• 23 اپریل, 2024

سیّدنا حضرت امیر المؤمنین کا دورہ امریکہ 2022ء (قسط 7)

سیّدنا امیر المؤ منین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
کا دورہ امریکہ 2022ء
2؍اکتوبر 2022ء بروز اتوار
قسط 7

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے صبح پانچ بج کر 50 منٹ پر مسجد فتح عظیم تشریف لا کر نماز فجرپڑھائی۔ نماز کی ادائیگی کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنی رہائش گاہ پر تشریف لے گئے۔

•صبح حضور انور نے ڈاک ملاحظہ فرمائی اور ہدایات سے نوازا۔

•آج پروگرام کے مطابق Zion سے Dallas کے لیے روانگی تھی۔ صبح سے ہی زائن اور دیگر مختلف جماعتوں سے آئے ہوئے احباب جماعت، مرد و خواتین کی ایک بڑی تعداد اپنے پیارے آقا کو الوداع کہنے کے لیے جمع تھی۔

دس بج کر55 منٹ پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنی رہائش گاہ سے باہر تشریف لائے۔ پروگرام کے مطابق لوکل مجلس عاملہ، جماعت زائن نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ تصویر بنوانے کی سعادت پائی۔ ٹرانسپورٹیشن ٹیم اور ضیافت ٹیم نے بھی گروپ تصاویر بنوانے کا شرف پایا۔

خواتین ایک علیحدہ حصہ میں کھڑی تھیں۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ اس جگہ کی طرف تشریف لے آئے۔ السلام علیکم حضور! کی آوازیں ہر طرف سے آ رہی تھیں۔ بڑے جذباتی مناظر تھے۔ حضور انور اپنا ہاتھ بلند کرکے ان کے سلام کا جواب دے رہے تھے۔ ہر طرف سے پرجوش نعرے بلند ہو رہے تھے۔ آگے کچھ فاصلے پر بچیاں الوداعی دعائیہ نظمیں پڑھ رہی تھیں۔ بعد ازاں حضور انور بچیوں کے پاس تشریف لائے۔ پھر یہاں سے اس حصہ کی طرف تشریف لے گئے جہاں مرد حضرات کھڑے تھے اور بڑے پرجوش انداز میں نعرے لگا رہے تھے۔ حضور انور اپنا ہاتھ بلند کرکے اپنے ان عشاق کے والہانہ نعروں اور سلام کا جواب دے رہے تھے۔ایک افریقن دوست غیر معمولی جوش اورپُر شوکت آواز میں نعرے لگا رہے تھے۔ حضور انوراس دوست کے پاس سے گزرتے ہوئے کچھ دیر کے لئے کھڑے ہوئے اور فرمایا غانین ہو۔ تو اس نے اثبات میں سر ہلا دیا کہ میں غانین ہوں۔

•مربی سلسلہ امریکہ مصور احمد صاحب اپنے نومولود بیٹے کو لیے ہوئے کھڑے تھے۔ حضورانور نے بچے کو پیار کیا اور بعدازاں تصویر بنوانے کا شرف بھی عطا فرمایا۔ حضور انور قریبا ًدس منٹ اپنے عشاق کے درمیان موجود رہے۔

ڈیلس کو روانگی

اس دوران حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے ازراہ شفقت ڈاکٹر تنویر احمد صاحب سے بعض امور پر گفتگو فرمائی۔ ڈاکٹر تنویر احمد بطور ڈاکٹر قافلہ کے ساتھ ڈیوٹی پر ہیں۔

گیارہ بج کر دس منٹ پر حضور نے دعا کروائی اور سب کو السلام علیکم کہا اور قافلہ انٹرنیشنل ایئرپورٹ شکاگو کے لیے روانہ ہوا۔

بارہ بج کر 5 منٹ پر حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ کی شکاگو ایئرپورٹ پر تشریف آوری ہوئی۔ حضو ر انور ایک پرائیویٹ لاؤنج میں تشریف لے آئے۔

•جماعت احمدیہ امریکہ نے شکاگو (Chicago) سے Dallas تک سفر کے لیے American Airlines کے ایک چارٹرڈ جہاز ERJ175 کا انتظام کیا تھا۔ اس جہاز میں 76سیٹیں تھیں۔ یہ جہاز لاؤنج کے سامنے چند قدم پر پارک کیا گیا تھا۔ حضور انور کی آمد سے قبل سفر کرنے والے تمام احباب کا سامان جہاز میں لوڈ کیا جا چکا تھا۔

