• 19 اپریل, 2024

اللہ تعالیٰ کے اپنے بندوں پر عجیب احسان ہیں

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:۔
اللہ تعالیٰ کے اپنے بندوں پر عجیب احسان ہیں جیسا کہ اس آیت سے ظاہر ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میری رحمت ہر چیز پر حاوی ہے۔ رحمت کا مطلب ہے نرم ہونا، مہربان ہونا، رحم کا ابھرنا۔ یعنی اللہ تعالیٰ کا بندوں سے نرمی اور صَرفِ نظر کا سلوک ہے جس کی کوئی انتہا نہیں۔ اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں پر مہربانی کا سلوک ہے جس کی کوئی انتہا نہیں۔ اللہ تعالیٰ کا رحم کا جذبہ اور یہ سلوک اتنا بڑھا ہوا ہے کہ جو ہر چیز پر حاوی ہے۔ اس کی رحمت میں رحمانیت اور رحیمیت شامل ہیں۔ یہ اس کی رحمانیت ہے کہ بن مانگے بھی بیشمار چیزیں دنیا میں انسان کے لئے پیدا کی ہیں۔ اور رحیمیت کا پھر وہ اللہ تعالیٰ کے حق ادا کرنے والوں اس کے احکام پر عمل کرنے والوں اس کے آگے جھک کر مانگنے والوں پر اظہار کرتا ہے۔ تو یہاں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ بندوں کو عذاب دینا میری غرض نہیں ہے۔ بعضوں کو بڑی غلط فہمی ہوتی ہے کہ انسان کو اگر عذاب دینا ہے، سزا دینی ہے تو پیدا کیوں کیا گیا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میری غرض یہ نہیں ہے۔ ہاں وہ لوگ میرے عذاب اور سزا کے مورد بنتے ہیں جو اپنے غلط عملوں کی انتہا کو پہنچے ہوئے ہیں۔ لیکن میرا یہ عذاب بھی عارضی چیز ہے اور اصلاح اور احساس کے لئے ہے۔ حتی کہ ایک وقت آئے گا کہ دوزخ والے بھی میری وسیع رحمت سے حصہ لیں گے اور ان کا عذاب بھی ختم ہو جائے گا۔ دوزخ کی سزا بھی ان کے غلط عملوں کی وجہ سے ملے گی اور پھر وہ ایک اصلاح کا ذریعہ بن جائے گی۔ تو اگر دیکھا جائے تو یہ سزا بھی اصلاح ہے۔ یہ سزا کا دور جو ہے یہ بھی ایک لحاظ سے رحمت ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ جزا سزا کے دن کا مالک بھی ہے۔ اس لئے وہ بظاہر ہمیں گناہگار نظر آنے والے لوگوں کو اپنی رحمت اور بخشش کی چادر میں لپیٹ کر بغیر سزا کے جانے دے سکتا ہے۔ لیکن اس نے ہمیں نیکیوں کے راستوں پر چلنے کی ترغیب دلاتے ہوئے یہ ضرور فرما دیا کہ میری رحمت ہر چیز پر حاوی ہے اور ان پر میں ضرور اپنی رحمت کروں گا جو تقویٰ اختیار کرتے ہیں جو زکوٰۃ دیتے ہیں اور ان لوگوں پر جو میرے نشانوں پر ایمان لاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی آیات پر ایمان لاتے ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں بطور حق کے ان لوگوں کو جو تقویٰ پر چلنے والے ہیں، جو زکوٰۃ دینے والے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے احکامات پر ان کا حق ادا کرتے ہوئے اور یقین کے ساتھ عمل کرنے والے ہیں، اللہ تعالیٰ کی آیات پر مکمل ایمان رکھنے والے ہیں، ضرور اپنی رحمت کی چادر میں لپیٹوں گا۔

پھر ایک دوسری جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ اِنَّ رَحْمَتَ اللّٰہِ قَرِیْبٌ مِّنَ الْمُحْسِنِیْنَ (الاعراف: 57) کہ اللہ کی رحمت یقیناً محسنوں کے قریب ہے۔ محسن وہ ہیں جو تمام شرائط کے ساتھ اپنے کام کو پورا کرتے ہیں۔ پس جو تقویٰ کے تقاضوں کو پورا کرنے والا ہے، اللہ تعالیٰ کے احکامات کو بجا لانے والا ہے، اللہ تعالیٰ کے نشانات پر مکمل ایمان رکھنے والا ہے، اللہ تعالیٰ کے آگے جھکنے والا ہے تو ایسے شخص کو اللہ تعالیٰ کی رحمت پہنچے گی۔ پس ایک انسان کو اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنے، تقویٰ پر چلنے اور ایمان میں کامل ہونے کی بھرپور کوشش کرنی چاہئے تبھی وہ مومن کہلا سکتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کے اس اعلان سے فیض پانے کی کوشش کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت اس کے احکامات پر ان کا حق ادا کرتے ہوئے عمل کرنے والوں کے قریب ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے تو اپنے پر فرض کر لیا ہے، ان کے لئے لکھ دیا ہے کہ اگر تم یہ کرو گے تو میری رحمت کی وسعت تمہیں اپنی لپیٹ میں لے لے گی۔ کتنا رحیم و کریم ہے ہمارا خدا۔ ہم تو اللہ تعالیٰ کے بندے ہیں۔ بندہ کس طرح اپنے مالک پر کوئی حق جتا سکتا ہے۔ لیکن وہ زمین و آسمان کا مالک کہتا ہے کہ اگر تم تقویٰ پر چلو گے، میرے احکامات پر عمل کرتے ہوئے میرے نشانوں پر ایمان لاؤ گے تو میری رحمت کے یقیناً حقدار بن جاؤ گے۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے پہلی چیز تقویٰ بیان فرمائی ہے اور اصل میں اگر تقویٰ کا صحیح اِدراک ہو جائے تو باقی نیکیاں اور ایمان میں کامل ہونا اس کے اندر ہی آ جاتا ہے۔

(خطبہ جمعہ 8؍ جون 2018ء)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 26 ستمبر 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 28 ستمبر 2020