• 19 اپریل, 2024

تبلیغ میں پریس اور میڈیا سے کس طرح کام لیا جاسکتا ہے (قسط 49)

تبلیغ میں پریس اور میڈیا سے کس طرح کام لیا جاسکتا ہے
ذاتی تجربات کی روشنی میں
قسط 49

ڈیلی بلٹن نے اپنی اشاعت یکم اکتوبر 2010ء صفحہ A9 پر مختصراً ہماری ایک خبر شائع کی ہے کہ
’’مسجد میں خواتین کا پروگرام ہو رہا ہے۔ جس میں صرف خواتین ہی شامل ہوں گی۔ اس تقریب کا عنوان ہے، جلسہ سیرت النبی (ﷺ)۔ اس موقعہ پر بانی اسلام کی تعلیم اور اخلاق و سیرت و سوانح پر گفتگو کی جائے گی۔

ہفت روزہ پاکستان ایکسپیریس نے اپنی اشاعت یکم اکتوبر 2010ء پر خاکسار کا ایک مضمون بعنوان ’’قمر ہے چاند اوروں کا ہمارا چاند قرآن ہے‘‘ خاکسار کی تصویر کے ساتھ شائع کیا ہے اس مضمون کی تفصیل اوپر گزر چکی ہے۔ نفس مضمون وہی ہے۔

الاخبار نے اپنے عربی سیکشن میں 6 اکتوبر 2010ء صفحہ9 پر اس عنوان سے حضرت اقدس مسیح موعود ؑ کی تحریرات کو شائع کیا ہے۔ ’’اَلْاِیْمَانُ بِالرَّسُوْلِ الْکَرِیْمِ مُحَمَّدٍ ﷺ وَاتِّبَاعُ سُنَّتِہٖ‘‘

’’رسول کریم محمد ﷺ پر محکم اور کامل ایمان اور آپ کی سنت کی مکمل پیروی۔

مضمون کے ابتدائی حصہ میں احمدی مسلمانوں کے عقیدہ کو بیان کیا گیا ہے کہ ہم احمدی مسلمان آنحضرت ﷺ کی رسالت، نبوت اور ختم نبوت پر کامل یقین رکھتے ہیں کیونکہ آپ ہی سید ولد آدم ہیں اور خاتم النبیین ہیں اور ہم یہ بھی ایمان رکھتے ہیں کہ آپ ﷺ کی کامل پیروی کامل اطاعت اور آپ کے اسوہ پر چلنا ہر مسلمان کے لئے ضروری ہے اور جو کچھ بھی قرآن مجید میں بیان ہوا ہے خواہ وہ اللہ تعالیٰ کی صفات کے بارے میں ہے یا اخلاق کے بارے میں یا دیگر تعلیمات ہیں اور جو کچھ آنحضرت ﷺ کے بارے میں بیان ہوا ہے ہمارا ان سب پر ایمان ہے اور یہ بھی ہمارا یقین اور ایمان ہے کہ آپ ﷺ کی پوری پوری اتباع کے بغیر ہم کوئی مرتبہ روحانیت حاصل نہیں کر سکتے۔

حضرت بانی جماعت احمدیہ نے آنحضرت ﷺ کی جو تعریف و توصیف بیان کی ہے اس کی نظیر کہیں اور نہیں مل سکتی۔ آپ نے اپنی ساری عمر آنحضرت ﷺ کی محبت میں بسر کی ہے اور آپ کے بلند مقام کو بیان کرنے میں صرف کی ہے۔ اس کے بعد حضرت مسیح موعودؑ کی تحریر کا عربی میں ترجمہ ہے کہ جو اس طرح شروع ہوتا ہے:

وہ اعلیٰ درجہ کا نور جو انسان کو دیا گیا ہے یعنی انسان کامل کو وہ ملائکہ میں نہیں تھا……

ایک اور اقتباس بھی دیا گیا ہے جس میں حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا ہے کہ
اگر آنحضرت ﷺ ظاہر نہ ہوتے تو دوسرے نبیوں کی صداقت کی ہمارے پاس کوئی دلیل نہ ہوتی۔

