• 16 اپریل, 2024

الکوثر، النصر کی روشنی میں شکر الہٰی کے طریق

قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے کے مختلف زاویے بیان ہوئے ہیں اور بعض مقامات پر شکر کے طریق بھی بیان کر دئیےجیسے سورۃ الکوثر اور سورۃ النصر میں اللہ تعالیٰ نے نعمتوں اور فضلوں کے وارث بننے کے بعد عبادات، نمازوں، ہر قسم کی قربانی، تسبیح و تحمید اور استغفار کرنے کا حکم دیا ہے۔ ہر دو سورتوں میں براہ راست ہمارے پیارے رسول حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ مخاطب ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے ہر مومن اور مسلمان کو ان الفاظ میں یہ سبق دیا ہے کہ اگر تم حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ سے محبت کرتے ہو تو آپ کے ہر حکم میں کما حقہ پیروی کی جائے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد ﷺ کو مخاطب ہو کر فرمایا کہ

قُلْ اِنْ كُنْتُـمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِىْ يُحْبِبْكُمُ اللّـٰهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُـوْبَكُمْ ۗ وَاللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِـيْـمٌ

(اٰل عمران:32)

ترجمہ: تو کہہ دے کہ اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناہ معاف کر دے گا اور اللہ بہت بخشنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے۔

اس حکم کے تحت ہم میں سے ہر ایک مسلمان سورۃ الکوثر اور سورۃ النصر میں بیان فرمودہ احکامات کا مخاطب ہے۔ ان ہر دو سورتوں میں اجتماعی طور پر امت اور انفرادی طور پر ہر فرد اپت مخاطب ہے۔جہاں تک امت کا تعلق ہے۔ آنحضرت ﷺ اکیلے تھے۔ شدید مخالفت میں یہ سالار آہستہ آہستہ آگے بڑھنے لگا ایک سے دو دو سے چار اور دھیرے دھیرے یہ تعداد لاکھوں میں پہنچی۔ فتوحات اور ترقیات ملنے لگیں۔ اسلام کا پیغام عرب سے باہر عجم میں پہنچا اور وہاں سے بھی مخلصین آملے۔ جو جماعت آپ کو عطا ہوئی وہ فدایوں اور قربانی کرنے والی جماعت تھی جو آپ ﷺ کی طرف سے جانثاری کے لئے اشارے کا انتظار کرتے تھے اور یہ اعلان کرتے ہوئے گئے کہ اے محمد! ﷺ ہم آپ کے دائیں بھی لڑیں گے، بائیں بھی لڑیں گے، آگے بھی لڑیں گے اور پیچھے بھی لڑیں گے اور دشمن آپ تک نہیں پہنچ سکتا جب تک ہماری لاشوں کو نہ روندھ لے۔ الغرض تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ اسلام کی تعلیم پھیلتی گئی اور دشمنان کی زمین سکڑتی گئی جس کے نتیجہ میں آپ کو حکم ہوا کہ پہلے سے بڑھ کر اپنے رب کی طرف جھک، دعاؤں میں لگا رہ، عبادت بجا لا اور اپنے نفس اور اموال کی قربانی کر نیز استغفار کر اور تسبیح و تحمید بکثرت کرتا رہ، تا جو فتوحات اور ترقیات آپ کو نصیب ہوئی ہیں ان کی اللہ تعالیٰ حفاظت کرے اور مزید رتقیات سے نوازتا رہے۔

امت کے ہی معنوں کو اگر ہم جماعت پر apply کریں تو ہمارے بزرگوں نے مشاہدہ کیا اور آج کے دور میں آج ہم مشاہدہ کر رہے ہیں کہ حضرت مسیح موعود ؑ بھی دعویٰ کرنے والے اکیلے تھے۔ سب سے پہلے حضرت حکیم مولانا نور الدین صاحبؓ نے آپ کی مصاحبت کی اور یہ قافلہ آہستہ آہستہ آگے بڑھنے لگا اور آج مختلف اداور میں مخالفین اور معاندین کی شدید مخالفتوں اور راستے میں کانٹوں کا جال بچھانے کے باوجود یہ پودا اب 213 ممالک میں اپنی جڑیں مضبوط کر چکا ہے اور ملین کی تعداد میں ایسے حواری اور فدائی پیدا کئے ہیں جو اپنی جان، مال، وقت اور عزت کو ہر وقت، ہر لمحہ قربان کرنے کے لئے تیار رہتے ہیں۔ وہ جلسہ جو 75 نفوس کی شمولیت سے شروع ہوا تھا۔ اب وہ 75 سے زائد ممالک میں ایسی شان اور آن بان سے منعقد ہوتا ہے کہ ایک ایک جلسہ میں 25، 25 ہزار سے زائد نفوس شامل ہو کر جہاں آج مادی دنیا میں اللہ تعالیٰ کی عبادات میں نت نئے رنگ بھی رہے ہوتے ہیں وہاں ہر قسم کی قربانی کرنے کے عہد و پیمان باندھ رہے ہیں۔

