• 24 اپریل, 2024

خلافت کی اطاعت کا حکم اور سلسلہ سے دوری کے نتائج

وَعَدَ اللّٰہُ الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّـهُـمْ فِى الْاَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّـذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِـمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَـهُـمْ دِيْنَهُـمُ الَّـذِى ارْتَضٰى لَـهُـمْ وَلَيُـبَدِّلَـنَّـهُـمْ مِّنْ بَعْدِ خَوْفِهِـمْ اَمْنًا ۚ يَعْبُدُوْنَنِىْ لَا يُشْرِكُـوْنَ بِىْ شَيْئًا ۚ وَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذٰلِكَ فَاُولٰٓئِكَ هُـمُ الْفَاسِقُوْنَ

(النور: 56)

’’تم میں سے جو لوگ ایمان لائےاورنیک اعمال بجالائے ان سے اللہ نے پختہ وعدہ کیا ہے کہ انہیں ضرور زمین میں خلیفہ بنائے گا۔ جیسا کہ اس نے پہلے لوگوں کو خلیفہ بنایا اور ان کیلئے ان کے دین کو، جو اس نے ان کے لیے پسند کیا، ضرور تمکنت عطا کریگا اور ان کی خوف کی حالت کے بعد ضرور انہیں امن کی حالت میں بدل دیگا۔ وہ میری عبادت کریں گے۔ میرے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے اور جو اسکے بعد بھی میری ناشکری کرے تو یہی وہ لوگ ہیں جو نافرمان ہیں۔‘‘

اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کے مقصدِ پیدائش مَا خَلَقتُ الجِنَّ وَالاِنسَ اِلّالِیَعبُدُون کو پورا کرنے کیلئے انبیاءکرام کا سلسلہ جاری فرمایا۔ چنانچہ ہر زمانہ میں اللہ تعالیٰ کے فرستادہ نبی مبعوث ہوتے رہے اور بنی نوع کی ہدایت کا ذریعہ بنے۔ یہ انبیاء زمین میں خدا تعالیٰ کے خلفاء کہلائےاوراپنی تمام زندگی میں لمبی جدّوجہد کے بعد مومنین کی ایک جماعت قائم کرنے میں کامیاب ہوئے۔ لیکن بشریت کے تقاضا کےماتحت اِس جہاں سےکوچ کرگئے۔

جیسا کہ سورۃ النور کی آیت 56 میں خدا تعالیٰ نبی کی وفات کے بعدمومنین کی خوف کی حالت کو امن سے بدلنے کا وعدہ کرتا ہے۔ یہ وعدہ کیسے پورا ہوتا ہے؟ یہ وعدہ خلافتِ حقہ کے قیام کے ذریعہ ہی پورا ہوکرمومنین کی جماعت کو سہارا دیتا ہے۔ جیسا کہ حدیث میں آتا ہے۔ ’’ہر نبوت کہ بعد خلافت ہوتی ہے۔‘‘

(کنزالعمال، کتاب الفتن من قسم الفعال۔ فصل فی متفرقات الفتن جلد 11 صفحہ 115 حدیث نمبر 31444)

اسی سنت کے ماتحت خدا تعالیٰ نے مئی 1908ء کو حضرت مسیح موعود ؑ مرزا غلام احمد قادیانی ؑ کے وصال کے نتیجہ میں افرادِ جماعت کی خوف کی حالت کو حضرت الحاج مولانا نورالدین ؓکے مسندِ خلافت پر متمکن کرنے سے امن میں بدل دیا۔

عطائے خاص سے ہم کو ملی نعمت خلافت کی
سعادت ہے ہمیں حاصل خدا کی اس عنایت کی

خدا تعالیٰ قرآنِ مجید میں مومنین کو حکم دیتا ہے:

وَ اعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًا وَّ لَا تَفَرَّقُوْا

(آلِ عمران:104)

’’اور اللہ کی رسّی کو سب کے سب مضبوطی سے پکڑلو اور تفرقہ نہ کرو‘‘

مذکورہ بالا آیت میں خدا تعالی خلافت کو حبل اللہ یعنی اللہ کی رسّی قرار دیتے ہوئے مومنین کو اسے مضبوطی سے پکڑنے کا حکم دیا ہے۔ حبل اللہ کو مضبوطی سے پکڑنے سے کیا مراد ہے؟ اس سے مراد خلافت کی ایسی اطاعت ہے جو اپنی نظیر آپ ہو۔ خلافت سے محبت اور اسکی اطاعت کو ہی خدا تعالی نے اس زمانے میں عافیت کا حصار قرار دیا ہے اور جو بھی اس رسّی کو چھوڑیگا وہ ذلت کی گہرائی میں گرتا چلا جائیگا۔

حدیثِ نبوی ﷺ میں آتا ہے کہ
’’حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا: تنگ دستی، اور خوشحالی، اور خوشی اور ناخوشی۔ حق تلفی اور ترجیحی سلوک، غرض ہر حالت میں تیرے لیے (حاکم وقت کو) سننا اور اطاعت کرنا واجب ہے۔‘‘

(مسلم کتاب الامارۃ و جوب طاعۃ الامر ائفی معصیۃ و تحریمھافی المعھیۃ حدیث 4754)

پس مذکورہ بالا آیتِ قرآنی اور حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ خلافت اور خلیفہِ وقت کی مکمل اور کامل اطاعت کے بغیر اِن تمام نعمتوں کا حقدار انسان بن ہی نہیں سکتا۔ اور حقیقی محبت، حقیقی اطاعت چاہتی ہے۔ جیسا کے انسان جس سے عشق کرتا ہے تو پھر اسکی ہر بات پہ بغیر کسی سوال کےیقین کر لیتا ہے۔ تو خلیفۂ وقت جو خدا کا چنیدہ وجود ہے اس سے حقیقی محبت اور اسکی اطاعت کا تو معیار ہی کچھ اور ہونا لازم ہے۔ خلیفۂ وقت سے دلی وابستگی کی اہمیت اور فرضیت اس حدیث سے واضح ہوتی ہے۔

’’یعنی اگر تم دیکھ لو کہ اللہ کا خلیفہ زمین میں موجود ہے۔ تو اس سے وابستہ ہو جاؤ اگرچہ تمہارا بدن تار تار کردیا جائے اور تمہارا مال لوٹ لیا جائے۔‘‘

(مسند احمد بن حنبل حدیث 22333)

اس بے پناہ محبت اور قابلِ رشک اطاعت کا مظاہرہ ہم نے اس زمانہ میں حضرت صاحبزادہ عبدالطیف شہیدؓ اور 28 مئی 2010ء کو لاہور میں 80 سے زائد فدائیانِ خلافت کی عظیم الشان قربانیوں کی صورت میں دیکھا۔ جنہوں نے اپنے عہد پورے کر دکھائے وہ رہتی دنیا تک امر ہوگئے۔

حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں۔
’’تم سب امام کے اشارے پر چلو اور اسکی ہدایت سے ذرہ بھر بھی اِدھر اْدھر نہ ہو۔ جب وہ حکم دے بڑھو اور جب وہ حکم دے ٹھہر جاؤ اور جدھر بڑھنے کا حکم دے اْدھر بڑھو اور جدھر سے ہٹنے کا حکم دے اْدھر سے ہٹ جاؤ۔‘‘

(انوارالعلوم جلد 14 صفحہ 515-516)

پس اطاعتِ خلافت درحقیقت وہ کامل محبت ہے جس میں انسان امامِ وقت کی ایسی پیروی کرے جیسے نبض کی حرکت تنفس کی حرکت کی پیروی کرتی ہے اور سَمِعْنَا وَ اَطَعْنَا کی مجسم تصویر بن جائے۔

خدا کا ہے وعدہ خلافت رہے گی
یہ نعمت تمہیں تاقیامت ملے گی
مگر شرط اس کی اطاعت گزاری
رہے گا خلافت کا فیضان جاری

حدیثِ نبوی ﷺ میں آتا ہے۔ حضرت عمر ؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ ’’جس نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت سے اپنا ہاتھ کھینچا وہ اللہ تعالیٰ سے (قیامت کے دن) اس حالت میں ملے گا کہ نہ اس کے پاس کوئی دلیل ہوگی نہ عذر۔ اور جو شخص اس حال میں مرا کہ اس نے امامِ وقت کی بیعت نہیں کی تھی وہ جاہلیت اور گمراہی کی موت مرا۔‘‘

(صحیح مسسلم کتاب باب وجوب ملازمۃ جماعۃ المسلمین)

حضرت مسیح موعودؑکے وصال کے بعد منکرینِ خلافت نے جماعت میں فتنہ پھیلانے کی کوشش کی اور کیسے اپنے آپ کو خلافت سے بالا خیال کیا۔آج ہم اس بات کہ چشم دید گواہ ہیں کہ وہ جو خود کو اس آسمانی نظام سے بالا سمجھتے تھے وہ کہاں ہیں؟ اورجنہوں نے نظام کی پیروی کی خدا نے انکے لیے آخرت میں تو انعام رکھے ہی ہیں ۔لیکن دنیا میں بھی ان کو عزت سے نوازاہے۔ ایک امام کی قیادت میں جماعت دن دگنی رات چوگنی ترقی کرتی چلی جا رہی ہے۔

حضرت مصلح موعودرضی اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔
’’جس طرح وہی شاخ پھل لاسکتی ہے جو درخت کے ساتھ ہو، وہ کٹی ہوئی شاخ پھل نہیں لاسکتی جو درخت سے جدا ہو۔ اس طرح وہی شخص سلسلہ کا مفید کام کرسکتا ہے جو اپنے آپ کو امام سے وابستہ رکھتا ہے۔ اگر کوئی شخص امام کے ساتھ اپنے آپ کو وابستہ نہ رکھے تو خواہ وہ دنیا کے علوم جانتا ہو وہ اتنا بھی کام نہیں کرسکے گا جتنا بکری کا بکروٹا۔ پس اگر آپ نے ترقی کرنی ہے اور دنیا پر غالب آنا ہے تو میری نصیحت ہے اور میرا پیغام ہے کہ آپ خلافت سے وابستہ ہوجائیں۔ اس حبل اللہ کو مضبوطی سے تھامےرکھیں۔ ہماری ساری ترقیات کا دارو مدار خلافت سے وابستگی میں ہی پنہاں ہے۔‘‘

(الفضل انٹرنیشنل 23 تا 30 مئی 2003ء)

خلافت اور نظام سے دوری انسان کو خدا سے بھی دور کردیتی ہے۔ یہ بات ہمارے روز مرہ کے مشاہدہ میں آتی ہے کہ جو گھرانے یا جو لوگ خلافت سے دوری اختیار کرتے ہیں۔ ان کی نسلیں تباہی کا شکار ہوجاتی ہیں۔ وہ طرح طرح کی دنیاوی برائیوں میں پڑ جاتے ہیں اور بھٹکی ہوئی بھیڑوں کی طرح ہوجاتے ہیں جن کا کوئی رہنما نہیں ہوتا۔ جس معاشرتی اور اخلاقی تباہی کا شکار باقی دنیا ہے ، خلافت سے کٹ جانے والوں کا بھی ویسا ہی انجام ہوتا ہے۔

حضرت شاہ اسماعیل شہیدؒ لکھتے ہیں۔
’’امامِ وقت سے سرکشی اور روگردانی گستاخی کا باعث ہے۔ امام کے ساتھ خودسری گویا کہ رسول کےساتھ ہمسری ہے۔ خفیہ طور پر رب العزت پر اعتراض ہے کہ ایسے ناقص شخص کو کامل شخص کی نیابت کا منصب عطا ہوا۔ الغرض اس کے توسط کے بغیر قرب الہٰی محض وہم و خیال ہے جو سراسر باطل اور محال ہے۔‘‘

(منصبِ امامت صفحہ 111ـ از شاہ اسماعیل شہید مترجم محمد حسین علوی مطبوعہ حاجی اینڈ سنز لاہور)

اللہ تعالیٰ ہم سب کو خلافت کا حقیقی فدائی بننے اور اس حبل اللہ سے چمٹے رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

(سدرۃالمنتہٰی۔کینیڈا)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 26 مئی 2020

اگلا پڑھیں

حضرتِ مسرورکے ہمراہ رہتا ہے خدا