• 24 اپریل, 2024

مقامِ خلافت کی عظمت و اہمیت

مخلوقِ خد اکی ہدایت کے لئے انبیاء کے سلسلہ کا جاری ہونا اللہ تعالیٰ کاعظیم احسان ہے جو اُس نے اپنے بندوں پر فرمایا ۔ انبیاء علیہم السلام کے بعد اُن کے فیوض وبرکات کی اشاعت وترویج کے لئے خلافت ایک نعمت عظمیٰ ہے ۔اسلامی تعلیم کی رُو سے خلافت ورثہ میں نہیں ملتی ۔ بلکہ یہ وہ عطائے ربّانی ہے جو حقیقی ایمان رکھنے والے اور صالح اعمال بجالانے والے مومنوں میں سے کسی کو ملتی ہے ۔یہ مقدس امانت نبی کی وفات کے بعد بظاہر انتخاب کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اُس وجود کے سپرد کی جاتی ہے جو اللہ تعالیٰ کی نظر میں اِس کا سب سے زیادہ اہل ہوتا ہے ۔ حضرت ابو الدرداء ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا :تم میرے بعد ابوبکرؓ اور عمرؓ کی پیروی کرنا کیونکہ وہ دونوں اللہ تعالیٰ کی ایسی طویل رسّی ہیں جو اُسے تھام لے گا تو وہ ایک مضبوط اور کبھی نہ ٹوٹنے والے کڑے کو پکڑ لے گا۔

(ازالۃ الخفاء، ص 64۔بحوالہ ماہنامہ الفرقان جولائی 1958ء صفحہ 16)

اس حدیث میں رسول کریم ﷺ نے اپنے بعد مومنوں کے انتخاب سے منتخب ہونے والے خلفاء کو عروۂ وثقیٰ قرار دے کر یہ واضح فرمایا ہے کہ بظاہر مومنوں کے انتخاب سے منتخب ہونے والے خلفاء دراصل مشیتِ الٰہی کے آئینہ دار ہوتے ہیں اور اُنہیں ہر آن الٰہی نصرت اور تائید حاصل ہوتی ہے ۔ وہ اللہ تعالیٰ پر توکّل کرتے ہوئے اور دُعا اور مشورہ کے بعد جو بھی فیصلہ کرتے یا قدم اُٹھاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اُس کو ساحلِ مراد تک پہنچاتا اور شیریں ثمرات سے مثمر فرماتا ہے ۔اس بارہ میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں۔

’’خلیفہ جانشین کو کہتے ہیں اور رسول کا جانشین حقیقی معنوں کے لحاظ سے وہی ہوسکتا ہے جو ظِلیّ طور پر رسول کے کمالات اپنے اندر رکھتا ہو اس واسطے رسول کریم نے نہ چاہا کہ ظالم بادشاہوں پر خلیفہ کا لفظ اطلاق ہو کیونکہ خلیفہ در حقیقت رسول کا ظِلّ ہوتا ہے اور چونکہ کسی انسان کے لئے دائمی طور پر بقا نہیں لہٰذا خدا تعالیٰ نے ارادہ کیا کہ رسولوں کے وجود کو جو تمام دُنیا کے وجودوں سے اشرف واَولیٰ ہیں ظِلیّ طور پر ہمیشہ کے لئے تا قیامت قائم رکھے سو اسی غرض سے خدا تعالیٰ نے خلافت کو تجویز کیا تا دُنیا کبھی اور کسی زمانہ میں برکات رسالت سے محروم نہ رہے۔‘‘

(شہادت القرآن ، روحانی خزائن جلد 6صفحہ 353)

حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد ؓ فرماتے ہیں ۔ ’’خلافت کا نظام ایک نہایت ہی نادر اور عجیب و غریب نظام ہے جو اپنی روح میں تو جمہوریت کے قریب تر ہے مگر ظاہری صورت میں ڈکٹیٹر شپ سے زیادہ قریب ہے۔ مگر وہ حقیقی فرق جو خلافت کو دُنیا کے جملہ نظاموں سے بالکل جُدا اور ممتاز کر دیتاہے وہ اس کا دینی منصب ہے۔ خلیفہ ایک انتظامی افسر ہی نہیں ہوتا بلکہ نبی کا قائم مقام ہونے کی وجہ سے اسے ایک روحانی مقام بھی حاصل ہوتاہے۔ وہ نبی کی جماعت کی روحانی اور دینی تربیت کا نگران ہوتاہے اور لوگوں کے لئے اُسے عملی نمونہ بننا پڑتاہے اور اس کی سنت سند قرار پاتی ہے۔ (ابوداؤد کتاب السنہ)پس منصبِ خلافت کا یہ پہلو نہ صرف اُسے دوسرے تمام نظاموں سے ممتاز کردیتاہے بلکہ اس قسم کے روحانی نظام میں میعادی تقرر کا سوال ہی نہیں اُٹھ سکتا۔‘‘

(سلسلہ احمدیہ ،جلد اوّل صفحہ303،302)

اطاعت کے لئے خلافت کی عظمت واہمیت کا جاننا بہت ضروری ہے۔ خلافت وہ حبل اللہ ہے جو ہمیں خدا تعالیٰ سے ملانے کااہم ترین ذریعہ ہے۔ خلافت اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک بہت بڑاانعام ہے ۔ خلافت جماعتِ مومنین کو ہر تفرقہ اور فساد سے بچاتی ہے اور ان میں اتحادو یکجہتی قائم رکھتی ہے ۔اس مقام پر فائز ہونے والا وجود خدا تعالیٰ کے جلال اور اقبال کا پرتَو ہوتا ہے ۔خلافت وہ شجرہ ٔ طیبہ ہے جس کے ساتھ وابستہ رہنے سے ہی ہم سرسبزو شاداب رہ سکتے ہیں اور جو اس سے جُدا ہوتا ہے وہ خشک اور بے ثمر شاخ بن کر رہ جاتا ہے جو کاٹ پھینکنے کے لائق ہے ۔ایمان کی ترقی اوراعمال کی قبولیت کے لئے بھی خلافت سے وابستہ رہنا ناگزیر ہے ۔ خلیفہ وقت کواللہ تعالیٰ کی طرف سے قبولیت دعا کا نشان دیا جاتا ہے اور اس کے انفاخِ قدسیہ اورانفاسِ روحانیہ سے بہتوں کوروحانی اور جسمانی بیماریوں سے شفاء ملتی ہے ۔خلیفۂ وقت چونکہ خدا کے مقدس نبی کا قائمقام اور جانشین ہوتا ہے اس لئے وہ نبی کی روحانی تاثیرات اور قوتِ قدسیہ کا مظہرکامل ہوتا ہے۔حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے خلیفہ منتخب ہونے کے بعد اپنے پہلے خطبہ میں اُمّت کو خلافت کی اہمیت سے آگاہ کرتے ہوئے فرمایا۔

