• 19 اپریل, 2024

خلاصہ اختتامی خطاب حضرِت خلیفتہ المسیح الخامس بمورخہ 26 ستمبر 2021ء

اردو خلاصہ اختتامی خطاب

  حضرِت خلیفتہ  المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی بر موقع سالانہ  اجتماع لجنہ اماءاللہ برطانیہ بمورخہ 26 ستمبر 2021ء

*اگر ہم اس روحانی مشعل یعنی اسلام کے حقیقی پیغام کو دنیا میں سربلند رکھیں گے تو اللہ کی مدد ہمارے ساتھ رہے گی

*دنیا میں انقلاب پیدا کرنے کا آغاز اپنے اندرتعلق باللہ پیدا کرنے سے کرنا ہو گا

حضورِ انور ایّدہ اللہ تعالیٰ  نےمورخہ 26 ستمبر 2021ء بروز اتوار ،ایم ٹی اے سٹوڈیوز  اسلام آباد یو کے میں رونق افروز ہو کر طاہر ہال ،مسجد بیت الفتح مورڈن میں موجود ممبرات لجنہ سے انگریزی زبان میں ورچوئل خطاب فرمایا۔ حضور پُرنور 4 بجکر 06 منٹ پراسٹوڈیو میں  رونق افروز ہوئے۔اور آخری سیشن کا آغاز تلاوت قرآن سے ہوا ۔ عہد و نظم اوررپورٹ کے بعد حضورایدہ اللہ تعالی نے   تشہد و تعوّذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:

الحمدللہ کہ لجنہ اماء اللہ کو دو سال کے بعد اپنا نیشنل اجتماع منعقد کرنے کی توفیق مل رہی ہے۔ جیسا کہ تمام احمدی جانتے ہیں کہ ہمارے اجتماعات اور جلسوں کے انعقاد کا مقصد شاملین کے روحانی اور اخلاقی معیار کو بہتر کرنا، ان کے دینی علم کو بڑھانا اور ان کے ایمان میں مضبوطی پیدا کرنا ہوتا ہے۔ اگر اجتماع کرتے ہوئے یہ مقاصد مد نظر نہ ہوں تو اجتماع یا ایسے دیگر پروگرام رکھنے کی چنداں ضرورت باقی نہیں رہتی۔

آج کے دورمیں انسانی علم اور ذرائع مواصلات بہت ترقی کر گئے ہیں۔ سفر کی سہولتوں ، الیکٹرانک اور ڈیجیٹل کمیونیکیشن کے ذرائع کے باعث باہمی فاصلے بہت کم ہو گئے ہیں۔ اس ترقی کے بارے میں غالباً پچاس سال پہلے بھی تصور نہیں کیا جا سکتا تھا۔ اور سمارٹ ٹیکنالوجی نے جو ترقی کی ہے دس پندرہ سال پہلے ممکن نہ لگتا تھا کہ انسان یہاں تک ترقی کر لے گا۔ آج دنیا کے کونوں میں بیٹھے انسان ایک دوسرے سے پل بھر میں رابطہ کرسکتے ہیں۔ اس ترقی نے لوگوں کو اپنے عقائد اور خیالات کو دنیا بھر میں پھیلانے میں مدد دی ہے۔ امیر ممالک اپنا طرزِ زندگی دنیا بھر کو دکھانے کے قابل ہو گئے ہیں۔ یہاں تک کہ غریب سے غریب تر لوگ بھی جانتے ہیں کہ امیر لوگوں کا طرزِ زندگی کیا ہے۔ جب غریب ممالک میں رہنے والے ترقی یافتہ ممالک میں رہنے والوں کا معیارِ زندگی دیکھتے ہیں تو اپنے حالات کو دیکھ کر پریشان اور غمزدہ ہو جاتے ہیں۔ اس لیے جہاں سیٹلائیٹ نے پوری دنیا کو گلوبل ولیج بنانے میں اپنا کردار ادا کیا ہے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس نے ہمیشہ اچھا کردار ادا کیا ہے۔

