• 20 اپریل, 2024

خلفائے سلسلہ سے وابستہ روح پرور اور پُر شفقت یادیں

ہمارے سید و مولیٰ حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تمہارے بہترین ائمہ وہ ہیں جن سے تم محبت کرتے ہو اور وہ تم سے محبت کرتے ہیں۔ تم ان کے لیے دعا کرتے ہو، وہ تمہارے لیے دعائیں کرتے ہیں۔

(مسلم کتاب الامارۃ)

نظام خلافت کی بے شمار برکات میں سےایک برکت خلیفۂ وقت کی ہستی میںجماعت مومنین کو ایک درد مند اور دعا گو وجود کا نصیب ہوناہے۔ خلیفہ ٔ وقت سنت ِنبوی ؐ کی اقتداء میں جماعت مومنین کے لئے ایک ایسے باپ کی مانندہے جس کی آغوش میں محبت کی گرمی، تحفظ کا احساس اور دعائوں کے خزانوں سےتمام افراد جماعت جھولیاں بھرتے ہیں۔ یہ ایک ایسی نعمت ہے جو سوائے جماعت احمدیہ کےکل عالم میں کسی کو میسر نہیں۔ اس بارے میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: تمہارے لئے ایک شخص تمہارا درد رکھنے والا، تمہاری محبت رکھنے والا، تمہارے دکھ کو اپنا دکھ سمجھنے والا، تمہاری تکلیف کو اپنی تکلیف جاننے والا، تمہارے لئے خدا کے حضور دعائیں کرنے والا ہے۔ مگر ان کے لئے نہیں ہے۔ تمہارا اسے فکر ہے، درد ہے اور وہ تمہارے لئے اپنے مولا کے حضور تڑپتا رہتا ہے لیکن ان کے لئے ایسا کوئی نہیں ہے۔ کسی کا اگر ایک بیمار ہو تو اسکو چین نہیں آتا۔ لیکن کیا تم ایسے انسان کی حالت کا اندازہ کر سکتے ہو جس کہ ہزاروں نہیں لاکھوں بیمار ہوں۔

(انوار العلوم جلد2 صفحہ156)

آج خلفائے احمدیت اس حدیث مبارکہ اور حضرت مصلح موعود ؓ کے اس فرمان کی عملی تصویر ہیں۔ خلفائے احمدیت کی افراد جماعت سے محبت و شفقت کی اس طویل داستان کے نظارے گزشتہ ایک صدی کی تاریخ میں سنہرے حروف میں رقم ہیں ۔ اس بحر بے کنار میں سے ذاتی تعلق کی چند بوندیں قارئین کے پیش خدمت ہیں۔

خلافت رابعہ کے دور میں خاکسار کو صرف ایک بار حضرت خلیفہ المسیح الرابعؒ سے جرمنی میں شرف ملاقات حاصل ہوا جو کہ ہماری شادی کے بعد پہلی ملاقات تھی۔ اس ملاقات کی کچھ دھندلی یادوں میں میرے حافظے میں خلیفۃ المسیح الرابع ؒ کا پرنور چہرہ اور آپکے الفاظ جو آپؒ نے ہم دونوں میاں بیوی کو مخاطب کرکے فرمائے تھے کہ ’’دل مل گئے ہیں ناں‘‘ محفوظ ہیں اور یہ الفاظ دل و دماغ میں ایسے نقش ہوگئے کہ آج تک محو نہیں ہوسکے اور انکی دعا اور ان الفاظ کی تاثیرہےکہ ہم دونوں میاں بیوی میں محبت و انسیت کے تعلق کو قائم ہوئے پچیس سال کا عرصہ گزرچکا ہے۔ الحمد للہ ثم الحمد للہ ۔