وَقَدِ اسْتَخْلَفَ اللّٰہُ عَلَیْکُمْ خَلِیْفَۃً لِیَجْمَعَ بِہٖ الْفَتَکُمْ وَیُقِیْمَ بِہٖ کَلِمَتُکُمْ

(دائرۃ المعارف مطبوعہ مصر جلد 3صفحہ 758۔ بحوالہ ماہنامہ الفرقان اگست 1956ء)

کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے ایک خلیفہ مقرر فرمایا ہے تاکہ اس کے ذریعہ تمہارے اندر اُلفت پیدا کرے اور تمہارے اتّحاد کو مضبوط اور محکم بنائے ۔

پس خلیفۂ وقت کا وجود اُمّت کے اتّحاد ،یکجہتی اور ترقی کے لئے بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ وہ ایک مضبوط مرکز ہوتا ہے۔ جس کے گرد نظام سلسلہ کے بے شمار پروگرام اور منصوبے گردش کرتے ہیں اور قومی اجتماعیت اور استحکام کے لئے وہ ایک سنگِ میل ہوتا ہے ۔ وہ ایک مینارِ نور اور قبلہ ہوتا ہے جسے دیکھ کر قوم کا ہر فرد اپنی سوچ کا قبلہ درست کرتا ہے ۔اس کی مضبوطی قوم کی مضبوطی ہوتی ہے۔ خلافت کے استحکام سے قوم اور جماعت کا استحکام وابستہ ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ رسول کریم ﷺ نے امام کو ڈھال قرار دیا ہے اور اپنے ماننے والوں کو نصیحت فرمائی ہے کہ جب تک امام کے پیچھے پیچھے چلتے رہو گے اور اطاعت کا جوا اپنی گردنوں پر سجائے رکھو گے تو کامیابی اور کامرانی تمہارا مقدر بنے گی اور تم رشدوہدایت سے ہمکنار ہوتے رہو گے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا ۔اِنَّمَا الْاِمَامُ جُنَّۃٌ یُقَاتَلُ مِنْ وَّرَئِہٖ وَیُتَّقَی بِہٖ۔

(صحیح البخاری کتاب الجھاد والسیر بَاب یُقَاتَلُ مِنْ وَّرَاءِ الْاِمَامِ وَیُتَّقَی بِہٖ)

امام تو ایک ڈھال ہے جس کے پیچھے ہوکر لڑاجاتا ہے اور جس کے ذریعہ بچا جاتا ہے ۔

یہی وجہ ہے کہ آنحضرت ﷺنے مسلمانوں کی وحدت کو توڑنے اور اُن کی جماعت میں تفرقہ ڈالنے والے شخص کو بہت ناپسند فرمایا ہے اور اپنے ماننے والوں کو ایسے شخص سے مکمل قطع تعلقی کا حکم دیا ہے۔

عَنْ عَرْفَجَۃَ قَالَ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ مَنْ اَتَاکُمْ وَ اَمْرُکُمْ جَمِیْعٌ عَلَی رَجُلٍ وَاحِدٍ یُرِیْدُ اَنْ یَشُقَّ عَصَاکُمْ اَوْ یُفَرِّقَ جَمَاعَتَکُمْ فَاقْتُلُوہُ

(صحیح مسلم۔کتاب الامارۃ۔بَاب حُکْمُ مَنْ فَرَّقَ اَمْرَ الْمُسْلِمِینَ وَھُوَ مُجْتَمِعٌ)

حضرت عرفجہؓ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ مَیں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ جو شخص تمہارے پاس آئے۔ تم ایک شخص پر متفق ہو اور وہ تمہارا عصا توڑنا چاہے یا تمہای جماعت میں تفرقہ پیدا کرنا چاہے تو اُسے قتل کردو۔ (قتل کے معنے مکمل قطع تعلقی کے بھی ہوتے ہیں)

اسی حقیقت کے پیش نظر ایک بار حضرت عمرؓ نے حضرت ابوبکر صدیق ؓ کو مخاطب کرکے عرض کیا تھاکہ ’’بخدا اگر آپ کو گزند پہنچا تو اسلام کا نظام باقی نہ رہے گا۔‘‘

(تاریخ کامل ابن اثیر جلد 2صفحہ 177)

حضرت علی ؓ نے بھی آپؓ کی خدمت میں عرض کیاتھا کہ ’’اللہ کی قسم! اگر آپ کو صدمہ پہنچ گیا تو پھر اسلام کا نظام کبھی قائم نہ رہ سکے گا‘‘

حضرت شاہ محمد اسماعیل صاحب شہیدؒ (24 اکتوبر 1786ء۔ 6مئی 1831ء) حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ کے پوتے اور حضرت سید احمد بریلوی ؒ کے دستِ راست تھے۔ آپ ایک جیّد اور متبحّر عالم تھے۔ آپ کو سیف و قلم دونوں سے اسلام کی شاندار خدمات کی توفیق ملی ۔ آ پ نے اپنی کتاب ’’منصب امامت‘‘ میں بڑی تفصیل کے ساتھ خلافت کے مقام کو واضح کیا ہے اور بڑے ہی لطیف پیرایہ میں خلافت کی عظمت و شان بیان کی ہے۔ آپؒ خلیفۂ راشد اور باقی صلحاء میں نسبت بیان کرتے ہوئے تحریرکرتے ہیں کہ ’’امام رسول کے سعادت مند فرزند کی مانند ہے۔ باقی تمام اکابر اُمّت وبزرگان ملت ملازموں اور خدمتگاروں اور جاں نثار غلاموں کی مانند ہیں۔ پس جس طرح تمام اکابرِ سلطنت و ارکانِ مملکت کے لئے شہزادۂ والا قدر کی تعظیم ضروری اور اس سے توسّل موجبِ سعادت ہے اِسی طرح اس سے مقابلہ کرنا شقاوت کی علامت اور اس پر مفاخرت کا اظہار بدانجامی پر دلالت کرتا ہے۔ ایسا ہی ہر صاحب کمال کے حضور میں تواضع اور تذلل سعادت دارین کا باعث ہے اور اس کے حضور میں اپنے علم و کمال کو کچھ سمجھ بیٹھنا دونوں جہان کی شقاوت ہے۔ اس کے ساتھ یگانگی رکھنا رسول سے یگانگی ہے اَور اس سے بیگانگی رسول سے بیگانگی کے مترادف ہے۔‘‘

(منصب امامت صفحہ 110۔ مطبع حاجی حنیف اینڈ سنز لاہور ۔سن اشاعت 2008ء)