•اس جہاز میں سفر کرنے والے احباب کی تعداد69 تھی۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز، حضرت بیگم صاحبہ مدّ ظلّہا العالی اور قافلہ کے ممبران کے علاوہ اس جہاز میں سفر کرنے والوں میں امیر جماعت احمدیہ امریکہ صاحبزادہ مرزا مغفور احمد صاحب، محترمہ امۃ المصور صاحبہ اہلیہ امیر صاحب امریکہ اور محترمہ نقاشہ احمد صاحبہ، نائب امراء میں سے ڈاکٹر حمید الرحمن صاحب، ڈاکٹر نسیم رحمت اللہ صاحب، فلاح الدین شمس صاحب، وسیم ملک صاحب اور اظہر حنیف صاحب نائب امیر مبلغ انچارج شامل تھے۔

علاوہ ازیں عدیل عبداللہ صاحب صدر مجلس خدام الاحمدیہ امریکہ، نیشنل جنرل سیکرٹری مختار ملہی صاحب، فیضان عبداللہ صاحب چیئرمین میڈیکل ایسوسی ایشن امریکہ، منعم نعیم صاحب چئیر مین ہیومینٹی فرسٹ امریکہ، شریف عودہ صاحب امیر جماعت کبابیر اور ڈاکٹر تنویر احمد صاحب بطور ڈیوٹی ڈاکٹر شامل تھے۔

اس کے علاوہ مختلف جماعتوں کے صدران، مربیان، نیشنل عاملہ کے مختلف سیکرٹریان اور دیگر جماعتی عہدیداران بھی شامل تھے۔

امریکن ائیر لائن کے Eric Adduchio بطور کو آرڈی نیٹر اس سفر میں شامل تھے۔

خلافت فلائیٹ

جو بورڈنگ پاس مہیا کیا گیا اس پر Khilafat Flight 2022 لکھا ہوا تھا۔ فلائٹ کا نمبر KF-2022 تھا۔

بورڈنگ کارڈ کے ایک طرف یہ الفاظ درج تھے

Ahmadiyya Muslim Community USA(100) 1920 – 2020 Centennial Khilafat Flight in the company of Hazrat Mirza Masroor Ahmad Khalifatul Masih 5 (aba)

جہاز پر سوار ہونے سے قبل، سفر کرنے والے تمام احباب جہاز کے سامنے کھڑے تھے۔ جب حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ تشریف لائے تو تمام احباب نے اپنے پیارے آقا کے ساتھ گروپ فوٹو بنانے کی سعادت پائی MTA نے یہ تمام مناظر فلمائے۔

•بارہ بج کر 50 منٹ پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ جہاز پر سوار ہوئے۔ بارہ بج کر 58منٹ پر جہاز شکاگو کے انٹرنیشنل O, Hare ایئرپورٹ سے ڈیلس کے لیے روانہ ہوا اور قریباً دو گھنٹے کے سفر کے بعد دو بج کر پچپن منٹ پر ڈیلس کے انٹرنیشنل Fort Worth ائیر پورٹ پر اترا اور ٹیکسی کرتا ہوا ایک ایسے Exit Gate پر آکر پارک ہوا جہاں سے باہر جانے کا راستہ انتہائی کم تھا اور قریب ہی گاڑیاں پارک کی گئی تھیں۔

جو نہی حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ایئرپورٹ سے باہر تشریف لائے تو صدر جماعت ڈیلس خالد رحیم شیخ صاحب، مبلغ سلسلہ ڈیلس ظہیر احمد باجوہ صاحب اور صدر جماعت فورٹ ورتھ سعید چوہدری صاحب نے حضور انور کو خوش آمدید کہا۔

• تین بج کر دس منٹ پر ایئرپورٹ سے ڈیلس جماعت کے مرکز ’’مسجد بیت الاکرام‘‘ کے لئے روانگی ہوئی۔ پولیس کی گاڑیوں اور موٹرسائیکلوں نے قافلے کو Escort کیا اور راستہ کو ساتھ ساتھ کلیئر کیا۔ قریباً چالیس منٹ کے سفر کے بعد حضورایدہ اللہ تعالیٰ کا ڈیلس جماعت کے مرکز میں ورود مسعود ہوا۔