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے ہماری پہلی فیملی ملاقات سن 2003 میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کے مسند خلافت پہ متمکن ہونے کے بعد جلسہ سالانہ جرمنی کے موقع پر ہوئی ۔اس دن انتظار کی گھڑیاں بہت طویل ہو گئی تھیں۔ جیسے جیسے وقت گزرتا جاتا تھا دل کی حالت عجیب سی ہوتی جاتی تھی۔ جب ملاقات کا عندیہ موصول ہوا تو ہم بچوں کو لے کے حضور انور کے دفتر میں داخل ہوگئے۔ اس وقت خاکسار کا بیٹا عزیزم ماہد احمد بمشکل سال/ سو اسال کا تھا اور وہ انتظار کرتے کرتے سو گیا تھا۔ اسے ہم نے بمشکل جگایا جسکی وجہ سے وہ کچھ بے چین ہو کے رونے لگ گیا تھا ۔بہرحال اندر جاتے ہی جب حضور انور نے فرمایا یہ کیوں رو رہا ہے؟ تو آپ کی آواز سن کر عزیزم ماہدچند لمحوں میں خاموش ہوگیا ۔ہم پیارے حضور انور کے لئے پھولوں کا گلدستہ بنوا کے لے گئے تھے جو کہ میرے بیٹےعزیزم کاشف محمود (جو اس وقت چھ سال کا تھا) نے پیش کیا ۔دو تین منٹ کی یہ ملاقات جو رسمی تعارف اور تصویر پہ محیط تھی ہماری کل متاع تھی ۔ مگر اس ملاقات کی خاص بات خلافت کا نور، خلیفہ وقت کاعزت و احترام جسمیں محبت کے ساتھ فدائیت کا بھی الگ ہی رنگ غالب تھا جو الفاظ میں بیان کرنا قدرے مشکل ہے کیونکہ زندگی میں کسی خلیفہ وقت سے یہ میری دوسری ملاقات تھی اس لئے آپ ایدہ اللہ تعالیٰ کی عزت و احترام دل میں اسقدر جاں گزیں تھا کہ میں خود سے بات کرنے کا حوصلہ اپنے اندر نہ پا سکی ۔ آپ ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے چہرے پہ نور اتنا تھا کہ نگاہ نہیں اٹھتی تھی اور میں نظر بھر کے دیکھنے کی حسرت دل میں دبائے واپس آگئ ۔بس اتنا یاد ہے کہ حضور انور نے میرے میاں سے کچھ تعارفی سوال کئے تھے جس کے انہوں نے جواب دیے تھے۔ میں تو خاموش نگاہیں جھکائے اس محسن کو سن رہی تھی۔ دو/ تین منٹ کی ملاقات دو /تین سیکنڈ کی سی تیز رفتاری سے گزر گئی۔ باہر جانے سے پہلے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے ازراہ شفقت میرے بیٹوں (عزیزم کاشف محمود اور عزیزم ماہد احمد) کو ازراہ شفقت ایک ایک چاکلیٹ دی تھی ۔بس یہ تھی ہماری پہلی ملاقات ۔اسکے بعد خلافت خامسہ سے ہمارا اصل و مضبوط تعلق حضور انور ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کی خدمت میں لکھے گئے خطوط سے بڑھا جو کہ بدستور اب تک قائم و دائم ہے، الحمد للہ ۔

مجھے یاد پڑتا ہے اسی سال جلسہ سالانہ کے موقع پہ جماعت جرمنی کے واقفین نو کو یہ سعادت نصیب ہوئی تھی کہ وہ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ سے مصافحے کا شرف حاصل کرسکیں ۔ انہیں خوش نصیب بچوں میں عزیزم کاشف محمود بھی شامل تھا جس کو مصافحے کے دوران لمحہ بھر کو روک کر حضور انور نے گال پہ پیار سے تھپکی دی تھی وہی ایک پیار کی نظر اس بچے کا مقدر سنوار گئی اور الحمد للہ آج عزیزم کاشف محمود جامعہ احمدیہ جرمنی میں درجہ ثالثہ کا طالب علم ہے ۔خدا تعالیٰ سے دعا ہے کہ خدا تعالیٰ اسے خلیفہ وقت کا سلطان نصیر بنائے، آمین ثم آمین ۔