اب جبکہ انسان اس بات کا دعویدار ہے کہ وہ اپنے تمدّن کو  معراج تک پہنچا چکا ہے یہ بھی حقیقت ہے کہ دنیا کی اکثر آبادی انتہائی غربت میں مبتلا ہے۔ الغرض جدید ٹیکنالوجی نے دنیا میں پھیلی ہوئی طبقاتی تقسیم کو دنیا کے سامنے کھول کر رکھ دیا ہے۔ اور جب غریب ممالک، امیر ممالک کے طرزِ بود و باش کو دیکھتے ہیں تو ان میں قدرتی طور پر بے چینی اور غصہ جنم لیتا ہے۔ اس لیے جہاں ایک طرف ترقی یافتہ ممالک کی حکومتیں اور وہاں کے عوام یہ سمجھتے ہیں کہ سیٹلائیٹ اور انٹرنیٹ کے ذریعہ غریب ممالک کو انٹرٹینمنٹ کے سامان مہیا کیے جا رہے ہیں وہاں حقیقت یہ ہے کہ ٹیکنالوجی ان میں بے چینی پیدا کرنے کا باعث بنی ہے۔

حضورِ انور نے فرمایا کہ ہم مادیت پرستی سے پُر دور سے گزر رہے ہیں۔ جہاں لوگ ذہین بھی ہیں لیکن زیادہ تر لوگ روحانی اور اخلاقی لحاظ سے بے بہرہ نظر آتے ہیں اور گویا ہر چمکتی ہوئی چیز کو سونا سمجھنے لگے ہیں۔ ان کو اس بات کا اندازہ ہی نہیں کو ان کی سوچ کس قدر سطحی ہو چکی ہے اور مادیت پرستی کی رو میں بہنے کے کتنے برے نتائج ہو سکتے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ ایک وقت آئے گا کہ انہیں اندازہ ہو جائے گا کہ ٹی وی، انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا پر دکھائی جانے والی مادیت کی اندھی تقلید اور دنیاوی خواہشات کو پورا کرنے کی دوڑ ان کے لیے کتنی نقصان دہ ہے۔ انہیں اندازہ ہو جائے گا کہ کیسے وہ چیز جسے وہ اپنی ترقی اور فائدے کی چیز سمجھتے تھے ان کے ایسے روحانی اور اخلاقی انحطاط کا باعث بنی ہے جسے رہتی دنیا میں کبھی کسی نے تجربہ نہیں کیا۔ ہم اس کا مشاہدہ کر رہے ہیں کیونکہ لوگوں کی اکثریت بےچینی ، ڈپریشن اور دوسری ذہنی صحت کی بیماریوں میں پہلے سے بہت زیادہ مبتلا ہو رہے ہیں ۔ میرا پختہ ایمان ہے کہ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ انہیں دنیاداری کی دوڑ نے اور دنیا کی خواہشات نے اپنے شکنجے میں لے لیا ہے۔ اور اس سے بڑھ کر یہ وجہ کہ وہ اللہ تعالیٰ پر ایمان کھو بیٹھے ہیں۔

ہم ایک ایسی دنیا میں رہ رہے ہیں جس میں خواہ کوئی کتنا بھی امیر ہو وہ ہمیشہ زیادہ کی طلب رکھتا۔ بجائے اس کے کہ وہ اس پر خوش ہو جو ان کے پاس موجود ہے وہ اس کو حاصل کرنے میں مصروف ہیں جو ان کے پاس نہیں ہے۔ جہاں مرد دنیاوی اموال کے حصول میں مصروف ہیں وہاں عورتیں بھی اُن سے کم نہیں۔ یہ غیرضروری خواہشات کو پورا کرنے کی تمنا انسان کو صرف بے چینی اور مایوسی میں مبتلا کرتی ہے اور روشنی کی بجائے تاریکی کی طرف دھکیلتی ہے۔

حضور انور نے فرمایا: ماضی میں، میں نے احمدی والدین کو ہدایت دی تھی کہ انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ وہ خود بھی اور ان کے بچے بھی میڈیا پر کیا دیکھ رہے ہیں۔ اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ وہ دیکھنے کے وقت کو محدود رکھیں۔ لیکن اب دنیا اس خطرہ سے بہت آگے نکل چکی ہے کہ صرف نامناسب مواد ٹی وی پر دیکھا جائے بلکہ اب بچوں کو انٹرنیٹ، یو ٹیوب اور دوسری پلیٹ فارمز پر بہت نقصان دہ مواد کا سامنا ہے۔ بچے فون، لیپ ٹاپ اور ٹیبلیٹس پر ایسا مواد دیکھتے ہیں جو اکثر والدین کی نظر سے مخفی ہوتا ہےاور جسے وہ خود بھی کنٹرول نہیں کر سکتے کہ وہ کیا دیکھ رہے ہیں۔ مثلاً اگر وہ ایک ویڈیو سٹریم کر رہے ہیں یا آن لائن گیم کھیل رہے ہیں تو pop up کے اشتہار وقتاً فوقتا سامنے آ جاتے ہیں جن میں نقصان دہ مواد کی مشہوری ہو رہی ہوتی ہے۔ یا ایسا مواد ظاہر کیا جا رہا ہوتا ہے کہ جو اخلاقی لحاظ سے تباہی کی طرف دھکیلنے والا ہوتا ہے یا عمر کے لحاظ سے مناسب نہیں۔

