• 19 اپریل, 2024

میں نے الفضل سے کیا پایا

الحمد للہ باقاعدگی سے الفضل کے مطالعہ کی توفیق مل رہی ہے۔ ہر صبح الفضل کا مطالعہ کرنا ایسے ہی ہے جیسے انسان سیر کے لئے ایک خوبصورت باغ میں جائے جہاں ہر طرف رنگ برنگے پھول کھلے ہوں، ایسے پھول جو ہمیشہ خوشبو دیتے ہیں اور کبھی نہیں مرجھاتے۔

مضامین کا انتخاب بہت اچھا ہے۔اداریہ میں گہرے علمی مضامین کی بجائے بہت آسان الفاظ اور مثالوں سے بات سمجھانے کی کوشش کی جاتی ہے جس سے بہت فائدہ ہورہا ہے۔ نو آموز شعراء کا کلام بھی اچھا سلسلہ ہے۔الفضل کی پوری ٹیم مبارک باد کی مستحق ہے ۔

ماشاء اللہ الفضل کے تمام سلسلے بہت اچھے اور مفید ہیں۔ارشادِ باری تعالیٰ، احادیث نبوی ﷺ اور ملفوظات حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مطالعہ سے یہ فکر اور سوچ پیدا ہوتی ہے کہ ہم نے سفرِ آخرت کے لیے کیا زادِ راہ تیار کیا ہے؟

یقیناً ہمیں اپنی زندگی کے بارے میں اللہ کے آگے جواب دہ ہونا ہے کہ ہم نے دنیامیں وقت کیسے گزارا۔ اس آخری زمانے میں ابلیس اپنے تمام تر حربوں اور سازوسامان سے لیس ہوکر انسانیت کے راستے میں آن کھڑا ہوا ہے ایسے میں ہمیںخلیفہ وقت کے خطبات سے رہنمائی ملتی ہے کہ اس لہو ولعب میں زندگی کیسے گزاری جائے ۔

اک دکھ کا سمندر نظر آتی ہے یہ دنیا
اک شخص مگر اس میں جزیرے کی طرح ہے

خلافتِ احمدیہ اللہ تعالیٰ کی ایک بہت بڑی نعمت ہے۔زندگی کی تپتی زمین پر جب تلوے ہی کیا روح تک سلگنے لگتی ہے تو ایسے میں الفضل میں شائع ہونے والے خلفاء احمدیت کی قبولیتِ دعا کے واقعات جسم و جاں میں امید اور شادابی بھر دیتے ہیں،بے تواں جسم میں جیسے جاں سی آجاتی ہے اور نقاہت سے چُور آنکھیں آسمان کی طرف دیکھنے لگتی ہیں اور سوالی حضورِ انور کی خدمت میں دعا کے لئے خط لکھ کر رحمتِ باری کا منتظر ہوتا ہے۔

وہ جس پہ رات ستارے لئے اترتی ہے
وہ ایک شخص دعا ہی دعا ہمارے لئے
دیئے جلائے ہوئے ساتھ ساتھ رہتی ہے
تمہاری یاد تمہاری دعا ہمارے لئے

الفضل میں شائع ہونے والے ایمان افروز واقعات ہمارے لئے مشعلِ راہ ہیں ۔ایک ایک واقعہ ہمیں دعوتِ عمل دیتا ہے کہ ان واقعات کوپڑھ کر ایک لمحہ کے لیے خوش ہو جانے اور سر دھننے پر ہی بس نہ کردیں بلکہ ان پاک نمونوں کو اپنی زندگیوں میں جاری و ساری کریں۔

ہمارے بزرگوں نے جن راہوں پر چلتے ہوئے اپنی منزل کو پایا، ہمارا فر ض ہے کہ ہم بھی ان راہوں پر پوری وفا کے ساتھ آگے سے آگے بڑھتے چلے جائیں اور جس عَلَم کو ہمارے آباؤاجداد نے سرنگوں نہیں ہونے دیا ہم بھی جان،مال اور وقت کی قربانی کرتے ہوئے احمدیت کے نام پر ہر گز ہرگز کوئی آنچ یا دھبہ نہ آنے دیں!

