• 20 اپریل, 2024

اطاعتِ خلافت اور اس کی برکات

خلافت کی تاریخ اتنی ہی پُرانی ہے جتنی کہ خود انسانی تاریخ ۔ خلافت وہ پہلا انعام ہے جو نسلِ انسانی کو آدم علیہ السلام کی صورت میں ملا جیسا کہ الله تعالیٰ قرآنِ کریم میں فرماتا ہے اِنِّیۡ جَاعِلٌ فِی الۡاَرۡضِ خَلِیۡفَۃً (البقرہ:31) یقیناً میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں اور پھر یہ نعمت آنحضرت ﷺ کے وجود میں جلوہ گر ہوکر اپنے کمال اور معراج کو پہنچی۔ خدا تعالیٰ نے اپنا عکس اس ذات میں رکھ کر فرمایا کہ اعلان کر دو کہ قُلۡ اِنَّ صَلَاتِیۡ وَ نُسُکِیۡ وَ مَحۡیَایَ وَ مَمَاتِیۡ لِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ کہ میری نماز اور میری قربانی اور میری زندگی اور میری موت سب کچھ خدا کے لئے ہے ۔

ہم جب خلافت اور اس کی اطاعت و برکات کا ذکر کرتے ہیں تو دراصل ہمارے ذہن میں یہی خلافتِ الہٰیہ ہوتی ہے جو اللہ تعالیٰ انبیاء کے ذریعے دُنیا میں قائم فرماتا ہے اور نبی کی وفات کے بعد اس کے ماننے والوں میں اس کا تسلسل جاری فرماتا ہے۔ ایسی خلافت اپنے مطاع کے تمام تر خدّوخال اپنے اندر جذب کرنے کی پابند ہوتی ہے۔ گویا خلیفہ کا وجود اپنے مطاع کا ظِل اور عکس ہوتا ہے۔ وہ چاند کی طرح اُوپر سے ایک امانت کو قبول کرتا ہے اور آگے اس امانت کو منتقل کر دیتا ہے چنانچہ اس کی تمام تر برکات ایک واسطہ کے ساتھ وہی ہوتی ہیں جو وہ اپنے مطاع سے وصول کر رہا ہوتا ہے۔ اگر ہم اس نظر سے دیکھیں تو خلافتِ احمدیہ کی برکات اپنے کمال کو پہنچی ہوئی ہیں کیونکہ یہ ان تمام برکات کی حامل ہیں جو رسولِ پاک ﷺ نے اپنے ربّ سے وصول پا کر اپنے اندر جذب کیں اور پھر ان کو اُمّت میں منعکس فرمایا اور چونکہ كُلُّ بَرَكَةٍ مِنْ مُحَمَّدٍ فَتَبَارَكَ مَنْ عَلَّمَ وَ تَعَلَّمَ نبی کریم ﷺ سے ہی ساری برکات وابستہ ہیں اس لئے وہ تمام برکات خلافتِ احمدیہ میں ایک واسطہ کے ساتھ جلوہ گر ہیں اور ان کا انتشار ہو رہا ہے۔

خلافت کے ذریعے بندوں کے پاس سب سے قیمتی امانت یعنی توحیدِ الٰہی کی حفاظت ہوتی ہے اور خلیفہ اس بات کا پوری طرح ادراک رکھتا ہے کہ کسی طور سے شرک کی کوئی آلائش توحیدِ الٰہی کے نور کو دُھندلا نہ کرے گویا یَعۡبُدُوۡنَنِیۡ لَا یُشۡرِکُوۡنَ بِیۡ شَیۡئًا (النور:56) کا جہاد جاری رہتا ہے۔خلافت کے ذریعے عبادت کو زندہ کیا جاتا ہے اور یٰقَوۡمِ اعۡبُدُوا اللّٰہَ مَا لَکُمۡ مِّنۡ اِلٰہٍ غَیۡرُہٗ (الاعراف:60) کے مطابق یہ کام بھی جماعتِ احمدیہ میں احسن طور پر جاری ہے۔

خلافتِ احمدیہ کے ذریعے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا جہاد جاری ہے اور شیطان کے ساتھ ایک جنگ کا محاذ قائم ہے۔ مومنین کی جماعت اَلْاِمَامُ جُنَّةٌ يُقَاتِلُ مَنْ وَرَائِهٖ کے مطابق دُشمن کے ہر وار کا جواب خلیفۂ وقت کی رہنمائی میں دیتی ہے۔ خلافتِ احمدیہ کے ذریعے حقوق العباد کی نگرانی ہو رہی ہے اور یہ نسلِ انسانی کے لئے ایک عظیم انعام ہے،خلافتِ احمدیہ کے ذریعے کمزوروں اور ضرورت مندوں کی حاجات کو پورا کرنے کے لئے منظّم کام جاری ہے۔

جس طرح تمام کائنات ایک کششِ ثقل کے ذریعے اپنے مرکز کے گرد گھوم رہی ہے اور جسمِ انسانی میں بھی دل کی شکل میں ایک مرکز مقرر کر دیا گیا ہے جس کا رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نہایت ہی عمدہ طور پر ذکر فرمایا ہے آپؐ کا فرمان ہے اَلَا وَاِنَّ فِي الْجَسَدِ مُضْغَةً اِذَا صَلَحَتْ صَلَحَ الْجَسَدُ كُلُّهُ، وَاِذَا فَسَدَتْ فَسَدَ الْجَسَدُ كُلُّهُ اَ لَا وَهِيَ الْقَلْبُ کہ سنو جسم میں ایک ٹکڑا گوشت کا ہے اگر وہ خراب ہوا تو سارا جسم خراب ہو جائے گا اور اگر وہ درست رہا تو گویا سارا جسم درست ہے ۔ یاد رکھو کہ وہ دل ہے ۔ اسی طرح خلافت جو مِلّت کی زندگی اور مرکزیت کی علامت ہے اس کو اطاعت کی کششِ ثقل کے ساتھ باندھ دیا گیا ہے جس سے اس میں ہر جہت سے بہار آجاتی ہے خلافت اور اطاعت لازم و ملزوم ہیں اگر خلافت نہیں تو اطاعت نہیں اور اگر اطاعت نہیں تو خلافت نہیں ۔

قرآنِ کریم نے خلافت کی اہمیت کا ذکر اس طور پر فرمایا ہے کہ آیتِ استخلاف (النور: 56) کو دونوں جانب سے اطاعت کے غلافوں میں لپیٹ کر پیش کیا ہےاور اس آیت سے پہلے چار متواتر آیات میں یعنی سورة النور کی آیت 52 سے 55 جو اِنَّمَا کَانَ قَوۡلَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ سے شروع ہوتی ہیں اس میں اطاعت کا مضمون بیان فرمایا ہے اور اس کے بعد کی آیت یعنی آیت 57 میں بھی اطاعت کا مضمون جاری رکھا اور خود اس آیتِ استخلاف میں بھی اطاعت کا مضمون بیان فرمایا اور یہی خلافت کی برکت ہے کہ یہ اطاعت کے پانی سے زندہ رہتی ہے اور پھر مِلّت اور افراد کو زندگی بخشتی ہے جس کے تازہ بتازہ پھل ہم خلافتِ احمدیہ کی شکل میں وصول کر رہےہیں۔

خلافت دو طرف کی اجازت کا مرکزی مقام ہے یہ ایک طرف سے لیتی اور دوسری طرف سے دیتی ہے۔ کیونکہ اپنے متّبوع کا ظِل اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ اسی کے سایہ میں سفر کیا جائے اس لئے جس قدر کوئی شخص خلافت کی چھتری کے نیچے چلتا ہے اسی قدر وہ خلیفہ کی ذات اور اس کے متّبوع کی برکات جس کا اصل منبع زمین و آسمان کا خدا ہے اس کی برکات حاصل کرتا ہے۔ جو اطاعت کے دائرے سے باہر نکلتا ہے وہ راندۂ درگاہ ہو جاتا ہے اور شیطان کا ظِل قرار پاتا ہے آنحضرت ﷺ نے فرمایا مَنْ شَذَّ شَذَّ إِلَى النَّارِ جو جماعت سے الگ ہوا وہ آگ میں جا پڑا۔

خلافت اپنی برکتوں کے لحاظ سے ایک ایسی نعمت ہے کہ جس کا اجتماعی اور انفرادی فیض ہوا کی طرح عام اور روشنی کی طرح اہم ہے۔ اس کی برکات کا شمار ممکن نہیں۔ یہ ایسا آسمانی انعام ہے کہ ہمیں زیادہ سے زیادہ اس برکت کے منبع سے فیضیاب ہونے کی کوشش کرنی چاہئے اور اس کی ایک ہی شکل ہے اطاعت، اطاعت اور اطاعت۔

اللہ تعالیٰ ہمیں خلافت کی نعمتوں سے بھر پور طور پر فائدہ اُٹھانے کی توفیق دے۔ ہمارے گھروں کو ان برکات سے بھر دے۔ ہم اور ہماری نسلیں قیامت تک اس فیض سے حصہ پاتی چلی جائیں۔ آمین یا رب العالمین

(امۃ القیوم انجم – کینیڈا)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 26 مئی 2020

اگلا پڑھیں

حضرتِ مسرورکے ہمراہ رہتا ہے خدا