یوں تو ہر احمدی کا ہی خلیفہ وقت سے ذاتی تعلق ہے اور سبھی اخلاص و محبت سے آپ کی خدمت میں خطوط بھی ارسال کرتے ہیں اور پیارے حضور انور کی جانب سے بھی جوابا ً جس شفقت و محبت کا اظہار ہوتا ہے اس کیفیت کو وہی بہتر طور سے سمجھ سکتے ہیں جنہوں نے اسکے نظارے خوداپنی زندگیوں میں مشاہدہ کئے ہیں ۔اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ اس تعلق اورمحبت و اخلاص کو مزید بڑھاتا جائے اور ہماری نسلوں کو بھی خلافت احمدیہ سے جوڑ کے رکھے آمین۔ یہ تو تھا ہماری پہلی ملاقات کا احوال ۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا دست ِشفقت: اب خاکسار مزید چند واقعات آپکے ساتھ شئیر کرنا چاہے گی جس میں خلیفہ وقت کی قربت کا احساس اور انکی شفقت کا اظہار ہوتا ہے۔ قصہ کچھ یوں ہے کہ سن 2012 میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ سے ملاقات کا پروگرام بنا کہ اس مرتبہ برطانیہ جا کر ملاقات کا شرف حاصل کیا جائے ۔بس پھر کیا تھا فوری انتظامات کئے جسمیں بنیادی کام ملاقات کی درخواست بھیجنا اور وقت لینا تھا ۔جس دن ہماری ملاقات تھی اتفاق سے اس روز محمود ہال میں ملاقات کرنے والوں کی تعداد زیادہ تھی یا ہمیں محسوس ہورہی تھی۔ لوگ اپنی باری کے منتظر تھے اور خلیفہ وقت سے ملاقات کی خواہش اور بے تابی انکے چہروں سے عیاں تھی۔ انہی پروانوں کی فہرست میں ہم بھی شامل ہوگئے ۔ملاقات کا وقت اگرچہ شام پانچ بجے دیا گیا تھا مگر ہماری بے تابی کا یہ عالم تھا کہ ظہر کی نماز کی ادائیگی کے بعد ہی محمود ہال میں براجمان ہوچکے تھے ۔دل کی دھڑکن گھڑی کی سوئیوں سے زیادہ تیز رفتاری سے چل رہی تھی مگر وقت جیسے ٹھہر گیا تھا یا ہمیں محسوس ہورہا تھا ۔حسن اتفاق ایسا کہ جو وقت دیا گیا تھا اسمیں ملاقات نہ ہوسکی اسی دوران مغرب و عشا ء کی نماز کا وقت ہوگیا اور حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نماز کی ادائیگی کے لئے مسجد فضل تشریف لے گئے ۔ ہماری یہ حالت تھی کہ جیسے پیاسا دریا کے کنارے پر بیٹھا ہو اور سیرابی اسکا نصیب نہ ہو ۔سخت پریشانی کے عالم میں دفتر پرائیویٹ سیکرٹری میں رابطہ کیا کہ اب ہمارا کیا ہوگا َ؟ کیا تشنہ لبی ہمارا مقدر ٹھہرے گی؟مگر انکے امید افزاء جواب سے تن مردہ میں جان پڑ گئ اور ہم سب اہل خانہ بھی نمازکی ادائیگی کے لئے محمود ہال چلے گئے ۔نماز کے فورا ًبعد دوبارہ محمود ہال کا رخ کیا کہ اب ایک لمحہ کی تاخیر بھی جان لیوا محسوس ہورہی تھی ۔بالآخر وہ مبارک گھڑی آن پہنچی جب ہمیں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کے دفتر میں جانے کا پروانہ مل گیا ۔الحمد للہ ۔اب اندر کا احوال ایک الگ داستان ہے ۔دفتر میں داخل ہوتے ہی خاکسار کے اہل خانہ نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ سے مصافحہ کیا اور دست بوسی کا شرف بھی حاصل کیا مگر میں اس سعادت سے محروم تھی ۔ لیکن یہ ملال بھی اس وقت جاتا رہا جب میں نے پیارے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کے آگے اپنا سر کیا (جیسے عموماً پاکستان میں دست شفقت کے لئے چھوٹی بچیاں اور خواتین بڑے بزگوں کے آگے کرتیں ہیں) بس یہ میری خوش نصیبی سمجھیے کہ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے تبسم فرماتے ہوئے دست شفقت میرے سر پہ پھیرا تو گویا مجھے ہفت اقلیم مل گئ۔ ساتھ میں چھوٹے بیٹےعزیزم ذیشان احمد سے گلدستہ وصول کرتے ہوئے از راہ شفقت فرمایا ’’کس کی ٹوپی پہنی ہے؟ ابا کی کہ دادا کی؟ اس سوال پہ سخت خفت محسوس ہوئی کیونکہ ملاقات کے اشتیاق میں ٹوپیاں گھر سے لانا ہی بھول گئے تھے اور اس وقت یہ ٹوپیاں کسی سے مستعار لی گئیں تھیں ۔خیر اس بات کی وضاحت پیش کی کہ ہماری نالائقی تھی کہ ہم سب بھول گئے۔ اس کے بعد حضور انور نے فردا ً فردا ً تینوں بچوں اور میاں صاحب سے بات چیت شروع کی ۔ بچوں سے انکی تعلیم کے بارے میں دریافت کیا جس کا دونوں بڑے بیٹوں نے تو جواب دے دیا مگر عزیزم ذیشان احمد جو اس وقت کافی چھوٹا تھا اور اسکی زبان صاف نہیں تھیں جسکی وجہ سے اسکی بات سمجھ نہیں آتی تھی آپ نے از راہ شفقت اسکی لینگویج تھراپی کے بارے میں دریافت کیا اور کہا کہ اسے مستقل زبان کی تھراپی کروائیں ۔الحمد للہ عزیزم ذیشان احمد اس وقت ساتویں جماعت کا طالب علم ہے اور اسکی زبان بھی اب بہت صاف ہے ۔یہ بچہ بھی میرے نزدیک تو خلیفہ وقت کی دعا کا ہی معجزہ ہے کیونکہ اسکے بارے میں یہاں کے لوکل ڈاکٹرز اور سائیکالوجسٹ نے کئی قسم خدشات کا اظہار کیا تھا جو کہ اللہ کے فضل سے تمام غلط ثابت ہورہے ہیں ۔الحمد للہ ۔میاں صاحب سے انکے کام اور گھر کی بابت پوچھا جس کی خریداری کے سلسلے میں حضور انور کی خدمت میں اکثر تحریر کرتے تھے، اور یہ جان کر کہ خدا تعالیٰ نے ہمیں اپنے فضل اور خلیفہ وقت کی دعائوں کی بدولت وہ گھر عطا کیا ہے تو آپ نے خوشی کا اظہار فرمایا۔ الحمد للہ ثم الحمد للہ ۔ لیکن مجھے اس دوران بھی کوئی بات کرنے کا موقع نہ مل سکا کہ وقت رخصت آن پہنچا ۔پیارے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ فیملی فوٹو بنوا کر جب باہر جانے والی راہداری میں پہنچے تو چونکہ میں سب سے آخر پہ تھی کچھ یاد آنے پر دوبارہ الٹے پائوں دفتر کی جانب چل پڑی ۔حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے مجھے دیکھتے ہی فرمایا ’’اب کیا ہے؟‘‘ میں نے گھبرا کر بے ساختہ کہا ’’پیارے حضور ہمیشہ آپ سے تبرک لینے کی ہمیشہ سے خواہش رہی ہے مگر آج بروقت یاد آگیا تو سوچا آج یہ موقع نہیں گنوا سکتی۔‘‘ یہ سن کر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ مسکرانے لگے اور ساتھ ہی فرمایا کہ ’’کرتی کراتی تو کچھ ہو نہیں تبرک چاہیے‘‘ گھبراہٹ کے عالم میں میری زبان سے بے ساختہ پھسلا ’’نہیں حضور تھوڑا بہت کر لیتی ہوں‘‘ حضور انور نے فرمایا ’’اچھا کیا کرلیتی ہو؟ میں نے جواب میں بتایا کہ خدا تعالیٰ مجھے شعبہ اشاعت اور رسالہ خدیجہ جرمنی میں قلمی معاونت کا موقع دے رہا ہے (اس وقت خاکسار صرف انہی شعبہ جات میں خدمت کی توفیق پا رہی تھی مگر خلیفہ وقت کی زبان مبارک سے نکلے الفاظ اس طرح خدا تعالیٰ کے حضور شرف قبولیت پا گئے کہ اب مجھے کئی شعبہ جات میں خدمت کی توفیق مل رہی ہے، الحمد للہ ثم الحمد للہ)۔ یہ سن کر حضور انور کے تاثرات سے خوشی کا اظہار ہوا اور آپ ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ’’اچھا! ماشاءاللہ پھر تو کافی کچھ کر لیتی ہو۔ (اس دوران حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے ایک رومال اپنے دست مبارک میں پکڑ رکھا تھا جسے آپ اپنی انگوٹھیوں سے رگڑرہے تھے) فرمایا چلو یوں کرو ’’رومال کے ساتھ یہ پین بھی لے لو تمہیں اسکی ضرورت ہوگی‘‘ یوں مجھے آپ نے اپنی بے پایاں شفقت سے مالا مال کردیا ۔میں نہال نہال جب باہر آئی تو میاں اور بچوں نے پوچھا تم کہاں رہ گئی تھیں؟ اور میں دل ہی دل میں مسرور ہو رہی تھی کہ خدا تعالیٰ نے کیسے میرے دل کی مراد سن لی اور مجھے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کی مزید محبت و شفقت سمیٹنے کا موقع فراہم کردیا ۔الحمد للہ ثم الحمد للہ ۔

