• 17 اپریل, 2024

خلافت کی ضرورت، اہمیت اور برکات

خلافت کی ضرورت اور اہمیت امت مُسلمہ میں مسلّمہ رہی ہے ۔ فرمایا : میرے بعد خلافت آئے گی ۔پھر بادشاہت ۔ پھر ایذاء رساں بادشاہت ہو گی پھر خلافت علیٰ منہاج النبوہ قائم ہو گی ۔ اس پیشگوئی کے مطابق خلافتِ راشدہ کے بعد سلطنتِ عباسیہ اور عثمانیہ کے اَدوار آئے۔ گو یہ بادشاہت تھی مگر خلافتِ عباسیہ خلافتِ عثمانیہ کہلاتی رہیں۔

خلافتِ عثمانیہ اپنے آخری دَور میں جب بہت کمزور ہو گئی۔ظلم و بر بریّت کے حوالے سے عروج پر تھی اور ڈانواں ڈول تھی تو تب بھی مسلمان یہ سمجھتے رہے کہ آخر خلافت تو ہے اور اس کو قائم رکھنے کے لئے کوششیں ہوئیں ۔ علی برادران کی تحریک اس میں سر فہرست ہے ۔ جناب محمد علی جوہر اور جناب شوکت علی گوہر کی کوششوں سے بھی یہ خلافت قائم نہ رہ سکی تو مولانا ابو الکلام آزاد نے جو علی برادران تحریک کا حصہ تھے الگ طور پر خلافت کے احیاء کے لئے کوششیں کیں اور بعد میں پورے عالم میں بالخصوص ایشیا مشرق وسطیٰ میں خلافت کی ضرورت کو سمجھتے ہوئے اس کے احیاء کے لئے 18 کے قریب تحریکوں نے جنم لیا ۔ کانفرنسیں ہوئیں ۔ مجلسیں منعقد ہوئیں ۔ ان میں پاکستان اور پاکستان میں لاہور پیش پیش رہا ۔ جہاں حزب التحریر، ڈاکٹر اسرار، چوہدری رحمت علی جیسی تحریکیں کام کر رہی تھیں ۔

اُمّت جس تکلیف دہ دَور سے گزر رہی ہے۔ ہر طرف قتل و غارت، لوٹ کھسوٹ، مار کٹائی کا بازار گرم ہے ، ڈاکوؤں کا راج ہے اور مسلمانوں کا خوں بہت ارزاں ہو چکا ہے۔ ان سب حالات کو دیکھ کر خلافت کی اہمیت اور ضرورت زیادہ اُجاگر ہو کر سامنے آئی اور امت کا دَرد رکھنےو الوں نے اس بات کو تسلیم کیا ۔

  • تنسیخ خلافت کی سزا افتراق اور انتشار کی صورت میں اُمّت بھگت رہی ہے ۔ (عبد الماجد دریا آبادی)
  • خلافت سے محرومی کا جرمانہ مسلمان مختلف شکلوں میں ادا کر رہے ہیں۔ (سید ابو الحسن ندوی)
  • خلافت کی ضرورت
  • اُمّت بے امام ہوئی تو بگڑتی چلی گئی۔ (چوہدری رحمت علی )
  • گھر کی طرح جماعت کا بھی ایک سربراہ اور امیر ہونا چاہئے۔ (مولانا ابوالکلام آزاد)
  • جس طرح روح کے بغیر جسم نہیں اُسی طرح خلافت کے بغیر زندہ اُمّت کا تصور نہیں۔ (سید عتیق الرحمٰن گیلانی ۔ایڈیٹر ضربِ حق کراچی)
  • بیمار قوم ، بغرض علاج ایمبولینس میں بیٹھی ہسپتال کی طرف جا رہی ہے اور ایمبولینس سڑک کے کنارے خراب کھڑی کسی کلینک کی منتظر ہے۔ (آفتاب اقبال۔ تجزیہ نگار)
  • مال گاڑی کے ڈبوں کا انجن ہوتا ہے۔ اُسی طرح انسانی قافلے کےلئے بھی ایک انجن کی ضرورت ہے ۔(الجمیعۃ دہلی)
  • نمازِ استسقاء کی طرح مسلمانوں کو نمازِقیادت و امانت بھی ادا کرنی چاہئے۔ (نوائے وقت)
  • ہم بِھیڑ ہیں، ہم زندہ ہجوم ہیں مگر جماعت نہیں ان جیسے عناوین پر تو مضمون آئے دن اخبارات میں آتے رہتے ہیں جن سے یہ عیاں ہوتا ہے کہ اُمّت کو خلیفہ کی ضرورت ہے ۔ خلافت اب وقت کی ضرورت ہے ۔ اسی لئے تو وہ اجلاس منعقد کرتے ہیں ۔ کانفرنسیں بلاتے ہیں ۔ بینر اور وال چاکنگ کرتے ہیں بلکہ اب تو انٹر نیٹ کو اس کے لئے استعمال کیا جانے لگا ہےاور کہا جانے لگا ہے کہ
  • ہماری مشکلات کا حل خلافت میں ہے ۔
  • دعوتِ الیٰ اللہ اور اقامتِ صلوٰۃخلافت کے بغیر ممکن نہیں۔

