• 19 اپریل, 2024

’’بیعت کرنے والا فرزند کے حکم میں ہوتا ہے‘‘ (مسیح موعودؑ)

’’بیعت‘‘ بیع سے نکلا ہے جس کے معنی فروخت کر دینے کے ہیں۔ یعنی جب کوئی شخص بیعت کر کے جماعت احمدیہ میں دخل ہوتا ہے تو وہ اپنے آپ کو حضرت خلیفۃ المسیح کے ہاتھوں میں فروخت کر دیتا ہے۔ اس کا نفس اس کا نفس نہیں رہتا، اس کے جذبات اس کے جذبات نہیں رہتے۔ اس کی خواہشات اس کی خواہشات نہیں رہتیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک موقع پر بیعت کی مثال بیل (cow) کے فروخت ہونے سے دی ہے۔ کہ بیل کا مالک جب اپنے بیل کو کسی کے ہاتھوں فروخت کر دیتا ہے تو پھر بیل کے سا بقہ مالک کا بیل پر حق ختم ہو جاتا ہے۔ یہی کیفیت بیعت کرنے والے کی ہوتی ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دست مبارک پر جب بھی بیعت کرنے کے لئے لوگ حاضر ہوتے تو آپؑ نو مبائعین کو بہت قیمتی اور نایاب نصائح فرماتے اور آخری زمانہ میں مسیح و مہدی پر ایمان لانے والوں کا مقام و مرتبہ بیان فرماتے جن سے ملفوظات دس جلدوں میں بھری پڑی ہیں۔

ایک دفعہ مورخہ 7 نومبر 1902ء کو ایک نو مبائع منشی نعمت علی صاحب نے کھانے کے لئے عرض کیا۔ آپ نے فر مایا:۔
’’تکلف کرنے کی کیا ضرورت ہے ہم کھانا کھا چکے ہیں۔ جب تم لوگوں نے بیعت کرلی تو گویا ہمارے بدن کے جزو ہو گئے۔ پھر الگ کیا رہ گیا یہ باتیں تو اجنبی کے لئے ہوسکتی ہیں‘‘۔

(ملفوظات جلد3 ص362)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ ارشاد اس فرمان رسولؐ کے عین مطابق ہے جس میں آنحضور ﷺ نے فر مایا کہ تمام مومن ایک جسم اور بدن کی مانند ہیں اگر ایک عضو میں درد محسوس ہو تو پورا جسم درد محسوس کرتا ہے۔ اگر نو مبائع کسی اعلیٰ حضرت، ولی اور پیر و مرشد کے بدن کا جزو ہوجائے تو اس سے زیادہ مبارک مقام اس کا کیا ہوسکتا ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حضور ایک موقع پر 4 اکتوبر 1902ء کو بعد نماز مغرب ایک مجلس عرفان میں گفتگو کے دوران جب حضرت مولوی غلام علی رہتاسی ؓ کی تار پیش ہوئی تو آپؑ نے حضرت مولوی صاحب کی بیماری کے ذکر میں فرمایا:۔
’’ہماری جماعت جواب ایک لاکھ تک پہنچی ہے سب آپس میں بھائی ہیں۔ اس لئے اتنے بڑے کنبہ میں کوئی دن ایسا نہیں ہوتا کہ کوئی نہ کوئی دردناک آواز نہ آتی ہو ۔ جو گزر گئے وہ بھی بڑے ہی مخلص تھے جیسے ڈاکٹر بوڑے خاں، سید خصیلت علی شاہ، ایوب بیگ، منشی جلال الدین ، خدا ان سب پر رحم کرے‘‘

(ملفوظات جلد3 ص193)

اب دیکھیں! جماعت کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کنبہ یعنی خاندان قرار دیا ہے۔ ایک اور موقع پر آپؑ نے اپنی اس خواہش کا اظہار بھی فرمایا کہ دل کرتا ہے کہ میرے گھر کے اندر ہر احمدی گھرانہ کی کھڑکی ہو جو اب (mta) کے مبارک نظام سے پوری ہو رہی ہے۔الحمد للہ۔ اللہ تعالیٰ نے بھی الہام میں آپؑ کے گھر کو ایسا وسیع و عریض گھر قرار دیا ہے جس میں تمام افراد جماعت شامل ہوں:۔ فرمایا اِنی احافظ کل من فی الدار۔ یہی وہ اس زمانہ کے حضرت نوح کی کشتی ہے جو اس میں سوار ہوگا وہ محفوظ رہے گا۔

