• 20 اپریل, 2024

یقیناً الله ہر چیز پر جسے وہ چاہے دائمی قدرت رکھتا ہے

اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ
یقیناً الله ہر چیز پر جسے وہ چاہے دائمی قدرت رکھتا ہے

اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے۔

تَبٰرَکَ الَّذِیۡ بِیَدِہِ الۡمُلۡکُ ۫ وَہُوَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرُ

(الملک: 2)

ترجمہ: بس ایک وہی برکت والا ثابت ہواجس کے قبضہٴ قدرت میں تمام بادشاہت ہےاور وہ ہر چیز پر جسے چاہے دائمی قدرت رکھتا ہے۔

یہ آیت جس میں اللہ تعالیٰ کے قادر و قدیر و مقتدر ہونے کا ذکر ہے قرآن کریم میں مختلف مضامین کے آخر میں بار بار دہرائی گئی ہے۔

اَوَلَمۡ یَرَوۡا اَنَّ اللّٰہَ الَّذِیۡ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضَ وَلَمۡ یَعۡیَ بِخَلۡقِہِنَّ بِقٰدِرٍ عَلٰۤی اَنۡ یُّحۡیِ یَ الۡمَوۡتٰی ؕ بَلٰۤی اِنَّہٗ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ

(الاحقاف: 34)

ترجمہ: کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور وہ ان کی تخلیق سے تھکا نہیں، اس بات پر قادر ہے کہ مُردوں کو زندہ کرے؟ کیوں نہیں !یقیناًوہ ہر چیز پر جسے وہ چاہے دائمی قدرت رکھتا ہے۔

وَلِلّٰہِ مُلۡکُ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِ ؕ وَاللّٰہُ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ

(آل عمران: 190)

ترجمہ: اور اللہ ہی کے لئے ہے آسمانوں اور زمین کی بادشاہت۔ اور اللہ جسے وہ چاہے دائمی قدرت رکھتا ہے۔

اللہ تعالیٰ کی صفات میں سے اس کی ایک صفت ’’قدیر‘‘ بھی ہے یعنی اللہ یقیناً ہر چیز پر دائمی قدرت رکھتا ہے۔ ہماری ہر طرح کی ضروریات پوری کرنے کی مکمل قدرت رکھتا ہے۔ اس کے خزانوں میں کسی چیز کی کمی نہیں زمین و آسمان میں اسی کی بادشاہی ہے۔ کوئی کام چاہے کتنا ہی مشکل کیوں نہ ہو، ناممکن کیوں نہ ہو وہ اسے کرنے پر قادر ہے۔ اس کی قدرت کاملہ پر یقین رکھتے ہوئے جب ہم اس سے دعائیں کریں گے تو لازماً قبول ہوں گی۔ اللہ تعالیٰ قرآنِ کریم میں فرماتا ہے: اُدۡعُوۡنِیۡۤ اَسۡتَجِبۡ لَکُمۡ یعنی دعا کرو میں قبول کروں گا۔

شرط یہ ہے کہ دعا کرنے والا اس کے قادرومقتدر ہونے پر یقین کامل بھی رکھتا ہو۔ اور نیک عمل بجا لاتا ہو۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا ہے کہ قبولیت دعا کے ساتھ صفاتِ اِلٰہیہ کا گہرا تعلق ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَ ِللّٰه ِالْاَ سماءُ الحسنٰی فَادْعُوہُ بِھَا کہ اللہ کے پاک نام اور خوبصورت صفات ہیں ان کو یاد کر کے خدا کو پکارو اور اس سے دعا مانگا کرو۔ وہ مولیٰ جو ہمارا خالق ہے وہ بے حد قدرتوں کا مالک ہے۔ اس کی ایک صفت القادر بھی ہے ’’یعنی قدرت والا۔‘‘

(ابنِ ماجہ، از خزینة الدعا صفحہ135)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ یعنی خدا تعالیٰ وہ قادر ہستی ہے جس کے آگے کوئی بات انہونی نہیں۔‘‘

(ست بچن، روحانی خزائن جلد21)

سورة النحل آیت 78 میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
’’کہ ہم غیب ہی نہیں جانتے بلکہ آئندہ ہونے والے واقعات کو اپنی مرضی کے مطابق ڈھالنے کی بھی پوری طاقت رکھتے ہیں۔‘‘

(تفسیر کبیر جلد سوم و چہارم صفحہ207)

خدا تعالیٰ کی صفت قدیر پر مکمل ایمان اور یقین استجابت دعا کے لئے نہایت ضروری ہے چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’جس سے دعا کرتا ہے اس پر کامل ایمان ہو اس کو موجود، سمیع، بصیر، خبیر، علیم متصرف قادر سمجھے اور اس کی ہستی پر ایمان رکھے کہ وہ دعاؤں کو سنتا ہے اور قبول کرتا ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد3 صفحہ522)

ہم اللہ تعالیٰ کو ہر بات پر قادر سمجھتے ہوئے دعا کرتے ہیں۔

خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے یہ وعدہ کیا تھا کہ
اُدْ عُونِیْ اَسْتَجِبْ لَکُم یعنی تم دعا کرو میں قبول کروں گا۔

