• 19 اپریل, 2024

تعارف سورۃ الاعراف (ساتویں سورۃ)

(مکی سورۃ، تسمیہ سمیت اس سورۃ کی 207 آیات ہیں)
ترجمہ از انگریزی ترجمہ قرآن ملک غلام فرید صاحب ایڈیشن 2003ء

وجہ تسمیہ اور وقت ِنزول

ابنِ عباس، ابن زبیر، حسن، مجاہد، عکرمہ، عطاء اور جابر بن زید کے مطابق یہ سورۃ مکی دور کی ہے ماسوائے آیات 165 تا 172 کے۔ قتادہ کے نزدیک آیت 165 مدینہ میں نازل ہوئی تھی۔ اس سورۃ کا عنوان اس کی آیت 47 سے اخذ کیا گیا ہے۔ اکثر مفسروں کو اس سورۃ کے عنوان اور اس کے مضامین کے درمیان تعلق کو سمجھنے میں زیادہ کامیابی نہیں ہوئی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے اعراف کے لفظ کے غلط معانی سمجھ لئے ہیں۔ ان کے نزدیک اعراف جنت اور جہنم کے درمیان ایک روحانی مقام ہے جس کے مقیم جہنمیوں سے الگ ہیں مگر ابھی تک جنت میں داخل نہیں ہوئے۔ قرآن کریم اس لفظ کے متذکرہ بالا معانی کی تردید کرتا ہے کیونکہ قرآن کریم میں دو طرح کے گروہوں کا ذکر ہے یعنی جنتی اور جہنمی۔ یہاں کسی تیسرے گروہ یا انسانوں کے درجہ کا ذکر نہیں ہے۔ یہ (قرآن کریم) اس لفظ اعراف کی کوئی تاویل بیان نہیں کرتا کہ یہ درمیانے درجہ کے روحانیت کے لوگوں کا کوئی مقام ہے نہ ہی قرآن کریم کے متن سے اس بارہ میں کوئی حوالہ پیش کیا جاسکتا ہے۔ قرآن کریم اعراف کے مکینوں کے بارہ میں بتاتا ہے کہ ایک وقت میں وہ جنتیوں سے باتیں کرتے ہیں اور دوسرے وقت میں جہنمیوں سے باتیں کرتے ہیں اور ان کا روحانی علم اس قدر بڑھا ہوا ہے کہ وہ جنتیوں کو ان کے خاص نشانوں سے پہچان لیتے ہیں اور جہنمیوں کو بھی ان کے نشانات کی وجہ سے پہچانتے ہیں۔ اعراف کے لوگ جہنمیوں پر تنقید کرتے ہیں اور انہیں سرزنش کرتے ہیں اور جنتیوں کے لئے دعا کرتے ہیں (آیات 50،49،47) کیا کوئی ایسا وجود جو ابھی تک خود بے یقینی کے درجہ پر جنت اور جہنم کے درمیان معلق ہو، وہ اپنے تئیں ایسے مقامِ برتری کا اظہار کر سکتا ہے جیساکہ اصحاب اعراف کرتے ہیں؟

دراصل اصحاب اعراف خدا کے نبی ہیں جو قیامت کے روز ایک خاص روحانی مقام پر ہوں گے اور اہلِ جنت کے لئے دعا کریں گے اور جہنمیوں کو سرزنش کریں گے۔ کیونکہ یہ قرآن کریم کی پہلی سورۃ ہے جس میں انبیاء کرام علیہم السلام کی زندگی کے قصص بیان ہوئے ہیں ۔ بجا طور پر اس کا نام الاعراف (بلند ٹیلوں والے) رکھا گیا ہے یعنی بلند مقام والے۔ مزید براں اس لفظ کے لغوی معانی اس بات کی تائید کرتے ہیں۔ اعراف کا لفظ عُرف کی جمع ہے جس کا مطلب ہے بلند اور عالی مرتبہ جگہ اور اس سے مراد ایسی روحانی بصیرت بھی ہے جو انسان کو خدا کی مدد سے حاصل ہوتی ہےاور اپنے باطن کی گواہی سے ملتی ہے۔

اس لئے اعراف سے مراد ایسی تعلیمات اور انسانی فطرت کی گواہی بھی ہے جو حق کو پہچاننے کے لئے عقلی دلائل مہیا کرتی ہے اور جیساکہ انبیاء علیھم السلام کی تعلیمات ان جملہ صفات سے متصف ہوتی ہیں وہ تنہا ہی اس بلند روحانی مقام پر فائز ہوتے ہیں اس لئے وہ بلا شبہ اصحاب الاعراف کہلانے کے مستحق ہیں۔

