• 20 اپریل, 2024

خلاصہ خطبہ عید الفطر

کمزور نظر آنے والے انسان کو خدا اپنے پاس سے کھلا رہا ہوتا ہے۔دنیادار کہے گا سوکھی روٹی خدا کھلا رہا ہے؟ غریب سمجھتا ہے کہ یہ روٹی بھی خدا کے فضل سے ہی مل رہی ہے اور اس پر وہ خدا کا شکر ادا کرتا ہے

اس سے خدا کے اور قریب ہوتا ہے یہی مسکینی اور غربت خدا کی شکرگزاری اس مقام تک لے جاتی ہے جوعید کا اصل مقصد ہوتا ہے

انسان کو خدا کے حقوق اور خدا کے بندوں کے حقوق کا صحیح فہم ادراک حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے پھر ہماری عیدیں حقیقی عیدیں بن جائیں گی

تمام احمدی احباب،اسیران کی رہائی،امت مسلمہ اور تمام دنیا کیلئے دعا کی تحریک

سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 24مئی 2020ء بمقام مسجد مبارک، اسلام آبادٹلفورڈ یو کے

سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی بنصرہ العزیزنے مسجد مبارک اسلام آباد ٹیلفورڈ یوکے میں مورخہ24 مئی 2020ء کو خطبہ عید الفطر ارشاد فرمایا۔ جو کہ ایم ٹی اے انٹرنیشنل پر براہ راست نشر کیا گیا۔ تعوذ و تشہد و سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعدحضور انورنے فرمایا۔

حضرت مصلح موعودؓ نے ایک عید کے موقع پر یہ بیان فرمایا تھا کہ عید منانے والوں کی مختلف اقسام ہوتی ہیں کچھ لوگ رواج کے مطابق نسل در نسل دیکھتے ہوئے عید مناتے ہیں کچھ اس لیے عید مناتے ہیں کہ ہم مسلمان ہیں اور خدا اور رسول کو حکم ہے عید مناؤ ۔عید اصل میں خوشی کا نام ہے اور خوشی اس وقت ہوتی ہے جب انسان کسی کام میں کامیابی حاصل کرتا ہے اگر کامیابی نہیں تو کون عقلمند ہے جو خوش ہو گا بلکہ الٹا ناکامی پر روئے گا ۔ عید کو بھی ہمیں اسی طرح دیکھنا ہو گا۔ جو عید مناتا ہے اصل میں وہ اپنی کامیابی کا دعویٰ کر رہا ہوتا ہے۔ جب دعویٰ ہے تو ہر ایک کو اس بات پر غور کرنا چاہئے کہ کیا حقیقی کامیابی ملی ہے اور کیا اسے حق حاصل ہو گیا ہے کہ وہ عید منائے؟