(آئینہ کمالاتِ اسلام، روحانی خزائن جلد5 صفحہ604)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’ایک دفعہ ہمارے ایک مخلص دوست عبد الرحمٰن تاجر مدراس کے لئے جب دعا کی گئی تو الہام ہوا کہ:

قادر ہے وہ بارگاہ ٹوٹا کام بناوے
بنا بنایا توڑ دے کوئی اس کا بھید نہ پاوے

چنانچہ چند ہفتہ کے بعد ہی خدا تعالیٰ نے ان کو اس پیش آمدہ غم سے رہائی بخشی۔‘‘

(نزول المسیح روحانی خزائن جلد18 صفحہ233)

اس آیتِ کریمہ کے یہی معنیٰ ہیں جو الہاماً حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کو بتائے گئے تھے کہ اللہ تعالیٰ ہر امر پر قادر ہے۔ کوئی کام بھی اس کے لئے مشکل یا ناممکن نہیں ہے اگر انسان کو اس کی قدرت پر، اس کی طاقت، پر مکمل یقین ہو تو وہ کبھی مایوس ہو ہی نہیں سکتا۔

اسی لئے جو اقوام ہستی باری تعالیٰ پر یقین نہیں رکھتیں۔ اس کے قادر ہونے پر یقین نہیں رکھتیں ان میں خود کُشی کا رحجان، ایمان رکھنے والوں کی نسبت بہت زیادہ ہے۔ اس لئے کہ مایوسی انہیں گھیر لیتی ہے۔ جبکہ مومن کبھی مایوس نہیں ہوتا۔ اس کے مکمل یقین وایقان کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اس کےلئے ایسے اسباب پیدا کردیتا ہے جو اس کے دل کو تقویت دیتے ہیں۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے 6؍دسمبر 1902ء کو تحریر فرمایا:
’’رات کو میری ایسی حالت تھی کہ اگر خدا کی وحی نہ ہوتی تو میرے اس خیال میں کوئی شک نہ تھا کہ میرا آخری وقت ہے اسی حالت میں میری آنکھ لگ گئی تو کیا دیکھتا ہوں کہ ایک جگہ پر میں ہوں کہ تین بھینسے آئے ہیں۔ ایک ان میں سے میری طرف آیا تو میں نے اسے مار کر ہٹا دیا۔ دوسرا آیا تو اسے بھی ہٹا دیا۔ تیسرا آیا تو وہ ایسا پُر زور معلوم ہوتا تھا کہ میں نے خیال کیا کہ اب اس سے مفر نہیں ہے۔ خدا تعالیٰ کی قدرت ہے کہ مجھے اندیشہ ہوا تو اس نے اپنا منہ ایک طرف کو پھیر لیا۔ میں نے اس وقت یہ غنیمت سمجھا کہ اس کے ساتھ رگڑ کرنکل جاؤں۔ میں وہاں سے بھاگا اور بھاگتے ہوئے خیال آیا کہ وہ بھی میرے پیچھے بھاگے گا۔ مگر میں نے پھر کر نہ دیکھا۔ اس وقت خواب میں خدا تعالیٰ کی طرف سےمیرے پر درجِ ذیل دعا القا کی گئی۔

رَبّ کُلُّ شئیءٍ خَادِ مُکَ رَبِ فَاحْفَظْنِیْ وَانْصُرْنِی وَارْحْمْنِی

ترجمہ: اے میرے رب! ہر ایک چیز تیری خادم ہے اے میرے رب! پس مجھے محفوظ رکھ اور میری مدد فرما اور مجھ پر رحم فرما۔

اور میرے دل میں ڈالا گیا کہ یہ اسم اعظم ہے اور یہ کلمات ہیں جو پڑھے گا ہر ایک آفت سے نجات ہوگی۔‘‘

(تذکرہ صفحہ 442۔443)

قرآنِ کریم میں خدا تعالیٰ نے مختلف سورتوں میں مختلف انبیا کے واقعات بیان فرمائے ہیں۔ جس سے اپنے قادر و مقتدر ہونے کے ثبوت پیش کئے ہیں۔

مثال کے طور پر حضرت یونس علیہ السلام کو جب مچھلی نے نگل لیا اور وہ مچھلی کے پیٹ میں سخت تکلیف کی حالت میں تھے انہوں نے اللہ تعالیٰ کو پکارا، خدا تعالیٰ نے انہیں زندہ سلامت مچھلی کے پیٹ سے نکال لیا۔ جو کہ بظاہر انسانی عقل کے مطابق ناممکن نظر آتا ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ ہر چیز پر جسے وہ چاہے دائمی قدرت رکھتا ہے۔ اس کے لئے یہ امر بالکل آسان ہے۔

قرآن کریم میں بہت سارے انبیا کے قصائص مذکور ہیں ان میں مثالیں دے کراس کے ہر چیز پر مکمل قدرت رکھنے کا یقین دلایا گیا ہے۔ اگر وہ اس وقت یہ سب قدرت دکھلا سکتا تھا تو آج بھی اس میں ذرہ بھر شبہ کی گنجائش نہیں ہے۔ شرط یہ کہ ہم اس کے فرمانبردار بندے بن جائیں اور عبادتوں کے حق ادا کرتے ہوئے تقوٰی پر قائم ہوں۔