مسجد بیت الا کرام آمد

اپنے پیارے آقا کے استقبال اور حضور انور کے چہرہ مبارک کی ایک جھلک دیکھنے کے لئے ڈیلس جماعت کے احباب جماعت اور امریکہ کی دوسری مختلف جماعتوں اور علاقوں سے حضور کے عشاق سینکڑوں کی تعداد میں صبح سے ہی یہاں ’’مسجد بیت الاکرام‘‘ پہنچنا شروع ہوگئے تھے۔ مرد خواتین، بچوں، بوڑھوں کی ایک بڑی تعداد جو ایک ہزار سے زائد تھی اپنے آقا کی آمد کی منتظر اور زیارت کے لیے بے تاب تھی۔

(ڈیلس) Dallas ڈیلس کی مقامی جماعت کے علاوہ یہ عشاق

Austin, Houston, Fort Worth, Queens, Mary Land, Tulsa, North Vergenia, San Jose, Sandiago, South Virginia, Bay Point, Central Jersy, Lehigh Valley, Chicago, Richmond, North Jersey, Osh Kosh, Port Land, Brooklyn, Buffalo, Charlotte, Milwaki, York, Boston, Detriot, Kansas City, Long Island, Philadelphia, Pittsburg, Sacramento, Albama, Albany, Baltimor, Cleveland, Hawaii, Miami, Phoenix, Syracus, Wllingboro اور Tuscana

کی جماعتوں سے احباب آئے تھے۔

پھر بعض جماعتوں سے احباب بڑے لمبے اور طویل سفر کرکے اپنے محبوب آقا کے استقبال کے لیے پہنچے تھے۔ میری لینڈ سے آنے والے 1367میل، لاس اینجلس سے آنے والے 1433میل، Queens سے آنے والے احباب 1578میل اور سیاٹل سے آنے والے احباب 2095 میل کا طویل فاصلہ طے کر کے اپنے پیارے آقا کے دیدار اور استقبال کے لیے ڈیلس پہنچے تھے۔

•ان احباب مرد و خواتین میں سے ایک بڑی تعداد ایسے لوگوں کی تھی جنہوں نے اپنی زندگی میں پہلی باراپنے آقا کا دیدار کرنا تھا اور شرف زیارت پانا تھا۔ان کا ایک ایک لمحہ بڑی بے تابی سے گزر رہا تھا۔

آخر وہ انتہائی مبارک اور ہر ایک کی زندگی کا یادگار لمحہ آن پہنچا جب ٹھیک تین بج کر 50 منٹ پر حضور انور کی گاڑی بیرونی گیٹ سے اندر داخل ہوئی۔

جو نہی حضور انور گاڑی سے باہر تشریف لائے تو نائب صدر جماعت ڈیلس خالد ملک صاحب نے مجلس عاملہ جماعت ڈیلس کے ممبران کے ساتھ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کو خوش آمدید کہا۔ دوسری طرف احباب مسلسل والہانہ نعرے بلند کر رہے تھے۔ ہر طرف سے السلام علیکم حضور! ’’انی معک یا مسرور‘‘ کی صدائیں بلند ہورہی تھیں۔ حضور انور نے اپنا ہاتھ بلند کرکے سب کو السلام علیکم کہا۔ دوسری طرف احباب کے ہاتھ بلند ہوگئے۔ ہر ایک شرف زیارت سے فیض یاب ہو رہا تھا۔ خواتین اور بچیاں جہاں شرف زیارت کی سعادت پا رہی تھیں وہاں اپنے ہاتھ ہلاتے ہوئے اپنے آقا کو خوش آمدید کہہ رہی تھیں۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کا ڈیلس (Dallas) کا یہ پہلا دورہ تھا۔ آج ڈیلس کی سرزمین بھی ان خوش قسمت زمینوں میں شامل ہوں گی جہاں حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس کے مبارک قدم پڑے ہیں۔ اب اللہ کے فضل سے یہاں بھی ترقیات کے نئے راستے کھلیں گے اور ان شاء اللہ العزیز کامیابیوں اور فتوحات کے ایک نئے دور کا آغاز ہو گا۔

•حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کے قیام کا انتظام مسجد بیت الاکرام کے بیرونی احاطے میں واقع گیسٹ ہاؤس میں کیا گیا تھا۔ حضور انور احباب جماعت کے درمیان سے گزرتے ہوئے اپنی رہائش گاہ پر تشریف لے گئے۔

• حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نےآج پانچ بج کر پندرہ منٹ پر مسجد بیت الاکرام میں تشریف لاکر نماز ظہر و عصر جمع کرکے پڑھائی۔ نمازوں کی ادائیگی کے بعد اپنی رہائش گاہ پر واپس جاتے ہوئے حضور انور یہاں کے مرکزی کچن میں تشریف لے آئے جو بطور لنگر خانہ کام کر رہا ہے اور یہاں احباب کے لیے کھانا تیار ہو رہا تھا۔

حضور انور نے انتظامیہ سے کھانے کے بارہ میں اور اس کی مقدار کے بارہ میں دریافت فرمایا۔ نیز فرمایا جو دیگچے کھانا پکانے کے لئے آپ نے رکھے ہوئے ہیں وہ سائز میں چھوٹے ہیں۔ منتظمین نے بتایا کہ وہ ایک ہزار افراد کا کھانا یہاں تیار کرسکتے ہیں۔ اس وقت شام کا کھانا یہاں تیار کیا جارہا تھا۔ یہاں جائزہ کے بعد حضور انور اپنی قیام گاہ پر تشریف لے گئے۔

مسجد اور ملحقہ علاقے کی سجاوٹ

•مسجد بیت الاکرام اور اس سے ملحقہ آفس بلاک اور ہالز و غیرہ کو بجلی کے رنگ برنگے قمقموں سے سجایا گیا ہے اور بیرونی احاطہ میں درختوں کو بھی رنگ برنگی روشنیوں سے سجایا گیا ہے۔ حضور انور کی رہائش گاہ پر بھی چراغاں کیا گیا ہے۔ دن ڈھلنے کے ساتھ ہی جماعت کا یہ مرکز جو چار ایکڑ رقبے پر پھیلا ہوا ہے روشنیوں سے مزین ہو جاتا ہے اور ایک بہت خوبصورت منظر پیش کرتا ہے۔ جماعت کا یہ مرکز مین ہائی وے پر واقع ہے۔ ہزارہا مسافر وہاں سے گزرتے ہیں جو اس منظر کا نظارہ کرتے ہیں۔

•حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے ساڑھے آٹھ بجے مسجد بیت الاکرام تشریف لا کر نماز مغرب و عشا جمع کرکے پڑھائی۔ نمازوں کی ادائیگی کے بعد حضور انور اپنی قیام گاہ پر تشریف لے گئے۔

•حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے دور ہ زائن اور مسجد فتح عظیم کے افتتاح کے حوالہ سے دنیا بھر میں غیرمعمولی کوریج ہوئی ہے۔

1۔ امریکن نیوزایجنسیAssociated Press) AP) نے حضور انور کے دورہ زائن اور مسجد فتح عظیم کے اختتام کے حوالہ سے ایک مضمون شائع کیا جس کا عنوان ہے

Two Prophets, century old prayer duel inspire Zion Mosque

یعنی کہ دہ نبیوں کے درمیان صدیوں پرانا مباہلہ ز ائن مسجد کی بنیاد کا پس منظر ہے۔

اس میڈیا آؤٹ لیٹ کی ویب سائٹ کے مطابق تقریبا دنیا کی آدھی آبادی اس کے قارئین ہیں۔

•بعد ازاں یہ مضمون مجموعی طور پر دنیا کے 13 مختلف ممالک کے 412 آؤٹ لیٹس اور اخبارات میں شامل ہوا، بشمول واشنگٹن پوسٹ (Washington Post) اے بی سی نیوز (ABC News) ٹورنٹو اسٹار (Toronto Star (The Hill اور بہت سے دوسرے مشہور اخبارات ہیں۔ یہ ایسوسی اینڈ پریس (Associated Press) کے ٹاپ 10مضامین میں شامل تھا۔

•اس مضمون میں بتایا گیا کہ
’’زائن میں 115سال پہلے ایک مقدس معجزہ ہوا تھا۔ دنیا بھر کے لاکھوں احمدی مسلمان اس پر یقین رکھتے ہیں۔ احمدی اس چھوٹے شہر کو جو شکاگو سے 40 میل شمال میں Michigan جھیل کے ساحل پر واقع ہے ایک خاص مذہبی حیثیت دیتے ہیں۔

