چل رہا ہے راستی کے بل پہ اپنا کاررواں
ہے صلائے عام یارو! تم بنو سب پاسباں
کارواں کی پاسبانی وہ مقدس فرض ہے
جس کے بدلے مل رہا ہے نیک نامی کا جہاں
ایک دن مامن بنے گا ساری دنیا کا یہی
بجلیوں کی زد میں ہے گو آج اپنا آشیاں
راستی کے نقش سارے زندۂ جاوید ہیں
جبکہ باطل کے پجاری ہو رہے ہیں بے نشاں
راستی آبِ بقا ہے، راستی تقویٰ نشاں
اس پہ قائم ہے ازل سے گردشِ کون و مکاں
ہر طرف ہیں خیمہ زن تاریکیوں کے دَل کے دَل
نور افشاں ہے فقط اب احمدیت بے گماں
ہم چراغِ آخرِ شب بن کے چمکے بھی تو کیا؟
لو زمامِ وقت تھامو! تم ہو اس کے پاسباں
(محمد یعقوب امجد)