حضرت یوسف علیہ السلام کو ان کے سوتیلے بھائیوں نےحسدکی وجہ سے کنویں میں پھینکا۔ خدا تعالیٰ نے ان کی اور ان کے والد حضرت یعقوب علیہ السلام کی دعاؤں کے نتیجے میں انہیں ہر ابتلا سے بحفاظت نکالا۔ ان تمام خطرناک چالوں کو ناکام کیا۔ جان کی بھی حفاظت کی اور عزت و آبرو کی بھی حفاظت کی۔

نیز اپنی خاص قدرت سے نصرت کے ایسے سامان پیدا فرمائےکہ حضرت یوسف علیہ السلام فتح یاب ہوئے۔اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے عزت و حکومت بھی بخشی۔ کیونکہ حضرت یعقوب علیہ السلام کو بھی خدا تعالیٰ کی قدرتوں پر یقین محکم تھا۔ آپ علیہ السلام نے رو رو کر دعائیں کیں۔ اور انہوں نے مایوسی کو قریب نہیں آنے دیا۔ حضرت یوسف علیہ السلام بھی خدا کو قادر اور مقتدر سمجھ کر دعائیں کرتے رہے نہایت صبر سے کام لیا۔ انہیں اس بات کا مکمل یقین تھا کہ خدا اگر چاہے تو وہ سب کچھ کرنے کی طاقت رکھتا ہے۔ ان کے اللہ تعالیٰ پر پختہ ایمان، یقین کامل، مسلسل دعا کی وجہ سے بھائیوں کی سب چالیں ناکام ہوئیں۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت یعقوب علیہ السلام سے بچھڑے ہوئے پیارے بیٹے کو بھی ملا دیا۔ ساری کلفتیں دور ہوگئیں۔

حضرت زکریا علیہ السلام کو بھی اللہ تعالیٰ کی قدرتوں پر مکمل بھروسہ تھا اسی لئے تو انہوں نے بڑھاپے میں اپنے مولیٰ کو قادر و مقتدر تسلیم کرتے ہوئے درد سے پکارا۔ اور خدائے قادرنے بھی ان کی درد بھری دعاؤں کے نتیجے میں حضرت یحییٰ علیہ السلام کی بشارت دی۔ جو کہ ان کی عمر کے اس حصےمیں ناممکن بات تھی۔

چونکہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے اس کے لئے کوئی امر بھی ناممکن یا مشکل نہیں ہے۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ ہم اس کی کامل قدرتوں کا سچے دل سے اعتراف کرتے ہوئے مکمل یقین کے ساتھ ذاتی محبت کا تعلق رکھیں اسے واحد و لاشریک خدا تسلیم کرتے ہوئے اس کے سامنےسر جھکائیں۔ اس کی عبادت کا حق ادا کریں اور اس کے ہرچیز پر قادر ہونے کا یقین رکھیں۔ اس صورت میں ہم اس کے فضلوں کو جذب کرنے والے بن سکتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں فرق نہیں کرتا۔ ایسا ہر گز نہیں ہے کہ اس کا یہ سلوک صرف انبیا کے لئے ہی ہے، بلکہ اس کی قدرت اس کی رحمت تمام انسانوں کے لئے یکساں ہے۔ ایک کمزور، بیمار اور مفلس انسان کے لئے بھی وہ قدرت اسی طرح دکھلاتا ہے۔ جیسے انبیا کے لئے۔

جب ہم اپنے ارد گرد نظر دوڑاتے ہیں۔ یہ زمین، آسمان، چاند ستارے، سورج، اونچی نیچی وادیاں، سر سبز میدان، بلند وبالا پہاڑ، حسین و نازک خوبصورت پرندے جو نیلے گگن کی بلندیوں پر اونچی اُڑان بھرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ یہ سب اسی نے بنائے ہیں جو ہر امر پر مکمل طور پر قدرت رکھتا ہے۔ اسی نے انہیں پر دیئے، اڑنے کی طاقت دی۔ اسی نے دریاؤں کو پانی بخشا پھر سمندر میں انہیں اکٹھا کیا۔ پہاڑوں اور سمندروں سے زندگی کو قائم رکھنے کا مکمل نظام بنایا۔ جو اس کی نگرانی میں جاری و ساری ہے۔ وہی انسانوں کو، چرند پرندکو، سب کو رزق پہنچارہا ہے۔ آسمان کو وسعت دینے والا اور کہکشاؤں کا مالک آج بھی سب کچھ کرنے پر قادر ہے کوئی امر اس کے لئے ناممکن نہیں۔ جس کاایمان خداتعالیٰ پر پختہ اور غیر متزلزل ہواسے ذاتِ باری تعالیٰ پر توکل ہو نہ تو مایوسی اس کے قریب آسکتی ہے اور نہ ہی وہ ناکام و نامراد رہ سکتا ہے۔

(طاہرہ زرتشت ناز۔ ناروے)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 26 جنوری 2023

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالی