• 24 اپریل, 2024

سو مررہے۔ مرے سو منگن جا

• بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ ایک کان سے سنتے ہیں دوسری طرف نکال دیتے ہیں۔ ان باتوں کو دل میں نہیں اتارتے۔ چاہے جتنی نصیحت کرو مگر ان کو اثر نہیں ہوتا… یا د رکھو کہ خدا تعالیٰ بڑا بے نیاز ہے جب تک کثرت سے اور بار بار اضطراب سے دعا نہیں کی جاتی وہ پرواہ نہیں کرتا۔ دیکھو !کسی کی بیوی یا بچہ بیمار ہو یا کسی پر سخت مقدمہ آجاوے تو ان باتوں کے واسطے اس کو کیسا اضطراب ہوتا ہے۔ پس دعا میں بھی جب تک سچی تڑپ اور حالتِ اضطراب پیدا نہ ہو تب تک وہ بالکل بے اثر اور بیہودہ کام ہے۔

• قبولیت کے واسطے اضطراب شرط ہے۔ جیسا کہ فرمایا۔ اَمَّنۡ یُّجِیۡبُ الۡمُضۡطَرَّ اِذَا دَعَاہُ وَیَکۡشِفُ السُّوۡٓءَ (النمل:63)۔

(ملفوظات جلد 10صفحہ 137 ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

• یہ مت سمجھو کہ دعا صرف زبانی بَک بَک کا نام ہے بلکہ دعا ایک قسم کی موت ہے جس کے بعد زندگی حاصل ہوتی ہے جیسا کہ پنجابی میں ایک شعر ہےجو منگے سو مررہے۔ مرے سو منگن جا… دعامیں ایک مقناطیسی اثر ہوتا ہے۔ وہ فیض اور فضل کو اپنی طرف کھینچتی ہے۔

(ملفوظات جلد 10صفحہ 62 ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

پچھلا پڑھیں

کالمار (سویڈن) میں نئے جماعتی مرکز کا قیام

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 28 فروری 2023