مختصر یہ کہ سورۃ اعراف کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ اس میں اعلیٰ روحانی سپوت وجودوں کی چند مثالیں پیش کی گئی ہیں جنہوں نے ماضی میں انسانوں کو ان کی فطرت کے مطالبات اور ان کی سمجھ کے عین مطابق دائمی سچائی سکھائی اور جنہیں نیچا دکھانے کی اس دنیا کے افراد نے بہت سعی کی مگر خدا وند کریم نے انہیں بلند مقام پرفائز کردیا۔

مضامین کا خلاصہ اورسیاق وسباق

روحانی طور پر دیکھا جائے تو یہ سورۃ اپنی سابقہ اور بعد میں آنے والی سورتوں کے درمیان بطور برزخ (درمیانی رابطہ) کے ہے۔ جس سے مراد یہ ہے کہ اس سورۃ کا مضمون اپنی سابقہ سورتوں کے مضامین کو ایک نیا مرکزی خیال فراہم کرتا ہے۔ سابقہ سورتوں میں یہودیت اور عیسائیت کی تردید کے موضوع پر روشنی ڈالی گئی ہے نیز دیگر فرقوں کےعقائد پر جو اپنے عقائد کی بنیاد فلاسفی اور دلائل پر رکھتے ہیں۔ اس سورۃ میں ان دونوں موضوعات پر روشنی ڈالی گئی ہےاور ان دونوں کی تردید کرکے اسلام کی سچائی کے دلائل پیش کئے گئے ہیں۔

سب سے پہلے یہ بتایا گیاہے کہ قرآن کریم کا ہر لفظ الہامِ الٰہی ہے جس کے ضائع ہونے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتااور نہ ہی یہ اپنے مقصد میں ناکام ہوگا۔ پھر مسلمانوں کو تنبیہہ کی گئی ہے کہ ہرگز ناامیدی کا شکار ہو کر دیگر مذاہب کے پیروکاروں سے سمجھوتے میں تیزی نہ کریں کیونکہ سچے مذہب کے مخالفین کو بالآخر ذلت اور رسوائی کا سامنا ہی ہو تا ہے۔

پھر یہ بتایا گیا ہے کہ خدا نے انسانوں کو ایک نہایت اعلیٰ مقصد کے لئے پیدا کیا ہےمگر اکثر لوگ اس اعلیٰ مقصد پیدائش کو بھول جاتے ہیں۔ بعد ازاں حضرت آدم کے جنت میں رہنے اور وہاں سے نکالے جانے کا بیان ایک مثال کے طور پر پیش کیا گیا ہے اور نسل ِ آدم کی ابتداء میں ہی اس واقعہ کا بیان رکھ کر یہ بتایا گیا ہے کہ خدا نے انسان کو روحانی کے بلند مدارج کے حصول کے لئے پیدا کیا تھا مگر اس نے خدا کے منصوبوں کی کوئی پرواہ نہ کی اور شیطان کی پیروی کی۔

مزید براں یہ بتایا گیاہے کہ گزشتہ مذاہب انسانوں کی انفرادی ترقی پر زور دیتے تھے جبکہ اسلام جملہ مذاہب کی اصلاح کی کوشش کرتاہے۔ جہاں گزشتہ انبیاء فردِ واحد کو واصل جنت میں کوشاں تھے وہاں اسلام جملہ مذاہب اور اقوام کو جنت میں داخل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ مگر جیساکہ اصلاح کی ہر کوشش کو جڑ پکڑنے سے پہلے رکاوٹوں اور ناپسندیدہ حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس لئے جب بھی مسلمان سیدھے راستے سے بھٹکتے ہیں اور اسلامی اصولوں اور تعلیمات سے دور ہوتے ہیں خدا تعالیٰ ان کی اصلاح کے لئے آنحضرت ﷺ کے پیروکاروں میں سے مجدد ین کو بھیجتا ہے تاکہ انسان اپنی نئی نئی حاصل شدہ جنت کو کھو نہ دے اور قومی ترقی کے راستے سے بھٹک نہ جائے۔