حضور انور نے بعض رپورٹس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ میں کافی عرصے سے کہہ رہا ہوں کہ اس حوالے سے مختلف پلیٹ فارمز کو استعمال کرتے ہوئے احتیاط کی جائے جس سے منفی اثرات کا دنیا میں ہزاروں شکار ہوئے ہیں۔ حضورانور نےبعض مزید رپورٹس کی طرف اشارہ کیا ہے جن میں بچوں نے خودکشی بھی کی ہے۔ حضور انور نے ایک بار پھر والدین کو احتیاط کرنے کی طرف توجہ دلائی۔

حضورِ انور نے پاکستان میں پیش آمدہ حالات اور اس کے نتیجے میں بہت سے احمدیوں کو مجبوراً پاکستان چھوڑنے کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ پاکستانی احمدیوں کو خطرناک سفر اختیار کر کے باہر کے ممالک میں جانا پڑا تا کہ پُرسکون زندگی گزار سکیں اور اپنے بچوں کے لیے آزادی کے سامان پیدا کر سکیں۔ اس لحاظ سے دنیا داری میں پڑنے کی بجائے پاکستان سے آئے ہوئے احمدیوں اور ان کی نسلوں کو اس مقصد کو سامنے رکھنا چاہیے اور یہاں کی سہولتوں سے بہتر رنگ میں فائدہ اٹھانا چاہیے۔ جہاں اپنی پڑھائی کی طرف توجہ دیں وہاں دین کو ہر معاملے میں دنیا پر مقدم رکھنا آپ کا شعار ہونا چاہیے۔ آپ سب ایک اچھا شہری بننے کی کوشش کرتے ہوئے معاشرے کا صحت مند وجود بنیں۔ اس معاشرے میں Integrate ضرور ہوں لیکن اپنی دینی اور اخلاقی اقدار کو نہ بھولیں۔ Integration کا بہترین طریق یہ ہے کہ اس معاشرے کی بہتری کی خاطر کوشاں رہیں۔ کلبوں میں جہاں مرد عورتیں اکٹھے ناچتے ہیں، ایسی بدیاں بجائے انسانیت کو فائدہ پہنچانے کے دینی اور اخلاقی حالتوں کو بگاڑنے والی ہوں گی۔ مغرب میں رہنے والے ہر احمدی مرد، عورت اور بچے کو یاد رکھنا چاہیے کہ اپنی اخلاقی اور مذہبی اقدار کو بلند کرنا ان کا فرض ہے۔ مجھے یقین ہے کہ ایک وقت آئے گا کہ مغربی اقوام کو اپنی غلطی کا احساس ہو گا۔ اس لیے ہر احمدی کا فرض ہے کہ وہ سچائی کی خاطرمضبوطی سے کھڑا ہو اور اپنے ایمان پر قائم رہے تاکہ جب ان لوگوں کو اپنی غلطی کا احسا س ہو گا ہم ان کی درست راہ نمائی کرنے والے ہوں گے۔ ہم ایک ایسے وقت میں سے گزر رہے ہیں جہاں آزادی کے نام پر پرانے اقدار کو ایک ایک کر کے تباہ کیا جا رہا ہے۔ اس کے نتیجے میں معاشرے میں بے چینی بڑھ رہی ہے۔یہاں بھی بعض لوگوں نے اس کے خلاف آواز اٹھانی شروع کی ہے اور اخباروں میں اس کے خلاف مضامین لکھے ہیں۔یقیناً ہر نیک فطرت ایسے معاشرے کو پسند نہیں کر سکتا جہاں بسا اوقات انسان اور جانوروں کے اخلاق میں فرق معلوم نہ ہو سکے۔ اس لیے مغربی ممالک میں رہنے والے احمدی مسلمان ہونے کے ناطے یہ ہماری بہت بڑی ذمہ داری ہے کہ ہم اپنے اخلاقی اقدار کی حفاظت کریں اور کوشش کریں کہ ہم جس معاشرے میں رہ رہے ہیں اس میں بھی اخلاقیات کا معیار بہت بلند ہو۔ مزید برآں احمدی مسلمان اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پیروکار ہونے کے ناطے ہمارا یہ بھی فرض ہے کہ اسلام کے حقیقی پیغام کو دنیا تک پہنچائیں۔ اور یہ میرا یقین ہے کہ اگر ہم اس روحانی مشعل کو سربلند رکھیں گے جسے اٹھانے کی ذمہ داری حضرت مسیح موعودؑ نے ہم پر ڈالی ہے تو ہم دیکھیں گے کہ ہر مرحلے پر اللہ کی مدد ہمارے ساتھ ہو گی۔

