح کےافتتاح کے بعد پہلے رمضان المبارک میں اعتکاف بیٹھنے والے خوش نصیبوں میں بفضلِ خدا خاکسار بھی شامل تھی) اس بار سوچا کیوں نہ روزے عید اور اعتکاف کی برکت کینیڈا میں ا پنے بچوں کے ساتھ مل کر گزاروں ۔

الحمد للہ ۔ کینیڈا کے امیر صاحب نے مجھے اعتکاف کی اجازت دی اور اللہ تعالیٰ نے مجھے توفیق بخشی کہ میں اُس مسجد میں اعتکاف کی سعادت حاصل کر سکی جو مسجد ہم سب کے لئے ماڈل بن چکی تھی ۔ کینیڈا کے بعد لنڈن کی مسجدبیت الفتوح با لکل اُسی طرح دودھوں نہائی سفید ماربل کی روشن گنبدوں کے ساتھ فخریہ سر بلند کئے دعوت دین دے رہی ہے اور اب یو کے کے باقی شہروں میں بھی

(mini) بیت الفتوح سر بلند کئے ہوئے دعوتِ دین دے رہی ہیں ۔ الحمد للہ ۔ انشاء اللہ اور اسی طرح کی مزید مسجدیں بنتی رہیں گی ۔ بیت السلام مسجد میں اعتکاف کی اجازت تو مل گئی مگر تھوڑی گھبراہٹ ضرور تھی کہ میرا یہاں کوئی بھی جاننے والا نہیں تھا ، میں اپنے گھر اور شہر سے بہت دور تھی لیکن دل میں یہ خوشی بھی تھی کہ یہاں عبادت کا خوب مزا آئے گا کہ یہاں کوئی بھی مجھے جاننے والا نہیں ہوگا ۔ بھلا یہ کیسے ہو سکتا ہے ہماری خدائی جماعت خدا کے فضل و کرم سے ایسی ہے کہ ایک سے بات کریں تو دس رشتے داریاں نکل آتی ہیں میرے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا آدھے سے زیادہ ربوہ سے جاننے والے کچھ لندن کے ملنے والے اور کچھ میرے اپنے رشتے دار یہاں موجود تھے ۔

میرے دس دن کیسے بیت گئے مجھے کچھ علم ہی نہیں ہوا ۔ سب سے پہلے تو میں حافط صاحب کا شکریہ ادا کرنا چاہوں گی کہ اتنے دھیمے لہجے میں نماز تراویح پڑھائی کہ جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے، میں نے اُن کو دیکھا تو نہیں نام بھی نہیں جانتی مگر آواز سے اندازہ لگا سکی ہوں کہ بہت کم عمر بچہ تھے مگر اتنے مشکل کام کو بہت آسانی سے نبھا رہے تھے ۔ تراویوں میں بہت سکون ملتا تھا ۔ حافظ صاحب کو بہت بہت مبارک ہو ، اللہ تعالیٰ اُن کوکامیاب وکامران کرتا رہے ۔آ مین

پھر صبح کی نماز کے بعد امیر صاحب حدیث کا درس دیتے تھے ۔ایک دن موضوع تھا ’’صبر‘‘ میرے جیسے بے صبروں کے لئے جن کو صبر بہت مشکل سے آتا ہے بہت نصیحت آ موز تھا۔ اُنہی دنوں میں وہاں مرزا احسن صاحب ابن مکرم میاں انور احمد صاحب جو کہ حضرت مرزا محمود احمد صاحب خلیفتہ المسیح الثانیؓ کے فرزند ارجمند ہیں، وہ اعتکاف میں حضرت المصلح موعودؓ کی متبرک جائے نماز لے آئے تھے جس سے تمام معتفکین اور معتفکات نے استفادہ کیا۔ الحمد للہ مجھے بھی یہ سعادت نصیب ہوئی اور اُس جائے نماز پر نفل ادا کئے اور سب کے لئے دعائیں کیں ۔