اس شہر سے احمدی جماعت کا لگاؤ ایک صدی سے زیادہ پہلے مباہلہ اور ایک پیش گوئی کے ساتھ شروع ہوا۔

زائن شہر کی بنیاد 1900ء میں ایک مسیحی تھیوکریسی (Theocracy) کے طور پر جان الیگزینڈر ڈوئی نے رکھی تھی جو ایک Evangelist تھا اور ابتدائی پینٹی کوسٹل (Penticostal) مبلغ تھا۔ احمدیوں کا عقیدہ ہے کہ ان کے بانی حضرت مرزا غلام احمد صاحب نے ڈوئی کے اسلام کے خلاف بد زبانی اور حملوں کے جواب میں اسلام کا دفاع کیا اور صرف دعاؤں کا ہتھیار استعمال کر کے روحانی جنگ میں شکست دی۔

تقریباً تمام زائن کے موجودہ باشندوں کو اس پرانے دور کی مقدس لڑائی کا علم نہیں ہے لیکن احمدیوں کے لئے مقدس لڑائی وہ ہے جس نے شہر زائن کے ساتھ ایک ابدی تعلق قائم کیا ہے۔ دنیا بھر سے ہزاروں احمدی مسلمان اس صدی پرانے معجزے کو یاد کرنے کے لیے اور زائن شہر کی تاریخ اور ان کے عقیدے کے لیے اہم سنگ میل‘‘ شہر کی پہلی احمدیہ مسجد کا افتتاح’’ کو منانے کے لیے شہر میں جمع ہوئے ہیں۔

ڈوئی 1847ء میں اسکاٹ لینڈ میں پیدا ہوا تھا۔ اس کا خاندان 1860 میں آسٹریلیا چلا گیا جہاں وہ چرچ کا پادری بن گیا۔

ڈوئی 1888ء میں آسٹریلیا چھوڑ کر امریکہ چلا گیا جہاں وہ اپنی شفا یابی کی Ministry کے ساتھ مشہور ہوا۔

اپنے پیروکاروں کے فنڈز استعمال کرتے ہوئے ڈوئی نے ایک ایسا یوٹوپیا (Utopia) قائم کرنے کی امید میں لیک کاؤنٹی ا، لینوائے (lake County, Illinois) میں 6000 ایکڑ زمین خریدی۔ اس شہر کے قوانین جوا، تھیٹر، سرکس، شراب اور تمباکو سے منع کرتے تھے، اس نے قسم کھانے سے، تھوکنے، ناچنے، سور کا گوشت کھانے، سیپ (Oysters) اور ٹین (Tan) کے رنگ کے جوتوں پر بھی پابندی لگا دی۔1900ء میں بنایا گیا بڑا Shiloh Tabernacle زائن کا مذہبی مرکز بن گیا۔

یہ وہی جگہ تھی جہاں ڈوئی اپنی بڑھتی ہوئی سفید داڑھی کے ساتھ اور پرانے عہد نامے کے ایک اعلی پادری کے چمکدار قلعی والے لباس میں ملبوس نمودار ہوا اور اپنے آپ کو ’’Elijah the Restorer‘‘ قرار دیا۔

اس نے افریقی امریکیوں کو زائن شہر میں جانے کی اجازت دی لیکن اس نے سیاستدانوں، طبی ڈاکٹروں اور مسلمانوں کے لیے سخت الفاظ کہے جن کا اظہار اس نے اپنےجریدے میں کیا۔

1902ء میں ڈوئی نے لکھا: ’’یہ میرا کام ہے کہ میں مشرق و مغرب، شمال اور جنوب سے لوگوں کو اکٹھا کروں اور اس صیہون شہر کے ساتھ ساتھ دوسرے شہروں میں عیسائیوں کو آباد کروں یہاں تک کہ وہ دن آجائے جب محمدی مذہب اس دنیا سے مکمل طور پر ختم ہو جائے۔ اے خدا! ہمیں وہ دن دکھا۔‘‘