ہر سال جلسہ سالانہ کے موقع پہ بہت سے بچوں اور بچیوں کی آمین خلیفہ وقت کے مبارک ہاتھوں سے انجام پاتیں ہیں جس پہ نہ صرف وہ بچے اور بچیاں اپنی اس خوش بختی پہ مسرور و شاداں و فرحاں نظر آتے ہیں بلکہ انکے والدین بھی اس نعمت پہ خدا کے حضور شکر گزار ہوتے ہیں ۔اس سے بڑھ کے سعادت اور خوش بختی کی بات کیا ہوسکتی ہے کہ کوئی بچی یا بچہ خلیفہ وقت کے پہلو میں بیٹھ کے انکی قربت سے سرفراز ہو اور آپ ان سے کلام الہٰی سنیں سو یہ خوش بختی عزیزم ماہد احمد کے حصے میں بھی آئی اور سن 2013 کے جلسہ سالانہ کے موقع پہ اسکی آمین حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھوں ہوئی جو کہ ہم سب کے لیے باعث سعادت اور موجب برکت ہے، الحمد للہ ثم الحمد للہ ۔

ایک واقعہ 2014ء کا ہے۔ اس سال خاکسار کے والد پاکستان سے لندن برطانیہ کے جلسہ سالانہ میں شامل ہوئے اور ہم لوگ جرمنی سے برطانیہ گئے تھے ۔یوں اُن سے ملاقات کا ذریعہ بھی ہو گیا اور اُن کے طفیل ہماری حضور انور سے ملاقات بھی ہو گئی ۔ قصہ کچھ یوں ہے کہ ابو جان کی ملاقات تھی حضور انور کے ساتھ تو ہم نے پرائیویٹ سیکرٹری صاحب سےبات کی کہ ہمیں بھی اجازت دی جائے کہ ہم بھی ان کے ساتھ حضور انور سے ملاقات کر لیں تو انہوں نے کوئی واضح جواب نہیں دیا یعنی نہ ہاں میں اور نہ ہی واضح انکار میں۔ سو ہم ملاقات کے دن دعائیں پڑھتے ہوئے مسجد فضل پہنچ گئے ،بلکہ ٹریفک میں پھنس جانے کی وجہ سے آدھا گھنٹہ سے زائد کی تاخیر سے پہنچے۔ یوں لگ رہا تھا کہ اب تو ملاقات نہیں ہو پائے گی ۔ مگر خوش قسمتی کہ ابھی ہماری باری نہیں آئی تھی کیونکہ محمود ہال کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ بہر حال جب ملاقات کے لئے بلایا گیا تو جن صاحب کی حضور انور کے دفتر کے باہر بلانے کی ڈیوٹی ہوتی تھی انہوں نے ہمیں اندر جانے سے منع کر دیا کہ یہاں پر تو صرف ایک آدمی کا نام لکھا ہے آپ لوگ کہاں اندر جا رہے ہیں ۔ ہم نے اصرار کیا تو کہنے لگے آپ اندر جا کر حضور انور سے پوچھ لیں اگر وہ اجازت دیتے ہیں تو باقی افراد بھی اندر جا سکیں گے ورنہ نہیں ۔ اس پر والد صاحب جلدی سے اندر گئے اور حضور انور سے درخواست کی کہ میری بیٹی ، داماد اور بچے باہر انتظار کر رہے ہیں اگر اجازت ہو تو میں انہیں بھی اندر بلا لوں تو اس پر حضور نے ازراہِ شفقت ہمیں بھی ملاقات کی اجازت مرحمت فرما دی۔ یہ جلسہ سے ایک دو روز پہلے کا واقعہ ہے ۔اسی جلسہ سالانہ پر میری چھوٹی بہن (جو کہ مسقط میں مقیم ہے) کو اپنی یونیورسٹی میں اوّل پوزیشن حاصل کرنے پر عورتوں والے اجلاس میں حضور انور سے سونے کا تمغہ ملنا تھا۔ مگر وہ چند ذاتی وجوہات کی بناء پر خود نہیں پہنچ پائی اور یہ سعادت بھی میرے حصے میں آئی کہ میں اس کا تمغہ حضور انور کے دستِ مبارک سے وصول کروں ۔چنانچہ جب ہفتہ کے روز میں اس کا تمغہ وصول کرنے اسٹیج پر گئی تو حضور انور نے مجھے دیکھتے ہی فرمایا آج پھر آگئی ہو؟ یہ الفاظ سن کر میری خوشی کی انتہا نہ رہی کہ حضور انور نے مجھے پہچان لیا کہ دو تین دن قبل ملاقات ہوئی تھی۔ پھر پوچھنے لگے ’’اپنا ہے؟‘‘ میں نے کہا کہ نہیں حضور بہن کا ہے تو فرمانے لگے کہ ’’اچھا توچلو لے لو‘‘۔ یہ بات اوریہ واقعہ اتنا پیارا ہے کہ جب بھی میں آنکھیں موندتی ہوں تو چشمِ تصور میں وہ منظر میری نگاہوں کے سامنے آجاتا ہے اور ہر بار مجھے ایک نئی لذت سے ہمکنار کرتا ہے ۔الحمد للہ ثم الحمد للہ۔

