• 25 اپریل, 2024

سیدنا حضرت مسیح موعودؑ کے پُرمعارف،گرانقدر اور روح پرور ارشادات کی روشنی میں جلسہ سالانہ کے اغراض و مقاصد، اہمیت اور شرکت کی تحریک

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی جلسہ سالانہ سے بھر پور استفادہ کرنے کے لئے قیمتی ہدایات اور توجہ رکھنے کی تلقین

1891ء میں جب حضرت مسیح موعود ؑنے جلسہ سالانہ کی بنیاد رکھی تو اس کے اغراض و مقاصد کو یوں بیان فرمایا کہ
’’اس جلسہ کو معمولی انسانی جلسوں کی طرح خیال نہ کریں یہ وہ امر ہے جس کی خالص تائید حق اور اعلائے کلمہ اسلام پر بنیاد ہے۔ اس سلسلہ کی بنیادی اینٹ خدا تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے رکھی ہے اور اس کے لئے قومیں تیار کی ہیں۔ جو عنقریب اس میں آ ملیں گی‘‘

( مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ341)

جلسہ سالانہ پر آنے کی تحریک کرتے ہوئے حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:
’’بخدمت جمیع احباب مخلصین التماس ہے کہ 27 دسمبر 1892ء کو مقام قادیان میں اس عاجز کے مُحِبّوں اور مخلصوں کا ایک جلسہ منعقد ہو گا۔ اس جلسہ کے اغراض میں سے بڑی غرض تو یہ ہے کہ تا ہر ایک مخلص کو بِالْمَوَاجِہ دینی فائدہ اٹھانے کا موقع ملے اور ان کے معلومات وسیع ہوں اور خدا تعالیٰ کے فضل و توفیق سے ان کی معرفت ترقی پذیر ہو۔ پھر اس کے ضمن میں یہ بھی فوائد ہیں کہ اس ملاقات سے تمام بھائیوں کا تعارف بڑھے گا اور اس جماعت کے تعلقاتِ اُخوت استحکام پذیر ہوں گے۔ ماسوا اس کے جلسہ میں یہ بھی ضروریات میں سے ہے کہ یورپ اور امریکہ کی دینی ہمدردی کے لئے تدابیر حسنہ پیش کی جائیں۔ کیونکہ اب یہ ثابت شدہ امر ہے کہ یورپ اور امریکہ کے سعید لوگ اسلام کے قبول کرنے کے لئے طیار ہو رہے ہیں اور اسلام کے تفرقہ مذاہب سے بہت لرزاں اور ہراساں ہیں۔ چنانچہ انہیں دنوں میں ایک انگریز کی میرے نام چٹھی آئی جس میں لکھا تھا کہ آپ تمام جانداروں پر رحم رکھتے ہیں۔ اور ہم بھی انسان ہیں اور مستحق رحم۔ کیونکہ دین اسلام قبول کر چکے اور اسلام کی سچی اور صحیح تعلیم سے اب تک بے خبر ہیں۔ سو بھائیویقیناً سمجھو کہ یہ ہمارے لئے ہی جماعت طیار ہونے والی ہے۔ خدا تعالیٰ کسی صادق کو بے جماعت نہیں چھوڑتا۔ انشاء اللہ القدیر سچائی کی برکت ان سب کو اس طرف کھینچ لائے گی۔ خدا تعالیٰ نے آسمان پر یہی چاہا ہے اور کوئی نہیں کہ اس کو بدل سکے۔ سو لازم ہے کہ اس جلسہ پر جو کئی بابرکت مصالح پر مشتمل ہے ہر ایک ایسے صاحب ضرورت تشریف لاویں جو زَادِ رَاہ کی اِستطاعت رکھتے ہوں اور اپنا سرمائی بستر لحاف وغیرہ بھی بقدر ضرورت ساتھ لاویں اور اللہ اور اس کے رسول کی راہ میں ادنیٰ ادنیٰ حرجوں کی پرواہ نہ کریں۔ خدا تعالیٰ مخلصوں کو ہر یک قدم پر ثواب دیتا ہے اور اس کی راہ میں کوئی محنت اور صعوبت ضائع نہیں ہوتی۔‘‘

(مجموعہ اشتہارات جلد 1صفحہ282)

جلسہ سالانہ کے موقع پر مورخہ 28 دسمبر 1899ء کو تقریر کرتے ہوئےحضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا۔
’’سب صاحبان متوجہ ہو کر سنیں۔ میں اپنی جماعت اور خود اپنی ذات اور اپنے نفس کے لئے یہی چاہتا اور پسند کرتا ہوں کہ ظاہری قِیلُ و قَال جو لیکچروں میں ہوتی ہے اس کو ہی پسند نہ کیا جاوے اور ساری غرض و غایت آکر اس پر ہی نہ ٹھہر جائے کہ بولنے والا کیسی جادُو بَھری تقریر کر رہا ہے۔ الفاظ میں کیسا زور ہے۔ میں اس بات پر راضی نہیں ہوتا۔ میں تو یہی پسند کرتا ہوں اور نہ بناوٹ اور تکلّف سے بلکہ میری طبیعت اور فطرت کا یہی اقتضا ہے کہ جو کام ہو اللہ کے لئے ہو۔ جو بات ہو خدا کے واسطے ہو……… مسلمانوں میں اِدبار اور زوال آنے کی یہ بڑی بھاری وجہ ہے ورنہ اس قدر کانفرنسیں اور انجمنیں اور مجلسیں ہوتی ہیں اور وہاں بڑے بڑے لسان اور لیکچرار اپنے لیکچرپڑھتے اور تقریریں کرتے، شاعر قوم کی حالت پر نَوحَہ خوانیاں کرتے ہیں۔ وہ بات کیا ہے کہ اس کا کچھ بھی اثر نہیں ہوتا۔ قوم دن بدن ترقی کی بجائے تَنَزُّل ہی کی طرف جاتی ہے۔ بات یہی ہے کہ ان مجلسوں میں آنے جانے والے اخلاص لے کر نہیں جاتے۔‘‘

(ملفوظات جلد اول صفحہ(266-265)

مرکزی جلسہ کی ابتداء تو قادیان دارالامان میں حضرت مسیح موعود کی زندگی میں ہی اس وقت ہوئی جب آپ کو جاننے والا بھی کوئی نہ تھا اور خداتعالیٰ نے آپ کو خبر دی تھی کہ لوگ دور دور سے یہاں آئیں گے اور راستوں پر بھی نشان پڑ جائیں گے اور اس جلسہ کی بنیادی اینٹ بھی خداتعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے رکھی تھی۔ تبھی خداتعالیٰ کے فضل سے نامساعد حالات ہونے کے باوجود بھی خداتعالیٰ نے ناممکن کو ممکن کر دکھایا ہے اور

ٹلتی نہیں وہ بات خدائی یہی تو ہے

جلسہ کی غرض و غایت بیان کرتے ہوئے حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں۔
’’ربانی باتیں سننے کے لئے۔ حقائق و معارف سننے کے لئے۔ ایمان ، معرفت اور یقین میں ترقی کے لئے۔ دعائیں کرنے کے لئے ۔ پاک تبدیلی پیدا کرنے کے لئے اپنے نئے اور پرانے بھائیوں، دوستوں اور عزیزوں سے ملاقات کے لئے ۔ تاکہ آپس میں پیار و محبت بڑھے اور اتفاق و اتحاد کا موجب ہو۔ ان لوگوں کے لئے دعائے مغفرت کے لئے جو دوران سال اس جہان فانی سے کوچ کر گئے ہیں۔ خشکی ۔ اجنبیت اور نفاق کو دور کرنے کے لئے‘‘

(روحانی خزائن جلد 4 صفحہ 352)

سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں۔
’’حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا جلسہ کا یہ مقصد ہے کہ روحانیت میں ترقی ہو۔ جب معرفت حاصل ہو جائے تو صرف علمی حظّ تک ہی یہ معرفت نہ رہے بلکہ اس کو روحانیت میں اور عمل میں ترقی کا ذریعہ بننا چاہئے۔ اگر روحانیت میں ترقی نہیں تو جلسہ میں شمولیت بے فائدہ ہے۔ پھر آپ نے فرمایا کہ جلسہ کا ایک فائدہ یہ ہے اور اس کے لئے ہر آنے والے کو کوشش کرنی چاہئے کہ آپس کا تعارف بڑھے اور صرف تعارف حاصل کر کے دنیا داروں کی طرح وقتی تعلق نہ ہو بلکہ ہر احمدی کو دوسرے احمدی کے ساتھ محبت اور بھائی چارے کے تعلق میں ترقی کرنی چاہئے اور یہ تعلق اتنا مضبوط اور مستحکم ہو جائے کہ کوئی بات اس تعلق میں رخنہ نہ ڈال سکے، اس کو توڑ نہ سکے‘‘

(ماخوذ از آسمانی فیصلہ، روحانی خزائن جلد 4 صفحہ 352)

پھر آپ نے فرمایا کہ تقویٰ میں ترقی کرو۔

(ماخوذ از شہادۃ القرآن، روحانی خزائن جلد 6 صفحہ 394)

یہ جلسہ کے مقاصد میں سے بہت اہم ہے۔ اس کے بغیر ایک مومن حقیقی مومن نہیں بن سکتا اور تقویٰ یہی ہے کہ جو علم حاصل کیا، جو روحانیت کا معیار حاصل کیا، اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول سے جو محبت کا تعلق قائم کیا ہے، آپس کے تعلقات میں جو خوبصورتی پیدا کی ہے اس میں اب دوام پیدا کرو۔ اسے باقاعدہ رکھو۔ اسے باقاعدہ اپنی زندگیوں کا حصہ بناؤ۔

پس یہ وہ باتیں تھیں جس کے لئے آپ علیہ السلام نے جلسہ کا انعقاد فرمایا اور فرمایا کہ ہر سال لوگ اس مقصد کے لئے قادیان آیا کریں۔ کتنے بابرکت جلسے ہوتے تھے وہ جن میں خود حضرت مسیح پاک علیہ السلام شامل ہو کر براہ راست جماعت کو نصائح فرمایا کرتے تھے۔ افراد جماعت کی تربیت فرمایا کرتے تھے۔ ان کی روحانی پیاس بجھایا کرتے تھے۔ آپ علیہ السلام کے بعد وہ باتیں تو نہیں ہوسکتیں۔ نبی کا مقام تو اسی کے لئے خاص ہوتا ہے اور جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کے مطابق آیا، جو خدا تعالیٰ کے وعدے کے مطابق آیا، جس کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں احیائے دین کے لئے بھیجا یقیناً وہ اپنا ایک مقام رکھتا تھا۔ لیکن یہ بھی اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ اس سے خبر پا کر آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ آپ کے بعد قدرت ثانیہ کا نظام جاری ہوا جو خلافت کا نظام ہے۔ پس وہ جاری ہوا اور خلافت احمدیہ کے ذریعہ آپ علیہ السلام کے مشن کی تکمیل کا کام جاری و ساری ہے۔ جلسوں کا سلسلہ بھی اسی کی ایک کڑی ہے۔ قادیان میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے وصال کے بعد خلافت کا نظام جب جاری ہوا تو خلافت کی موجودگی میں تقریباً چالیس سال تک جلسے منعقد ہوتے رہے۔ پھر خلافت کے پاکستان ہجرت کر جانے کے بعد ربوہ میں جلسے منعقد ہوتے رہے اور ساتھ ہی جماعت کی وسعت ملکوں ملکوں میں ہونے لگی۔ گو کہ بیرونی مشن قادیان سے ہجرت سے پہلے بھی قائم ہونے شروع ہو گئے تھے۔ خاص طور پر افریقہ میں بڑی مضبوط جماعتیں قائم ہونے لگ گئی تھیں لیکن مزید مضبوطی اور وسعت ہر آنے والے دن اور مہینے اور سال میں بیرون پاکستان جماعتوں میں ہوتی رہی یہاں تک کہ دشمن نے اس ترقی کو دیکھ کر احمدیوں کے خلاف نہایت ظالمانہ قانون حکومت کے ذریعہ سے جاری کروایا جس کی وجہ سے خلیفہ وقت کو وہاں سے ہجرت کرنی پڑی اور ساتھ ہی وہاں سے احمدیوں کی ایک بڑی تعدادنے بھی ہجرت کی۔ خلیفۃ المسیح الرابعؒ کے لندن ہجرت کر جانے کے بعد جہاں لندن کے جلسوں نے ایک نیا موڑ لیا اور وسعت اختیار کی وہاں دوسرے ممالک میں بھی جلسوں میں ایک نیا رنگ پیدا ہوا اور پھر جس میں روز بروز ترقی ہوتی چلی گئی اور آج ہر جگہ جلسوں کے ایک نئے رنگ ہیں۔ یہ تو اب ممکن نہیں کہ احمدیوں کی ایک بڑی تعداد جلسے کے لئے قادیان جائے، نہ ہی یہ ممکن ہے کہ جہاں خلیفہ وقت موجود ہے وہاں احمدیوں کی بڑی تعداد جلسہ میں شامل ہو سکے۔ دنیا میں جس طرح جماعتیں پھیل رہی ہیں اور ترقی کر رہی ہیں ضروری تھا کہ ہر ملک میں جہاں بھی جماعت ہے اس نہج پر جلسے منعقد کئے جائیں جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانے میں ہوتے تھے۔ سال میں کم از کم ایک مرتبہ آپ علیہ السلام نے ہمیں اپنی حالتوں میں تبدیلیاں پیدا کرنے کے لئے تربیتی مقصد کے لئے جمع ہونے کا فرمایا تھا‘‘