اپنے اجداد کی تاریخ پہ ناز ہے ہمیں
اُن کی سینچی تہذیب کا پاس ہے ہمیں

الفضل میں وفات یافتگان کا ذکر پڑھ کر اُن کے لئے دعائے مغفرت کی توفیق ملتی ہے اورحضرت مسیح موعودؑ کا ارشاد یاد آتا ہے۔

فرمایا: ’’اپنی موت کو قریب سمجھو تم نہیں جانتے کہ کس وقت وہ گھڑی آجائیگی۔‘‘

(رسالہ الوصیت، روحانی خزائن جلد20 صفحہ306)

اوڑھ کر مٹی کی چادر بے نشاں ہو جائیں گے
ایک دن آئے گا ہم بھی داستاں ہو جائیں گے

وفات کی خبریں پڑھ کر دل یہ فیصلہ کرتا ہے کہ زندگی میں اللہ تعالیٰ کی رضا کی دولت حاصل کر نے کی کوشش کی جائے یقیناً یہ وہ زادِ راہ ہے جو آخرت میں انسان کے ساتھ جاتا ہے اور یہی وہ سچی اور حقیقی دولت ہے جو میدانِ حشر میں بھی اس کی دستگیری کرے گی۔

الفضل میں دعا کے اعلانات پڑھ کر سب کے لئے دعا کی توفیق ملتی ہے ۔دوسروں کے لئے دعا کرنارحمتِ الہٰی کو جذب کرنے کا نہایت اہم ذریعہ ہے ۔

حضرت مصلح موعودؓ نے قبولیتِ دعاکے جو 15 طریق بیان فرمائے ہیں اُن میںسے تیسرا طریق یہ بیان فرمایا ہے۔ “بوقت دعا کسی دوسرے کی تکلیف کو دور کیا جائے۔’’جب کوئی شخص خدا تعالیٰ کے کسی بندے سے ایسا سلوک کرے گا تو اسکی وجہ سے خدا تعالیٰ اس کے دکھ اور مشکل کو دور کر دے گا۔

خدا کا بندہ وہی ہے مری نگاہوں میں جو ہو شمار ہر انساں کے خیر خواہوں میں

الفضل میں بچوں کے قرآن کریم ناظرہ کادَور مکمل کرنے پر آمین کے اعلانات پڑھ کر بہت خوشی ہوتی ہے ۔اللہ تعالیٰ کی ہزاروں ہزار رحمتیں ہوں حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر جنہوں نے ’’مبارک تقریب آمین‘‘ کا آغاز فرمایا۔ جب بچہ پہلی دفعہ قرآن کریم مکمل کر لیتا ہے تو احمدی گھرانوں میں بغرضِ دعا تقریب منعقد کی جاتی ہے تاکہ بچہ کو یہ احساس ہو کہ میرا پہلا فرض قرآن مجید کو ختم کرنا تھا۔ الحمدللہ کہ میں نے ختم کر لیا اور دوسرے بچے جو شامل ہوں ان کو تحریک ہو جائے کہ ہم بھی جلدی جلدی پڑھیں۔آمین کی تقریب قرآن کریم سیکھنے کا شوق پیدا کرنے میں مددگار ثابت ہوئی ہے۔اس بارہ میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے فرمایا۔

’’آمین منانے کا کتنا اچھا طریق رائج ہوا ہے یہ سنت حسنہ ہے جو دین میں داخل ہوئی ہے۔ اس سنتِ حسنہ سے فائدہ اٹھائیں بچوں میں قرآن کریم کا شوق پیدا کریں۔‘‘

(پروگرام ملاقات اردو کلاس 1994ء۔الفضل 5/اکتوبر2002ء)

حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیلؓ نے بچوں کے دل میںقرآن کریم پڑھنے کا شوق پیدا کرنے کے لئے ایک بہت پیاری نظم تحریر فرمائی تھی۔

قرآن سب سے اچھا قرآن سب سے پیارا
قرآن دل کی قوت قرآن ہے سہارا
اﷲ میاں کا خط ہے جو میرے نام آیا
استانی جی پڑھاؤ جلدی مجھے سپارا
پہلے تو ناظرے سے آنکھیں کروں گی روشن
پھر ترجمہ سکھانا جب پڑھ چکوں میں سارا
مطلب نہ آئے جب تک کیونکر عمل ہے ممکن
بے ترجمے کے ہرگز اپنا نہیں گزارا
یا رب تو رحم کر کے ہم کو سکھا دے قرآں
ہر دکھ کی یہ دوا ہو ہر درد کا ہو چارا
دل میں ہو میرے ایماں سینے میں نورِ فرقاں
بن جاؤں پھر تو سچ مچ میں آسماں کا تارا

جماعتِ احمدیہ دنیا بھر میں خدمتِ انسانیت کی توفیق پا رہی ہے۔الفضل میں شائع ہونے والی رپورٹس پڑھ کر دعا کی توفیق ملتی ہے۔

یقیناً راہ ِ یار میں عشق و وفا کے سنگ میل نصب کرنیو الے کسی قربانی سے دریغ نہیں کرتے۔ آج کے دَور میں صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنا تن من دھن خدمتِ انسانیت کے لئے قربان کرنے والوں پر رشک آتا ہے، وفاؤں کے پتلے یہ پیارے لوگ جو نہ دن دیکھتے ہیں نہ رات۔

دنیا بھر میں آگ کے دریا خوش دلی سے عبور کرتے ہوئے خدمتِ انسانیت میں مصروف ایسے وجود دنیا کے لئے ایک مثال اور احمدیت کے عظیم روحانی انقلاب کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔

فرزانوں کا یہ ظرف کہاں یہ حوصلہ ہے دیوانوں کا

جماعت احمدیہ دنیا بھر میں، تعلیمی، تربیتی ،تبلیغی اور فلاحی میدان میں گرانقدر خدمات سرانجام دے رہی ہے۔ غیر بھی اس کا اقرار کرتے ہیں ۔ چنانچہ ایک مخالفِ احمدیت مولانا ظفر علی خاںصاحب نے کہا۔

’’احراریو! کان کھول کر سنو! تم اور تمہارے لگے بندھے مرزا محمود کا مقابلہ قیامت تک نہیں کر سکتے۔۔۔مرزا محمود کے ساتھ ایسی جماعت ہے جو تن من دھن اس کے ایک اشارے پر اس کے پاؤں میں نچھاور کرنے کو تیار ہے۔ مرزا محمود کے پاس مبلغ ہیں۔ مختلف علوم کے ماہر ہیں۔ دنیا کے ہر ملک میں اس نے جھنڈا گاڑ رکھا ہے۔‘‘

(ایک خوفناک سازش196 مصنفہ مولوی مظہر علی اظہر)

