• 19 اپریل, 2024

روزہ ایک رنگ میں عبادت کا معراج ہے

اقتباسات از خطبہ جمعہ فرمودہ 15 اپریل 1988ء سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ

’’روزه ایک رنگ میں عبادات کا معراج ہے اور تعلق باللہ کے لحاظ سے روزہ مومن کی زندگی میں بہت ہی زیادہ اہم ہے اور رمضان میں تعلق باللہ کے جتنے ذرائع میسر آتے ہیں اور اس کے لئے تحریک اور تحریص پیدا ہوتی ہے دوسرے دنوں میں اس قدر تحریک و تحریص کا ہونا ممکن نہیں۔ حج میں تو محدود تعداد میں لوگ وہاں پہنچ سکتے ہیں جبکہ رمضان ہر جگہ خود پہنچتا ہے۔ جو شخص دنیا میں کہیں بھی رمضان کا چاند دیکھے اس پر اسی وقت روزے فرض ہو جاتے ہیں۔ اس لئے یہ ایک ایسی عبادت ہے جسے دوسری تمام عبادتوں میں ایک امتیازی مقام حاصل ہے۔‘‘

’’رمضان کو کیوں اہمیت حاصل ہے؟ اس لئے حاصل ہے کیونکہ قرآن کریم اس مہینہ میں نازل ہوا۔ پھر قرآن کریم کا ہدایت سے بڑا گہرا تعلق ہے اور وہ ہدایت بھی ایسی ہے کہ بَـیِّنٰتٍ مِّنَ الْھُدٰی ہے یعنی عام ہدایت ہی نہیں بلکہ بہت ہی روشن اور کھلی کھلی ہدایت لے کر قرآن آیا ہے۔

والفرقان اور قرآن ایسی آیات پیش کرتا ہے جو حق و باطل میں تمیز کرنے والی ہیں۔ کھرے اور کھوٹے میں تمیز کرنے والی ہیں۔ سو گویا قرآن کریم کی جو تعریف بیان فرمائی جارہی ہے۔ یہ تعریف رمضان کی طرف منتقل بھی ہو رہی ہے۔ رمضان کی تعریف سے جب مضمون شروع ہوا اور یہاں تک پہنچا کہ قرآن کریم اس میں نازل ہوا اور قرآن کی عظمت و اہمیت یہ ہے تو مراد یہ ہے کہ یہ ساری باتیں انہیں رمضان میں میسر آئیں گی اور ان برکتوں کا رمضان سے بہت گہرا تعلق ہے۔ چنانچہ اس کے بعد فرمایا کہ یہ ساری باتیں پیش نظر رکھ کر ہم یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ فَمَنۡ شَہِدَ مِنۡکُمُ الشَّہۡرَ فَلۡیَصُمۡہُ، تم میں سے جو کوئی بھی اس مہینے کو دیکھے وہ روزہ رکھے۔

مسافر اور مریض کے سوا ہر مومن روزہ رکھے

فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَّرِيضًا أَوْ عَلَىٰ سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أُخَرَ جو کوئی مریض ہو یا سفر پر ہو اس کے لئے بعد کے ایام میں روزے رکھنے فرض ہیں۔ اس میں کسی اور تیسرے شخص کو روزہ چھوڑنے کی اجازت نہیں ہے۔ اور یوں مضمون بیان ہوا ہے جیسے کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتاکہ کوئی اور شخص روزہ چھوڑنے کی بات بھی سوچے گا۔ فرمایا وَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَّرِيضًا أَوْ عَلَىٰ سَفَرٍ پس روزہ چھوڑنے کی دو ہی صورتیں ہیں۔ رمضان شروع ہو گیا خدانے فرض کر دیا ہے یہ کیسے ممکن ہے کہ ان مومن روزہ چھوڑنے کی بات کرے سوائے اس کے کہ اس کو اجازت دی جائے اور اجازت صرف ان دو صورتوںمیں ہے۔‘‘

’’ہماری نئی نسلیں روزے کو بالکل ہلکاپھکا لیتی ہیں اور نئی نسلوں کے ماں باپ بھی بد قسمتی سے ہلکا پھلکا لیتے ہیں۔ گویا کہ تخفیف کی نظر سے دیکھ رہے ہیں۔ ان کے نزدیک یہ بات زیادہ اہم ہے کہ بچہ پڑھائی کر رہا ہے اس کی پڑھائی پر برا اثر نہ پڑے حالانکہ ٹیلی ویژن میں وہ ہزار وقت ضائع کر رہا ہو ہر قسم کی بے ہودہ دلچسپیوں میں حصہ لیتا ہو اس سے ان کو کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن روزے کے وقت ان کو اتنی شدت سے احساس ہوتا ہے کہ کہیں اس کی صحت کمزور نہ ہو جائے حالانکہ صحت کمزور کرنے والی کئی دوسری عادتیں اس میں ہوتی ہیں ان کے بارے میں وہ فکر مند نہیں ہوتے۔ ایک روزه بے چارہ رہ گیا ہے جس کے متعلق وہ سمجھتے ہیں کہ اس بچے کی ساری صحت برباد ہو جائے گی اور پڑھائی پر اثر پڑے گا۔ ان کی یہ بالکل غلط بات ہے، محض وہم ہے قطعاً کوئی برا اثر روزہ کے نتیجہ میں پڑھائی پر نہیں پڑتا بلکہ جو لوگ پڑھنے والے نہیں ہیں وہ بھی رمضان میں زیادہ پڑھ لیتے ہیں۔ خود میں بھی ایسے طالب علموں میں سے تھا جو اپنے کورس کی کتاہیں بہت کم پڑھتا تھا لیکن رمضان میں مجھے زیادہ موقع ملتا تھا کیونکہ رمضان میں اور دلچسپیاں تو ہوتی نہیں۔ قرآن کریم پڑھنا ہے یا دینی مطالعے کرنے ہیں چونکہ دیگر تمام دلچسپیاں کٹ جاتی ہیں اس لئے پڑھائی کے لئے بھی زیادہ وقت مل جا تا ہے اور پھر اگر وقت کم بھی ملے تو دعاؤں اور نمازوں کے ذریعہ رمضان شریف میں طلباء برکت لے کر باہر نکلتے ہیں، ان کو علمی نقصان کبھی بھی نہیں ہو سکتا۔ انہی کو علمی نقصان ہو سکتا ہے جو اس خیال سے رمضان کا روزہ چھوڑ دیں کہ ان کو نقصان نہ ہو۔ ایسے لوگوں کے علم میں برکت نہیں پڑسکتی۔ اور اگر ظاہری طور پر وہ علمی فائدہ حاصل کر بھی لیں تو بے کار اور بے معنی ہے۔ انہوں نے بہت بڑا فائدہ کھو کر بہت معمولی فائدہ لیا ہے۔ اسی لئے قرآن کریم نے فرمایا اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ كاش کہ تمہیں پتہ ہوتا کہ کیا کھو رہے ہو۔ اگر تمہیں علم ہوتا تو تم کبھی بھی اس فائدے سے محروم نہ رہتے۔ اس لئے تمام دنیا میں جماعتوں کو خصوصیت سے رمضان میں تفصیلی نظر ڈالنے کا انتظام کرنا چاہئے۔ جن بچوں کے ماں باپ کو یہ سعادت حاصل نہیں کہ وہ اپنے بچوں کو تلقین کریں وہاں خدام الاحمدیہ کے ذریعہ تلقین کی جائے، لجنہ کے ذریعہ تلقین کی جائے انصار کے ذریعہ کوشش کی جائے۔ جماعت کوئی بھی نظام مقرر کرے مگر براہ راست ہر احمدی کو یہ پیغام ملنا چاہئے کہ خدا تعالیٰ نے اس مہینہ میں تم پر روزے فرض کر دیئے ہیں۔ اب بتاؤ تم مریض ہو یا مسافر ہو۔ اگر دونوں میں سے کچھ نہیں تو پھر سوائے روزے کے اور کوئی راہ نہیں۔‘‘