اسی طرح سن 2017 میں خاکسار کے بیٹے عزیزم کاشف محمود نے جامعہ احمدیہ جرمنی میں داخلے کی درخواست اور امتحان دیا اور حسن اتفاق کہ امتحان سے تیسرے دن بزور منگل ہماری حضور انور سے برطانیہ میں ملاقات تھی ۔جب ملاقات کے لئے حضور انور کی خدمت میں حاضر ہوئے تو حسب معمول پیارے حضور نے بچوں سے بات چیت کا آغاز فرمایا اور عزیزم کاشف محمود کے بتانے پہ کہ میں نے Abitur کیا ہے اور اب جامعہ احمدیہ میں داخلے کا خواہش مند ہو ں ، حضور انور نے پوچھا ’’کہیں اور بھی اپلائی کیا ہے‘‘ اس نے جواب دیا ’’نہیں حضور میں نے کہیں اور اپلائی کرنے کے بارے میں تو سوچا ہی نہیں‘‘ اس پہ حضور انور نے مزید استسفار فرماتے ہوئے فرمایا ’’ٹیسٹ کیسا ہوا ہے؟‘‘ اس نے بتایا کہ بہت اچھا تو نہیں ہوا بس ٹھیک ہی ہوگیا ہے۔ سکول کی پڑھائی کی وجہ سے تیاری کامناسب موقع نہیں مل سکا ۔ حضور انور نے فرمایا اچھا کیا نام ہے تمہارا میں لسٹ میں چیک کرتا ہوں ۔(اس دوران آپ بچوں کو پین عنایت کر رہے تھے) پھر اچانک عزیزم کاشف سے پوچھا ’’سورۃ فاتحہ آتی ہے تمہیں؟‘‘ تو عزیزم کاشف نے جواب دیا ’’جی حضور آتی ہے‘‘ فرمانے لگے ’’تو پھر کیا پریشانی ہے تم ٹیسٹ میں پاس ہو۔‘‘ یہ مبارک الفاظ ہی اسکی کامیابی کا پیش خیمہ ثابت ہوئے ہم سب نے اسے باہر آکر مبارک باد دی کہ اب تو حضور انور نے فرمادیا ہے تو فکر کی بات نہیں تم ان شاء اللہ کامیاب ہوجائو گے۔چند دن بعد ہی جامعہ احمدیہ جرمنی سے خط موصول ہوا کہ خدا تعالیٰ کے فضل و کرم سے اسے جامعہ میں داخلہ مل چکا تھا اور اب وہ ماشاء اللہ درجہ ثالثہ کا طالب علم ہے ۔الحمد للہ علی ذالک ۔

