• 25 اپریل, 2024

سانحہ لاہور کے شہدائے احمدیت ضلع چکوال کا ذکر خیر

جمعۃ المباک 28 مئی 2010ء کا روح فرسا دن تاریخِ احمدیت کے علاوہ مذہبی تاریخ میں بھی ہمیشہ صبرو استقامت کے حیرت انگیز نمونوں کے لئے یاد رکھا جائے گا اس روز لاہور کی دو احمدیہ مساجد میں نمازِ جمعہ کے لئے اکٹھے معصوم، نہتے اور باوخو عبادالرحمٰن پر ظالموں نے دھماکہ خیز مواد اور گولیاں برسا کر 86 احمدیوں کو شہید کر دیا۔ ایک ہی دن میں اس قدر تعداد میں اجتماعی قربانی معلوم مذہبی تاریخ میں منفرد واقعہ ہے۔ سوا صدی سے زائد پر پھیلی جماعتِ احمدیہ کی تاریخ اپنے آغاز سے ہی قربانیوں کی روشن مثالوں سے عبارت ہے۔

حضرت مسیح موعود ؑ فرماتے ہیں ’’یہ استقامت ہے جس سے خدا ملتا ہے۔جس کی رسولوں،نبیوں، صدیقوں اور شہیدوں کی خاک سے اب تک خوشبو آ رہی ہے۔‘‘

(اسلامی اصول کی فلاسفی)

یہی شہداء حضرت مسیح موعودؑ کے اس الہام کے مصداق ہیں ’’لاہور میں ہمارے پاک محب ہیں۔‘‘

آج ہمارے شہداء کی خاک سے بھی یقینًا یہ خوشبو آرہی ہے جو ہمارے دماغوں کو معطر کر رہی ہے۔ ان کی استقامت ہمیں پُکار پُکار کر کہہ رہی ہے کہ جس استقامت اور صبر کا دامن تم نے پکڑا ہے اسے کبھی نہ چھوڑنا۔ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ’’مبارک ہیں لاہور کے احمدی جنہوں نے یہ استقامت دکھائی۔ جانے والوں نے بھی اور پیچھے رہنے والوں نے بھی۔‘‘

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصر العزیز شہداء کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔

’’اللہ تعالیٰ ان سب شہداء کے درجات بلند فرماتا رہے۔ اپنے پیاروں کے قرب سے ان کو نوازے۔ یہ شہداء تو اپنا مقام پا گئے مگر ہمیں بھی ان قربانیوں کے ذریعے سے توجہ دلا گئے کہ اے میرے پیارو، میرے عزیزو، میرے بھائیو، میرے بیٹو، میرے بچو،میری ماؤں، میری بہنو اور میری بیٹیو۔ ہم نے تو صحابہ کے نمونے پر چلتے ہوئے اپنے عہدِ بیعت کو نبھایا ہے۔ مگر تم سے جاتے وقت یہ آخری خواہش کا اظہار کرتے ہیں کہ نیکیوں اور وفا کی مثالوں کو ہمیشہ قائم رکھنا۔‘‘

میرے پیارے حضور فرماتے ہیں ’’یہ ہیرے مٹی میں رولے نہیں گئے۔ ہاں دشمن نے مٹی میں رولنے کی ایک مذموم کوشش کی۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کی اہمیت پہلے سے بھی بڑھا دی۔ اور ان کو اٹھا کر اپنے سینے سے لگا لیا۔ ان کودائمی زندگی سے نوازا۔اس ایک ایک ہیرے نے اپنے پیچھے رہنے والے ہیروں کو مزید صیقل کر دیا۔ان جانے والے ہیروں کو اللہ تعالیٰ نے ایسے چمکدار ستاروں کی صورت میں آسمانِ اسلام اور احمدیت پر سجا دیا ہے۔ جس نے نئی کہکشائیں ترتیب دی ہیں۔‘‘

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصر العزیز نے خطبہ جمعہ 4جون 2010ء میں فرمایا تھا۔