رمضان کے مضمون کا منتہا

’’اس کے بعد اس مضمون کا جو منتہا ہے وہ بیان ہوا ہے۔ فرمایا وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ اگر اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) تجھ سے میرے بندے یہ سوال کریں کہ میں کہاں ہوں فَإِنِّي قَرِيبٌ میں تو ان کے قریب ہوں۔ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ جب بھی کوئی بلانے والا مجھے بلاتا ہے میں اس کی دعوت کا جواب دیتا ہوں۔

فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ پس ان کو بھی تو چاہئے کہ وہ میری باتوں کا جواب دیں اور مجھ پر ایمان لائیں تاکہ ہدایت پائیں۔ اس آیت کا گزشتہ آیت سے گہرا تعلق ہے، رمضان کے مضمون سے گہرا تعلق ہے۔ رمضان کے مہینے میں خدا تعالیٰ بندے کے جتنا قریب ہوتا ہے اتنا کسی اور مہینے میں اس کثرت کے ساتھ خدا تعالیٰ کی قربت شہادتیں نہیں ملتیں۔ اور رمضان کے مہینے میں ایک یا دو تین کے ساتھ اس کی قربت کا تعلق ظاہر نہیں ہوتا بلکہ کثرت کے ساتھ عام مومنوں سے یہی سلوک ہوتا ہے۔ اس لئے یہ اعلان عام ہے۔ وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ۔ عِبَادِ يسے مراد بندے بھی ہیں اور عبادی سے مراد عبادت کرنے والے بھی ہیں۔ اس موقع پر میرے نزدیک یہاں عام بندے مراد نہیں بلکہ عبادت کرنے والے بندے مراد ہیں۔ اور وہی تھے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے اللہ تعالیٰ کے متعلق پوچھا کرتے تھے۔ فرمایا میرے بندے جو میری عبادت کرتے ہیں اگر وہ میرے متعلق سوال کریں تو میں قریب ہوں، ان کی دعوت کا جواب دیتا ہوں اور دوں گا لیکن وہ میری باتوں کا جواب دیں لیکن ان پر عمل کریں اور مجھ پر ایمان لائیں۔ لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُون کہ وہ ہدایت پائیں۔‘‘

رمضان میں خاص رحمت و پیار کے چھینٹے

جوں جوں رمضان آگے بڑھتا ہے۔ رمضان بھیگنا شروع ہوتا ہے۔ رات کے متعلق کہا جاتا ہے کہ رات بھیگی۔ میں نے یہ لفظ رمضان کے متعلق عمداً استعمال کیا ہے کیونکہ رات بھیگتی ہے۔ جب رات گہری ہو جائے اور آخر پر دن کے قریب پہنچنے لگےاس وقت شبنم سے بھیگتی ہے۔ اسی طرح رمضان جب اختتام اور عید کے قریب پہنچنے لگتا ہے تو آنسوؤں سے بھیگتا ہے۔ جتنا زیادہ آپ رمضان میں آگے بڑھتے ہیں اتنا زیادہ ہی نم دار ہوتا چلا جاتا ہے۔ اس لئے عام سرسری محاورے کے طور پر میں نے نہیں کہا بلکہ ایک خاص معنی کے پیش نظر کہا ہے جوں جوں رمضان بھیگتا چلا جاتا ہے خدا تعالیٰ کے ساتھ محبت میں ایک خاص چمک پیدا ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ ایک ایسا گہرا تعلق انسان محسوس کرنے لگتا ہے کہ بعض دفعہ وہ سمجھتا ہے کہ یہی میری زندگی کا آخری دن ہوتا تو بہتر تھا کیونکہ خدا تعالیٰ کی طرف سے اس خاص رحمت و پیار کے جلوے نصیب ہوتے ہیں اور یہ جو رحمت کا چھینٹا ہے یہ عام ہے۔ کسی اور مہینے میں اس کثرت کے ساتھ خدا کی رحمت کے ایسے چھینٹےنہیں پھینکے جاتے جو دنیا کے ہر کونے اور ہر ملک میں برس رہے ہوں اور جس کسی پر بھی پڑیں اسے خوش نصیب بنا دیں۔ اس لئے رمضان کو بہت بڑی اہمیت حاصل ہے۔ رمضان المبارک میں جو لوگ روزے نہیں رکھتے وہ تصور بھی نہیں کر سکتے کہ وہ کن نیکیوں سے محروم رہ گئے ہیں۔ چند دن کی بھوک انہوں نے برداشت نہیں کی چند دن کی پابندیاں انہوں نے برداشت نہیں کیں اور بہت ہی بڑی نعمتوں سے محروم رہ گئے اور پہلے سے اور بھی زیادہ دنیا کی زنجیروں میں جکڑے گئے۔ کیونکہ جو رمضان کی پابندیاں برداشت نہیں کرتا اس کی عادتیں دنیا سے مغلوب ہو جاتی ہیں اور وہ درحقیقت اپنے آپ کو مادہ پرستی کے بندھنوں میں خود جکڑنے کا موجب بن جایا کرتا ہے۔ یہ لوگ دن بدن ادنٰی زندگی کے غلام ہوتے چلے جاتے ہیں۔ اس کے بعد اگر چاہیں بھی تو پھر بھی ان بندھنوں کو توڑ کر ان سے آزاد نہیں ہو سکتے۔ اس لئے یہ بہت ہی ضروری فیصلہ ہے کہ رمضان کی چند دن کی پابندیاں بشاشت اور ذوق و شوق سے قبول کی جائیں۔‘‘