خلافتِ راشدہ کے بابرکت دَورمیں اسلام کو جو عروج وکمال حاصل ہوا ، اُس کا تذکرہ ایک مضمون میں بیان کرنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے ۔ذیل میں اُن فتنوں اور سازشوں کامختصر ذکر کیا جا رہا ہے جنہوں نے خلافت راشدہ کے آغاز ہی میں سر اُٹھایا اور پھر عظمتِ خلافت کی بدولت جھاگ کی طرح بیٹھ گئیں۔ آنحضور ﷺ کے وصال کے ساتھ ہی پورے عرب میں ارتداد کی ایک ایسی لہر اُٹھی، جس نے پورے جزیزہ نما کو اپنی لپیٹ میں لے لیاجس سے مسلمانوں کی وحدت شدید خطرے میں پڑگئی ۔ جیسا کہ ایک شیعہ بزرگ رائٹ آنریبل سیّدامیر علی صاحب اپنی کتاب (History of the Saracens) جس کا اردوترجمہ ’’تاریخ اسلام‘‘ کے نام سے شائع ہوا ہے ،میں لکھتے ہیں۔

’’جونہی آنحضرت ؐکے وصال کی اطلاع عرب کے دُور دراز علاقوں میں پہنچی تو بغاوت کی آگ پھر سے بھڑک اُٹھی ۔مسلمانوں کو اس صورتحال سے بڑی تشویش ہوئی۔ بعض قبیلے جنہوں نے بت پرستی کو حال ہی میں ترک کیا تھا، پھر سے بری عادتوں میں گرفتارہوگئے۔ آنحضرت ﷺ کی زندگی ہی میں لوگ نبوت کے جھوٹے دعوے کرچکے تھے، اب ان لوگوں نے مسلمانوں کو تنگ کرنا شروع کردیا۔ تھوڑی مدت میں اسلام تقریباً مدینہ کی حدود میں سمٹ کر رہ گیا ۔ ایک مرتبہ پھر ایک شہر کو سارے جزیرہ نما کی فوجوں سے لڑنا تھا۔‘‘

(تاریخ اسلام صفحہ28چوتھا باب۔ناشر:الفیصل ،غزنی سٹریٹ ، اردوبازار لاہور)

گویا ارتداد کی اس خوفناک لہر نے ایک بار تو قصرِ اسلام کو لرزہ بر اندام کردیاتھا ۔ ابنِ اثیر نے اُس وقت کے حالات کا نقشہ یوں کھینچا ہے:۔ ’’تَضَرَّ مَتِ الْاَرْضُ نَارًا‘‘ زمین کو گویا آگ لگ گئی تھی۔ اس ہولناک فتنہ کے درج ذیل مکروہ رُخ تھے۔

منافقین نے امت مسلمہ کی شیرازہ بندی کے خلاف سازشیں شروع کردیں۔

جھوٹے مدعیان نبوت نے اسلام کے قصر ِ عالی شان کی جڑوں پر تبر رکھ دیا۔

منکرین زکوٰۃ نے بغاوت کا پرچم بلند کردیا۔

یوں لگتاتھا کہ یہ خوفناک فتنے شوکت اسلام کو پامال کرکے رکھ دیں گے مگر خدائے ذوالجلا ل نے اپنے وعدہ وَلَیُمَکِّنَنَّ لَھُمْ دِیْنَھُمُ الَّذِی ارْتَضٰی لَھُمْ (النور:56) کے مطابق خلافت کے ذریعہ دین اسلام کو پھر سے استحکام، تمکنت اور عظمت سے ہمکنار کردیا۔ اُس نے اپنے خلیفۂ برحق حضرت ابوبکر صدیق ؓ کو غیر معمولی عزم وحوصلہ عطا فرمایا۔ جس کے آگے یہ تاریک بادل اور ہولناک فتنے دیکھتے ہی دیکھتے دھوئیں کی طرح غائب ہوگئے اور آندھی کی صورت اُٹھنے والے بگولے ،گرد کی صورت بیٹھ گئے ۔ اور کاروانِ اسلام پوری شوکت کے ساتھ پھر ترقی کی منازل طے کرنے لگا۔ الحمد للّٰہ علیٰ ذٰلک۔

یہاں عظمت وشوکت خلافت کی اہمیت کو چار چاند لگانے والا وہ واقعہ بیان کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے ۔جب اپنی آخری علالت کے دوران حضور نبی مکرم ،سیّد ولد آدم ،حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کو یہ خبر ملی کہ شام کا بدبخت اورناعاقبت اندیش بادشاہ اپنی طاقت کے نشے میں سرشار، مست ہاتھی کی طرح مدینہ پر لشکر کشی کرنے اور مسلمانوں کو صفحہ ٔ ہستی سے مٹانے کے لئے فوجی تیاریاں کررہا ہے۔ آنحضور ﷺ نے حضرت اسامہ بن زید ؓ کی سپہ سالاری میں ایک اسلامی فوج تیار کرنے کا ارشاد فرمایا۔ابھی یہ لشکر تیاری کے مراحل طے کررہا تھا کہ اللہ تعالیٰ کے محبوب رسول ﷺ کی روح پرفتوح اپنے ربّ کے حضور حاضر ہوگئی ۔حضور نبی پاک ﷺ کی وفات جماعت مومنین کے لئے کسی قیامت سے کم نہ تھی ،صحابہؓ غم کے مارے نڈھال تھے ۔اُن کی روحیں گھائل اور جگر چھلنی تھے اور اس پر مستزاد یہ کہ قبائل عرب تک حضور ﷺ کی وفات کی خبر پہنچی تو اُن میں سے کئی نومسلم قبائل جن کو ہنوز حلاوت ایمانی پوری طرح نصیب نہ ہوئی تھی اور جن کی تربیت میں ابھی بہت کمی تھی ۔اُن میں سے بعض ارتداد کی راہ اختیار کرنے لگے ۔ دُشمنان ِ اسلام پہلے ہی اسلام کے نوخیز پودے کو جڑوں سے اُکھاڑنے کے دَرپے تھے اُنہوں نے بھی اس موقع کو غنیمت جانا ،وہ بھی بڑے زور و شور کے ساتھ اسلام کو صفحہ ٔ ہستی سے مٹانے کی تیاریاں کرنے لگے ۔ ایسے حالات میں گویا عناد، ارتداد اور مخالفت کا ایک طوفان بدتمیزی ہر طرف موجزن تھا جو اسلام کی ہچکولے کھاتی ناؤ کو اپنے ساتھ بہا لے جانا چاہتا تھا ۔علّامہ ابن ِ خلدونؒ ان حالات کا نقشہ کھینچتے ہوئے لکھتے ہیں۔

یعنی اپنی قلّتِ تعداد اور کثرت دُشمن کی وجہ سے اپنے نبیؐ کی وفات کے باعث مسلمانوں کی حالت ایسی تھی جیسے طوفانِ بادو باراں والی شبِ تیرہ وتار میں بکریوں کا ریوڑ ہو۔