’’آج ہمارے شہیدوں کی خاک سے بھی یقینًا یہ خوشبو آرہی ہے۔ جو ہمارے دماغوں کو معطر کر رہی ہے۔ان کی استقامت ہمیں پکار پکار کر کہہ رہی ہے کہ جس استقامت اور صبر کا دامن تم نے پکڑا ہے اسے کبھی نہ چھوڑنا۔‘‘ یہ شہداء جو شہادت کے مقام پر پہنچے۔ یقینًا یہ شہادت کا رتبہ ان کے لئے نماز با جماعت کے قیام۔اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ۔ جماعتی غیرت کا بے مثال اظہار۔ اطاعتِ نظام کا غیر معمولی نمونہ۔ جماعت کے لئے وقت قربان کرنے کے لئے ہر وقت تیار رہنا۔ دین کو دنیا پر مقدم رکھنا۔ عبادتوں کی قبولیت اور حقوق العباد کی ادائیگی کاحق ادا کرنے کی سند لئے ہوئے ہے۔

جیو تو کامران جیو، شہید ہو تو اس طرح
کہ دیں کو تمہارے بعد عمرِ جاوداں ملے

یہ شہداء سلطانِ نصیر تھے۔ خلافت کے لئے۔ جن کے لئے خلیفہء وقت دعا کرتے ہیں کہ مجھے عطا ہوں۔

عظیم شہداء کی ماؤں کے لئے حضور فرماتے ہیں ’’یہ وہ مائیں ہیں جو حضرت مسیح موعود ؑ نے اپنی جماعت میںپیدا کیں ہیں۔ قربانیوں کی عظیم مثال ہیں۔ اس بات کی فکر نہیں کہ میرے بچوں کا کیا حال ہے یا میرا بچہ شہید ہو گیا ہے۔ پوری جماعت کے لئے یہ مائیں درد کے ساتھ دعائیں کر رہی ہیں۔ پس اے احمدی ماؤں۔اس جذبہ کو اور ان نیک اور پاک جذبات کو اور ان خیالات کو مرنے نہیں دینا۔جب تک یہ جذبات رہیں گے۔ جب تک یہ پُر عزم سوچیں رہیں گی تودشمن کبھی جماعت کا بال بھی بیکا نہیں کر سکتا۔‘‘

آج خاکسار گاؤں ضلع چکوال کے دو شیدائے احمدیت کا ذکر خیر کر رہا ہے جنہوں نے اس سانحہ میں موت کو گلے لگاکر شہادت کا رتبہ حاصل کر کے ضلع چکوال کا سر فخر سے سر بلند کیا۔

مکرم ملک وسیم احمد صاحب شہید
(احمدیہ دارالذکر گڑھی شاہو لاہور) 28مئی 2010ء

تحصیل چوآسیدن شاہ، ضلع چکوال کا چھوٹا سا گاؤں رتوچھہ جس میں احمدیت کے نور کا ورود 1917ء میں مکرم نادر علی بھٹی کے احمدیت قبول کرنے سے ہوا۔ جماعتِ احمدیہ رتوچھہ کے پہلے صد جماعت مکرم جناب محمد خان تھے۔ اس جماعت پر بہت سارے ابتلاء آنے کے باوجود جماعت نے بڑی ثابت قدمی دکھائی۔مکرم ملک وسیم احمد شہید کو اس جماعت کے پہلے شہید ہونے کا شرف حاصل ہوا ہے جنہوں نے 28مئی 2010ء کو احمدیہ دارالزکر گڑھی شاہو میں سکیورٹی کے فرائض سر انجام دیتے ہوئے اپنی جان کا نذرانہ پیش کر کے اپنے آپ کو شہداء کی فہرست میں شامل کر کے اپنی جماعت احمدیہ رتوچھہ کا سر بلند کر دیا۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کی قربانی کو رنگ لائے اور رتوچھہ میں احمدیت کو ترقی پر ترقی نصیب ہو۔ آمین