آپ علیہ السلام نے تحریرات میں ہر جہت سے آنحضرت ﷺ کا اکمل، اعلیٰ، اقویٰ اور افضل البشر ہونا ثابت کیا ہے۔ اس لئے آپ نے تحریر کیا کہ سب کو ہمارے محبوب نبی ﷺ کی اتباع کرنی چاہئے کہ آپ سارے جہانوں کے لئے آتے تھے اور اس جاہ و جلال کے نبی کے ساتھ اپنا رشتہ مضبوط کرنا چاہئے۔ مضمون کے آخر میں مسجد بیت الحمید کا ایڈریس اور فون نمبر دیا گیا ہے۔

پاکستان جرنل نے اپنی 8 اکتوبر 2010ء صفحہ 21 پر خاکسار کا ایک مضمون اس عنوان سے شائع کیا ہے ’’تاریخ اسلام کا ایک سنہری ورق۔ اسوہ رسول ﷺ کی روشنی میں‘‘

’’مسلمان صلح حدیبیہ سے سبق حاصل کریں‘‘

اس مضمون کو خاکسار نے ابتداء میں اسلام، امن اور رواداری کا مذہب سے شروع کیا ہے اور اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی طرف توجہ دلائی ہے لَقَدۡ کَانَ لَکُمۡ فِیۡ رَسُوۡلِ اللّٰہِ اُسۡوَۃٌ حَسَنَۃٌ اور اس آیت کریمہ کی طرف قُلۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تُحِبُّوۡنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوۡنِیۡ یُحۡبِبۡکُمُ اللّٰہُ گویا اگر ہم چاہتے ہیں کہ خدا ہم سے محبت کرے تو اس کا صرف ایک ہی طریق ہے کہ آنحضرت ﷺ کی پوری پوری اطاعت اور فرمانبرداری کریںَ

زبان سے محبت کا دعویٰ کرنے والے تو بے شمار ملیں گے بلکہ کروڑوں کی تعداد میں مل جائیں گے۔ لیکن اصل بات یہ دیکھنی ہوتی ہے کہ دعویٰ کے پیچھے حقیقت کیا ہے؟

ایسے تمام لوگوں کے لئے جو اپنی انانیت کی وجہ سے تکبر و نخوت کی وجہ سے، سب کچھ کر گزرتے ہیں جنہیں موقعہ آنے پر کچھ بھی تو یاد نہیں رہتا کہ کہاں جوش دکھانا ہے اور کہاں عقل سے کام لینا ہے۔ ایک واقعہ تاریخ اسلام سے لکھ رہا ہوں اور وہ واقعہ ہمارے پیارے نبی حضرت خاتم الانبیاء ﷺ کا ہے کہ جب آپ ایک رویاء کی بناء پر 1500 صحابہ کرامؓ کے ساتھ مکہ کی طرف روانہ ہوئے تاکہ عمرہ ادا کر سکیں۔ لیکن آپ کو رؤساء مکہ نے مکہ میں داخل ہونے پر روک دیا اور ان کے ساتھ گفت و شنید ہوتی رہی سفیر آتے رہے بات ہوتی رہی۔ بالآخر آپ نے حضرت عثمانؓ کو مکہ کے رؤساء کی طرف بھجوایا مگر کوئی مثبت نتیجہ سامنے نہ آیا۔ بلکہ یہ بات مشہور ہو گئی کہ حضرت عثمانؓ کو شہید کر دیا گیا ہے اس پر آپ ﷺ نے سب صحابہ کو جمع کیا اور بیعت رضوان ہوئی۔ کسی ایک شخص نے بھی موت پر بیعت کرنے سے انکار نہیں کیا تھا۔ چنانچہ یہ خبر غلط نکلی اور حضرت عثمانؓ واپس آگئے۔ اس کے بعد صلح حدیبیہ کی شرائط طے ہو گئی تھیں۔ ان شرائط کی تفصیل سیرت النبی ﷺ علامہ شبلی نعمانی و علامہ سید سلمان ندوی کی کتاب سے لکھی گئی ہیں۔