اُن دس دنوں میں ایک افسوس ناک واقعہ بھی پیش آیا یعنی ایک بچے کی وفات ہوئی ۔ مگر وہ کوئی عام بچہ نہیں تھا وہ پورے پیس ویلیج والوں کا پرنس تھا جس کی وفات پر میں نے پورے پیس ویلیج والوں کو انتہائی غم میں ڈوبے ہوئے دیکھا۔ میں اُس بچے کے والدین کو تو نہیں جانتی تھی مگر وہ ہر گھر کا بچہ تھا اُس کے جنازہ پر لوگ بہت سوگوار تھے۔ اُس بچے کا نام آدم تھا اور ہر بار آدم کا نام لیتے ہوئے امیر صاحب گلو گیر ہو جاتے تھے اور کہنے لگے وہ میرا ہی بیٹا تھا، یقیناً وہ سب کا لاڈلا تھا ۔ اللہ تعالیٰ سے اُس کے والدین اور سب پیار کرنے والوں کے لئے دعا گو ہوں اللہ سب کو صبر ِ جمیل عطا فر مائے اور اُس کے والدین کو نعم البدل عطا فر مائے آ مین ۔

یہاں میں اُن سب لوگوں کا بھی شکریہ ادا کرنا چاہوں گی جنہوں نے اعتکاف والوں کی صبح شام خدمت کی یعنی کچن میں کام کرنے والیوں کا جو سخت سردی میں صبح سویرے اُٹھ کر ہمارے لئے آتی تھیں ۔ تمام انتظامیہ کا جو یہ سارے پروگرام بناتے ہیں اور اُن پر عمل کرواتے ہیں ، اور شکریہ میں اُس اجنبی بہن کا بھی ادا کرنا چاہتی ہوں جس نے مجھے مہمان سمجھ کر پھولوں کا تحفہ دیا ۔ شکریہ تو میں اُن تمام بہنوں کا بھی کرنا چاہتی ہوں جن کے ساتھ میں نے دس مبارک دن گزارے اور سب نے مجھے بہت پیار دیا خاص طور پر اپنی کزن امتہ الشکور چوھدری صاحبہ ، انیسہ دانیال صاحبہ ، اور عمرانہ ملک صاحبہ کا جنہوں نے مجھے محسوس نہیں ہونے دیا کہ میں گھر سے دور ہوں ۔

اور بہت بہت شکریہ ادا کرنا چاہتی ہوں محترم امیر صاحب جماعت ہائے احمدیہ کینیڈا کا جنہوں نے مجھے بیت الاسلام مسجد میں اعتکاف بیٹھنے کی اجازت مرحمت فر مائی ، دعائیں دیں اور ساتھ ہی دعاؤں کا خزانہ بھی دیا یعنی(خزینتہ الدعا) اللہ تعالیٰ آپ کو صحت والی لمبی زندگی عطا فرمائے۔ اور اللہ تعالیٰ ہماری پیاری جماعت کو مزید ترقیاں اور برکتیں عطا فرمائے۔ آمین

ویسے تو مسجد میں سارا دن ہی بہت رونق رہتی تھی مگر پانچوں نمازوں کے وقت لگتا نہیں تھا کہ میں پاکستان سے باہر کسی ملک میں ہوں کیونکہ ہر نماز کے وقت عورتوں کی ایک بہت بڑی تعداد ہوتی اور ہر عورت مسجد میں پاؤں رکھتے ہی اتنی اُنچی آواز میں السلام علیکم و رحمۃاللہ کی صدا دیتی کہ وعلیکم کی مہلت نہ ملتی کہ دوسرا سلام پہنچ جاتا تھا ۔ اللہ تعالیٰ سب بہنوں کو سلامتی عطا فر مائے جنہوں نے کینیڈا کی مسجد کو چوبیس گھنٹوں کے لئے آ باد کیا ہوا ہے ۔ الحمد للہ ۔

امیر صاحب کی زبانی اُن کے بڑے بڑے منصوبوں کی بات بھی سُنی۔ اللہ پاک سے دعا کرتی ہوں کہ ہماری جماعت میں جہاں جہاں بھی دین کی ترقی کے منصوبے بنائے جا رہے ہیں اللہ پاک اُن تمام منصوبوں کو کامیاب و کامران کرے ۔ آ مین اور اللہ تعالیٰ خلافت کے جھنڈے تلے ہماری پیاری جماعت کو دن دُ گنی رات چو گنی تر قیاں نصیب کرے۔ آمین ثم آ مین ۔

٭…٭…٭

(صفیہ بشیر سامی لندن)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 25 ستمبر 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 26 ستمبر 2020