(تاریخ ابن الخلدون جلد 2صفحہ 56)

ان پُر آشوب حالات میں جبکہ مسلمانوں پر خوف کا عالم طاری تھا خدا تعالیٰ نے اپنا وعدہ وَلَیُبَدِّ لَنَّھُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِھِمْ اَمْناً (النور:56) ’’اور اُن کی خوف کی حالت کے بعد ضرور اُنہیں امن کی حالت میں بدل دے گا۔‘‘ بڑی شان کے ساتھ پورا کیا۔ حضرت ابو بکر صدیق ؓ کو خلیفۃ الرسول اور امیرالمومنین کی خلعت عطا فرماکر اس بظاہرہچکولے کھاتی اور ڈوبتی ہوئی ناؤکو اپنے ہاتھ سے سہارا دیا۔ حضرت ابو بکر صدیقؓ کفرو اِرتداد کے اس طوفان اور شام کے اُس غرور کے پتلے حکمران کے سامنے عزم و استقلال کی ایسی پرعزم چٹان بن گئے کہ جو بھی طوفان بدتمیزی آپ کے سامنے آیا وہ جھاگ کی مانند آپ ہی آپ بیٹھ گیا۔ آپؓ کے عزمِ صمیم اور کمال دُور اندیشی کے سبب دشمن اپنے منصوبوں میں ناکام ونامراد اور خائب و خاسر ہوکر رہ گیا اور اسلام کا یہ قافلہ بڑی قوت اور شان کے ساتھ اپنی منزل کی طرف رواں دواں ہوگیا۔ دوسری طرف بڑے بڑے جلیل القدر صحابہؓ، وہ عظیم المرتبت جری صحابہؓ جن میں عظیم الشان سپہ سالار بھی شامل تھے کہ جن کی ہیبت سے ایک زمانہ کانپتا تھا جن کے مصمّم ارادوں کے آگے چٹانیں بھی موم ہوجایا کرتی تھیں ۔ان نازک حالات سے خوفزدہ تھے۔ اُن کی طاقتوں کو اُن کے آقا ومطاع ﷺ کی جُدائی کے صدمہ نے مضمحل کردیا تھا۔ وہ بدلتے ہوئے حالات کو دُنیا کی نظر سے دیکھ رہے تھے اور حضرت ابوبکر صدیقؓ، خلیفۃ الرسولؐ کو یہ مشورہ دے رہے تھے کہ جنگی مہارت رکھنے والے تمام افراد اگر شام کی طرف چلے گئے ،تو دُشمن حالات کا فائدہ اُٹھا کر مدینہ پر حملہ کرسکتا ہے اور اسلام کا شیرازہ بکھر سکتا ہے۔ مگر خلعت خلافت کے اَمین خدا سے تائید یافتہ خلیفۃالرسول حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے اپنی خدا داد بصیرت اور تائید خدا وندی پر کامل توکل کرتے ہوئے فرمایا۔

لَوْ خَطَفَتْنِیْ الْکِلَابُ وَالذِّئَابُ لَأَنْفَذْتُہُ کَمَا اَمَرَ بِہٖ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ وَلَا اَرُدُّ قَضَاءً قَضٰی بِہٖ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ وَلَوْلَمْ یَبْقَ فِی الْقُرٰی غَیْرِیْ لَأَنْفَذْتُہُ۔

(ابن اثیر ذکر أنفاذ جیش اسامۃ بن زیدؓ۔بحوالہ خلافت روشنی صبح ازل کی صفحہ6)

اگر کتےّ اور بھیڑیئے مجھے گھسیٹتے بھی پھریں تو بھی مَیں اس لشکر کو رسول اللہ ﷺ کے فیصلہ کے مطابق بھجواکر رہوں گا اور مَیں رسول اللہ ﷺ کا جاری کردہ فیصلہ نافذ کرکے رہوں گا۔ ہاں اگر بستیوں میں میرے سوا کوئی بھی باقی نہ رہے تو بھی مَیں اس فیصلہ کو نافذ کروں گا۔ایک اور روایت کے مطابق آپؓ نے فرمایا ۔

وَالَّذِی لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ لَوْ جَرَّتِ الْکِلَابُ بِاَرْجُلِ اَزْوَاجِ النَّبِی عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَامِ مَا رَدَدْتُ جَیْشاً وَجھِہ رَسُولُ اللّٰہِ عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَامِ وَلَا حَلَلْتُ لِوَاءً عَقَّدَہُ

(تاریخ الخلفاء ص 61۔دار ابن حزم للطباعۃ النشر وَالتَوزیْع ۔ بیروت لبنان۔الطّبعۃ الأولی 1424ھ۔2003ء)

اس خدا کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں ۔ اگر کتےّ ازواج نبیﷺ کے پاؤں تک آجائیں تو مَیں اس لشکر کو واپس نہیں بلا سکتا جسے رسول اللہ ﷺ نے خود روانہ کیا ہے اور نہ مَیں اس جھنڈے کی گرہ کھول سکتا ہوں ۔

اور پھر وہ لشکر باوجود انتہائی نامساعد حالات کے روانہ ہوکر رہا۔صحابہ رضوا ن اللہ علیہم اجمعین کے عالی مقام اور بلندمرتبہ سے کون واقف نہیں! جن کو رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ وَرَضُوْا عَنْہُ (التوبۃ:100) ’’اللہ اُن سے راضی ہوگیا اور وہ اُس سے راضی ہوگئے‘‘ کا آسمانی خطاب ملا۔ رسول خدا ﷺ نے اُن کے بارہ میں یہ فرماکر کہ اَصْحَابِی کَالنُّجُومِ بِاَیِّھِمُ اقْتَدَیْتُمْ اِھْتَدَیْتُمْ کہ میرے صحابہؓ ستاروں کی مانند ہیں اُن میں سے جس کی بھی پیروی کرو گے، راہ ہدایت پاجاؤ گے، صحابہ کرام ؓ کی بلند شان اور عالی مرتبہ کو بہت واضح فرمایا دیا ہے۔

ان حالات میں ایک طرف نور بصیرت رکھنے والے ایک لاکھ سے زائد صحابہ کرام ؓہیں، جن کے سینے علم قرآن سے منور اور حُبِّ رسول کی دولت سے مالامال ہیں جن میں سے ہر ایک مینارۂ نور اور آسمان ہدایت کا روشن ستارہ ہے،جن کی صحبت میں خدا یاد آتا ہے۔ اس مرتبہ اور شان کے حامل صحابہؓ دربار خلافت میں !!دربارِ ابوبکرؓ میں سر جھکائے کھڑے ہیں ۔ آج دربارِ خلافت میں اُن سب کے ارادے،اُن سب کی سوچیں،اُن سب کی تجویزیں اورآراء،اُن سب کی فہم وفراست اور اُن کا رُعب و دَبدبہ، خلیفہ وقت کے فیصلہ اور عزم کے سامنے کچھ حیثیت نہ رکھتا تھا۔ وہ سب عجزو انکسار کا پیکر بن گئے۔ وہ جو دوسروں کے لئے ہدایت کا سامان کرنے والے تھے اب خلیفۂ وقت کے سامنے علم وہدایت کے لئے شاگردانِ رشید بن گئے ۔ یہ ہے نظام خلافت، یہ ہے شان خلافت اوریہ ہے مقام خلافت!!!

صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے خلیفۂ وقت کی کامل اطاعت وفرمانبرداری کا وہ اعلیٰ نمونہ پیش کیاجو رہتی دُنیا تک تمام اُمّت کیلئے اپنی مثال آپ بن گیا۔چنانچہ آئندہ پیش آنے والے حالات و واقعات نے ثابت کردیا کہ خلیفۂ وقت کی طرف سے کیا گیا فیصلہ ہی صحیح فیصلہ تھا اور خدا تعالیٰ کی تائید اُس کے ساتھ تھی۔ اس واقعہ نے اُمّت مسلمہ پر خلیفۂ راشد کی عظمت وشان عیاں کردی ۔کیونکہ اگر حضرت اسامہ ؓ کا لشکر روک لیاجاتا تو احکام رسولؐ کو ٹالنے کی ایک راہ خدانخواستہ نکل سکتی تھی۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے انتہائی نامساعد حالات میں یہ فیصلہ کیا اور پھر خداتعالیٰ کی تائید نے جس طرح عملی طورپر اسے درست فیصلہ ثابت کردیااُس سے صحابہ ؓ کا ہی نہیں آج تک اُمّت کے ہر فرد کا خلافت پر ایمان ویقین مضبوط ہوگیا۔

آپؓ کے اس مدبّرانہ فیصلہ کی وجہ سے اوربہت سارے فوائدکے ساتھ ساتھ سب سے بڑ ا فائدہ اسلامی لشکر کو روانہ کرنے کے بعد یہ ہوا کہ دُشمنوں نے جب یہ دیکھا کہ ایسے خطرنا ک حالات میں ایک لشکر روانہ کیا گیا ہے تو ضرور مسلمانوں کے پاس ایک بہت بڑی فوج مدینہ میں بھی موجو دہے ۔ خلافت کی برکت سے دُشمن مرعُوب ہوگیا۔اُس کی حوصلے پست ہوگئے اور اُسے مدینہ پر حملہ کرنے کا منحوس فیصلہ تبدیل کرنے کے سوا کوئی چارہ نہ رہااوراُس کے تمام بدعزائم خاک میں مل گئے۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے خلیفہ بننے کے بعد صحابہؓ سے خطاب کرتے ہوئے مقام خلافت کی عظمت و اہمیت کو ان الفاظ میں اُجاگر فرمایا۔

اللہ تعالیٰ نے رسولؐ اللہ کے ذریعہ تمہیں ضلالت اور تفرقہ سے نکالا اور تمہارے دلوں میں اُلفت قائم کی ۔ پھر اللہ نے تم پر ایک خلیفہ مقرر کیا تاکہ تمہارے دِلوں میں الفت ومحبت قائم رکھے اور تمہارے مقصود کو غلبہ عطا کرے۔

(دائرہ المعارف القرآن الرابع عشر محمد فرید وجدی جلد 3صفحہ 758زیر لفظ خلف)

پس یہ خدا تعالیٰ کی اعجازی طاقت ہی تھی جس نے خوف اور فتنہ کے اس عالم میں حضرت ابوبکر صدیق ؓ کو منصبِ خلافت پر فائز کرکے اپنی مدد اور نُصرت کا ہاتھ آپ کی طرف بڑھایا اور آپ کو وہ ہمت اور اِستقلال بخشا کہ آپ کے عزمِ صمیم کے سامنے پہاڑوں جیسے خطرات سمندر کی جھاگ ثابت ہوئے اور اسلام کا قافلہ مزید سرعت کے ساتھ اپنی منزل کی طرف رَواں دَواں ہوگیا۔ اس ضمن میں حضرت عائشہ ؓ کا یہ قول کس قدر برحق ہے ۔ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں۔ رسول اللہ ﷺ کے وصال کے بعد نفّاق نے سر اُٹھایا، عرب مرتد ہوگئے اور انصار نے بھی علیحدگی اختیار کرلی، اتنی مشکلیں جمع ہوگئیں کہ اگر اتنی مشکلات پہاڑپر پڑتیں تو وہ بھی اس بار کو نہ اُٹھا سکتا لیکن میرے والد ابوبکر صدیق ؓ نے زبردست استقلال سے ہر ایک مشکل کا مقابلہ کیا اور ہر ایک کا حل نکالا۔

(تاریخ الخلفاء (مترجم)صفحہ 206۔شائع کردہ پروگریسو بکس اُردو بازار لاہور ۔سن اشاعت اکتوبر 1997ء)

اسی واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں ۔
ہمارے نبی ﷺ کی وفات کے بعد ایک خطرناک زمانہ پیدا ہوگیا تھا۔ کئی فرقے عرب کے مرتد ہوگئے تھے بعض نے زکوٰۃ دینے سے انکار کردیا تھا اور کئی جھوٹے پیغمبر کھڑے ہوگئے تھے اور ایسے وقت میں جو ایک بڑے مضبوط دل اور مستقل مزاج اور قوی الایمان اور دلاور اور بہادر خلیفہ کو چاہتا تھا حضرت ابوبکر ؓ خلیفہ مقرر کئے گئے اور اُن کو خلیفہ ہوتے ہی بڑے غموں کا سامنا ہواجیسا کہ حضرت عائشہ ؓ کا قول ہے کہ بباعث چند در چند فتنوں اور بغاوت اعراب اور کھڑے ہونے جھوٹے پیغمبروں کے میرے باپ پر جبکہ وہ خلیفہ رسول اللہؐ مقرر کیا گیا وہ مصیبتیں پڑیں اور وہ غم دل پر نازل ہوئے کہ اگر وہ غم کسی پہاڑ پر پڑتے تو وہ بھی گر پڑتا اور پاش پاش ہوجاتا اور زمین سے ہموار ہوجاتا۔ مگر چونکہ خدا کا یہ قانونِ قدرت ہے کہ جب خدا کے رسول کا کوئی خلیفہ اس کی موت کے بعد مقرر ہوتاہے تو شجاعت اور ہمت اور استقلال اور فراست اور دل قوی ہونے کی رُوح اس میں پھونکی جاتی ہے جیسا کہ یشوع کی کتاب باب اول آیت6میں حضرت یشوع کو اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ مضبوط ہواور دلاوری کر یعنی موسیٰ تو مر گیا اَب تو مضبوط ہوجا۔ یہی حکم قضاء و قدر کے رنگ میں نہ شرعی رنگ میں حضرت ابوبکرؓ کے دل پر بھی نازل ہوا تھاتناسب اور تشابہ واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ گویا ابوبکر بن قحافہ اور یشوع بن نون ایک ہی شخص ہے۔