اس کے بعد حضرت مصلح موعودؓ کے دیباچہ تفسیر القرآن سے وہ حصہ نقل کیا گیا ہے جس میں تفصیل یوں درج ہے: حضرت عثمانؓ کے آنے کے بعد مکہ کے ایک رئیس سہیل نامی معاہدہ کے لئے آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور جب معاہدہ لکھوانا شروع کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا:
’’خدا کے نام پر یہ شرائط محمد بن عبداللہ (ﷺ) اور سہیل ابن عمرو (قائمقام حکومت مکہ) کے درمیان طے پائی ہیں۔………

اس معاہدہ کے وقت دو عجیب باتیں ہوئیں جب رسول اللہ ﷺ نے شرائط طے کرنے کے بعد معاہدہ لکھوانا شروع کیا تو آپ نے فرمایا: ’’خدا کے نام سے جو بے انتہاء کرم کرنےو الا اور بار بار رحم کرنے والا ہے‘‘ سہیل نے اس پر اعتراض کیا اور کہا خدا کو تو ہم جانتے ہیں لیکن یہ ’’بے انتہاء کرم کرنےو الا اور بار بار رحم کرنے والا‘‘ ہم نہیں جانتے کون ہے۔ یہ معاہدہ ہمارے اور آپ کے درمیان ہے اور اس میں دونوں کے مذاہب کا احترام ضروری ہے۔ اس پر آپ نے اس کی بات قبول کر لی اور صرف اتنا ہی لکھوایا کہ ’’خدا کے نام پر ہم یہ معاہدہ کرتے ہیں‘‘ پھر آپ نے یہ لکھوایا کہ یہ شرائط صلح مکہ والوں اور محمد رسول اللہ کے درمیان ہیں۔ اس پر پھر سہیل نے اعتراض کای اور کہا کہ اگر ہم آپ کو خدا کا رسول مانتے تو آپ کے ساتھ لڑتے کیوں؟ آپ نے اس اس اعتراض کو بھی قبول کر لیا اور بجائے محمد رسول اللہ کے ’’محمد بن عبداللہ‘‘ لکھوایا۔ چونکہ آپ مکہ والوں کی ہر بات مانتے چلے جاتے تھے، صحابہؓ کے دل میں بے انتہاء رنج اور افسوس ہوا اور غصہ سے ان کا خون کھولنے لگا یہاں تک کہ حضرت عمرؓ رسول اللہ ﷺ کے پاس حاضر ہوئے اور انہوں نے کہا یَا رَسُوْلَ اللّٰہ! کیا ہم سچے نہیں؟ آپ نے فرمایا ہاں! پھر اُنہوں نے کہا یَا رَسُوْلَ اللّٰہ! کیا آپ کو خدا نے یہ نہیں بتایا تھا کہ ہم خانہ کعبہ کا طواف کریں گے؟ آپ نے فرمایا ہاں! اس پر حضرت عمرؓ نے کہا پھر آپ نے یہ معاہدہ آج کیوں کیا ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ عمر! خدا تعالیٰ نے مجھے یہ تو فرمایا تھا کہ ہم بیت اللہ کا طواف امن سے کریں گے مگر یہ تو نہیں فرمایا تھا کہ ہم اسی سال کریں گے یہ تو میرا اپنا اجتہاد تھا۔ اِسی طرح بعض دوسرے صحابہؓ نے یہ اعتراض کیا کہ یہ اقرار کیوں کر لیا گیا ہے کہ اگر مکہ کے لوگوں میں سے کوئی نوجوان مسلمان ہواتو اس کے باپ یا ولی کی طرف واپس کر دیا جائے گا لیکن جو مسلمان مکہ والوں کی طرف جائے گا اُسے مکہ والے واپس کرنے پر مجبور نہ ہوں گے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اِس میں کون سے حرج کی بات ہے ہر شخص جو مسلمان ہوتا ہے وہ اسلام کو سچا سمجھ کر مسلمان ہوتا ہے رسمی اور رواجی طور پر مسلمان نہیں ہوتا۔ ایسا شخص جہاں بھی رہے گا وہ اسلام کی تبلیغ کرے گا اور اسلام کی اشاعت کا موجب ہو گا لیکن جو شخص اسلام سے مرتد ہو تا ہے ہم نے اُسے اپنے اندر رکھ کر کرنا کیا ہے۔ جو شخص ہمارے مذہب کو جھوٹا سمجھ بیٹھا ہے وہ ہمارے لئے کس فائدہ کا موجب ہو سکتا ہے۔ آپ کا یہ جواب ان غلطی خوردہ مسلمانوں کا بھی جواب ہے جو کہتے ہیں کہ اسلام میں مرتد کی سزا قتل ہے۔ اگر اسلام میں مرتد کی سزا قتل ہوتی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس بات پر اصرار کرتے کہ ہر مرتد واپس کیا جائے تاکہ اُس کو اُس کے جرم کی سزا دی جائے۔ جس وقت یہ معاہدہ لکھ کر ختم ہوا اور اس پر دستخط کر دئیے گئے۔ اُسی وقت اللہ تعالیٰ نے اس معاہدہ کی صحت کے پرکھنے کا سامان پیدا کر دیا۔ سہیل جو مکہ والوں کی طرف سے معاہدہ کر رہا تھا اس کا اپنا بیٹا رسیوں سے جکڑا ہوا اور زخموں سے چور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آکر گرا اور کہا یا رسول اللہ! میں دل سے مسلمان ہوں اور اسلام کی وجہ سے میرا باپ مجھے یہ تکلیفیں دے رہا ہے۔ میرا باپ یہاں آیا تو میں موقع پا کر آپ کے پاس پہنچا ہوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابھی جواب نہ دیاتھا کہ اس کے باپ نے کہا معاہدہ ہو چکا ہے اور اِس نوجوان کو واپس میرے ساتھ جانا ہوگا۔ ابوجندل کی حالت اُس وقت مسلمانوں کے سامنے تھی وہ اپنے ایک بھائی کو جو اپنے باپ کے ہاتھوں سے اِس قدر ظلم برداشت کر رہا تھا واپس جانا دیکھ نہیں سکتے تھے۔ اُنہوں نے تلواریں میانوں سے نکال لیں اور اس بات کا فیصلہ کر لیا کہ وہ مر جائیں گے مگر اپنے بھائی کو اس تکلیف کے مقام پر پھر جانے نہیں دیں گے۔ خود ابوجندل نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ یَارَسُوْل اللّٰہ! آپ میری حالت کو دیکھتے ہیں کیا آپ اس بات کو گوارا کریں گے کہ پھر مجھے اِن ظالموں کے سپرد کر دیں تاکہ پہلے سے بھی زیادہ مجھ پر ظلم توڑیں! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا خدا کے رسول معاہدے نہیں توڑا کرتے۔ ابوجندل! ہم معاہدہ کرچکے ہیں تم اب صبر سے کام لو اور خدا پر توکل کرو وہ تمہارے لیے اور تمہارے جیسے اور نوجوانوں کے لئے خو دہی بچنے کی کوئی راہ پیدا کردے گا۔‘‘

