• 24 اپریل, 2024

استغفار کس طرح کرنی چاہئے؟

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
پس حقیقی استغفار کرنے والے اور عبادتوں کے معیار حاصل کرنے کی کوشش کرنے والے کی یقیناً خدا تعالیٰ رہنمائی فرمائے گا اگر وہ سچے جانشین کی حقیقی اِتّباع بھی کرنے والا ہو اور اُس کے حکموں پر چلنے والا بھی ہو۔ وہ اُس کے بھیجے ہوئے فرستادے کو قبول کرے پھر اُس تعلیم پر عمل کرے جو دی جا رہی ہے۔ بہر حال جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کا علاج استغفار بتایا ہے۔

دوسری آیت جو میں نے تلاوت کی ہے اس میں استغفار کا طریق سکھایا گیا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ استغفار کس طرح کرنی ہے۔ اس کا ترجمہ یہ ہے کہ: نیز یہ کہ تم اپنے رب سے استغفار کرو پھر اس کی طرف توبہ کرتے ہوئے جھکو تو تمہیں وہ ایک مقررہ مدت تک بہترین سامانِ معیشت عطا کرے گا اور وہ ہر صاحبِ فضیلت کو اُس کے شایانِ شان فضل عطا کرے گا۔ اور اگر تم پِھر جاؤ تو یقیناً مَیں تمہارے بارے میں ایک بہت بڑے دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں۔ پس جیسا کہ میں نے کہا کہ حقیقی استغفار کرنے والے کی اللہ تعالیٰ رہنمائی فرماتاہے۔ اس آیت کے شروع میں اس حقیقت کو اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ سے بخشش مانگو۔ اُس سے اُس کی مدد کے طالب ہو، اُس سے دعائیں کرو کہ وہ تمہارے دلوں کے زَنگ دھو کر خالص بندہ بنا دے۔ تو اللہ تعالیٰ پھر اپنے وعدے کے مطابق مدد فرماتا ہے۔ لیکن اگر ایک شخص آج ایک راستہ اختیار کرتا ہے، کل دوسرا راستہ اختیار کرتا ہے، استغفار میں مستقل مزاجی نہیں ہے تو اللہ تعالیٰ کے نزدیک یہ استغفار نہیں ہے۔

پس حقیقی استغفار یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے اُن جذبات و خیالات سے بچنے کی دعا مانگی جائے جو خدا تعالیٰ کو ناپسند ہیں اور خدا تعالیٰ تک پہنچنے میں روک ہیں اور جب یہ معیار حاصل ہو جائے گا، یہ جذبات دبانے کی صلاحیت پیدا ہو جائے گی تو پھر تُوْبُوْٓا اِلَیْہِ کی حالت پیدا ہو گی۔ وہ حالت پیدا ہو گی جب انسان پھر مستقل مزاجی سے اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنے کی کوشش کرتا ہے اور پھر جب یہ حالت ہو تو بندہ اللہ تعالیٰ کا مقرب بن جاتا ہے۔

پس ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ حقیقی استغفار اور توبہ صرف الفاظ دہرا لینا یا منہ سے اَسْتَغْفِرُاللّٰہَ اَسْتَغْفِرُاللّٰہَ کہہ دینا کافی نہیں ہے بلکہ ساتھ ہی اپنی حالت کی تبدیلی کی کوشش کرنا بھی ضروری ہے اور یہی اللہ تعالیٰ کا قرب دلاتی ہے۔ جب انسان اپنی حالت میں تبدیلی پیدا کرتا ہے تو پھر انسان کے لئے جیسا کہ پہلے بھی بیان ہوا ہے دینی اور دنیاوی فائدے ملتے ہیں۔ دنیا و آخرت کے فائدے اسی میں ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا مورد انسان بنتا ہے۔

(خطبہ جمعہ 13؍ جنوری 2012ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 26 جولائی 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 27 جولائی 2021