• 20 اپریل, 2024

حضرت مصلح موعودؓ کی الفضل کے خریداروں میں اضافہ کی پُر اثر تحریک

تین ہزا ر خریداروں کے بعد اخبا ر اپنے آپ کو قائم رکھنے کے قابل ہوتا ہے پس آپ کا فرض ہے کہ اس تعداد کو پورا کرنے کی طرف متوجہ ہوں

یہ ڈوبتے ہوؤں کے لئے ایک تنکاتھا اور ایک بارش تھی جو عین وقت پر ہوئی

حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمدؓ (المصلح الموعود) نے 18 جون 1913ء کو الفضل جاری فرمایا۔ اس کے چار ماہ بعد 15۔اکتوبر 1913ء کے شمارہ میں خریداروں میں اضافہ کی تحریک کرتے ہوئے فرمایا۔

چند ہی ماہ کا عرصہ ہوا ہے کہ ہم نے الفضل کوجاری کرنے کے لئے ایک اشتہار شائع کیا تھا جس میں اس بات پر پورے طور سے بحث کی گئی تھی کہ اس وقت فلاں فلاں ضروریات کی وجہ سے احمدی جماعت میں ایک نئے اخبار کی ضرورت ہے اور آخر میں حضرت خلیفۃ المسیحؓ کی اجازت کے ماتحت اس کام کو اپنے ذمہ لینے کا اعلان کیا تھا۔ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ اس نے ہمیں اس ارادہ میں کامیاب کیا اور الفضل کے پراسپکٹس کے شائع ہونے کے بعد خودبخود ان تمام رکاوٹوں کو جو اس کے راستہ میں تھیں دور کردیا۔ حتیٰ کہ بغیر کسی ضمانت کے اجراء اخبار کی اجازت بھی دلوادی اور اسی طرح دیگر ضروریات کے پور اکرنے کے لئے بھی سامان مہیا کروادیئے۔ یہ سب کام خدا کی حکمت کے ماتحت ہوئے اور ہماری سمجھ سے باہر تھا کہ کس طرح ہر ایک مشکل دور ہوتی جاتی ہے اور خداتعالیٰ کس طرح پردہ غیب سے ہر ایک رکاوٹ کو دور کر دیتاہے۔

اس بات کو خداتعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا اور نہ کوئی جان سکتا ہے کہ کن کن دعاؤں اور استخاروں کے بعد ہم نے الفضل کی اشاعت کا کام اپنے ذمہ لیا ہے۔ چونکہ خداتعالیٰ کے سوا علیم و خبیر اور کوئی ہستی نہیں۔ اس لئے ہمارے اس دکھ اور تکلیف کا بھی کوئی شخص اندازہ نہیں کرسکتا جو اس اخبار کے اجراء کا موجب ہوا۔ بیسیوں ہڈیوں، گوشت اور جھلیوں کے پیچھے چھپے ہوئے دل کی کیفیات کو سمجھنا کسی انسان کا کام نہیں۔ دیکھنے والے سمجھتے ہیں کہ ہمارے سامنے ایک بے فکر لاپرواہ، خوش و خرم انسان بیٹھا ہے لیکن بارہا ایسا دیکھا گیا ہے کہ خوشی کے پس پردہ رنج و غم کے پہاڑ کھڑے ہوتے ہیں اور ہنستے ہوئے چہرہ کے باوجود روتا ہوا دل زندگی کو تلخ کرتا رہتا ہے۔ پس میری دلی کیفیات اور غموں کو جو احمدی جماعت کے لئے بالخصوص اور تمام بنی نوع انسان کے لئے بالعموم میرے دل میں پوشیدہ تھے۔ سمجھنا ہر ایک انسان کا کام نہ تھا اور کوئی انسان نہیں کہہ سکتا تھا کہ کس دکھ اور درد نے مجھے اس طرف مائل کیا کہ میں ایک اخبار کے ذریعہ سے ان نقائص کو دور کرنے کی کوشش کروں۔ جو اس وقت (جماعت احمدیہ) میں پیدا ہورہے ہیں۔ بہت ہیں جنہوں نے اخبار کے اجراء کو فضول قرار دیا۔ بہت ہیں جنہوں نے اسے ایک مشغلہ قرار دیا۔ بہت ہیں کہ جنہوں نے اسے دنیاوی مفاد کا ایک ذریعہ سمجھا اور بہت ہیں کہ جنہوں نے اسے شہرت کا ایک ذریعہ قرار دیا۔ بہت ہیں جنہوں نے اسے اپنے وقت کو مصروف کرنے کا ایک ذریعہ سمجھا لیکن بات وہی تھی کہ ؎