حضورِ انور نے فرمایا کہ اسی وقت ہم اپنی پیدائش کا حقیقی مقصد یعنی اللہ کی عبادت اور اس سے پختہ تعلق دنیا کے سامنے ثابت کر سکتے ہیں، اسی وقت ہم دنیا کو اپنے مذہب کی طرف بلا سکتے ہیں جب ہم ثابت کریں کہ ہم نے حقیقی ذہنی سکون کو اپنے مذہب اور روایات پر عمل کرتے ہوئے پالیا ہے۔ یقینا دنیا کی چمک دمک انسان کو دائمی سکون مہیا نہیں کر سکتی۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ

 اَلَا بِذِکْرِ اللہِ تَطْمئِنُ القلوب

کہ یقیناً دلوں کا سکون اللہ کے ذکر میں مضمر ہے۔ یہ صرف قرآنِ کریم کا ایک دعویٰ ہی نہیں بلکہ ہماری جماعت کے نیک لوگ اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ اصل سکون اور اطمینان صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت سے ہی حاصل کیا جا سکتا ہے۔

حضورِ انور نے فرمایا کہ دورِ حاضر کی ایجادات میں سے بعض انسان کے لیے فائدہ مند بھی ہیں مثلا ورزش کرنے کے طریقے۔ لیکن ایسی مصروفیات یا کھیلیں جو انسان اور خدا کے درمیان روک پیدا کریں اور مادیت کی طرف متوجہ کریں ان سے بچنا چاہیے۔ یہ انسان میں بے سکونی پیدا کرنے کا باعث بنتی ہیں۔ یہ چیزیں سمندر کے پانی کی طرح انسان کی پیاس بجھانے کی بجائے اس کی طلب کو اور بڑھا دیتی ہیں۔ اور آہستہ آہستہ انسان کی زندگی کا خاتمہ کر دیتی ہیں۔ بہترین پانی وہ ہے جو آسمان سے بارش کی طرح نازل ہوتا ہے۔ اسی سے زندگی کا سلسلہ چل رہا ہے۔ یہ زندگی کی تمام اقسام کے لیے فائدہ مند ثابت ہوتا ہے۔ اس لیے ہمیں زمینی اور زہریلے پانی سے بچتے ہوئے آسمانی پانی پر انحصار کرنا چاہیے جو نہ صرف ہماری زندگی کا ضامن ہے بلکہ ہماری روحانی صلاحیتوں کو بھی جِلا بخشتا ہے۔ اس لیے مغربی ممالک میں رہنے والوں کو ایسی آزادیوں سے بچنا چاہیے جو ان کے اخلاقی انحطاط اور پریشانی اور بے چینی کا باعث بنتی ہوں۔

حضورِ انور نے فرمایا کہ ہماری جماعت کا نوجوان طبقہ یہ سمجھ سکتا ہے کہ نظام کی طرف سے ان پر لگائی جانے والی پابندیاں ان کی آزادی میں خلل پیدا کرتی ہیں۔ لیکن اگر وہ غور کریں تو انہیں معلوم ہو گا کہ یہ سب دراصل اسلامی اصولوں پر بنیاد رکھتی ہیں، ایسے اصول جو کسی انسان کے حقوق کو پامال نہں کرتیں، بلکہ ان ہی کے فائدے اور ان کی حقیقی آزادی اور خود مختاری کا باعث ہیں۔ بعض ایسے بھی نوجوان تھے جو مغربی معاشرے کی رو میں بہتے ہوئے اپنے دین اور روایات کو پسِ پشت ڈال بیٹھے، لیکن بعد میں انہیں اپنے فیصلے پر ملال ہوا۔ انہوں نے تسلیم کیا کہ آزادی کے نام پر وہ روحانی پستی میں مبتلا ہو گئے تھے۔ انہوں نے اظہارِ افسوس کیا اور اکثر ان میں سے جماعت کی طرف واپس لوٹ آئے۔