پھیلائیں گے صداقتِ اسلام کچھ بھی ہو
جائیں گے ہم جہاں بھی کہ جانا پڑے ہمیں

الفضل میں احمدی شعراء کا کلام پڑھ کر بہت لطف آتا ہے۔شاعر ہر وادی میں گھومتا ہے لیکن احمدی شعراء کی دنیا سب سے الگ ہے وہ وادیوں کے انتخاب میں دوسروں سے الگ اور ممتاز ہیں۔وہ اُن وادیوں میں گھومتے ہیں جہاں محبتِ الٰہی کے پھول کھلتے ہیں،جہاں نعتِ مصطفوی ؐ کی پاکیزہ کلیاں جھومتی ہیں۔احمدی شعراء کی پسندیدہ بستیاں ذکرِ الہٰی، ذکرِ رسولؐ، اطاعتِ امام آخرالزماں اور خلافت سے محبت و وفاداری کا سبق ہیں۔ اُن کے ہاں بادہ و ساغر کہے بغیر تو بات بن جاتی ہے لیکن اسلامی تعلیم کے مختلف پہلوؤں کے دلنشیں ذکر کے بغیر بات نہیں ہوتی۔ آج کل کے ماحول میں ایسی شاعری کی ضرورت ہے جس سے دلوں میں خود پرستی کی بجائے خُدا پرستی کی شمعیں فروزاں ہوں۔خدا کرے کلام کی یہ پاکیزگی ہمیشہ بڑھتی رہے اور بہت سے دلوں کو دین کے اعلیٰ مقاصد کے لئے گرماتی رہے۔

اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ

احمدی طالبعلموں کی نمایاں کامیا بیوں کی خبریں پڑھ کر دل شکر کے ترانے گاتا ہے۔بچوں کی پیدائش کے اعلانات پڑھ کر زبان پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعائیہ اشعار آجاتے ہیں۔

کر ان کو نیک قسمت دے ان کودین و دولت
دے رشد اور ہدایت اور عمر اور عزت
اہلِ وقار ہوویں فخرِ دیار ہوویں
با برگ و بار ہوویں اک سے ہزار ہوویں

الفضل کے مطالعہ سے انسان کے علم میں بہت اضافہ ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے میری عمر اس وقت57سال ہے۔ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے میں نے پندرہ سال کی عمر سے الفضل کا مطالعہ کرنا شروع کیا تھا الحمد للہ یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔

خاکسار کا طریق رہا ہے کہ اہم حوالہ جات نوٹ کرلیتا، اسی طرح بہت سے مضامین فوٹو کاپی کی صورت میں ترتیب سے فائلوں میں محفوظ کرلیتا۔ الفضل میں ایک دوست نے اپنے والد صاحب مرحوم کے بارہ میں مضمون لکھا تو اس میںیہ ذکر کیا کہ والد صاحب ریٹائرمنٹ کے بعد اپنے بچوں کے پاس امریکہ آگئے تو سارا دن فارغ ہوتے تھے۔ والد صاحب نے اپنے آپ کو مصروف رکھنے کے لئے بچوں سے کمپیوٹر چلانا سیکھا اور مضمون وار فائلیں بنا کر ان میں حوالہ جات نوٹ کرتے۔

چنانچہ اس کے بعد میں نے بھی لیپ ٹاپ میں فائلیں بنا کر حوالہ جات نوٹ کرنے شروع کردیئے اور یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔اس طرح الحمدللہ میرے پاس سینکڑوں مضامین کے حوالہ جات محفوظ ہیں۔

لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ میں نے الفضل کے مطالعہ سے یہ مفید سلسلہ شروع کیا۔ اس کے علاوہ بھی الفضل کے مطالعہ سے بہت فائدہ ہوا یہ تو صرف ایک مثال ہے۔

ان حوالہ جات سے فائدہ اٹھانے کا ایک سلسلہ یہ بنا کہ ایک عزیز کو تقریری مقابلہ کے لئے تقریر لکھ کر دی تو ان کا پیغام ملا کہ میرے ایک دوست کے لئے بھی

تقریر لکھ دیں چنانچہ ایک اور تقریر لکھ دی گئی اور اس طرح یہ سلسلہ ہر سال بڑھتا رہا ۔

اللہ تعالیٰ کے فضل سے اب گزشتہ دس سال سے دنیا بھر میںہر سال بیسیوں تقاریر بھجوانے کی توفیق مل رہی ہے اور سینکڑوں تقاریر لیپ ٹاپ میں محفوظ ہیں۔

(حافظ عبدالحمید)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 28 مئی 2020

اگلا پڑھیں

Covid-19 اپ ڈیٹ29۔مئی2020ء