کسی نے ثانی شیطاں بنا دیا مجھ کو
کسی نے لے کے فرشتہ بنا دیا مجھ کو
نہ اس کے بغض نے پیچھے ہٹا دیا مجھ کو
نہ اس کے پیار نے آگے بڑھا دیا مجھ کو
یہ دونوں میری حقیقت سے دور ہیں محمود
خدا نے تھا جو بنانا بنا دیا مجھ کو

اگر کسی نے اخبار الفضل کی اشاعت کو ایک گنہ اور قوم کے لئے باعث فتنہ و فساد قرار دیا تو کسی نے اسے رحمت اور فضل یقین کیا۔ لیکن اصل بات یہی تھی کہ ایک دکھا ہوا دل آہ کرنا چاہتا تھا۔ ایک ٹوٹی ہوئی کمر سیدھی ہونا چاہتی تھی اور ایک گری ہوئی ہمت اپنے ڈوبتے ہوئے دوستوں کے لئے آخری جدوجہد کرنے کے لئے اپنے خون کے آخری قطرے کے گرانے کے لئے تیار ہوچکی تھی۔ کوئی پاک وجود اسے ابھار رہا تھا اور آفات کے وسیع سمندر میں وہ اوپر ہی اوپر جارہی تھی۔

یہ الفضل کے اجراء کا باعث اور اس کی اشاعت کا سبب تھا۔ دوست دشمن اس کے کچھ ہی معنی کریں۔ حقیقت اس سے زیادہ نہیں اور واقعات خیالات و قیاسات سے تبدیل نہیں ہوسکتے۔

میں جب اس کام کے لئے اٹھا تو دور تاریکی میں ایک آواز تھی جس کے بلانے پر میں اٹھا اور ایک صدا تھی جس کے جواب دینے کے لئے میں نے حرکت کی میں نہیں جانتا تھا کہ دراصل کیا ضرورت ہے جس کے پورا کرنے کے لئے میں جدوجہد کرنے لگا ہوں میں لوگوں کو ضروریات بتاتا تھا مگر خود غافل تھا جس طرح خواب میں ایک شخص آنے والے واقعات کو اونچی آواز سے بیان کردیتا ہے۔ سننے والے سن لیتے ہیں اور وہ خود بے خبر ہوتا ہے یہی میری حالت تھی کہ میں لوگوں کو آنے والے خطرات سے ڈراتا تھا۔ لیکن خود ان کی اہمیت سے ناواقف تھا۔ کیونکہ مستقبل کی آفات سے کوئی شخص کیونکر واقف ہوسکتا ہے۔ میں بھی ایک انسان تھا اور میرا معاملہ دوسروں سے علیحدہ نہ تھا۔ آخر وقت نے ثابت کردیا کہ میں نے جو نہ سمجھا تھا وہ حرف بحرف پورا ہوا اور جس کا مجھے علم نہ تھا وہ خدا کے علم میں تھا۔ زمانہ نے خود بتا دیا کہ الفضل کی ضرورت تھی اور سخت تھی۔ یہ ڈوبتے ہوؤں کے لئے ایک تنکا تھا اور کہتے ہیں کہ ڈوبتے ہوؤں کے لئے ایک تنکا کا بھی سہارا کافی ہو جاتا ہے۔ یہ ایک بارش تھی جو عین وقت پر ہوئی۔ میں نہیں جانتا کہ الفضل نے کیا کیا اور اس کا اثر کیا ہوا۔ خداتعالیٰ خود اسے ثابت کرے گا اور مستقبل کے تاریک پردہ میں سے اس کے اثرات کی روشن تصویر خودبخود سامنے آجائے گی۔ نہ مجھے اس کا علم ہے اور نہ مجھے اس کے جاننے سے کچھ فائدہ ہے۔ میں اتنا جانتا ہوں کہ اس اخبار کی ضرورت تھی اور یہی وجہ ہے کہ ایک قدوس ذات مجھے آگے دھکیل رہی تھی۔ میں جو پہلے لوگوں کو اس کی ضروریات سمجھا رہا تھا۔ آنکھ کھلنے پر حیران ہوں کہ میں خود ناواقف تھا اور لوگوں کو واقف کرتا تھا۔

