• 18 اپریل, 2024

مبارک ہیں لاہور کے احمدی …..(خلیفۃ المسیح)

اداریہ

آج 28مئی ہے آج سے 10سال قبل لاہور پاکستان میں جماعت احمدیہ کی دو مساجد (دارالذکر گڑھی شاہو اور بیت النور ماڈل ٹاؤن) کو دہشت گردوں نے عین اس وقت دہشت گردی کا نشانہ بنایا جب ایک بہت بڑی تعداد میں احمدی دونوں مقامات پرنماز جمعہ کی مبارک و مقدس عبادت بجالا رہے تھے۔ جس کے نتیجہ میں80سے زائداحمدی احباب اللہ تعالیٰ کی راہ میں جان کا نذرانہ پیش کر کے امر ہو گئے۔ اور 110 چھوٹے بڑے زخمی ہوئے اور اپنے لہو سے جماعت احمدیہ کی تابناک تاریخ رقم کر گئے۔

مئی کا مہینہ ہجری شمسی کے اعتبار سے ’’ہجرت‘‘ کا مہینہ ہے جب ہمارے بہت ہی پیارے رسول سیدنا حضرت محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ سے مدینہ کو ہجرت فرمائی۔ انسان کی اس مادی ہجرت کے ساتھ اس کی ایک اور مادی ہجرت اس دنیا سے کوچ کر کے اپنے اللہ کے حضور حاضر ہونا ہے۔ لاہور جماعت کے یہ پیارے، اللہ کے دلارے ماہ مئی (ہجرت) میں اللہ کی طرف ہجرت کر گئے۔اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند کرتا چلا جائے۔

مجلس انصاراللہ نے اس واقع کے معاً بعد نومبر،دسمبر2010ء کو شہدائے لاہور نمبر ایک خوبصورت دستاویزات کی صورت میں شائع کرنے کی سعادت پائی۔ اس نمبر کے لئے حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے ایک تاریخی پیغام بھجوایا۔ جو اس شمارہ کے صفحہ8۔9 کی زینت بنا۔ اور یہ پیغام جماعت احمدیہ میں شہداء کے مقام کو بلند کرتا ہے۔ اس کا ایک حصہ ماہنامہ انصاراللہ کے شکریہ کے ساتھ اس آرٹیکل کا حصہ بنایا جا رہا ہے۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں۔

ہماری جماعت میں شہادتوں کا یہ سلسلہ حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کی قربانیوں اور راہ مولا میں جان کے نذرانے پیش کرنے کے ان پاک نمونوں کی متابعت میں ہے جن کا قرآنی پیشگوئیوں ’’وَاٰخَرِیْنَ مِنْھُم لَمَّا یَلْحَقُوْا بِھِمْ‘‘ کی روشنی میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں ہونا مقدر تھا تا کہ یہ امر اس بات پر ایک بین ثبوت ہو کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سچے اور آپ کی جماعت ایک سچی جماعت ہے۔ اسی لیے حضور علیہ السلام نے اپنے عہد مبارک میں سید الشهداء کی شہادت کے ذکر میں فرمایا تھا کہ ’’مجھے اپنی جماعت کی نسبت بہت امید بڑھ جاتی ہے کیونکہ جس خدا نے بعض افراد اس جماعت کو یہ توفیق دی کہ نہ صرف مال بلکہ جان بھی اس راہ میں قربان کر گئے۔ اُس خدا کا صریح یہ منشاء معلوم ہوتا ہے کہ وہ بہت سے ایسے افراد اس جماعت میں پیدا کرے جو صاحبزادہ مولوی عبداللطیف کی رُوح رکھتے ہوں۔‘‘

(تذکرة الشہادتین،روحانی خزائن جلد20 صفحہ75)