أَيَّامًا مَّعْدُودَاتٍ خدا نے فرمایا۔ گنتی کے چند دن ہی تو ہیں ان میں رمضان کی پابندیاں اختیار کر کے تو دیکھو أَيَّامًا مَّعْدُودَات کا ایک مطلب تو یہ بھی لیا جا سکتا ہے۔ جن کے اوپر رمضان سخت ہو ان کو تسلی دینے کے لئے فرمایا ہے کہ گنتی کے چند دن ہیں گزر جائیں گے کوئی بات نہیں تم تجربہ کرو تمہیں فائدے پہنچیں گے۔ اس کا ایک اور مطلب یہ ہے کہ گنتی کے چند دن ہی تو ہیں تم یہ پابندیاں اختیار کر کے دیکھو گے تو تمہیں معلوم ہوگا کہ اس کے فائدے لامتناہی ہیں۔ چند دن کی سختیاں بہت وسیع فائدے اپنے پیچھے چھوڑ جائیں گی کہ سارا سال تم ان چند دنوں کی کمائیاں کھاؤ گے۔ یعنی تھوڑی محنت کے بعد لمبے پھل کا اس میں ذکر فرمایا گیا ہے۔ اس لئے میں جماعت کو پھر تاکید کرتا ہوں کہ با قاعدہ منظم طریقے پر ابھی جو ایک دو دن میسر ہیں یا خطبہ جہاں دیر سے پہنچے وہاں ان کو چاہئے کہ جتنا بھی بقیہ رمضان ہو اس میں باقاعدہ جدوجہد کریں کہ ایک بھی احمدی رمضان کی برکتوں سے محروم رہنے والا نہ ہو۔

جو مریض اور مسافر ہے وہ بھی محروم نہیں رہے گا۔ کیونکہ خداتعالیٰ نے اسے اجازت تو دی ہے مگر اجازت دینے کا یہ مطلب تو نہیں ہے کہ تمہیں میں محروم کردیتا ہوں۔ ایسے لوگ راتوں کو عبادت کے لئے اٹھ سکتے ہیں، دعاؤں میں شامل ہو سکتے ہیں۔ رمضان کی دیگر نیکیوں میں شامل ہو سکتے ہیں۔ مثلاً کسی شخص کو اگر سخت کلامی کی عادت ہے اور وہ مریض یا مسافرہے تو رمضان اس کو روزے سے رخصت تو دیتا ہے لیکن بدکلامی کی اجازت تو نہیں دیتا۔ اور دیگر بدیوں سے روکنے کا جو رمضان خاص طور پر حکم دیتا ہے کسی کا مسافر ہونا یا اس کا مریض ہونا اس حکم سے تو آزاد نہیں کرتا۔ اس لئے ہر شخص خواہ اس کو خدا تعالیٰ نے رخصت عطا فرمائی ہے خواہ نہیں عطا فرمائی رمضان سے فائدہ حاصل کئے بغیرنہ نکلے۔