تمام مبائعین کو اپنے خاندان کے افراد قرار دینے میں جہاں مبائعین کا مقام او ربلند مرتبہ بیان ہوا ہے وہاں مبائعین کی ذمہ داریاں بھی بیان ہوئی ہیں۔ جس طرح دنیا میں ایک عام گھرانہ کو باحسن طریق چلانے کے لئے گھرانہ کے تمام مکینوں کو اپنے اپنے مفوضہ کام پوری ذمہ داری کے ساتھ انجام دینے پڑتے ہیں۔ اگر ایک مکین بھی اپنے مفوضہ کام میں سستی دکھلائے یا کام میں تاخیر کا موجب ہو تو گھرانہ کا نظام درہم برہم ہو جاتا ہے ۔بعینہٖ جماعت احمدیہ میں ہر فرد کو اپنے اپنے سپرد مفوضہ کاموں کو پوری محنت اور تندہی سے سر انجام دینا ہے۔ ہر فرد مربی بھی ہے۔ مبلغ بھی ہے، داعی الی اللہ بھی ہے، ان میں سے بعض والد کا مقام رکھتے ہیں خواتین ماؤں کا درجہ رکھتی ہیں، ہر فرد و عورت ایک دوسرے کے بہن بھائی ہیں، لہٰذا وہ صرف اپنے مادی بچوں کا باپ یا ماں نہیں بلکہ وہ جماعت کے تمام بچوں کے روحانی ماں باپ بھی ہیں۔ ان کی تعلیم و تربیت بجا لانا ہر فرد کی ذمہ داری ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مورخہ 30 دسمبر1897ء کو جلسہ سالانہ کے خطاب میں ’’سلسلہ کی عظمت اور عزت کا خیال رکھیں‘‘ کے تحت بیعت کرنے والے کو فرزند کے حکم میں رکھتے ہوئے فرمایا :۔
’’کیا یہ ان کے لئے باعث ندامت نہیں ہے کہ انسان عمدہ سمجھ کر اس سلسلہ میں آیا تھا جیسا کہ ایک رشید فرزند اپنے باپ کی نیک نامی ظاہر کرتا ہے، کیونکہ بیعت کرنے والا فرزند کے حکم میں ہوتا ہے اور اسی لئے آ نحضرت ﷺ کی ازواج مطہرات کو امہات المومنین کہا ہے۔ گویا کہ حضورؐ عامۃ المومنین کے باپ ہیں، جسمانی باپ زمین پر لانے کا موجب ہوتا ہے اور حیات ظاہری کا باعث۔ مگر روحانی باپ آسمان پر لےجاتا ہے اور اس مرکز اصلی کی طرف عود کرتا ہے۔ کیا آپ پسند کرتے ہیں کہ کوئی بیٹا اپنے باپ کو بدنام کرے؟ ۔۔۔ اسی طرح پر جب کوئی شخص ایک سلسلہ میں شامل ہوتا ہے اور اس سلسلہ کی عظمت اور عزت کا خیال نہیں رکھتا اور اس کے خلاف کرتا ہے تو وہ عند اللہ ماخوذ ہوتا ہے کیونکہ وہ صرف اپنے آپ ہی کو ہلاکت میں نہیں ڈالتا بلکہ دوسروں کے لئے ایک بُرا نمونہ ہو کر ان کو سعادت اور ہدایت کی راہ سے محروم رکھتا ہے۔ پس جہاں تک آپ لوگوں کی طاقت ہے خدا تعالیٰ سے مدد مانگو اور اپنی پوری طاقت اور ہمت سے اپنی کمزوریوں کو دور کرنے کی کوشش کرو ۔جہاں عاجز آ جاؤ وہاں صدق اور یقین سے ہاتھ اٹھاؤ کیونکہ خشوع اور خضوع سے اٹھائے ہوئے ہاتھ جو صدق اور یقین کی تحریک سے اُٹھتے ہیں واپس نہیں ہوتے‘‘۔

(ملفوظات جلد اول ص126-127)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 28 مئی 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 29 مئی 2021