(تحفہ گولڑویہ، روحانی خزائن جلد17 صفحہ185)

پس نبّوت کے بعد نظام خلافت کو جاری کرنا اللہ تعالیٰ کی قدیم سنت اور ربّ العالمین کا اپنے بندوں پر ایک احسان عظیم ہے کہ مَبادا وہ فیضان نبوت سے محروم ہوکر ایک بار پھر جہالت کے اندھیروں میں نہ جاپڑیں ۔ انتہائی خوف کے اس عالم میں خداتعالیٰ کی قدرت کا زبردست ہاتھ اُنہیں سہارا دیتا ہے اور اس گرتی ہوئی جماعت کو سنبھالتے ہوئے اس کی باگ ڈور اُنہی میں سے ایک ایسے شخص کے سُپرد کردیتا ہے جو اُس کی نظر میں سب سے زیادہ موزوں اور اس منصبِ جلیلہ کا اہل ہوتا ہے۔ گویا نبی کی وفات کے بعد خلافت کا قائم ہونا ، اللہ تعالیٰ کے ارادہ اور مرضی کے تابع ہوتا ہے ۔ جیسا کہ آنحضرت ﷺ کے متعدد ارشادات سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔حضرت عقبہ بن عامرؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے اپنے چچا حضرت عباسؓ کا ہاتھ پکڑا اور فرمایا :جب بھی کوئی نبّوت آئی اس کے بعد خلافت قائم ہوئی۔

(مجمع الزوائد ، جلد 5صفحہ 188۔ دارالکتاب العربی قاہرہ، بیروت 1407ھ)

رسول اللہ ﷺ کا ایک اور ارشاد مبارک ہے کہ مَا مِنْ نُبُوَّۃٍ قَطُّ اِلَّا تَبِعَتْھَا خِلَافَۃٌ۔

(کنزالعمّال جلد 11صفحہ 259۔ ناشر مکتبہ التراسل اسلامی بیروت۔لبنان)

یعنی ہر نبّوت کے بعد خلافت ہوتی ہے۔

خلافت کی اسی عظمت و اہمیت اور ضرورت کی پیش نظر وعدہ ٔ الٰہی بھی یہی ہے کہ نبّوت کے بعد خلافت علیٰ منہاج النبوۃ کا نظام ایک ناگزیر ضرورت ہے۔ لَیَسْتَخْلِفَنَّھُمْ فِی الْاَرْضِ کَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ (النور:56) اُنہیں ضرور زمین میں خلیفہ بنائے گا جیسا کہ اُس نے اُن سے پہلے لوگوں کو خلیفہ بنایا۔

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں۔
یہ بات نہایت ضروری ہے کہ بعد وفات رسول اللہ ﷺ اس اُمّت میں فساد اور فتنوں کے وقتوں میں ایسے مصلح آتے رہیں جن کو انبیاء کے کئی کاموں میں سے یہ ایک کام سپرد ہو کہ وہ دین حق کی طرف دعوت کریں اورہریک بدعت جو دین سے مل گئی ہو اس کو دُور کریں اور آسمانی روشنی پاکر دین کی صداقت ہر یک پہلو سے لوگوں کو دکھاویں اور اپنے پاک نمونہ سے لوگوں کو سچائی اور محبت اور پاکیزگی کی طرف کھینچیں۔

(شہادۃ القرآن، روحانی خزائن جلد 6صفحہ 344)

اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کے بعد خلافتِ راشدہ کا نظام جاری فرمایا اور حضرت ابوبکر صدیقؓ،حضرت عمرؓ،حضرت عثمانؓ اور حضرت علیؓ کے ذریعہ برکات رسالت ونبّوت کی اشاعت کا سلسلہ قائم فرمادیا۔ اس کے بعد حضور نبی کریم ﷺ کی پیشگوئیوں کے مطابق دین حق کو تمام اَدین باطلہ پر غالب کرنے اور سید الانبیاء ﷺ کے برکات وفیوض کی عالمگیر اشاعت کے لئے امام مہدی اور مسیح موعود کا ظہور ہونا مقدر تھا۔ آنحضور ﷺ نے اپنی اُمّت کو تاکیدی ارشاد فرمایا کہ وہ مسیح ومہدی جس نے تمام اَدیان پر آپؐ کے دین کو غالب کرنا تھا جب وہ آئے تو اُس کی بیعت کرنا ۔چنانچہ فرمان نبویؐ ہے۔ فَاِذَا رَاَیْتُمُوْہُ فَبَایِعُوْہُ وَلَوْ حَبْوًا عَلٰی الثَّلْجِ فَاِنَّہٗ خَلِیْفَۃُ اللّٰہُ الْمَھْدِیُّ۔ (ابوداؤد جلد2 باب خروج المہدی۔ مستدرک حاکم جزو 4 کتاب الفتن والملاحم صفحہ464) جب تم اُسے دیکھو تو اس کی ضرور بیعت کرنا خواہ تمہیں برف کے تَودوں پر گھٹنوں کے بل بھی جانا پڑے ۔ کیونکہ وہ خدا کا خلیفہ مہدی ہوگا۔

اللہ تعالیٰ کی اسی تقدیر اور فیصلے کے مطابق سیدنا حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے مبعوث فرمایا ۔آپ نے یکم دسمبر 1888ء کو ایک اشتہار کے ذریعہ بیعت لینے کا اعلان فرمایااور اس کے بعد 12جنوری 1889ء کو ایک اور اشتہار کے ذریعہ شرائط بیعت کا اعلان فرمایا اور بیعت کرنے والے احباب کو 20مارچ کے بعد لدھیانہ پہنچے کا ارشاد فرمایا۔ 23مارچ 1889ء وہ تاریخی دن تھا جب آپؑ نے حضرت صوفی احمد جان صاحب کے مکان واقع محلہ جدید لدھیانہ میں مخلصین سے بیعت لے کر اللہ تعالیٰ کے حکم سے سلسلہ عالیہ احمدیہ کی بنیاد رکھی ۔ حضرت مولانا حکیم نورالدین ؓ نے سب سے پہلے بیعت کی سعادت حاصل کی۔ چالیس قدّوسیوں نے پہلے روز بیعت کا شرف حاصل کیا۔ حضور علیہ السلام کے وصال (26مئی 1908ء) کے بعد رسول کریم ﷺ کے ارشاد ثَمَّ تَکُوْنُ خِلَافَۃٌ عَلٰی مِنْھَاجٍ نُّبُوَّۃِ۔ (مشکٰوۃ کتاب الرقاق باب الانذار و التحذیر) کے مطابق 27مئی 1908ء کو پھر سے خلافت راشدہ کا نظام قائم ہوا اور مخلصین جماعت نے حضرت مولانا نورالدین ؓ کے ہاتھ پر خلیفۃ المسیح الاوّل کی حیثیت سے شرف بیعت حاصل کیا۔