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصر ہ العزیز نے خطبہ جمعہ فرمودہ 9 جولائی 2010ء کو مکرم ملک وسیم احمد شہید کا ذکرِ خیر کرتے ہوئے فرمایا۔ مکرم ملک وسیم احمد صاحب شہید ابنِ مکرم محمد اشرف صاحب (رتوچھ ضلع چکوال شہید مرحوم کے آباؤ اجداد کا تعلق موضع رتوچھہ ضلع چکوال سے تھا۔ شہید مرحوم نے میٹرک تک تعلیم اپنے آبائی گاؤں سے حاصل کی۔پھر فوج میں بطور لانس نائیک ملازمت شروع کر دی۔ فوج سے ریٹائرمنٹ کے بعد اسلام آباد میں ایک سیکیورٹی کمپنی میں ملازمت شروع کی بعد ازاں 2009ء میں احمدیہ دارالذکر (گڑھی شاہو لاہور) میں سیکورٹی گارڈ کی ملازمت شروع کر دی۔ان کے خسر مکرم عبدا لرزاق صاحب نظارتِ علیاء صدر انجمن احمدیہ پاکستان ربوہ کے ڈرائیور تھے۔ شہادت کے وقت وسیم احمد صاحب کی عمر 54سال تھی۔ احمدیہ دارالذکر میں ڈیوٹی دینے کے دوران جامِ شہادت نوش فرمایا۔ سانحہ کے روز وسیم صاحب احمدیہ دارالذکر کے مین گیٹ پر ڈیوٹی پر تھے۔ حملہ آوروں نے دور ہی سے فائرنگ شروع کر دی جس سے سانحہ کے آغاز میں ہی ان کی شہادت ہو گئی۔ شہید مرحوم کی دو شادیاں ہوئی تھیں۔ 1983ء میں پہلی بیوی کی وفات ہو گئی پھر 1990ء میں عبدالرزاق صاحب جن کا میں نے ذکر کیا ہے ان کی بیٹی سے شادی ہوئی۔ ان کی اہلیہ بتاتی ہیں کہ بہت ہی اچھے انسان تھے۔ معاشرے میں بہت اچھا مقام تھا۔ ہر ایک کے ساتھ بہت اچھے تعلقات تھے۔ ہر رشتے کے لحاظ سے بہت اچھے انسان تھے۔ خاص طور پر یتیم بچے اور بچیوں کے ساتھ بہت اچھا سلوک کرتے تھے۔ چاہے وہ رشتہ دار، غیر رشتہ دار، غیر از جماعت یا احمدی ہوتا۔جماعتی خدمات کا بہت جوش اور جذبہ تھا۔ اسی لئے جب بھی لاہور سے چھٹی پر گھر آتے تو بتاتے کہ میں ادھر بہت خوش ہوں۔ احمدیہ دارالذکرمیں آنے والا ہر احمدی چاہے وہ چھوٹا ہے یا بڑا ہر ایک بہت عزت سے ملتا تھا۔ شہید مرحوم کے بچوں نے بتایا کہ ہمارے ابو بہت اچھے انسان تھے۔ہمارے ساتھ بہت اچھا تعلق تھا۔ ہر ایک خواہش کا احترام کرتے تھے۔ بیٹی نے بتایا کہ خاص طور پر میری ہر خواہش پوری کرتے تھے بچوں کی تعلیم کے بارہ میں بہت جذبہ اور شوق تھا۔ بیٹی نے بتایاکہ مجھے کہتے تھے کہ میں تمہیں تعلیم حاصل کرنے کے لئے ربوہ بھیج دوں گا۔ ماحول اچھا ہے اور وہیں جماعت کی خدمت کرنا۔چاہے مجھے تمہارے ساتھ ربوہ میں ہی کیوں نہ رہنا پڑے۔ بہت ہی شفقت اور پیار کرنے والے باپ تھے۔