میں نے الفضل کے لئے جو وعدے کئے تھے وہ پورے ہوئے یا نہ ہوئے یہ خود الفضل کے خریدار فیصلہ کرسکتے ہیں ہاں میں یہ جانتا ہوں کہ بعض وعدوں کے پور اکرنے میں ابھی توقف ہے اور اس لئے نہیں کہ وہ بھول گئے ہیں بلکہ اس لئے کہ ان کے لئے سامان مہیا کئے جارہے ہیں اور خداتعالیٰ چاہے تو عنقریب وہ بھی پورے ہو جائیں گے۔ ہاں مجھے یہ بھی علم ہے کہ خریداران الفضل نے اسے پسند کیا ہے اور ان کے خطوط سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اسے مفید سمجھتے ہیں۔ خدا کرے ایسا ہی ہو میں یہ بھی جانتا ہوں کہ میں نے متواتر اللہ تعالیٰ سے دعائیں کی ہیں کہ خدایا!یہ کام عبث نہ ہو۔ الفضل کے اجراء میں میرا وقت ضائع ہو نہ اسے روپیہ دے کر خریدنے والے اپنے روپیہ اور وقت کے قاتل ہوں کہ ہم دونوں اس سے فائدہ اٹھائیں اور مجھے امید ہے، نہیں بلکہ یقین ہے کہ میری پُردرد دعائیں ضائع نہ ہوں گی۔ مگر میں خریداران الفضل سے یہ بات کہنا چاہتا ہوں کہ جو کام میں نے کرنا تھا وہ کررہا ہوں۔ خداتعالیٰ نے ہماری امیدوں سے بڑھ کر اسے مدد دی ہے لیکن بعض فضل ایسے ہوتے ہیں کہ جو عام کوشش کے بعد حاصل ہوتے ہیں۔ نمازباجماعت کا جو ثواب ہے وہ اکیلے ادا کرنے سے نہیں حاصل ہوسکتا۔ پس جو فضل کہ مجموعی کوششوں سے حاصل ہوتے ہیں ان کے لئے مجھ اکیلے سے امید رکھنا عبث ہوگا۔ وہ تو آپ سب کی ہمت مردانہ سے ہی حاصل ہوں گے اور اسی وقت کامیابی کا منہ دیکھنا نصیب ہوگا جب مل کر ہمت کرو گے۔

آج قریباً چار ماہ الفضل کو جاری ہوئے ہوچکے ہیں اور آپ خوب اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس کے جاری رکھنے کی ضرورت ہے یا نہیں میں پہلے ہی لکھ چکا ہوں کہ تین ہزار خریداروں کے بعد ایک اخبار اپنے آپ کو قائم رکھنے کے قابل ہوتا ہے پس آپ کا فرض ہے کہ اس تعداد کو پورا کرنے کی طرف متوجہ ہوں۔ اس وقت تک صرف متعدد دوست ہیں جنہوں نے اس طرف توجہ کی ہے اور کچھ خریدار مہیا کئے ہیں لیکن سینکڑوں دوست اپنے اس فرض سے غافل ہیں یہ سستی کا وقت نہیں خریداری کا اثر اخبار پر پڑتا ہے اور خریداروں کی دلچسپی ان کی عملی کوششوں سے ہی معلوم ہوسکتی ہے۔ اگر ہمارے سب خریدار پانچ پانچ خریدار عنایت کریں تو بہت جلد یہ تعداد پوری ہوسکتی ہے اور انشاء اللہ اخبار ان اخراجات کوپورا کرنے کے قابل ہوسکتا ہے جن سے وہ زیادہ دلچسپ اور مفید بن سکے۔ اخبار کے موجودہ خرچ کو ہی پورا کرنے کے لئے ابھی چھ سو خریدار کی ضرورت ہے۔ میں امید کرتا ہوں کہ محبان الفضل (اور الفضل کو کون نہیں چاہتا) اس بارہ میں پوری تندہی سے کوشش کریں گے ہم آئندہ ان دوستوں کے نام شائع کرتے رہیں گے جو خریدار مہیا کریں گے اور اجر تو ان کو وہی ہستی دے گی جس نے الفضل کے اجراء کے سامان مہیا کئے ہیں۔ میں پھر اپنے احباب کو اس طرف متوجہ کرتا ہوں کہ وہ بہت جلد اس طرف متوجہ ہوں۔ اب تک میں نے پورے طور سے اس لئے زور نہیں دیا کہ دو تین ماہ میں خریدار خود دیکھ لیں گے کہ الفضل کیا ہے۔ اب جبکہ آپ اس کا اندازہ لگانے کے قابل ہیں مجھے اس کی خریداری کے بڑھانے کے لئے اعلان کرنے میں کچھ ہرج نہیں معلوم ہوتا ایک ہمت کی ضرورت ہے اور خداتعالیٰ خود مددگار ہوگا جس نے اس کام کو شروع کرایا ہے۔ وہ خود ہی سامان مہیا کر دے گا۔ الفضل کا قیام خداتعالیٰ کے ہاتھوں میں ہے مگر احباب خریداری بڑھانے کی کوشش سے ثواب حاصل کرسکتے ہیں۔

(الفضل 15۔اکتوبر 1913ء)

پچھلا پڑھیں

سونف امراض جگر و معدہ کیلئے مفید

اگلا پڑھیں

چھٹےسالانہ اولڈبرج سروس ایوارڈز جماعت احمدیہ سنٹرل جرسی۔امریکہ کی تقریب