(خطبہ جمعہ مورخہ 7۔اکتوبر2016ء)

جلسہ سالانہ خدا تعالیٰ کے فضل سے خواہ کسی ملک میں بھی ہو یہ جماعت احمدیہ کی ہر آن ترقی کا ایک آئینہ دار ہے ۔ ہمارے پیارے امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ہر سال جلسہ سالانہ یو کے کے موقع پر اور اس کے علاوہ جن جن ممالک میں حضور بنفس نفیس تشریف لے جا کر جلسہ سالانہ میں شمولیت اختیار فرماتے ہیں اور اس موقع پر جو ہدایات و نصائح ہوتی ہیں اس کے ساتھ ساتھ دنیا میں پھیلی ہوئی جماعتوں کی ترقی کا ذکر ہوتا ہے وہ ہمارے لئے ازدیادایمان کا باعث ہوتا ہے۔

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے متعدد بار افراد جماعت کو ان جلسوں سے بھرپور استفادہ کرنے کی طرف توجہ دلائی ہے آپ کی ہدایات میں سے چند درج ذیل ہیں۔

جلسہ کی تمام تقاریر خاموشی سے سنیں

فرمایا :’’حضرت مسیح موعودؑ معرفت کی باتیں خود ہی بیان کر دیا کرتے تھے اور اس زمانے میں حقائق بھی پتہ چلتے رہتے تھے لیکن اب بھی جو ارشادات آپ نے بیان فرمائے انہیں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے۔ انہیں کو سمجھتے ہوئے، انہیں تفسیروں پر عمل کرتے ہوئے ماشاء اللہ علماء بڑی تیاری کر کے جہاں جہاں بھی دنیا میں جلسے ہوتے ہیں اپنی تقاریر کرتے ہیں ، خطابات کرتے ہیں اور یہ باتیں بتاتے ہیں تو آج بھی ان جلسوں کی اس اہمیت کو سامنے رکھنا چاہئے وہی اہمیت آج بھی ہے اور تقاریر جب ہو رہی ہوں تو ان کے دوران تقاریر کو خاموشی سے سننا چاہئے‘‘

پس پہلی نصیحت یہ ہے کہ جلسہ کی تمام تقاریر کو خاموشی سے سننا چاہئے۔ یہ نہیں کرنا چاہئے کہ فلاں کی تقریر سننی ہے فلاں کی نہیں، جلسہ کی سب تقاریر سننی چاہئیں اور وہ بھی خاموشی کے ساتھ۔

اپنا وقت دعاؤں اور ذکر الٰہی میں گزاریں

حضور انور فرماتے ہیں۔
’’حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی دعائیں آج بھی شاملین جلسہ کے لئے برکت کا باعث ہیں کیونکہ آپ نے اپنے ماننے والوں کے لئے جو نیکیوں پر قائم ہیں اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی سچی محبت دل میں رکھتے ہیں قیامت تک کے لئے دعائیں کی ہیں پھر یہاں آکر ایک دوسرے کی دعاؤں سے بھی حصہ لیتے‘‘۔ اس میں حضور انور نے نصیحت فرمائی کہ ایک تو شامل ہونے سے آپ کو حضرت مسیح موعودؑ کی دعاؤں سے حصہ ملے گا، دوسرے یہ توجہ دلائی گئی ہے کہ اپنا وقت بھی دعاؤں اور ذکر الٰہی میں صرف کریں۔ جن جن نے بھی آپ کو دعاؤں کے لئے کہا ہے ان کے لئے بھی دعائیں کریں‘‘