(دیباچہ تفسیر القرآن 309-311)

یہ شرائط تھیں صلح حدیبیہ کی۔ ان شرائط کے ایک ایک لفظ سے آنحضرت ﷺ کی عظمت اور آپ کے بلند اخلاق اور اعلیٰ ہمت، صبر اور توکل کا اظہار ہوتا ہے۔ آپ ذرا سوچیں کہ آپ کی کس قدر عاجزی و انکساری ہے کہ ان کے کہنے پر خود لفظ رسول اللہ مٹا دیتے ہیں اور معاہدہ میں صرف محمد بن عبداللہ لکھوا دیتے ہیں۔ اس سےتمام ایسے لوگوں کے سرنگوں ہو جانے چاہئیں جو چھوٹی چھوٹی باتوں میں تکبر، نخوت، خود پسندی، غرور اور اپنی بڑائی سے کام لیتے نہیں تھکتے؟ آپ نے یہ سب کچھ امن، محبت بھائی چارے اور ہم آہنگی کی فضا پیدا کرنے کے لئے یہ سب کچھ کیا۔

خاکسار نے ایک واقعہ لکھا کہ نیویارک میں گرواؤنڈ زیرو پر اسلامی سینٹر بنانے کے بارے میں سارے ملک میں ایک تضاد سا نظر آرہا ہے۔ ہم اس کے بنائے جانے کے حق میں ہیں کہ ضرور بننا چاہئے۔ وہاں پر اسلامک سنٹر بنے یا مسجد بنے۔ اچھی بات ہے! لیکن اس کے بننے سے پہلے وہاں پر زمین ہموار کرنے کا پروگرام بنانا چاہئے تھا (یعنی لوکل لوگوں سے مل کر بتائیں کہ ہم مسلمان ہیں اور امن پسند ہیں وغیرہ)

یہ تو ان مسلمانوں کی خوش قسمتی ہے کہ امریکہ جیسے ملک میں رہتے ہیں جہاں مذہبی آزادی ہے۔ ذرا سوچ کر دیکھیں کہ کیا کسی عیسائی کو مسلمان کسی ایسی جگہ اپنے ملک میں ان کی عبادت گاہ بنانے کی اجازت دیں گے۔

میرے خیال میں تو ہرگز نہیں بلکہ بموں سے سب کو اڑا دیں گے اور مزید مشکلات کھڑی کر دیں گے کیونکہ کوئی لیڈر شپ نہیں ہے اور کوئی قانون نہیں ہے۔

خاکسار نے آخر میں لکھا کہ پس مسجد کو امن کی جگہ بنائیں۔ اگر مسجد بنانے سے لوگوں کا سکون خراب ہو اور وہ اسے پسند نہ کریں تو بلاوجہ سکون خراب کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے؟ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے اللہ تعالیٰ نے میرے لئے تمام زمین کو مسجد بنا دیا ہے۔ پس وہاں نہیں تو کسی اور جگہ بنا لی جائے اگر مقصد صرف مسجد بنانا ہے۔

ہفت روزہ پاکستان ایکسپریس نے اپنی اشاعت 8 اکتوبر 2010ء صفحہ15 پر خاکسار کا مضمون بعنوان ’’مسلمان صلح حدیبیہ سے سبق حاصل کریں‘‘ خاکسار کی تصویر کے ساتھ شائع کیا ہے۔ نفس مضمون وہی ہے جو اوپر لکھا گیا ہے۔

نیویارک عوام نے اپنی اشاعت 8تا14 اکتوبر 2010ء صفحہ 12 پر خاکسار کا مضمون بعنوان ’’مسلمان صلح حدیبیہ سے سبق حاصل کریں‘‘ خاکسار کی تصویر کےساتھ شائع کیا ہے۔ نفس مضمون وہی ے جو اوپر ذکر ہو چکا ہے۔

نیویارک عوام نے اپنی اشاعت یکم اکتوبر تا 7 اکتوبر 2010ء صفحہ 14 پر پورے صفحہ پر حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کا خطبہ جمعہ فرمودہ موٴرخہ 20 اگست 2010ء کی تصویر کے ساتھ شائع کیا جس کی ہیڈلائن یہ دی گئی ہے۔

’’قرآن کریم کی تعلیم اور آنحضرت ﷺ دنیا میں رحمت تقسیم کرنے کے لئے آئے تھے نہ کہ امن پسند شہریوں کے امن چھیننے کی تعلیم دینے کے لئے اور نہ کہ معصوموں کی جانوں سے بے رحمانہ طور پر کھیلنے کے لئے۔‘‘

ہر احمدی کا فرض ہے کہ قرآن کریم کی تعلیم کی عملی تصویر بننے کے لئے اپنی استعدادوں کے لحاظ سے بھرپور کوشش کرے۔

حضور نے فرمایا: آپ ﷺ اللہ کے وہ پیارے رسول ہیں جو تمام انسانوں کے لئے مبعوث ہوئے اور اب تا قیامت اور کوئی نبی شرعی کتاب والا نہیں آسکتا اور قرآن کریم کا پیغام ایک عالمگیر پیغام ہے اور آپ ﷺ تمام انسانوں کے لئے تا قیامت نبی ہیں۔ فرمایا: کاش آج کے شدت پسند ملاؤں اور اپنے زعم میں عالم کہلانے والوں کو بھی یہ پتہ لگ جائے جو مذہی جُبّہ پوش ہیں کہ قرآن کریم کی تعلیم اور آنحضرت ﷺ دنیا میں رحمت تقسیم کرنے کے لئے آئے تھے نہ کہ امن پسند شہریوں کے امن چھیننے کی تعلیم دینے کے لئے…… مومنین کا فرض ہے کہ اس روشن تعلیم (البقرہ: 184) اور ہدایت سے پُر کتاب کو اپنے سامنے رکھیں کہ یہ راہنما ہے۔