یہ سورۃ آگے چل کر ان موعود مجددین کے معیار بیان کرتی ہے اور ان کے مخالفین کے بد انجام پر روشنی ڈالتی ہے۔ پھر یہ بتایا گیا ہے کہ جملہ الٰہی منصوبے تدریجاً کام کرتے ہیں۔ مادی دنیا کی طرح روحانی دنیا میں بھی ہر قسم کی ترقی ارتقائی منازل طے کرتی ہے اور اس ارتقائی ترقی کے نتیجے میں انسان نے حضرت آدم سے لیکر آنحضرت ﷺ کے دور تک ترقی کی ہے اور آپ ﷺ کی تعلیمات میں توجہ قومی ترقی اور تنظیم پر مرکوز کی گئی ہے۔ اس لئے مومنوں کو یہ بات ذہن نشین رہنی چاہئے کہ چھوٹے بیجوں سے بڑے درخت بنتے ہیں اور بسا اوقات بہت بڑے مقاصد ابتداء میں حقیر معلوم ہوتے ہیں اور پوشیدہ رہتے ہیں۔ اس لئے مومنوں پر واجب ہے کہ اپنی آنکھیں کھلی رکھیں اور اپنی پیدائش کے اعلیٰ مقصد کو معرضِ التوا میں نہ رہنے دیں اور نظروں سے اوجھل نہ ہونے دیں کیونکہ اگر ایک مرتبہ اس مقصد کو نظرانداز کردیا گیا تو یہ ہمیشہ کے لئے دَب جائے گا۔

اس سورۃ کی آیت نمبر 60 سے چند ابتدائی انبیاء کی زندگی پر مختصر روشنی ڈالی گئی ہے جن کا مقصد انسان کو اس نعمتوں والی جنت کی طرف واپس لے جانا تھا جہاں سے وہ نکالا گیا تھا۔ بعد ازاں بتایا گیا ہے کہ اچھائی انسان کی فطرت کا خاصہ ہے اور برائی بعد میں آتی ہے۔ اور یہ بیرونی اثر کا نتیجہ ہوتی ہے اور فطرتی اچھائی کے باوجود انسان الہامِ الہٰی کے بغیر کبھی اپنے کمال تک نہیں پہنچ سکتا۔ الہٰی راہنمائی سے منہ موڑنے کے نتیجے میں انسان اپنی فطرتی نیکی سے دور ہٹ جاتا ہے اور روحانی طور پر تباہ ہو جاتا ہے۔ پھر آنحضرت ﷺ کے مشن کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ اور آپؐ کے مخالفین کو تنبیہ کی گئی ہے کہ حقیقت سے منہ نہ موڑیں کہ آپ ﷺ کی فہم و فراست اعلیٰ درجہ کی ہے، مقاصد اجلیٰ ہیں اور آپ ﷺ کی تعلیمات انسانی فطرتِ صحیحہ اور قانون قدرت کے عین مطابق ہیں اور زمانے کے حالات اور گواہی آپ کے حق میں ہیں۔ پھر کفار کے بعض شکوک و شبہات دور کئے گئےہیں اور یہ بتایا گیا ہے کہ وہ آپ ﷺ کی سخت مخالفت کریں گے مگر خدا آپ ﷺ کی حفاظت فرمائے گا اور ہر شر سے محفوظ رکھے گا۔

مسلمانوں کو یہ نصیحت کی گئی ہے کہ وہ نا صرف یہ کہ مخالفوں کی مخالفت پر صبر و تحمل کا مظاہرہ کریں بلکہ ان کے لئے دعا بھی کریں۔ پھر اس سورۃ میں یہ بیان کیا گیاہے کہ سابقہ انبیاء کے مخالفین کی طرح آپ ﷺ کے مخالفین بھی ہمیشہ نشان مانگتے رہیں گےمگر نشان کا دکھانا محض خدا کا کام ہے جو غلطی سے مبرا ذات ہے اور جب چاہتا ہے نشان دکھاتا ہے۔ پھر کفار سے پوچھا گیا ہے کہ کیا قرآن کریم جو نبوت کے جملہ مقاصد کو پورا کرتا ہے خود اپنی ذات میں ایک نشان نہیں ہے۔ پھر مسلمانوں کو یہ نصیحت کی گئی ہے کہ قرآن کریم کو وہ حقیقی خراج ِ تحسین پیش کریں جو اس کے شایانِ شان ہے کیونکہ جس قدر الٰہی نور کا ادراک انسان کو ہوگا اسی قدر اس کی تعریف اور قدردانی سچائی پر مبنی ہوگی۔

(وقار احمد بھٹی)

پچھلا پڑھیں

Covid-19 اپ ڈیٹ27۔مئی2020ء

اگلا پڑھیں

آج کی دعا