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ایک دن عید کا مقرر کر کے اس دن اچھے کپڑے پہن لیں کھانا پینا اچھا کر لیں شور شرابا، دعوت کریں، رشتہ داروں کوکھانا کھلا دیں۔ اور ان سب چیزوں پر ہم کچھ نہ کچھ خرچ بھی کرتے ہیں اب سوچنے والی بات ہے کہ جس عید پر ہم خرچ کرتے ہیں تو کیا وہ کچھ دے بھی جاتی ہے کہ نہیں۔ اگر وہ کچھ دے کر نہیں جاتی تو وہ عید نہیں ہو سکتی۔ عید تو وہ ہے جو ہمیں کچھ دے کر جائے۔ حقیقی عید وہ باطنی، دلی اور اندرونی عیدہے جو روح کو سیراب کرکے کچھ دے کر جائے۔ ایک مسلمان کے لیے سب سے بڑی دولت اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنا ہے یہی حقیقی عید ہے کیوں کہ اس میں کامیابی نظر آتی ہے ۔عید اس لیے رکھی ہے تاکہ خوشخبری دے کہ روزے قبول ہو گئے۔ کیا حقیقیت میں روزے قبول ہو گئے؟ واقعی خدا نے اپنی عبادت کی توفیق دی؟ کیا پتہ جس عبادت کی توفیق ملی قبول بھی ہوئی ہے یا نہیں ؟ ایک دفعہ ایک شخص نے جلدی جلدی نماز پڑھی تو رسولﷺ نے اسے فرمایا دوبارہ نماز پڑھو کیونکہ تمہاری نماز قبول نہیں ہوئی اس نے پھر جلدی جلدی پڑھی آپؐ نے پھر فرمایا کہ پھر پڑھو۔ اس نے پھر پڑھی آپ نے پھر فرمایا کہ پھر پڑھو اس پر اس نے عرض کیا کہ یارسول اللہﷺ میں کس طرح نماز پڑھوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ آہستگی اور سکون سے نماز سے پڑھو۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ جو لوگ حقوق العباد ادا نہیں کرتے ان کی عبادت قبول نہیں ہوتی۔ روزوں میں حقوق اللہ کے ساتھ حقوق العباد اگر ادا نہیں کئے تو کس طرح روزے قبول ہوئے؟ بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ جن کو بیماری اور مجبوری کی وجہ سے روزوں سے رخصت ہے چونکہ وہ باقی فرائض خدا کا خوف رکھتے ہوئے ادا کر رہے ہوتے ہیں اس لیے اللہ تعالیٰ ان کوثواب سے محروم نہیں رکھتا۔ ایسے لوگ عید بھی اللہ تعالیٰ کا خوف کرتے ہوئے منا رہے ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کے کھاتے میں حقیقی عید کی خوشیاں لکھ رہا ہوتا ہے۔ بعض لوگ روزے کی طاقت ہونے کے باوجود روزے نہیں رکھتے اور افطاری شوق سے کرتے ہیں۔ جیسے کوئی کہے کہ میں نے روزہ نہیں رکھا، نمازیں بھی کاروبار کی وجہ سے نہیں پڑھیں، نیند کی وجہ سے نوافل بھی نہیں پڑھے اور اب اگر افطاری بھی نہ کھاؤں تو بالکل ہی کافر ہو جاؤں گا۔ یہ ایک لطیفہ ہے جو پرانے زمانے سے پھیلا ہوا ہے لیکن حقیقت میں بھی ایسے لوگ ہوتے ہیں اور ایسے لوگ عید والے دن سب سے پہلے شامل ہوتے ہیں حالانکہ ان کو عید منانے کا ادراک نہیں ہی ہے۔ ہمیں اپنے دلوں پر غور کرنا چاہئے یہ غور کرنا چاہئے کہ ہماری عید کیسی ہے۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ عیدیں عموماً تین قسم کی ہوتی ہیں ایک جس نے رب سے ملنے کی کوشش کی، اس کے بندوں کی خدمت کی، دل کی صفائی کےساتھ خدا اور اس کے بندوں کے ساتھ صلح کی اور سب کچھ خدا کے لیے ہی کیا۔دکھاوے کے روزوں کی اللہ تعالیٰ جزاء نہیں دیتا۔ اس لئے اگر روزے رکھے کہ لوگ کہیں کہ بڑا روزے دار ہے ایسے شخص کو اللہ جزاء نہیں دیتا۔ جس نے ذکر الہٰی محض خدا کے لیے کیا، کوئی بھی کام محض خدا کو راضی کرنے کے لیے کیا ہے تو پھر ایسے شخص نے اپنے خدا کو پا لیا اوراس کی جدائی کی گھڑیاں ختم ہو گئیں۔ عاشق اپنے معشوق کی صحبت میں بیٹھ گیا۔ ایسے بندوں کی آج بھی عید ہے اور کل بھی بلکہ ایسے بندوں کی ہمیشہ عید ہوتی ہے جو خدا کا قرب حاصل کرنے والے ہیں۔ بعض لوگوں کی غربت کی انتہا ہوتی ہے، دنیاوی لحاظ سے خراب حالت ہوتی ہے، دیکھنے والا سمجھ نہیں سکتا کہ عید منا رہے ہیں۔ اچھے کپڑے پہننے والا اور اچھے کھانے کھانے والا کہتا ہے کہ یہ بھی کوئی عیدہے حالانکہ عید ان کی ہی ہے جبکہ دنیا دار لوگ اپنے زعم میں اچھے کھانوں کو حقیقی عید سمجھ رہے ہوتے ہیں۔ اس وقت کمزور نظر آنے والے انسان کو خدا اپنے پاس سے کھلا رہا ہوتا ہے۔دنیادار کہے گا سوکھی روٹی خدا کھلا رہا ہے؟ غریب سمجھتا ہے کہ یہ روٹی بھی خدا کے فضل سے ہی مل رہی ہے اور اس پر وہ خدا کا شکر ادا کرتا ہے۔ اس سے خدا کے اور قریب ہوتا ہے یہی مسکینی اور غربت خدا کی شکرگزاری اس مقام تک لے جاتی ہے جوعید کا اصل مقصد ہوتا ہے۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ دنیا دار وقتی خوشی کا سامان کر کے پھر بے چینی میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ لیکن مسکین شخص دائمی عید کے سامان پیدا کر رہا ہوتا ہے جو اگلے جہان میں بھی عید کے سامان پیدا کرتی ہے۔ یہ عیدیں جو ہیں اللہ کی رضا پانے والے ان مقرب بندوں کی ہی ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے دنیا کی نعمتوں سے نوازا ہے۔ جن کے ظاہری لباس بھی اچھے ہیں جو سنت نبوی کے مطابق اچھی خوشبو بھی لگاتے ہیں ظاہری عزت و زینت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا قرب بھی باطنی طور پر حاصل ہوتا ہے۔ جہاں وہ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمتوں سے خود خیر حاصل کرتے ہیں وہاں بندوں کے حقوق بھی ادا کر رہے ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہرکسی کو کئی طرح سے نوازتاہے کسی کو اپنا قرب اس طرح عطا کرتا ہے کہ اسے کانٹوں سے گزارتا ہو اپنے پاس بلاتا ہے اور کسی کو پھولوں کی سیج سے بھی اپنے پاس بلاتا ہے۔ وہ بے وقوف ہے جو یہ سمجھتا ہے کہ کانٹوں سے آنے والا ہی خدا رسیدہ ہے اور وہ بھی بے وقوف ہے جو یہ سمجھتا ہے کہ پھولوں کی سیج سے آنے والا ہی خدا رسیدہ ہے ۔ اللہ تعالیٰ کی بے شمار صفات ہیں اس کو نہ سمجھنے کی وجہ سے اللہ کے بندوں پر لوگ اعتراض کرتے ہیں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ فرمایا کرتے تھے کہ ایک ہندو نے یہ اعتراض کیا کہ میں نے سنا ہے مرزا صاحب پلاؤ اور بادام بھی کھا لیتے ہیں اس پر حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ نے فرمایا کہ بادام اور پلاؤپاک، طیب اور جائز ہیں۔ اس کے چہرہ سے یہ تاثر ملتا تھا کہ بزرگی کا یہی معیار ہے کہ ایسی عمدہ چیزیں نہ کھائی جائیں۔ دنیا میں لوگوں نے سمجھ لیا ہے کہ دنیا سے بالکل کٹ جائیں ۔اصل میں اللہ کی رضا ہونی چاہئے اگر اللہ تعالیٰ غربت سے گزار کر قرب دینا چاہے تو اس امتحان سے بھی گزریں۔ نبی اکرم ﷺ کو جو قرب حاصل ہوا وہ کسی کو نہ حاصل ہوا نہ ہو گا۔ صرف فاقے کرنے سے ہی خدا کا قرب حاصل نہیں ہوتا۔ بعض فاقے کرنے والے انسان خدا سے کچھ تعلق نہیں رکھتے اور لاکھوں اچھے کھانے والے بھی خدا سے تعلق سے محروم ہیں۔ یہ یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ امارت یا غربت سے یہ محبت نہیں ملتی ہے۔ یہ محبت خدا کی رضا کو مقدم رکھنے سے ملتی ہے۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ چمکیلے سانپ کر دیکھ کو خوش ہونے والا اس کے زہر سے مر جاتا ہے۔ یہی مثال اس شخص کی ہوتی ہے جو خوش ہوتا ہے اور خدا رسیدہ لوگوں سے بھی زیادہ خوش ہوتا ہے لیکن یہ نادانی اور غفلت کی خوشی ہوتی ہے۔ جو لوگ صرف اپنی اورا پنے قریبیوں کی خوشیوں میں ہی خوشی منا رہے ہوتے ہیں اور خدا کی رضا منظور نظر نہیں ہوتی وہ اپنی دنیا اور عاقبت خراب کر رہے ہوتے ہیں اور کچھ پاتے نہیں ایسے لوگوں کی حقیقی عید نہیں کہلا سکتی ۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ بعض نیک، خدا رسیدہ اور مخلوق کے حقوق ادا کرنے والے لوگ ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ ہم عیدمنا رہے ہیں۔ اور کچھ وہ لوگ بھی ہیں جنہیں حقیقی عید نصیب نہیں ہوئی اور وہ بھی سمجھتے ہیں ہم عید منا رہے ہیں۔ لیکن ایک تیسری قسم بھی ہے جو ان دونوں سے مختلف ہیں وہ لوگ ہیں جو جانتے ہیں ہم گناہگار ہیں، دل میں خیا ل کرتے ہیں کہ روزے تو رکھے لیکن حق ادا نہیں کیا، شرمندگی ہے، نمازیں بھی پڑھتے ہیں اور شرمندہ ہیں کہ اللہ کی بتائی ہوئی شرطوں کے مطابق نماز ادا نہیں کر سکے۔ آج بھی رسم اور لوگوں کو دکھانے کے لئے رسم اور عمدہ لباس پہن کر آ گیا ہوں مگر اس کا دل رو رہا ہوتا ہے۔ اس کا دماغ پریشان ہوتا ہے اس کی ایک نظر اپنے بھائیوں پر پڑتی ہے اور ایک اپنے پر۔ ہر لقمہ جس کو کھانے کی کوشش کر رہا ہوتا ہے اس کے حلق سے نہیں اترتا کپڑے دیکھ کر روتا ہے کہ کاش میرا اندرونا بھی صاف ہوتا۔ ہر بار جب نگاہ دوڑاتا ہےتو ندامت سے سر جھکا لیتا ہے۔ دل اپنے گناہوں کی وجہ سے ندامت اور شرمندگی سے پُر ہوتا ہے۔ خیال کرتا ہے کہ اس مجلس میں میں ہی ایسا ہوں ۔نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے رہے۔نفس ملامت کرتا ہے کہ کیا تمہارے عمل ہیں، اللہ کی طرف جھکتا ہے، ندامت محسوس کرتا ہے، اور یہ احساس اسے بے چین کر دیتا ہے تو خدا اس کے پاس بھاگ کر آ جاتا ہے۔ اللہ اپنے بندے کی توبہ سے زیادہ خوش ہوتا ہے اس شخص سے جس کی اونٹنی صحراء میں گم گئی ہو اور وہ دوبارہ مل جائے ۔ اللہ تعالیٰ انسان کی حسرت اور ندامت کو جانتا ہے ۔وہ بندہ جس کے پاؤں نہیں ندامت کا اظہار کر رہا ہے گرا ہوا ہے اسے اٹھاتا ہوں اپنے پاس لے آتا ہوں ہمیں کوشش کرنی چاہئے کہ اگر پہلی قسم نہیں تو تیسری قسم میں ہی شامل ہو جائیں یہ بھی کوئی ایسی قسم نہیں جس سے انسان کا مقام گر رہا ہو۔ کامل حسرت، کامل عجز، کامل غم اور کامل دکھ جو انسان پر طاری ہو جائے تو وہ خدا کا ہو جاتا ہے۔ ان میں سے بننے سے کوشش کریں جنہوں نے اللہ کو پا لیا یا ان میں سے کم از کم بن جائیں جو ندامت کریں اور جان کو رنج کی وجہ سے ایسا ہلاک کریں کہ عرش کا مالک خود چل کر آئے اور انہیں اٹھا کر محبت کے مقام پر بٹھائے۔ یہی عید ہے جو حقیقی خوشیاں دینے والی ہے جو خرچ کروانے کے بجائے انعامات سے نوازتی ہے۔ ہمیں کوشش کرنی چاہئے کہ دوسری قسم کے لوگوں کو بھی حقیقی عید کا ادراک پیدا کروانے کی کوشش کرنی چاہئے۔انسان کو خدا کے حقوق اور خدا کے بندوں کے حقوق کا صحیح فہم ادراک حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ پھر ہماری عیدیں حقیقی عیدیں بن جائیں گی۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے دعاؤں کی تحریک کرتے ہوئے فرمایا کہ دعا کریں ان تمام احمدیوں کے لیے جن کو مذہب کے نام پر تکالیف دی جا رہی ہیں، اسیران کی جلد رہائی کیلئے دعا کریں تا کہ وہ بھی آزادی سے عید کر سکیں، امت مسلمہ کے لیے بہت دعا کریں،سارے لوگوں کے لئے دعا کریں کہ دنیا کے لیڈر اپنی عارضی تسکین کی وجہ سے دنیا کو تباہی کی طرف دھکیل رہے ہیں، اس وباء کی وجہ سے بجائے اللہ کے نزدیک ہونے کے اللہ کے غضب کو مزید بھڑکا رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔

اس کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے دعا کروائی۔ ایم ٹی اے انٹرنیشنل کے ذریعے ساری دنیا کے احمدی اس دعا میں شامل ہوئے۔ اس کے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ سب کو عید مبارک، دنیا میں رہنے والے سب احمدیوں کو عید مبارک ۔ سب کو اللہ تعالیٰ اپنی حفاظت میں رکھے۔عید مبارک۔السلام علیکم

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 28 مئی 2020

اگلا پڑھیں

Covid-19 اپ ڈیٹ29۔مئی2020ء