شہید مرحوم کی اہلیہ نے مزید بتایا کہ شہادت سے کچھ روز قبل فون کر کے مجھے بتایا کہ میں ڈیوٹی پر کھڑا تھا، صدر صاحب حلقہ احمدیہ دارالذکر میں تشریف لائے۔میرے پاس سے گزرے تو میں نے کہا صدر صاحب میری وردی پرانی ہو گئی ہے اگر مجھے نئی وردی لے دیں تو ہر ایک آنے والے کو اچھا محسوس ہو گا۔ لہٰذا صدر صاحب نے نئی وردی لے دی۔ شہادت والے روز سانحہ سےقبل فون کر کے بتایا کہ میں نے نئی وردی پہنی ہے۔ اسی وردی میں شہادت کا رتبہ پایا۔ ان کی اہلیہ لکھ رہی ہیں کہ شہادت کی خبر پہلے ٹی وی کے ذریعہ ملی کہ لاہور میں احمدی مساجد پر حملہ ہو گیا ہے۔ پھر ہم نے لاہور وسیم صاحب کے نمبر پر رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن رابطہ نہ ہو سکا۔ وسیم صاحب کے نمبر سے کسی احمدی بھائی نے فون کر کے خبر دی کہ وسیم صاحب شہید ہو گئے ہیں۔ یہ خبر سن کر بہت دکھ ہوا اور تکلیف بھی ہوئی لیکن شہادت جیسا بلند مرتبہ پانے پر بہت خوشی تھی اور سر فخر سے بلند تھا کہ احمدیہ دارالذکر میں نمازیوں کی حفاظت کرتے ہوئے شہادت پائی۔ شہید مرحوم پنجوقتہ نماز کے پابند تھے نیکی کے ہر کام میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے۔

رسالدار محمد اکبر صاحب صدر جماعت احمدیہ رتوچھہ ضلع چکوال نے مکرم ملک وسیم احمد شہید کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ روزنامہ الفضل میں ایک اشتہار شائع ہواکہ لاہورکی ایک احمدیہ مسجدمیں سکیورٹی گارڈ کی ضرورت ہے تو میں نے کہا کہ تم چلے جاؤ اور وہاں خدمت بھی ہو جائے گی تو کہا کہ ٹھیک ہے میں چلا جاتا ہوں۔ تو وہ وہاں سکیورٹی کے لئے چلے گئے۔ بس اللہ تعالیٰ نے ان کویہ انعام دے دیا کہ وہ شہید ہو گئے۔ آپ شہید کے بارے میں کہتے ہیں کہ ہمارے خاندان میں کوئی ایسا بڑا وقوعہ نہیں ہوا جو قابلِ ذکر ہو۔لیکن اب ہمارے لئے ایک فخر ہو گیا ہے کہ رتوچھہ جماعت کے ایک لڑکے نے احمدیت کے لئے جان کا نذرانہ دے کر شہید ہو گیا ہے۔

مکرم ملک وسیم احمد شہید کے بیٹے ولید احمد صاحب بیان کرتے ہیں۔ میرے والد مجھ سے بہت پیار کرتے تھے۔ میری والدہ میرے بچپن میں ہی فوت ہو گئی تھیں اور ابو نے دوسری شادی کر لی تھی۔ لیکن انہوں نے مجھے کبھی بھی ماں کی کمی محسوس نہیں ہونے دی میں کچھ عرصہ پہلے ہی چھٹی گزار کر سعودیہ آگیاتھا اور بعد میں یہ واقعہ ہو گیا۔ موت تو سب کو آئے گی لیکن الحمد للہ کہ ابو کوشہادت کی موت نصیب ہوئی۔

مکرم ملک وسیم احمد شہید کی بیٹی آپ کے بارہ میں کہتی ہیں۔ میرے ابو بہت ہی اچھے انسان تھے۔ ان کے تعلقات ہمارے ساتھ بہت ہی اچھے تھے۔ جب ابو کی شہادت کی خبر ہم کو ملی تو افسوس تو ہوا لیکن ایک خوشی بھی ہوئی کہ میرے ابو اللہ تعالیٰ کے گھرکی حفاظت کرتے ہوئے شہید ہوئے ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ نے مجھے صبر بھی عطا کیا۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں بہت بڑے درجے سے نوازا ہے۔

آپ کی تدفین موضع رتوچھہ ضلع چکوال میں ہوئی۔

جو مسیح الزماں کا فدائی بنا اور شاکر رہا ہر حال میں
اس کو قُربِ خدا کی نویدیں ملیں۔ ہاتھ جب بھی اٹھایا دعا کے لئے
یہ خون نہ ضائع جائے گا ہاں رنگ کسی دن لائے گا
چپ چاپ جنہوں نے جاں دے دی جگ گیت انہیں کے گائے گا