احمدیہ مسلم جماعت زائن کے صدر طاہر صوفی نے جماعت کی نئی مسجد میں کھڑے ہوتے ہوئے کہا ’’ڈوئی ہماری تاریخ کا بھی ایک حصہ ہے۔‘‘ جماعت نے اس مسجد کا نام فتح عظیم رکھا ہے جس کا انگریزی مطلب Great Victory ہے۔

یہ چالیس لاکھ ڈالر کی عمارت احمدیہ جماعت کے پرانے مرکز کی جگہ سے دو میل کے فاصلہ پر بنائی گئی ہے۔

اکتوبر میں افتتاح کے لیے یہ نئی جگہ تیار کرتے ہوئے صدر جماعت طاہر صوفی صاحب نے احمدیوں کی نسلوں کو سو سال قبل کے گزرے ہوئے واقعات کے بارے میں بتایا تھا۔ جب بانی سلسلہ احمدیہ جو انڈیا سے تھےانہوں نے ڈوئی کے اسلام کے خلاف نفرت بھرے الفاظ کے بارے میں سنا تو بانی جماعت احمدیہ نے اسے بدزبانی سے باز رہنے کی تاکید کی۔

احمدیوں کا عقیدہ ہے کہ ان کے بانی جو 1835ء میں پیدا ہوئے، وہ مصلح تھے جن کی خوشخبری بانی اسلام نے دی تھی۔ ان کاعقیدہ یہ بھی ہے کہ حضرت مرزا غلام احمد، حضرت عیسیؑ کے مثیل کے طور پر آمد ثانی ہیں۔

صوفی صاحب نے کہا جب ڈوئی نے بانی جماعت احمدیہ کے پیغام کو نظر انداز کیا تو 1902ء میں آپؑ نے زائن کے بانی کو ’’دعا کی لڑائی‘‘ یعنی مباہلہ کا چیلنج دیا۔ نیویارک ٹائمز اور اس وقت کے دیگر امریکی اخبارات میں اس چیلنج کو دو مسیحوں کے درمیان لڑائی کے طور پر بیان کیا گیاتھا۔ یہ معلوم کرنے کے لئے کہ سچا نبی کون سا تھا اور سچا مذہب کون سا تھا۔ بانی جماعت احمدیہ نے تحریری طور پر زور دے کر کہا ’’جو جھوٹا ہے وہ سچے نبی کی زندگی میں ہی ہلاک ہو جائے گا۔‘‘

ڈوئی نے آپ کے چیلنج کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور آپ کے بیانات کہ عیسیٰؑ انسان تھے، مصلوب ہونے سے بچ گئے اور اپنی باقی زندگی کشمیر میں گزاری پر طنز کیا۔ اس نے جواباً لکھا: ’’کیا تم سمجھتے ہو کہ مجھے ایسے مچھروں اور مکھیوں کا جواب دینا چاہیے۔‘‘

اگلے سالوں میں ڈوئی کی شان و شوکت ختم ہونے لگی۔ 1905ء میں ڈوئی کا ایک لیفٹیننٹ ولبر وولیوا نے اس چرچ کی قیادت سنبھالی جب ڈوئی پر اسراف اور فنڈز کے غلط استعمال کا الزام لگایا گیا۔ اس کے بعد ڈوئی کی صحت خراب ہوگئی۔ اس کا انتقال 1907ء میں فالج کے حملے کی وجہ سے ہوا۔

جب کہ حضرت مرزا غلام احمد نے ڈوئی کے انتقال کے ایک سال بعد 73 سال کی عمر میں وفات پائی۔ ان کے پیروکار ڈوئی کے زوال اور موت کو اپنے بانی اور عقیدے کے لئے ایک عظیم فتح سمجھتے ہیں۔

*احمدیہ مسلم جماعت کے امریکی نمائندے امجد محمود خان صاحب نے کہا کہ دنیا بھر کے احمدیوں کے لئے اس مباہلہ نے بانی جماعت احمدیہ کے دعووں کی سچائی کی تصدیق کی۔ یہ ایک ایسا واقعہ ہے جو احمدی بچے دنیا بھر میں اپنے گھروں اور اپنی مساجد میں سن کر بڑے ہوتے ہیں۔

خان نے کہا ’’چاہے آپ میامی (Miami)، مین (Maine)، ساؤتھ ڈکوٹا (south Dicota) یا سیٹل (siattle) میں کسی احمدی سے بات کریں انہیں اس واقعہ کا ضرور پتہ ہوگا اور انہیں سمجھ بھی ہو گی کہ یہ کتنی بڑی فتح تھی۔‘‘