یہ معاملہ ایمان کا ہے

حضور انورنے فرمایا کہ حضرت اقدس مسیح موعود ؑفرماتے ہیں۔
’’سب کو متوجہ ہو کر سننا چاہئے۔ پورے غور و فکر کے ساتھ سنو کیونکہ یہ معاملہ ایمان کا ہے اس میں سستی، غفلت اور عدم توجہ بہت سے برے نتائج پیدا کرتی ہے … پس یاد رکھو جو کچھ بیان کیا جاوے اسے توجہ اور بڑے غور سے سنو کیونکہ جو توجہ سے نہیں سنتا خواہ عرصہ دراز تک فائدہ رساں وجود کی صحبت میں رہے اسے کچھ بھی فائدہ نہیں پہنچ سکتا‘‘

(الحکم 10مارچ 1902ء)

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس اس بیان پر فرماتے ہیں کہ ’’دیکھیں کس قدر ناراضگی کا اظہار فرمایا ان لوگوں کے لئے جو جلسہ پر آکر پھر جلسہ کی کارروائی کو توجہ سے نہیں سنتے تو ایسے لوگوں کی حالت ایسی ہے کہ باوجود کان اور دل رکھنے کے نہ سننے کی کوشش کرتے ہیں اور نہ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں اللہ رحم کرے اور ہر احمدی کو اس سے بچائے‘‘

مہمان نوازی

اس سلسلہ میں حضور انورایدہ اللہ فرماتے ہیں ’’جہاں خدمت کرنے والے کارکنان مہمانوں کی خدمت کے لئے پوری محنت سے خدمت انجام دے رہے ہیں وہاں مہمانوں کا بھی فرض ہے کہ مہمان ہونے کا حق ادا کریں اور جس مقصد کے لئے آئے ہیں اس کو پورا کرنے کی کوشش کریں۔ حضرت مسیح موعودؑ جو پاک تبدیلیاں ہم میں پیدا کرنا چاہتے ہیں ان کو اپنے اوپر لاگو کرنے کی کوشش کریں‘‘

ہر ایک کو السلام علیکم کرو

حضرت عبداللہ بن عمروؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کی کہ کون سا اسلام بہتر ہے فرمایا ضرورت مندوں کو کھانا کھلاؤ اور ہر اس شخص کو جسے تم جانتے ہو یا نہیں جانتے ، سلام کہو۔
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس اس حدیث کو بیان کرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ! ’’تو جب اس طرح سلام کا رواج ہو گا تو آپس میں محبت بڑھے گی اور انشاء اللہ جب آپ ایک دوسرے کو سلام کر رہے ہوں گے، ہر طرف سے سلام سلام کی آوازیں آ رہی ہوں گی تو یہ جلسہ محبت کے سفیروں کا جلسہ بن جائے گا‘‘

نمازوں کی ادائیگی اور جلسہ گاہ کے تقدس کا خیال

حضور انور ایدہ اللہ فرماتے ہیں۔
’’جلسہ کے ایام ذکرالٰہی اور درود شریف پڑھتے ہوئے گزاریں اور التزام کے ساتھ بڑی باقاعدگی کے ساتھ توجہ کے ساتھ نماز باجماعت کی پابندی کریں‘‘

نمازوں اور جلسے کے دوران بچوں کو خاموش رکھیں

حضورانور فرماتے ہیں کہ
’’ڈیوٹی والے اس چیز کا بھی خاص خیال رکھیں اور مائیں اور باپ بھی اس کا بہت خیال رکھیں اور ڈیوٹی والوں سے اس سلسلہ میں تعاون کریں ۔ جو جگہیں بچوں کے لئے بنائی گئی ہیں وہاں جا کے چھوٹے بچوں کو بٹھائیں تا کہ باقی جلسہ سننے والے ڈسٹرب نہ ہوں‘‘

(ابو سدید)

پچھلا پڑھیں

فضائی آلودگی خوشحالی کی دشمن

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 28 دسمبر 2019