مکرم حسن خورشید اعوان صاحب شہید
(احمدیہ دارالذکر گڑھی شاہو لاہور) 28 مئی2010 ء

جماعت احمدیہ دوالمیال تحصیل چوآ سیدن شاہ ضلع چکوال کا قیام حضرت مسیح موعود ؑ کے زمانے میں ہوا تھا۔ دوالمیال کے سب سے پہلے خوش نصیب احمدی مکرم حضرت حافظ شہباز خان صاحب تھے اور جماعت احمدیہ دوالمیال کے پہلے امیر مکرم حضرت مولوی ملک کرمداد صاحب تھے۔ جماعت احمدیہ دوالمیال میں صحابہ حضرت مسیح موعود ؑ کی تعداد 65 سے زیادہ تھی۔ احمدیہ دارالذکر دوالمیال میں مینارۃ المسیح کی طرز کا ایک مینار مکرم مستری غلام محمد احمدی نے 1927ء میں تعمیر کیا تھا۔ جس کی بنیادیں صحابہؓ حضرت مسیح موعودؑ نے خود کھودی تھیں جو ہمارے اسلاف کی احمدیت سے صحیح رنگ میں محبت کی نشاندہی کرتی ہے۔ اس احمدیہ دارالذکر میں حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ اور حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ بھی خلافت سے پہلے تشریف لائے تھے اور جماعت کو اپنی نصائح اور روح پرور خطاب سے نوزا تھا۔ انہیں احمدیت کے جاں نثاروں کی اولادوں میں سے مکرم حسن خورشید اعوان شہید کو 28مئی 2010ء کو احمدیہ دارالذکر گڑھی شاہو لاہور میں جان کا نذرانہ دے کر جماعت احمدیہ دوالمیال کے پہلے شہید ہونے کا اعزاز ملا ہے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے جنت الفردوس میں اونچا سے اونچا مقام عطا کرے۔آمین