چنانچہ گزشتہ مہینوں میں لاہور کی ہماری دو مساجد میں نمازیوں پر جب اندھا دھند گولیوں کی بوچھاڑ کی گئی تو وہاں پر بھی احمدیت کے جانثاروں نے حضرت شہزادہ عبداللطیف صاحب شہید جیسی روح کا ہی مظاہرہ کیا اور جانوں کی اجتماعی قربانی پیش کر کے استقامت کی لازوال تاریخ رقم کی۔ان کی قربانی یقیناً جماعت میں جانوں کی اجتماعی قربانی کی ایک منفردمثال ہے۔ ان سب کا ذکر خیر آپ میرے خطبات میں سن چکے ہیں۔ یہاں مختصراً اتناہی کہوں گا کہ اللہ تعالیٰ نے ان شہداء کو بہت سی عظیم الشان خوبیوں سے متصف کیا تھا۔نمازوں کا اہتمام، تلاوت میں باقاعدگی، خلافت سے محبت اور اخلاص و وفا، بچوں کی نیک تربیت اور اس پہلو سے ان کی مسلسل نگرانی جیسے اوصاف ان سب شہداء میں نمایاں طور پر پائے جاتے تھے۔ وہ دینی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے اور ہمیشہ دین کو دنیا پرمقدم رکھتے۔ اپنے ماتحتوں اور ساتھ کام کرنے والوں سے حسن سلوک اور خوش اخلاقی سے پیش آنا، غریبوں سے ہمدردی، تمام رشتوں کا خیال رکھنا ان کے بنیادی اخلاق کا حصہ تھے۔ يقيناً ان میں سے ہر ایک اپنا عہد کو پورا کرنے والا ایک روشن اور چمکدار ستارہ تھا۔ یہ لوگ ہمیں بھی عشق و وفا کے لہلہاتے کھیتوں کی طرف لے جانے والے ہیں۔

دشمن نے ایک مذموم سازش کی اور اپنے زعم میں احمدیوں سے ان کا دین اور ایمان چھیننا چاہا لیکن اس کا یہ خواب پورا نہ ہوسکا۔ ہم نے تو یہ نظارے دیکھے کہ باپ کے شہید ہونے پر اس کے نو دس سالہ بیٹے کو ماں نے یہ نصیحت کر کےمسجد بھجوایا کہ بیٹا وہیں کھڑے ہو کر جمعہ پڑھنا جہاں تمہارا باپ شہید ہوا تھا تا کہ یہ بات تمہارے ذہن میں رہے کہ موت ہمیں ہمارے عظیم مقاصد کے حصول سےخوفزدہ نہیںکر سکتی۔ پس جس قوم میں ایمان کی دولت سے لبریز ایسے بہادر بچے اور مائیں ہوں اس قوم کی ترقی کو کوئی دشمن اور دنیاوی طاقت روک نہیں سکتی۔ مخالفین اور دشمنان احمدیت کے ظالمانہ فعل اس بات کا ثبوت ہیں کہ وہ دعاؤں سے اور دلائل سے جماعت احمدیہ کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔یہی وجہ ہے کہ دشمن کی ہر قسم کی مذموم حرکتوں کے باوجود احمدیت ہر جہت اور ہر سُو پھیلتی چلی جارہی ہے۔ سانحہ لاہور کے بعد کئی سعید فطرت لوگوں نے بیعتیں کی ہیں۔ اس واقعہ نے جماعت کے ایمانوں کو مضبوطی بخشی ہے۔ جماعت میں عبادات، خلافت سے عشق و وفا، باہم محبت اور اتحاد کا جذبہ پہلے سے بہت بڑھا ہے۔ساری جماعت نے شہداء کی فیملیوں کی تکلیف اورغم کو جس طرح اپنے دلوں میں محسوس کیا ہے اور مجھے لکھ لکھ کر اس کا اظہار بھی کیا ہے یہ سوائے ایمان کی دولت کے نصیب نہیں ہوسکتا اور روئے زمین پر جماعت احمدیہ کے علاوہ آپ کو کہیں اس کی نظیر نہیں مل سکتی۔ پس یہ شہادتیں ہمیں ایمان و اخلاس اور وحدت و یگانگت کے جوسبق سکھا گئی ہیںان کو اگر ہراحمدی ہمیشہ اسی طرح اپنے اندر زندہ رکھے تو ہمارے شہداء اور ان کی قربانیاں بھی زندہ رہیں گی اور جماعت کو بھی اس سے ایک نئی زندگی ہمیشہ ملتی چلی جائے گی۔ یہ شہداء تو بلاشبہ دائمی زندگی اور اپنے پیارے خدا کی طرف سے ابدی جنتوں کے حقدار اور وارث ٹھہرے ہیں۔ ان شہیدوں کا خون ان شاءاللہ رنگ لائے گا اور ان عظیم قربانیوں سے جماعت کے لئے ترقی کی نئی سے نئی شاہراہیں وجود میں آئیں گی۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہر احمدی اپنے عہد بیعت کو نبھاتے ہوئے اپنے اندر وہ انقلاب عظیم پیدا کرنے کی کوشش کرےجو اُسےالله تعالیٰ کا مقرب بنا دے اور یہی وہ روحانی انقلاب ہے جو زمانے کے منادی ہم میں پیدا کرنا چاہتے تھے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

(ابوسعید)

پچھلا پڑھیں

Covid-19 اپ ڈیٹ27۔مئی2020ء

اگلا پڑھیں

آج کی دعا