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز تمام احباب جماعت کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
’’کون سا ڈکٹیٹر ہے جو اپنے ملک کی رعایا سے ذاتی تعلق بھی رکھتا ہو۔ خلیفۂ وقت کا تو دنیا میں پھیلے ہوئے ہر قوم اور ہر نسل کے احمدی سے ذاتی تعلق ہے۔ ان کے ذاتی خطوط آتے ہیں جن میں ان کے ذاتی معاملات کا ذکر ہوتا ہے۔ ان روزانہ کے خطوط کو ہی اگر دیکھیں تو دنیا والوں کے لئے ایک یہ ناقابل یقین بات ہے۔ یہ خلافت ہی ہے جو دنیا میں بسنے والے ہر احمدی کی تکلیف پر توجہ دیتی ہے۔ ان کے لئے خلیفۂ وقت دعا کرتا ہے۔

کون سا دنیاوی لیڈر ہے جو بیماروں کے لئے دعائیں بھی کرتا ہو۔ کون سا لیڈر ہے جو اپنی قوم کی بچیوں کے رشتوں کے لئے بے چین اور ان کے لئے دعا کرتا ہو۔ کون سا لیڈر ہے جس کو بچوں کی تعلیم کی فکر ہو۔ حکومت بیشک تعلیمی ادارے بھی کھولتی ہے۔ صحت کے ادارے بھی کھولتی ہے۔ تعلیم تو مہیا کرتی ہے لیکن بچوں کی تعلیم جو اس دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں ان کی فکر صرف آج خلیفۂ وقت کو ہے۔ جماعت احمدیہ کے افراد ہی وہ خوش قسمت ہیں جن کی فکر خلیفۂ وقت کو رہتی ہے کہ وہ تعلیم حاصل کریں۔ ان کی صحت کی فکر خلیفۂ وقت کو رہتی ہے۔ رشتے کے مسائل ہیں۔ غرض کہ کوئی مسئلہ بھی دنیا میں پھیلے ہوئے احمدیوں کا چاہے وہ ذاتی ہو یا جماعتی ایسا نہیں جس پر خلیفۂ وقت کی نظر نہ ہو اور اس کے حل کے لئے وہ عملی کوشش کے علاوہ اللہ تعالیٰ کے حضور جھکتا نہ ہو۔ اس سے دعائیں نہ مانگتا ہو۔ مَیں بھی اور میرے سے پہلے خلفاء بھی یہی کچھ کرتے رہے۔

مَیں نے ایک خاکہ کھینچا ہے بے شمار کاموں کا جو خلیفہ وقت کے سپرد خدا تعالیٰ نے کئے ہیں اور انہیں اس نے کرنا ہے۔ دنیا کا کوئی ملک نہیں جہاں رات سونے سے پہلے چشم تصور میں مَیں نہ پہنچتا ہوں اور ان کے لئے سوتے وقت بھی اور جاگتے وقت بھی دعا نہ ہو۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 06؍جون 2014ء بمقام فرانکفرٹ۔ جرمنی)

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے 11مئی 2003ء کو احباب جماعت کے نام ایک خصوصی پیغام میں فرمایا :۔
’’… پس اس قدرت کے ساتھ کامل اخلاص و محبت اور وفا اور عقیدت کا تعلق رکھیں اور خلافت کی اطاعت کے جذبہ کو دائمی بنائیں اور اس کے ساتھ محبت کے جذبہ کو اس قدر بڑھائیں کہ اس محبت کے بالمقابل دوسرے تمام رشتے کمتر نظر آئیں امام سے وابستگی میں ہی سب برکتیں ہیں اور وہی آپ کے لئے ہر قسم کے فتنوں اور ابتلائوں کے مقابلہ کے لئے ایک ڈھال ہے۔‘‘

(الفضل انٹر نیشنل 23 تا30؍مئی 2003ء)

الحمد للہ ۔ آج ہم ان خوش نصیبوں میں شامل ہیں جنہیں امام ِوقت کا قرب نصیب ہوا جو خلافت کے گھنے شجر سے وابستہ ہیں۔اس کی برکتوں کے نظارے ہم دن رات دیکھتے ہیں ۔خدا تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ خلافت سے ہمارا اور ہماری اولاد کا پختہ تعلق قائم فرمائے اور اسے مزید بڑھاتا چلا جائے ۔ آمین ثم آمین۔

(درثمین احمد۔ جرمنی)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 26 مئی 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 27 مئی 2021