انہوں نے مزید کہا کہ یہ نہیں ہے کہ وہ ڈوئی کے انتقال پر خوش ہیں۔’’ یہ قصہ اسلام پر جھوٹے الزامات کے مقابلے پر فتح ہے، اور یہ قصہ تعصب پر دعا کی فتح کا قصہ ہے۔

•خان نے کہا کہ عالمی احمدیہ جماعت کے موجودہ رہنما اور خلیفہ حضرت مرزا مسرور احمد صاحب نئی مسجد کا افتتاح کرنے کے لئے زائن تشریف لائے ہیں۔

زائن کی احمدیہ کمیونٹی کو اپنی خواتین کی حمایت حاصل ہے جنہوں نے قائدانہ کردار سنبھالنے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ افریقی امریکیوں کی بھی بڑی تعداد اس جماعت میں شامل ہے۔ زائن جماعت میں تقریبا نصف جماعت افریقی امریکن ہے۔

•احمدیہ مسلم جماعت کی خواتین کی صدر ضیاء طاہرہ بکر صاحبہ نے کہا کہ احمدی خواتین نے نئی مسجد کے لیے کل فنڈز کا تقریبا نصف حصہ دیا ہے۔ بکر جو افریقی امریکی ہیں نے تقریباً چالیس سال قبل اسلام احمدیت قبول کیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ثقافت اور زبان کی رکاوٹوں پر قابو پانا مشکل نہیں ہے کیونکہ ان کے عقیدے نے تمام ثقافتوں کے احمدیوں کو ایک دوسرے سے محبت میں باندھ رکھا ہے۔ بکر نے کہا کہ میں نے جوانی میں چائے نہیں پی تھی اور نہ ہی مصالحہ دار کھانا کھایا تھا لیکن مجھے اب پسند ہے۔ جب آپ ایک دوسرے سے بات کرتے ہیں تو آپ یہ سب بھول جاتے ہیں کیونکہ آپ دل سے جڑے ہوتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ مباہلہ اور ڈوئی کی موت نے احمدی مسلمانوں کے لیے زائن شہر میں خدمت کرنے کے راستے کھول دیے ہیں۔

ہم دروازہ کھٹکھٹاتے ہیں اور لوگوں کو بتاتے ہیں کہ انہیں ہم مسلمانوں سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ بکر نے کہا ’’یہ ضروری ہے کہ ہم یہ کام اپنے بچوں کے لئےکریں تاکہ ہم ان تمام غلط فہمیوں کو دور کرسکیں۔‘‘

احمدی اپنے مینار کی تعمیر میں آگے بڑھ رہے ہیں جو انہیں امید ہے کہ اگلے سال مکمل ہو جائے گا۔ مینار اسلام کی عالمی علامت ہے۔ مینار کی تعمیر ڈوئی کے عیسائی یو ٹوپیا کے وژن (Vision) کے بالکل برعکس ہوگی۔

جلد ہی زمین سے 70 فٹ بلند مسجد کا مینار ڈوئی کے ہی شہر کا سب سے اونچا مینار ہوگا۔

امریکن نیوز ایجنسی (AP (Associated Pressکا یہ آرٹیکل امریکہ کے 200 اخبارات پرنٹ میڈیا میں اور 176 آن لائن اخبارات میں شائع ہواہے۔

•علاوہ ازیں کینیڈا میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے دور ہ زائن اور مسجد فتح عظیم کے افتتاح کی کوریج بہت وسیع پیمانے پر ہوئی۔

•کینیڈا میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے 9 بڑے اخبارات اور 6آن لائنpublications اور ایک ریڈیو اسٹیشن کے ذریعہ دورہ زائن کی کوریج ہوئی اور کینیڈا میں 8 لاکھ 57 ہزار لوگوں تک یہ پیغام پہنچا۔

امریکہ کینیڈا کے علاوہ یو کے، یونان، سیرالیون، تائیوان، انڈیا، ہانگ کانگ، پیرو، فلپائن، ساؤتھ افریقہ، تنزانیہ اور ویتنام کے آن لائن اخبارات نے بھی کوریج دی ہے۔