حضرت شاہ محمد اسماعیل شہیدؒ مہدی علیہ السلام کے بعد خلافت راشدہ کے قیام اور اُس کی عظمت و اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے تحریر کرتے ہیں کہ ’’خلیفۂ راشد وہ شخص ہے جو منصبِ امامت رکھتا ہو اور سیاست ایمانی کے معاملات اس سے ظاہر ہوں۔ جو اس منصب تک پہنچا وہی خلیفہ راشد ہے۔ خواہ زمانہ ٔ سابق میں ظاہر ہوا خواہ موجودہ زمانہ میں ہو، خواہ اوائل اُمّت میں ہو، خواہ اس کے آخر میں ۔ خواہ فاطمی نسل سے ہو یا ہاشمی سے۔ خواہ نسل قصی سے ہو، خواہ نسل قریش سے۔

اس لفظ خلیفہ کو بمنزلہ لفظ خلیل اللہ، کلیم اللہ، رُوح اللہ، حبیب اللہ یا صدیق اکبر، فاروق اعظم، ذوالنورین، مرتضیٰ، مجتبیٰ اور سیدالشہدا ء یا ان کے مانند شمار نہ کرنا چاہئے ۔ کیونکہ ان میں سے ہر ایک لقب بزرگان دین میں سے ایک خاص بزرگ کی ذات سے خصوصیت رکھتا ہے ۔اس لقب کے اطلاق سے اسی بزرگ کی ذات تصور کی جاتی ہے اور اسی طرح یہ بھی نہ سمجھ لینا چاہئے کہ لفظ ’’خلفائے راشدین‘‘ خلفائے اربعہ کی ذات سے خصوصیت رکھتا ہے کہ اس لفظ کے استعمال سے اُنہی بزرگوں کی ذات متصور ہوتی ہے۔ حَاشا وَ کَلّا! بلکہ اس لقب کو بمنزلہ ولی اللہ، مجتہد، عالم، عابد، زاہد، فقیہ، محدث، متکلم، حافظ، بادشاہ، امیر یا وزیر کے تصور کرنا چاہئے۔ کیونکہ ان میں سے ہر ایک خاص منصب پر دلالت نہیں رکھتا۔ جو کوئی بھی اس صفت سے متصف اور اس منصب پر قائم ہو وہی اس لقب سے مقلّب ہوسکتا ہے۔ پس جیسا کہ کبھی کبھی دریائے رحمت سے کوئی موج سر بلند ہوتی ہے اور آئمہ ہدیٰ میں سے کسی امام کو ظاہر کرتی ہے ایسا ہی اللہ کی نعمت کمال تک پہنچتی ہے تو کسی کو تختِ خلافت پر جلوہ افروز کردیتی ہے اور وہی امام اس زمانے کا خلیفۂ راشد ہے اور وہ جو حدیث میں وارد ہے کہ ’’خلافت راشدہ‘‘ کا زمانہ رسول مقبول علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بعد تیس سال تک ہے اس کے بعد سلطنت ہوگی تو اس سے مُراد یہ ہے کہ خلافت راشدہ متصل اور تواتر طریق پر تیس سال تک رہے گی۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ قیام قیامت تک خلافت راشدہ کا زمانہ وہی تیس سال ہے اور بس! بلکہ حدیث مذکورہ کا مفہوم یہی ہے کہ خلافت راشدہ تیس سال گزرنے کے بعد منقطع ہوگی نہ یہ کہ اس کے بعد پھر خلافت راشدہ کبھی آہی نہیں سکتی! … اور یہ امر بھی ظاہر ہے کہ حضرت مہدی علیہ السلام کی خلافت، خلافت راشدہ سے افضل انواع میں سے ہوگی یعنی وہ خلافت ’’منتظمہ محفوظہ‘‘ ہوگی کیونکہ اس کی تعریف میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے۔ لَوْ لَمْ یَبْقَ مِنَ الدُّنْیَا اِلَّا یَوْمٌ لَطَوَّلَ اللّٰہُ ذَالِکَ الْیَوْمَ حَتّٰی یَبْعَثَ اللّٰہُ فِیْہِ رَجُلًا مِنْ اَھْلِ بَیْتِیْ یُوَطِیِٔ اسْمُہٗ اِسْمِیْ وَاِسْمُ اَبِیْہِ اِسْمُ اَبِیْ یَمْلَأُالْاَرْضَ قِسْطًا وَّعَدْلًا کَمَا مُلِئَتْ ظُلْمًا وَّ جَوْرًا۔ اگر دُنیا میں سے کچھ باقی نہ رہے مگر ایک دن کہ لمبا کردے اُسے اللہ تعالیٰ یہاں تک کہ اُٹھادے اللہ تعالیٰ ایک آدمی میرے اہل بیت سے میرے ہمنام اور اُس کے باپ کا نام بھی میرے باپ کے ہمنام ہوگا۔ بھر جائے زمین خوبی اور انصاف سے ، جیسا کہ بھری ہو ظلم اور جور سے ۔ نیز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ اَتَاہُ اَبْدَالُ الشَّامِ وَعَصَائِبُ اَھْلِ الْعِرَاقِ فَبَایِعُوْنَہٗ۔ شام کے ابدال اور عراق کے بزرگ اس کے پاس آکر بیعت کریں گے … نیز وارد ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہے۔ اَلْمَھْدِیُّ عَلَیْہِ السَّلَامُ یَشْبَہُ فِیْ الْخُلُقِ مہدی علیہ السلام خلق میں میرے مشابہ ہوں گے … نزول نعمت الٰہی یعنی ظہور خلافت راشدہ سے کسی زمانہ میں مایوس نہ ہونا چاہئے اور اسے مجیب الدّعوات سے طلب کرتے رہنا چاہئے اور اپنی دُعا کی قبولیت کی اُمید رکھنا اور خلیفۂ راشد کی جستجو میں ہروقت ہمت صرف کرنا چاہئے۔ شاید کہ یہ نعمت کاملہ اسی زمانہ میں ظہور فرماوے اور خلافت راشدہ اِسی وقت جلوہ گر ہوجائے۔‘‘