حضرت میر محمد اسماعیلؓ. …. نے ایک دفعہ رمضان کے بعد ایک نظم کہی اور ٹیپ کا ایک مصرعہ مشہور تھا جسے استعمال کیا کہ

اب کے بھی دن بہار کے یوں ہی گزر گئے

بڑی دردناک نظم ہے لیکن جن لوگوں کو پتہ تھا کہ حضرت میرمحمد اسماعیل صاحب خدا کے کیسے عبادت گزار بندے تھے ان کو کچھ اندازہ ہو سکتا ہے کہ جو لوگ عبادت گزار ہیں ان کو بھی رمضان کے بعد یہ فکر ہوتی ہے کہ کاش ہم اس سے زیادہ حاصل کر سکتے۔ ان کی تمنائیں بلند ہو جاتی ہیں اور جب وہ اپنے حال پر نظر ڈالتے ہیں تو ایک رنگ کی حسرت محسوس کرتےہیں۔

پس وہ لوگ جنہوں نے نہ روزے رکھے نہ عبادتیں کیں ان کی حسرتوں کا کیا حال ہو گا۔ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ کی بات ہی ہے جو آخر منہ سے نکلتی ہے کاش تمہیں پتہ ہوتا، تم بے خبر ہو، جنہوں نے بہت محنتیں کیں اور جوعارف اللہ اورباشعور ہیں ان کو بھی آخر یہ احساس پیدا ہوا کہ اوہو! برکتوں کا پاکیزہ مہینے گزر گیا۔ کئی کمزوریاں ہماری پیچھے رہ گئی ہیں، جنہیں ہم دور نہیں کر سکے۔ کئی بوجھ ہیں جنہیں ہم اتار نہیں سکے۔ کئی نعمتیں ہیں جن سے ابھی بھی ہم محروم چلے آرہے ہیں، گو خدا نے بہت کچھ عطا کیا لیکن ہمارے دل کی طلب پوری نہیں ہو سکی۔ یہ با خبر لوگوں کا حال ہے، جو بے خبر ہیں ان بے چاروں کو تو پتہ ہی کچھ نہیں کہ کیا چیز ان کے لئے آئی تھی اور گزر گئی۔ اس لئے باشعور لوگوں کا، باخبر لوگوں کا کام ہے کہ بے خبر لوگوں کو مطلع کریں۔ ان کو جھنجوڑیں ان کو بیدار کریں، ان کی منتیں کریں اور کہیں کہ گنتی کے چند دن ہیں تم کر کے تو دیکھو اور بچوں کو بھی عادت ڈالیں ایک روزہ مہینہ کا دو روزے مہینے کے اس طرح آہستہ آہستہ بچپن میں جو ماں باپ عادت ڈالتے ہیں ان کے بچوں کو پھر خدا تعالیٰ توفیق دیتا ہے ان کو رمضان سے محبت پیدا ہو جاتی ہے۔ میں امید کرتا ہوں کہ یہ رمضان ہمارے لئے یہ برکت بھی چھوڑ کے جائے گا کہ کثرت کے ساتھ وہ احمدی جو پہلے روزہ نہیں رکھتے تھے وہ اس رمضان کی برکت سے روزے رکھنے والے احمدی بن جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں ضرورت بھی بہت ہے اتنے مشکلات کے دن ہیں کئی قسم کی جماعت پر سختیاں ہیں۔ پھر کام کے بہت سے دن ہیں آگے نئی صدی کے کام آنے والے ہیں۔ ذمہ داریاں بڑھ رہی ہیں نئی جماعتیں آرہی ہیں۔ جتنے روزے دار بڑھیں گے اتنے باخدا انسان بڑھیں گے اور جتنے باخدا انسان بڑھیں گے اور خدا سے پیوند زیادہ قائم ہو گا اتنی زیادہ برکتیں نازل ہوں گی۔ اللہ تعالیٰ ہماری برکتوں کو وسیع کرے اور ہماری محرومیوں کے راستے بند کرد۔‘‘

(انصاراللہ ربوہ مارچ 1992ء)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 27 اپریل 2020

اگلا پڑھیں

Covid-19 اپ ڈیٹ 28 ۔اپریل 2020ء