• 25 اپریل, 2024

تعارف سورۃ یٰس (36ویں سورۃ)

تعارف سورۃ یٰس (36ویں سورۃ)
(مکی سورۃ، تسمیہ سمیت اس سورۃ کی84 آیات ہیں)
(ترجمہ از انگریزی ترجمہ قرآن (حضرت ملک غلام فرید صاحب) ایڈیشن 2003)

وقت نزول اور سیاق و سباق

جمہور علماء کی رائے کے مطابق یہ سورۃ مکہ میں نازل ہوئی اس کا طرز بیان اور مضمون اس بات کی تائید کرتے ہیں۔ اس کے مضمون کی اہمیت کے پیش نظر آ نحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سورت کو قرآن کا دل قرار دیا ہے۔ سابقہ سورت میں یہ بتایا گیا تھا کہ خدا جو زمین و آسمان کا خالق و مالک ہے اس نے نہ صرف انسانوں کی جملہ مادی ضروریات فراہم کی ہیں بلکہ اس کی اخلاقی اور روحانی ضروریات کا بھی خیال رکھا ہے۔ اور ان دونوں مؤخرالذکر ضروریات کو پورا کرنے کے لیے خدا اپنے چنیدہ بندوں پر اپنے تئیں ظاہر کرتا ہےجسے وہ ہر قوم میں سے مختص کر لیتا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ سورت اے سردار کے لقب سے مخاطب کرتی ہے۔ آپ خدا کےاتم مظہر تھے اور آپ کو اکمل ترین اور غلطی سے پاک کتاب (قرآن کریم) سے نوازا گیا۔

مضامین کا خلاصہ

اس سورت کا آغاز آ نحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اے کامل ترین سردار کہہ کر پکارنے سے ہوا ہے۔ جس کا مقصد یہ بیان کرنا ہے کہ انبیاء کرام کا سلسلہ جو حضرت آدم سے شروع ہوا تھا اس نے اپنی تکمیل آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وجود میں پائی۔ اب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیروی ہی وہ واحد راستہ ہے جو خدا تک لے جاتا ہے ۔گزشتہ سب راستےجو خدا تک پہنچانے کے دعویدار تھے وہ بند ہو چکے ہیں اور قیامت تک بند رہیں گے۔ اب خدا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متبعین کے ذریعہ اپنے تئیں لوگوں پر ظاہر کرے گا۔ اپنی حکمت کاملہ کے تحت خدا نے عربوں کو چنا ہے جن میں کئی صدیوں سے کوئی رسول مبعوث نہیں ہوا تاکہ وہ انسانوں کو آخری خدائی پیغام پہنچائیں۔

عرب کی سرزمین روحانی طور پر بنجر اور چٹیل تھی تب الہٰی وحی کا پانی اس پر اتارا گیا اور اب یہ روحانی روئیدگی اور سبزہ اگلنے لگی ہے۔ پھر اس سورت میں استعارہ کی زبان میں بتایا گیا ہے کہ کس طرح خدا اپنے تئیں،اپنے پیغمبروں کے ذریعہ سے ،بنی نوع انسان پر ظاہر کرتا ہے ۔ یہ سورت حضرت موسی، حضرت عیسی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حالات بیان کرتی ہے جو اپنے اپنے وقت کی ضرورت کے عین مطابق انسانوں کو خدا کی طرف بلانے کے لیے مبعوث ہوئے۔ پھر یہ سورت ایک معین آدمی کے بارہ میں بتاتی ہے جس کو خدا تعالی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متبعین میں سے بعد کے دنوں میں چنے گا اور وہ ایسے علاقے سے ہوگا جو اسلام کے مرکز (مکہ) سے بہت دور ہوگا (36:21) جب اسلام اپنے تنزل کی انتہا پر ہوگا اور خدائی وحی و الہام کو شک کی نظر سے دیکھا جائے گا اور بند متصور ہونے لگےگا۔ تب (یہ خاص) آدمی مسیح موعود بنی نوع انسان کو اسلام کی طرف بلائے گا مگر گزشتہ زمانےکےانبیاء کی طرح اس (نبی)کی آواز پر بھی کوئی دھیان نہ دےگا۔ بدی کی طاقت پوری دنیا کو اپنی گرفت میں لے لے گی۔ انسان معبودان باطلہ کی پرستش کرنے لگے گا اورالہٰی سزا دنیا پر نازل ہو گی۔ پھر اس سورت میں ایک معروف قانون قدرت کی طرف اشارہ کیا گیا ہےیعنی جب زمین خشک سالی اور خشکی کا شکار ہو جاتی ہے تو خدا بارش نازل کرتا ہے اور اس مردہ زمین میں اچانک زندگی کی لہر دوڑ جاتی ہے اور مختلف اقسام اور رنگ کی ہریالی، سبزی، پھول اور پھل اگنے لگتے ہیں۔ اسی طرح جب انسان کی روح زنگ آلود ہوجاتی ہے تو خدا آسمان سے روحانی پانی وحی و الہام کی صورت میں نازل کرتا ہے۔

پھر اس سورت میں اسی مضمون کو ایک اور تمثیل کی صورت میں بیان کیا گیا ہےیعنی دن اور رات کے ادلنے بدلنے کے قانون سے۔ پھر یہ ایک حقیقت کا انکشاف کرتی ہے کہ ہر چیز جوڑا جوڑا پیدا کی گئی ہے حتی کہ سبزیوں میں بھی جوڑے ہیں اور غیر نامیاتی مادے کے بھی جوڑے ہیں۔ اس تشبیہ میں یہ بتایا گیاہے کہ ہر طرح کا حقیقی علم ، الہٰی الہام اور انسانی عقل کے ملاپ کا نتیجہ ہے۔

اپنے اختتام پر یہ سورۃ اسلام کے عظیم اور روشن مستقبل کی طرف اشارہ کرتی ہے۔یہ بتاتی ہے کہ عرب قوم کے لوگ، جو کئی صدیوں تک انسانیت کے معمولی درجہ پر رہے ہیں، ان کایہ مقدر بن چکا ہے کہ اب وہ مادی ترقی اور روحانیت کی انتہا کو پہنچیں اور اب یہ باتیں محض ایک خواب یا افسانہ نہیں ہیں۔ خدا کا ایک نبی (ﷺ) ان میں مبعوث ہو چکاہے جو انہیں مادی ترقی اور روحانیت کی عظیم الشان وسعتوں تک پہنچا دے گا۔

(مرسلہ: مترجم: وقار احمد بھٹی)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 25 نومبر 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 26 نومبر 2020