جہاں تک خلافت کی برکات کا تعلق ہے تو اس سے بھی کسی کو انکار نہیں ۔ قادیان میں ایک شخص کی آواز کو دبادینے کا دعویٰ لے کر اٹھنے والے، قادیان کی اینٹ سے اینٹ بجا کر مینارۃ المسیح کی اینٹوں کو دریائے بیاس میں بہا دینے کا نعرہ لگانے والے کہاں ہیں جبکہ وہ ایک آواز اب 30 کروڑ آوازوں میں تبدیل ہو چکی ہے ۔ 60 کروڑ آنکھیں اس ایک وجود کے آگے ادب کے ساتھ جھکی ہوئی ہیں۔ نچھاور ہونے کو تیار ہیں ۔ جس کا مظاہرہ ہم آئے دنMTA پر دیکھتے ہیں ۔اب تو اسلامی دُنیا کے مصائب کا ذکر کرتے ہوئے اپنے بھی لکھنے پر مجبور ہیں۔

“ہم مسلمانوں کی بد بختی ہےکہ ابو جہل ہم میں زندہ ہو گیا ۔ مگربلال حبشی زندہ نہیں ہوا۔ ابن ملجم ہم میں زندہ ہو گیا مگر عمر فاروق زندہ نہیں ہوا ۔ یزید ہم میں زندہ ہو گیا مگر حسین ہم میں زندہ نہیں ہوا۔ ہم میں خدا وندوں کے بندے بہت ہیں ،ہم میں حق کے دُشمن بہت ہیں اور ہم میں ظلم کےدوست بہت ہیں ۔”

(الفضل قادیان، 27ستمبر1920ء)

لیکن ہم ببانگ دُہل یہ اعلان کرتے ہیں کہ اس خلافت کی بدولت ہم میں بلال حبشی جیسی قربانیاں کرنے والے وجودموجود ہیں ۔ ہاں ہاں ہم میں عمر فاروق جیسی اطاعت اور فدائیت اور اخلاص کا جذبہ رکھنے والے موجود ہیں اور حسین جیسے اپنی جانوں کا نذرانہ دینے والے موجود رہے اور اب بھی شہادت کا درجہ پانے کی تمنّا رکھتے ہیں۔صحابہؓ جیسی فدائیت ، وابستگیٔ خلافت کی خاطر ہماری جدّو جہد کو اور خلافت کی بدولت جماعت کی ترقی کو اَغیار بھی اب سراہتے ہیں۔ضرورت خلافت کا اظہار اب بھی کر رہے ہیں کہ

  • جہاد خلافت کے بغیر ممکن نہیں ۔
  • صرف خلافت کے ذریعہ ہی تم فتح حاصل کرو گے۔
  • دُعائیں بہت مگر نا منظور آخر کیوں۔

یہ لوگ تو خلافت کی تمنا لئے بیٹھے ہیں اور اس کے احیاء کے لئے کوششیں کر رہے ہیں مگر یہ نہیں جانتے کہ خلافت مطالبہ پر نہیں ملا کرتی بلکہ یہ خدا کی دین (Gift)ہے۔ اُس کی عنایت ہے ۔اُس کی ایک نعمت ہے وہ جس کو چاہتا ہے اس نعمت سے نوازتا ہے ۔ہم وہ خوش نصیب ہیں جن کو پیشگوئی کے مطابق خلافت ملی ۔الحمد للہ علی ذالک

(ابو سعید)

پچھلا پڑھیں

خلیفہ خدا بناتا ہے اور اطاعت خلافت

اگلا پڑھیں

خاندان حضرت مسیح موعودؑ کی خلافت کیلئے قربانیاں