• 19 اپریل, 2024

ابتلاؤں میں ثابت قدمی کےواسطےدعا کرنی چاہئے

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں۔

’’مصائب اور شدائد کا آنا نہایت ضروری ہے۔ کوئی نبی نہیں گزرا جس کا امتحان نہیں لیا گیا۔ جب کسی کا کوئی عزیز مر جاتا ہے تو اس کے لئے یہ بڑا نازک وقت ہوتا ہے۔ مگر یاد رکھو کہ ایک پہلو پر جانے والے لوگ مشرک ہوتے ہیں۔ آخر خدا کی طرف قدم اٹھانے اور حقیقی طور پر اِھْدِنَا الصّرَاطَ المُستَقِیمَ (الفاتحہ:6) والی دعا مانگنے کے یہی معنے تو ہیں کہ خدا یا وہ راہ دکھا جس سے تو راضی ہو اور جس پر چل کر نبی کامیاب اور بامراد ہو ئے۔ آخر جب نبیوں والی راہ پر چلنے کے لئے دعا کی جاوے گی تو پھر ابتلاؤں اور آزمائشوں کے لئے بھی تیار رہنا چاہئے اور ثابت قدمی کے واسطے خداتعالیٰ سے مدد طلب کرتے رہنا چاہئے۔

جو شخص یہ چاہتا ہے کہ صحت و عافیت بھی رہے۔ مال و دولت میں بھی ترقی ہو اور ہر طرح کے عیش و عشرت کے سامان اور مالی وجانی آرام بھی ہوں۔ کوئی ابتلاء بھی نہ آوے اور پھر یہ کہ خدا بھی راضی ہو جاوے وہ ابلہ ہے۔ وہ کبھی کامیابی حاصل نہیںکر سکتا۔ جن لوگوں پر خدا راضی ہوا ہے ان کے ساتھ یہی معاملہ ہوا ہے کہ وہ طرح طرح کے امتحانوں میں ڈالے گئے اور مختلف مصائب اور شدائد سے ان کا سامنا ہوا۔ حضرت ابراہیم ؑ پر دیکھو کیسا نازک ابتلاء آیا تھا اور پھر اس کے بعد سب نبیوں کے ساتھ یہی معاملہ رہا۔ یہاں تک کہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ آ گیا۔ دیکھو ان کو پیدا ہوتے ہی یتیمی کا سامنا ہوا۔ یتیمی بھی تو بری بلا ہے خدا جانے کیا کیا دکھ اٹھائے اور پھر دعویٰ کرتے ہی مصیبتوں کا ایک پہاڑ ٹوٹ پڑا تھا۔

یاد رکھو ۔ انبیاء کا دوسرا نام اہل بلاء و اہل ابتلاء بھی ہے۔ ابتلاؤں سے کوئی نبی بھی خالی نہیں رہا۔ ایک روایت میں ہےکہ آنحضرت ﷺ کے گیا رہ بیٹے فوت ہوئے تھے اور پھر انبیاء کو تو رہنے دو۔ امام حسین ؓ کو دیکھو کہ ان پر کیسی کیسی تکلیفیں آئیں۔ آخری وقت میں جو ان کو ابتلاء آیا تھا کتنا خوفناک ہے۔ لکھا ہے کہ اس وقت ان کی عمر ستاون برس کی تھی اور کچھ آدمی ان کے ساتھ تھے۔ جب سولہ یا سترہ آدمی ان کے مارے گئے اور ہر طرح کی گھبراہٹ اور لاچاری کا سامنا ہوا تو پھر ان پر پانی کا پینا بند کر دیا گیا۔ اور ایسا اندھیر مچایا گیا کہ عورتوں اور بچوں پر بھی حملے کئے گئے اور لوگ بول اٹھے کہ اس وقت عربوں کی حمیت اور غیرت ذرا بھی باقی نہیں رہی۔ اب دیکھو کہ عورتوں اور بچوں تک بھی ان کے قتل کئے گئے اور یہ سب کچھ درجہ دینے کے لئے تھا۔ جاہل تو کہیں گے کہ وہ گنہگار اور بداعمال تھے اس لئے ان پر یہ تکلیف آئی مگر ان کو یاد رکھنا چاہئے کہ آرام سے کوئی درجہ نہیں ملا کرتا جو لوگ ایک ہی پہلو پر زور دیتے چلے جاتے ہیں اور ابتلاؤں اور آزمائشوں میں صبر کرنا نہیں چاہتے۔ اندیشہ ہے کہ وہ دین ہی چھوڑ دیں۔اور دوسری طرف مقرب اللہ بھی بن جاوے۔ یہ تو ایسا ہی مشکل ہے جیسے اونٹ کا سوئی کے ناکے میں سے گزر جانا بلکہ اس سے بھی ناممکن۔ جب تک ابتلاؤں اور امتحانوں میں انسان پورا نہ اترے کچھ نہیں بنتا۔‘‘

(ملفوظات جلد پنجم ص 335)

پچھلا پڑھیں

شہداءِ لاہور کیلئے نذرانہ عقیدت

اگلا پڑھیں

فرشتوں کا اُترنا