جماعت احمدیہ کے پانچویں خلیفہ حضرت مرزا مسرور احمد نے یہ بھی کہا کہ سب سے پہلے مسلمان کے عمل ہونے چاہئیں جسے دنیا دیکھ سکے اور یہ بڑی بدقسمتی ہے کہ آج مسلمانوں کے عمل ہی ہیں جو مخالفین اسلام کو موقعہ دے رہے ہیں کہ وہ قرآن کریم اور اس کی تعلم پر اعتراض کریں۔ فرمایا آجکل قرآن کریم اور اسلامی تعلیم کو بدنام کرنے کی ایک مذموم کوشش امریکہ کے ایک چرچ کی طرف سے ہو رہی ہے جس نے ایک ظالمانہ کام کا پروگرام بنایا ہے۔

انہوں نے کہا کہ جو اعتراضات اس چرچ نے کئے ہیں انتہائی لغو اور بودے اور بے ہودہ ہیں۔ انہوں نے مزید کہا: کہ ہم بھی بائبل پر بہت سے اعتراضات کر سکتے ہیں لیکن ہمارا کام نہیں ہے کہ فساد پیدا کریں۔ علمی بحث اور اعتراض کا حق ہر ایک کو حاصل ہے اور ہم علمی بحث کرتے ہیں یہ حق کسی مسلمان کا نہیں کہ ان باتوں کی وجہ سے یا بعض جگہ اس میں توحید کے خلاف ہے مسلمان بائبل کو جلانا شروع کر دیں۔

جماعت احمدیہ کے پانچویں خلیفہ حضرت مرزا مسرور احمد صاحب نے کہا کہ اس زمانہ میں اللہ تعالیٰ نے جس جری اللہ کو مبعوث فرمایا ہے اس نے اس تعلیم کو اس عظمت سے ظاہر فرمایا کہ جو بندے کو خدا بنانے والے تھے۔ انہوں نے یہ اعلان کر دیا کہ مرزا غلام احمد اور اس کے ماننے والوں سے مذہبی بحث نہ کرو۔ آپؑ نے بائبل سے ہی ثابت کیا کہ حضرت عیسیٰؑ خدا کے بیٹے نہیں۔

آپ نے فرمایا جب انسان شکست خوردہ ہو جائے اور اس کے پاس کوئی دلیل نہ ہو تو اس کے پاس اس کے علاوہ چارہ نہیں ہوتا کہ شدت پسندی پر اتر آئے اور یہی یہ چرچ کر رہا ہے۔

آپ نے فرمایا کہ شدت پسندی کی تعلیم یہ چرچ دے رہا ہے یا مسلمان…… ؟ یہ چرچ تو اپنی تعلیم پر بھی عمل نہیں کر رہا جو ان کی اپنی تعلیم بائبل سے ہے۔ بہت سے عیسائی چرچوں نے بھی اس چرچ کی ظالمانہ کوشش کی مذمت کی ہے۔ فرمایا کہ امریکہ کی جماعت کو میں نے کہا کہ ایک مہم کی صورت میں اس پر کام کریں۔ دنیا کی باقی جماعتوں کو بھی اس طرح کرنا چاہئے۔ یہ طریقہ جو وہ اپنا رہے ہیں یہ دنیا میں فساد پیدا کرنے کاطریقہ ہے، اس سے کینوں کی دیواریں کھڑی ہوں گی۔ قرآن کریم تو ہر نبی کی عزت کرتا ہے۔

(باقی آئندہ بدھ ان شاء اللہ)

(مولانا سید شمشاد احمد ناصر۔ امریکہ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 28 جون 2022

اگلا پڑھیں

مالدار لوگ بلند درجوں پر پہنچ گئے