•امریکن نیوزایجنسی (App (Associated Press جس کے ذریعہ زائن مسجد کے افتتاح کی خبر ساری دنیا میں پہنچی ہے اس کا تعارف درج ذیل ہے۔

•یہ دنیا کی سب سے بڑی نیوز ایجنسی ہے۔

•یہ اب تک جرنلزم کی دنیا کا سب سے بڑا ہائی ایوارڈ Pulitzer Prize 56 مرتبہ جیت چکے ہیں۔

•یہ نیوز ایجنسی گزشتہ 172 سال سے قائم ہے۔

•اور دنیا کے سو سے زائد ممالک میں 203 لوکیشن پر ان کے 378 نیوز روم ہیں۔ ان کے Offices ہیں۔

•3300 کی تعداد میں ان کے ملازمین ہیں۔

•یہ سالانہ 510 ملین ڈالرز Revenue جنریٹ کرتے ہیں۔

•Religion News Service کے صحافی نے ہفتہ یکم اکتوبر کی شام حضور انور کا انٹرویو لیا تھا۔ اس کے بعد اس نے انٹرویو درج ذیل ہیڈنگ کے ساتھ شائع کیا۔

Ahmadi Muslims inaugurate new mosque on site of historic ‘‘Prayer Duel’’

یعنی کہ احمدی مسلمانوں نے تاریخی مباہلہ کے مقام پر نئی مسجد کا افتتاح کیا۔

Religion News Services کے قارئین کی تعداد ماہانہ 22 لاکھ ہے۔

اخبار نے لکھا:
•دو آدمیوں نے جو خدا کی طرف سے نبی ہونے کا دعوی کرتے تھے خدا سے اپنےدعووں کی سچائی ظاہر کرنے کے لئے دعاکی۔ ایک الیگزینڈر ڈوئی تھا عیسائی پادری جس نےالینوئے (Illinois) میں زائن شہر کی بنیاد رکھی۔ اس کے مقابلے پر جو چیلنج دینے والے تھے مرزا غلام احمد صاحب بانی سلسلہ احمدیہ تھے۔ چیلنج یہ تھا کہ جو پہلے مرے گا وہ ہارے گا۔ چنانچہ ڈوئی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں اس حال میں مرا کہ اس کی فیملی نے بھی چھوڑ دیا تھا اوراس طرح اس چیلنج میں اس کی شکست ہوئی۔

•حضرت مرزا مسرور احمد جو جماعت احمدیہ کے خلیفہ ہیں نے فرمایا کہ اس مسجد کے نام پر جو فتح کا اشارہ ہے یہ ظاہر کرتا ہے کہ خدا کا حقیقی اور سچا آدمی کون ہے اور یہ کہ ہمیں تمام مذاہب کا احترام کرنا چاہیے۔

•لجنہ اماء اللہ خواتین کے گروپ نے مسجد کی تعمیر میں سب سے زیادہ حصہ ڈالا۔

•زائن ٹاؤن شپ سپر وائزر Cheri Neal کے مطابق ایک وقت تھا جب زائن کے کچھ باشندوں کو خدشہ تھا کہ احمدی مسلمان اس مباہلہ کی وجہ سے شہر پر قبضہ کرنا چاہتے تھے۔ وہ کہتی ہیں کہ ان دنوں مباہلہ کا واقعہ زائن میں معروف نہیں ہے لیکن احمدیہ مسلم جماعت معروف و مشہور ہے۔ کہتی ہیں ’’اگر آپ ان کے دلوں کو جانتے ہیں تو آپ جانتے ہیں کہ یہ قبضہ کرنے کی کوشش نہیں ہے بلکہ یہ ان کی یہاں کے لوگوں کی خدمت کرنے کی کوشش ہے۔‘‘

اَللّٰھُمَّ اَیِّدْ اِمَامَنَا بِرُوْحِ الْقُدُسِ وَ بَارِکْ لَنَا فِیْ عُمُرِہٖ وَ اَمْرِہٖ

(کمپوزر: عائشہ چوہدری۔ جرمنی)

(رپورٹ: عبدالماجد طاہر۔ ایڈیشنل وکیل التبشیر اسلام آباد برطانیہ)

پچھلا پڑھیں

سگریٹ نوشی صحت کے لئے مضر ہے

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 27 اکتوبر 2022