یاد رکھیں کہ ایک زیرک انسان ہمیشہ کوئی فیصلہ کرنے سے پہلے اس کے سود و زیاں پر اچھی طرح غور کرتا ہے۔ مزید برآں ایک سچا مومن اور مومنہ وہ ہے جو عقلمندی کا ثبوت دیتے ہوئے کسی بات کا فیصلہ صرف دنیاوی معیاروں کے مطابق ہی نہیں کرتا بلکہ اس کے تمام فیصلوں کا مرکز و محور دین ہوتا ہے۔ ایک مومن اس امر کی یقین دہانی کرتا ہے کہ جو کچھ بھی وہ کرے گا وہ اسلامی اصول کے مطابق ہو گا۔ اس لیے اگر آپ ٹیلی ویژن، انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے برے اثرات سے اپنے گھر والوں کو بچانا چاہتے ہیں تو آپ کو بہت دھیان سے چلنا ہو گا۔

حضورِ انور نے فرمایا: میں نے پہلے سوشل میڈیا کا ذکر کیا تھا ۔ آپ کو ایسے پروگرام کا انتخاب کرنا چاہیے جو اچھا ہے۔ ورنہ آپ خدا تعالیٰ سے دور ہٹتے جائیں گے۔ احمدی خواتین کو فیشن کے نام پر اپنی زینت نہیں ظاہر کرنی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ وہ اپنے بال کو ڈھانکے اور اپنی زینت کی جگہوں کو ڈھانک کر رکھے۔ اگر وہ ایسا نہیں کریں گی تو وہ خدا تعالیٰ کی نافرمانی کریں گی۔ یاد رکھیں کہ خدا تعالیٰ کے احکامات کی پابندی آپ کو بذات خود بھی سوسائٹی کے خطرات سے محفوظ رکھے گی جو آج کل ظاہر ہو رہے ہیں۔ مجھے افسوس ہے کہ اسلام کی تعلیمات پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے احمدی مرد اور عورتوں کے گھر بھی ٹوٹے ہیں۔ دنیا میں جہاں بھی احمدی مسلمان عورت رہتی ہے اسے ان مذہبی احکامات کی پابندی کرنی چاہیے جو ان کے بزرگوں نے کی ہے۔ اگر وہ ان احکامات کی پابندی کریں گے تو اس طرح آپ کے لیے تبلیغ کے راستے بھی کھلیں گے۔ اور ان ملکوں میں بھی تبلیغ کے راستے کھلیں گے۔ آپ سب نے حضرت مسیح موعودؑ کی بیعت کی ہے ۔ آپ اس کی یقین دہانی کریں کہ آپ اپنے عہد بیعت کا پاس رکھیں۔ آپ کو پوری دنیا میں اسلام کی تعلیمات کو پھیلانے کا ایک نمایاں کردار ادا کرنا چاہیے ۔ ان شاء اللہ ایک دن ایسا آئے گا کہ سب لوگ آنحضرت ﷺ کے علم کے نیچے آئیں گے۔

حضورِ انور نے اپنے خطاب کے آخر میں فرمایا: احمدی مردوں اور عورتوں نے اگر دنیا میں انقلاب پیدا کرنا ہے تو پہلے اپنے سے ابتدا کرنی ہو گی۔ اس کے لیے اپنے اندر تعلق باللہ پیدا کریں۔ یاد رکھیں کہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ آپ کو دیکھ رہا ہے اور اس کی رضا کی خاطر اس کے حکموں پر عمل کرنا ہے اور اپنے بچوں کی اعلیٰ رنگ میں تربیت کرنی ہے تا کہ وہ حضرت مسیح موعودؑ کے مشن کو جاری رکھنے والے ہوں اور احمدیت کے چمکتے ہوئے ستارے بنیں۔ اللہ تعالیٰ لجنہ اماء اللہ کو مزید ترقیات سے نوازتا رہے۔ آمین۔

(بشکریہ : ابن سیالکوٹی)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 28 ستمبر 2021

اگلا پڑھیں

حقیقی نیکی