سیرالیون مغربی افریقہ کا 57 واں جلسہ سالانہ مورخہ 24 تا 26 فروری 2020 ساوتھرن پرونس کے ہیڈ کوارٹر Bo میں منعقد ہوا۔ جس میں 24700 فدائیوں نے شرکت کی اور اپنے اندر روحانی،دینی تبدیلی کرنے اور دعوت الی اللہ کر کے نہ صرف غیروں کو اپنے ساتھ ملانے بلکہ قرآن پڑھنے، اسلام کی تبلیغ کرنے اور مسجدوں کی تعمیر کے وعدے کئے۔وائس پریذیڈنٹ سیرالیون نے جماعت احمدیہ کو اپنی کیبنٹ کا حصہ قرار دے کر منسٹری آف پیس کا نام دیا ۔اس موقعہ پر یہ بات بخوبی مشاہدہ کی گئی کہ جونہی کسی ترقی کا ذکر ہوا یا کسی مسجد کی تعمیر کا نام لیا گیا کسی احمدی کی مالی قربانی کا ذکر ہوا تو ہر طرف سے اللہ اکبر کی صدائیں بلند ہوئیں ۔ہم عام اجلاسات میں دیکھتے ہیں کہ اگر اس طرح خوبیوں اور ترقیات کا ذکر ہو تو لوگ بلخصوص عورتیں تالیاں بجا کر داد دیتی ہیں لیکن یہ ایک ایسا روحانی اجتماع تھا کہ عورتیں بھی ہزاروں کی تعداد میں شامل تھیں مگر تالی کا نام دور دور تک نہ تھا بلکہ زبانیں ذکر الہی سے لبریز تھیں۔ فضا اللہ اکبر کی فضاؤں سے معطر تھی۔ ہر طرف نعرہ ہائے تکبیر سنائی دے رہے تھے۔ پنڈال میں تہجد کا ایک ایسا سماں تھا کہ یوں لگتا تھا کہ سارا شہر ہی یہاں امڈ آیا ہے اور عام سنائی دیا گیا کہ جو مزا احمدیوں کی اقتداء میں دعا کرنے کا ہے وہ کسی اور جگہ نہیں۔ اس پُرکیف روحانی اجتماع پر سورۃ النصر اور الکوثر کا مضمون بار بار ذہن میں آتا رہا کہ یہی وہ قوم ہے جن پر آج کے دور میں ان دونوں سورتوں کامضمون پورا اُترتا ہے، ایک پرسکون ماحول میسر تھا۔ ایسے لگتا تھا کہ ان ہزاروں شاملین کے سروں پر پرندے بیٹھے ہیں اگر وہ چلے تو اٹھ جائیں گے۔ ہاں ہاں واقعتاً عالم کشف میں وہ پرندے ہی تھے جو فرشتوں کی جھرمٹ میں دیکھے جا سکتے تھے۔

آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمارے پانچویں خلیفۃ المسیح کی روحانی سربراہی اورقیادت میں جو عالمگیر ترقیات اور فتوحات جماعت کو دنیا کہ کونے کونے میں مل رہی ہیں ان پر شکر الہی کے وہی طریق اپنانے کی ضرورت ہے جن کو صحابہ رسول ﷺ ہمارے لئے بطور نمونہ چھوڑا۔ تا اللہ تعالیٰ ہمارے استغفار، تسبیح وتحمید عبادات اور قربانیوں کے طفیل ہماری ان ترقیات کی نہ صرف حفاظت فرمائے بلکہ مزید ترقیات عطا فرمائے۔آمین

الکوثر اور النصر میں انفرادی اور خاندانی ترقیات اور مادی و روحانی سہولتوں کا بھی ذکر ہے اللہ تعالیٰ نے ہم میں سے ہر ایک کو ہمارے ایمان کی وجہ سے دنیاوی بہاریں لگائیں ہیں۔ ہماری زندگیاں آسائشوں میں بدل گئی ہیں۔ ہمیں ہر قسم کی سہولتیں اللہ تعالیٰ نے عطا فرمائی ہیں۔ اگر ہم چند سال قبل اپنی زندگیوں کو یا پنے خاندانی حالات کو لئ جائیں تو ہم ایک تنگی کے دور سے گزر رہے تھے۔ مگر اب اللہ تعالیٰ نے اپنی نعمتوں فضلوں اور برکتوں سے ہمارے گھر بھر دیئے ہیں ۔اس ناطے ہم پر فرض ہے کہ ہم اس کا جواب شکر الہٰی سے دیں ۔ہم اس کا جواب پہلے سے بڑھ کر پنجوقتہ نمازیں، نوافل ادا کرنے، نفلی روزہ رکھنے، تلاوت قرآن کریم کرنے اور مخلوق سے محبت کرنے میں صرف کریں تا اللہ تعالیٰ ان نعمتوں اور آسائشوں کی حفاظت کرے اور ہماری نسلیں اس سے استفادہ کرتی چلی جائیں۔ اس شکر الہٰی میں اپنی اولادوں کو بھی توجہ دلانے کی ضرورت ہے۔

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 27 فروری 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 28 فروری 2020