• 19 اپریل, 2024

حضورؐ ہر آن خدا کو یاد رکھتے تھے

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہر آن خدا کو یاد رکھتے تھے۔

(مسلم کتاب الحیض باب ذکراللہ تعالیٰ فی حال الجنابۃ وغیرھا)

پس یہ نمونے ہیں اللہ تعالیٰ کی شکر گزاری کے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے سامنے بطور اسوہ پیش فرمائے تاکہ ہم بھی ان پر عمل کریں، ان نمونوں پر چلنے والے ہوں۔ پھر امت کی بخشش کی فکر ہے اس کے لئے دعا کرتے ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ جس حد تک قبولیت دعا کی خوشخبری دیتاہے آپ شکر گزاری کے جذبات کے ساتھ سجدے میں چلے جاتے ہیں اور ہر دفعہ خوشخبری کے بعد سجدات شکر بجا لاتے ہیں۔ اس بارے میں عامر بن سعد اپنے والد حضرت سعد بن ابی وقاصؓ سے روایت کرتے ہیں کہ ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مکّہ سے مدینہ واپس لوٹ رہے تھے جب ہم عَزَوْرَء مقام کے قریب پہنچے تو وہاں حضورؐ نے دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے اور کچھ دیر دعا کی۔ پھر حضورؐ سجدے میں گر گئے اور بڑی دیر تک سجدے میں رہے۔ پھر کھڑے ہوئے اور ہاتھ اٹھا کر دعا کی۔ پھر سجدے میں گر گئے۔ آپؐ نے تین دفعہ ایسا کیا۔ پھر آپؐ نے فرمایا کہ مَیں نے اپنے رب سے دعا مانگی تھی اور اپنی امت کے لئے شفاعت کی تھی تو اللہ تعالیٰ نے مجھے میری امت کے ایک تہائی کی شفاعت کی اجازت دے دی۔ پھر اپنے رب کا شکرانہ بجا لانے کے لئے سجدے میں گر گیا اور سر اٹھا کر پھر اپنی امت کے لئے اپنے رب سے دعا کی تو اللہ تعالیٰ نے مجھے مزید ایک تہائی امت کی شفاعت کے لئے اجازت مرحمت فرمائی۔ مَیں پھر شکر انے کا سجدہ بجا لایا۔ پھر سر اٹھایا اور امت کے لئے اپنے ربّ سے دعا کی۔ تب اللہ تعالیٰ نے میری امت کے لئے تیسری تہائی کی بھی شفاعت کے لئے مجھے اجازت عطا فرما دی اور میں اپنے ربّ کے حضور سجدہ شکر بجا لانے کے لئے گر گیا۔

(ابوداؤد کتاب الجہاد باب فی سجود الشکر)

پس یہ شکر بھی ایک عظیم نعمت ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے سے ہمیں عطا کیا گیا ہے، اس کو حاصل کرنے کے لئے بھی ہمیں خداتعالیٰ کا شکر گزار بندہ بننا چاہئے اس کے آگے جھکنا چاہئے اور اس کی عبادت کرنی چاہئے اور صحیح معنوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں شامل ہونے کی کوشش کرنی چاہئے۔

پھر دیکھیں! بندوں کی شکر گزاری کے کیا کیا طریق سکھلائے۔ جب مسلمانوں پر مکّہ میں طرح طرح کے مصائب ڈھائے گئے تو انہوں نے خداتعالیٰ کے اِذن سے حبشہ کی طرف ہجرت کی۔ اس وقت شاہ حبشہ نے ان کو اپنے ملک میں پناہ دی۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بادشاہ نجاشی کے اس احسان کو ہمیشہ یاد رکھا اور ہر موقعہ پر آپؐ نے اس احسان کی شکر گزاری کا اظہا راپنے اقوال و افعال سے فرمایا۔ چنانچہ جب نجاشی کا وفد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بنفس نفیس ان کی خدمت میں مصروف ہو گئے۔ آپؐ کے صحابہؓ نے عرض کی یا رسول اللہ! ان کی خدمت کے لئے ہم کافی ہیں۔ آپؐ نے فرمایا انہوں نے ہمارے ساتھیوں کو بڑے اکرام سے رکھا تھا اور میں پسند کرتا ہوں کہ ان کے اس احسان کا بدلہ مَیں خود اتاروں۔

(کتاب الشفا للقاضی عیاض الفصل الثامن عشر الوفاء وحسن العھد)

(خطبات مسرور جلد2 صفحہ552-554 بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

باپ کی دعا بیٹے کے واسطے

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 28 دسمبر 2022