(منصب امامت صفحہ 116-121۔مطبع حاجی حنیف اینڈ سنز لاہور۔ مترجم حکیم محمد حسین علوی ۔سن اشاعت 2008ء)

مولانا ابوالکلام آزاد (1889 تا 1958ء) متحدہ ہندوستان کے ایک معروف عالم دین، قادر الکلام مقرر اور انشاء پرداز تھے۔ آپ نے ’’مسئلہ خلافت‘‘ کے عنوان سے ایک کتاب لکھی ہے۔ اس کتاب میں اُنہوں نے خلافت کے مختلف پہلوؤں پر بڑی تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ چنانچہ خلافت کی اہمیت بیان کرتے ہوئے رقمطراز ہیں کہ ’’جس طرح شخصی واعتقادی اور عملی زندگی کیلئے مراکز قرار پائے، ضروری تھا کہ جماعتی اور ملی زندگی کے لئے بھی ایک مرکزی وجود قرار پاتا۔ لہٰذا وہ مرکز بھی قرار دے دیا گیا۔ تمام اُمّت کو اس مرکز کے گرد بطور دائرہ کے ٹھہرایا۔ اس کی معیّت، اس کی رفاقت، اس کی اطاعت، اس کی حرکت پر حرکت، اس کے سکون پر سکون۔ اس کی طلب پر لبیک، اس کی دعوت پر انفاق جان و مال، ہر مسلمان کے لئے فرض کر دیا گیا ایسا فرض جس کے بغیر وہ جاہلیت کی ظلمت سے نکل کر اسلامی زندگی کی روشنی میں نہیں آسکتا۔ اسلام کی اصطلاح میں اسی قومی مرکز کا نام ’’خلیفہ‘‘ اور امام ہےاور جب تک یہ مرکز اپنی جگہ سے نہیں ہٹتاہے یعنی کتاب و سنت کے مطابق اس کا حکم ہے، ہر مسلمان پر اس کی اطاعت و اعانت اسی طرح فرض ہے جس طرح خود اللہ اور اس کے رسول کی۔‘‘

(مسئلہ خلافت، صفحہ38۔ناشر :مکتبہ جمال لاہور۔سن اشاعت2006ء)

آخر میں حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے چند ارشادات درج کئے جارہے ہیں جن سے نظام خلافت کی عظمت و اہمیت واضح ہوتی ہے۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے خلافت کے قیام کی غرض و غایت اور اہمیت بیان کرتے ہوئے فرمایا۔ قدرت ثانیہ خدا کی طرف سے ایک بڑا انعام ہے جس کا مقصد قوم کو متحدکرنا اور تفرقہ سے محفوظ رکھنا ہے۔ یہ وہ لڑی ہے جس میں جماعت موتیوں کی مانند پروئی ہوئی ہے۔ اگر موتی بکھرے ہوں تو نہ تو محفوظ ہوتے ہیں اور نہ ہی خوبصورت معلوم ہوتے ہیں۔ ایک لڑی میں پروئے ہوئے موتی ہی خوبصورت اور محفوظ ہوتے ہیں۔ اگر قدرتِ ثانیہ نہ ہو تو دین حق کبھی ترقی نہیں کرسکتا۔

(الفضل انٹرنیشنل 23مئی تا 5جون2003ء)

پھر فرمایا۔ آپ میں سے ہر ایک کا فرض ہے کہ دُعاؤں پر بہت زور دے اور اپنے آپ کو خلافت سے وابستہ رکھے اور یہ نکتہ ہمیشہ یاد رکھے کہ اُس کی ساری ترقیات اور کامیابیوں کا راز خلافت سے وابستگی میں ہی ہے ۔ وہی شخص سلسلہ کا مفید وجود بن سکتا ہے جو اپنے آپ کو امام سے وابستہ رکھتا ہے۔ اگر کوئی شخص امام کے ساتھ اپنے آپ کو وابستہ نہ رکھے تو خواہ دُنیا بھر کے علوم جانتا ہو اُس کی کوئی بھی حیثیت نہیں۔ جب تک آپ کی عقلیں اور تدبیریں خلافت کے ماتحت رہیں گی اور آپ اپنے امام کے پیچھے پیچھے اُس کے اشاروں پر چلتے رہیں گے، اللہ تعالیٰ کی مدد اور نصرت آپ کو حاصل رہے گی۔‘‘

(روزنامہ الفضل 30مئی 2003ء)

’’یہ خلافت کی ہی نعمت ہے جو جماعت کی جان ہے اس لئے اگر زندگی چاہتے ہیں تو خلافتِ احمدیہ کے ساتھ اخلاص اور وفا کے ساتھ چمٹ جائیں، پوری طرح اس سے وابستہ ہوجائیں کہ آپ کی ہر ترقی کا راز خلافت سے وابستگی میں ہی مضمر ہے۔ ایسے بن جائیں کہ خلیفۂ وقت کی رضا آپ کی رضا ہوجائے۔ خلیفۂ وقت کے قدموں پر آپ کا قدم ہو اور خلیفہ ٔ وقت کی خوشنودی آپ کا مطمح نظر ہوجائے۔‘‘

(ماہنامہ خالد سیدنا طاہر نمبر مارچ، اپریل 2004ء)

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے 2010ء میں لجنہ اماء اللہ پاکستان کی مجلس شوریٰ کے نام اپنے پیغام میں تحریر فرمایا۔

آج دُنیا میں صرف جماعت احمدیہ ہی ہے جس کو خلافت کا بابرکت نظام عطا ہوا ہے ۔ پس اس کی برکات سے دائمی حصہ پانے کے لئے، اپنی آئندہ نسلوں کو محفوظ رکھنے کے لئے خلافت کے ساتھ چمٹے رہیں۔ یہی دین ہے ۔ یہی توحید ہے ۔ یہی مرکزیت ہے اور اس کے ساتھ وابستگی میں خدا تعالیٰ کی رضا ہے۔ اس لیے اس نعمت کی قدر کریں ۔ خدا کا شکر بجالائیں اور خلیفۂ وقت کے ساتھ ادب، احترام، اطاعت اور وفا اور اخلاص کا تعلق مضبوط تر کرتی چلی جائیں۔

(الفضل انٹرنیشنل 28 جنوری 2010ء)

پس خلافت راشدہ، دین ِاسلام کی بقا، سربلندی اور استحکام ومضبوطی کا اہم ترین ذریعہ ہے ۔جو رشدوہدایت کی راہ اور جس کے ساتھ وابستگی میں ہی اُمّت مُسلمہ کی ترقی، کامیابی، اتّحادویکجہتی اور بقا کا راز مضمر ہے ۔

(ظہیر احمد طاہر۔جرمنی)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 26 مئی 2020

اگلا پڑھیں

حضرتِ مسرورکے ہمراہ رہتا ہے خدا