حضورِ انور خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خطبہ جمعہ فرمودہ 9جولائی 2010ء کو مکرم حسن خورشید اعوان شہید کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا۔ مکرم حسن خورشید اعوان شہید ابنِ مکرم ملک خورشید اعوان کا تعلق موضع دوالمیال ضلع چکوال سے تھا۔ ان کے والد اور دادا پیدائشی احمدی تھے۔ تاہم کچھ عرصہ قبل ان کی فیملی کے دیگر افراد نے کمزوری دکھاتے ہوئے ارتداد اختیار کر لیا۔ جبکہ شہید مرحوم بفضلِ اللہ تعالیٰ شہادت کے وقت تک جماعت سے وابسطہ رہے۔ ان کے ایک اور بھائی مکرم سعید خورشید اعوان جو جرمنی میں ہیں انہوں نے بھی جماعت کے ساتھ وابستگی رکھی۔ شہادت کے وقت ان کی عمر 24 سال تھی۔ غیر شادی شدہ تھے۔ احمدیہ دارالذکر (گڑھی شاہو لاہور) میں جامِ شہادت نوش فرمایا۔ سانحہ کے روز احمدیہ دارالذکر (گڑھی شاہو لاہور) میں نماز جمعہ ادا کرنے گئے۔ دہشت گردوں کے آنے پر گھر فون کر کے بتایا کہ احمدیہ دارالذکر (گڑھی شاہو لاہور) پر حملہ ہو گیا ہے۔ میں زخمی ہوں، دعا کریں۔ اسی دوران دہشت گردوں کی فائرنگ سے شہید ہو گئے۔ ان کے فیملی کے غیر از جماعت ممبران ان کے احمدی ہونے کے بارے میں اعتراضات کرتے رہے۔ جس پر ان کے والدین ان کے دباؤ میں آ گئے اور اطلاع دی کہ اگر احمدی احباب نے نماز جنازہ پڑھی تو علاقے میں فساد پھیل جائے گا۔ یہاں پر ختمِ نبوت والے (نام نہاد حتمِ نبوت والے کہنا چاہئے) کافی ایکٹو ہیں۔ انہی وجوہات کی بنا پر احمدی احباب کو نماز جنازہ ادا نہ کرنے دی گئی۔ غیر از جماعت نے ہی نمازِ جنازہ پڑھی اور تدفین کی۔ تاہم، علاقے میں عام لوگ مجموعی طور پر اس امر پر افسوس کرتے رہے۔شہید کے والد پہلے تو مخالفت کے باعث کوائف دینے سے انکار کرتے رہے جس پر سمجھایا گیا کہ آپ کے بیٹے نے جان دے کر پیغام دیا ہے کہ دنیاوی لوگوں سے خوف نہ کھائیں، خواہ جان ہی کیوں نہ چلی جائے۔شہید مرحوم کی قربانیوں کو چھپانا شہید کے ساتھ زیادتی ہے۔ لیکن پھر بھی انہوں نے کوئی کوائف نہیں دیئے اللہ تعالیٰ شہید کے درجات بلند فرمائے اور ان کی یہ قربانی ان کے گھر والوں کی بھی آنکھیں کھولنے کا باعث بنے۔ مکرم ملک حسن خورشید اعوان کے بارے میں امیر صاحب ضلع نے لکھا ہے کہ دعوتِ الی اللہ کا کوئی موقع بھی ہاتھ سے جانے نہ دیتے تھے پچھلے چند سالوں سے آپ کے والد مکرم خورشید احمد نے جماعت احمدیہ سے علیحدگی اختیار کی تو ملک حسن خورشید اپنے حقیقی عقیدہ یعنی احمدیت سے منسلک رہے اور تا دمِ آخر اس کے ساتھ رہے۔ نماز جمعہ گڑھی شاہو دارالذکر میں جا کر ادا کرتے تھے۔ متعدد بار والدین کے اصرار کے باوجود اپنے ایمان پر قائم رہے۔

گاؤں دوالمیال کا چھوٹا سا بچہ۔ احمدیت کے رنگ میں رنگ کر۔ اطاعتِ خلافت میں گُم۔ ایفائے عہد، خدمتِ خلق اور اوصافِ حمیدہ کے حسیں نمونے دکھاتے ہوئے یوں آگے بڑھتا ہے کہ آخر میں بےخوف و خطر اپنی جان کا نذرانہ دے کر ہزاروں ماؤں کی گودوں کو آباد کر دیتا ہے۔ اور سجدہ گاہوں میں جامِ شہادت نوش کر کے اللہ تعالیٰ اور خلیفہ وقت کا قُرب پا لیتا ہے۔

جو خاک میں ملے اسے ملتا ہے آشنا
اے آزمانے والے یہ نسخہ بھی آزما

یہ شہدائے احمدیت، ان ماؤں کے بیٹے ہیں جن کے خون میں جن کے دودھ میں، جان، مال، وقت، عزت کی قربانی کا عہد گردش کر رہا ہے۔ جن کو اپنے اندر عہدِ وفا نبھانے کا جوش ہے۔ شہداء کی شہادت ہمارے لئے ایک بہت بڑا المیہ ہے۔ ایک نہ پُر ہونے والا خلا ان کی ہر لمحہ پر جماعتی کام کرتے وقت بڑی شدت سے کمی کومحسوس کیا جائے گا۔ ان کو یاد کر کے دل بھر آئے گا۔ اور آنکھوں کے کنارے بھیگ جائیں گے۔ دعا ہے کہ خدا ہمیں صبر کرنے اور اللہ کی رضا پر راضی رہنے کی توفیق عطا فرمائے اور ان کے درجات بلند فرمائے۔آمین

تم دیکھو گے انہیں میں سے قطراتِ محبت ٹپکیں گے
بادل آفات و مصائب کے چھاتے ہیں اگر تو چھانے دو

(ریاض احمد ملک)

پچھلا پڑھیں

Covid-19 اپ ڈیٹ27۔مئی2020ء

اگلا پڑھیں

آج کی دعا