• 24 اپریل, 2024

دُعا، ربوبیت اور عبودیت کا ایک کامل رشتہ ہے (مسیح موعود ؑ) (قسط 34)

دُعا، ربوبیت اور عبودیت کا ایک کامل رشتہ ہے (مسیح موعود ؑ)
قسط 34

دعا کی حقیقت

اصل بات یہ ہے کہ لوگ دعا کی حقیقت سے بیخبر ہیں۔ اور مسلمانوں نے بھی اس میں سخت ٹھوکر کھائی ہے کہ دعا جیسی شے کو ہاتھ سے چھوڑ بیٹھے ہیں۔

(ملفوظات جلد7 صفحہ262 حاشیہ ایڈیشن 1984ء)

ہماری جماعت کو دعا
کی بے قدری نہیں کرنی چاہیے

اﷲ تعالیٰ نے شروع قرآن ہی میں دُعا سکھائی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ بڑی عظیم الشان اور ضروری چیز ہے۔ اس کے بغیر انسان کچھ بھی نہیں ہو سکتا۔ ﷲ تعالیٰ فرماتا ہے۔ اَلۡحَمۡدُ لِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ۔ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ۔ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ (الفاتحہ: 2-4) اس میں اﷲ تعالےٰ کی چار صفات کو جو ام الصفات ہیں بیان فرمایا ہے۔ ربّ العالمین ظاہر کرتا ہے کہ وہ ذرّہ ذرّہ کی ربوبیت کر رہا ہے۔ عالَم اسے کہتے ہیں جس کی خبر مل سکے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کوئی چیز دُنیا میں ایسی نہیں ہے جس کی ربوبیت نہ کرتا ہو۔ ارواح اجسام وغیرہ سب کی ربوبیت کر رہا ہے۔ وہی ہے جو ہر ایک چیز کے حسب حال اس کی پرورش کرتا ہے۔ جہاں جسم کی پرورش فرماتا ہے وہاں رُوح کی سیری اور تسلّی کے لئے معارف اور حقائق وہی عطا فرماتا ہے۔

پھر فرمایا ہے کہ وہ رحمٰن ہے یعنی اعمال سے بھی پیشتر اس کی رحمتیں موجود ہیں۔ پیدا ہونے سے پہلے ہی زمین، چاند، سورج، ہوا، پانی وغیرہ جس قدر اشیاء انسان کے لئے ضروری ہیں موجود ہوتی ہیں۔

اور پھر وہ اﷲ رحیم ہے یعنی کسی کے نیک اعمال کو ضائع نہیں کرتا بلکہ پاداش عمل دیتا ہے۔

پھر مالک یوم الدین ہے یعنی جزا وہی دیتا ہے اور وہی یوم الجزاء کا مالک ہے۔ اس قدر صفات اﷲ کے بیان کے بعد دعا کی تحریک کی ہے۔ جب انسان اﷲ تعالےٰ کی ہستی اور ان صفات پر ایمان لاتا ہے تو خواہ مخواہ رُوح میں ایک جوش اور تحریک ہوتی ہے اور دُعا کے لئے اﷲ تعالیٰ کی طرف جھکتی ہے۔ اس کے بعد اِھۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ کی ہدایت فرمائی۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالےٰ کی تجلیات اور رحمتوں کے ظہور کے لئے دعا کی بہت بڑی ضرورت ہے۔ اس لئے اس پر ہمیشہ کمر بستہ رہو اور کبھی مت تھکو۔

غرض اصلاح نفس کے لئے اور خاتمہ بالخیر ہونے کے لئے نیکیوں کی توفیق پانے کے واسطے دوسرا پہلو دعا کا ہے۔ اس میں جس قدر توکل اور یقین اﷲ تعالےٰ پر کریگا۔ اور اس راہ میں نہ تھکنے والا قدم رکھے گا اسی قدر عمدہ نتائج اور ثمرات ملیں گے۔ تمام مشکلات دُور ہو جائیں گی اور دعا کرنے والا تقویٰ کے اعلیٰ محل پر پہنچ جائے گا۔ یہ بالکل سچی بات ہے کہ جب تک خدا تعالےٰ کسی کو پاک نہ کرے کوئی پاک نہیں ہوسکتا نفسانی جذبات پر محض خدا تعالیٰ کے فضل اور جذبہ ہی سے موت آتی ہے اور یہ فضل اور جذبہ دعا ہی سے پیدا ہوتا ہے اور یہ طاقت صرف دعا ہی سے ملتی ہے۔

میں پھر کہتا ہوں کہ مسلمانوں اور خصوصاً ہماری جماعت کو ہرگز ہرگز دعا کی بے قدری نہیں کرنی چاہیئے کیونکہ یہی دعا تو ہے جس پر مسلمانوں کو ناز کرنا چاہیئے۔ اور دوسرے مذاہب کے آگے تو دعا کے لئے گندے پتھر پڑے ہوئے ہیں۔ اور وہ توجہ نہیں کر سکتے۔ میں نے ابھی بیان کیا ہے کہ ایک عیسائی جو خون مسیح پر ایمان لا کر سارے گناہوں کو معاف شدہ سمجھتا ہے۔ اسے کیا ضرورت پڑی ہے کہ وہ دعا کرتا رہے۔ اور ایک ہندو جو یقین کرتا ہے کہ توبہ قبول ہی نہیں ہوتی اور تناسخ کے چکر سے رہائی ہی نہیں ہے وہ کیوں دعا کے واسطے ٹکریں مارتا رہے گا وہ تو یقیناً سمجھتا ہے کہ کُتّے بلّے۔ بندر۔ سؤر بننے سے چارہ ہی نہیں ہے۔ اس لئے یاد رکھو کہ یہ اسلام کا فخر اور ناز ہے کہ اس میں دعا کی تعلیم ہے اس میں کبھی سُستی نہ کرو اور نہ اس سے تھکو۔

پھر دعا خدا تعالےٰ کی ہستی کا زبردست ثبوت ہے چنانچہ خدا تعالےٰ ایک جگہ فرماتا ہے۔ وَاِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیۡ عَنِّیۡ فَاِنِّیۡ قَرِیۡبٌ ؕ اُجِیۡبُ دَعۡوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ (البقرہ: 187) یعنی جب میرے بندے تجھ سے سوال کریں کہ خدا کہاں ہے اور اس کا کیا ثبوت ہے تو کہدو کہ وہ بہت ہی قریب ہے اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ جب کوئی دعا کرنے والا مجھے پکارتا ہے تو میں اسے جواب دیتا ہوں۔ یہ جواب کبھی رؤیا صالحہ کے ذریعہ ملتا ہے اور کبھی کشف اور الہام کے واسطے سے۔ اور علاوہ بریں دعاؤں کے ذریعہ خدا تعالےٰ کی قدرتوں اور طاقتوں کا اظہار ہوتا ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایسا قادر ہے کہ مشکلات کو حل کر دیتا ہے۔

غرض دعا بڑی دولت اور طاقت ہے اور قرآن شریف میں جا بجا اس کی ترغیب دی ہے اور ایسے لوگوں کے حالات بھی بتائے ہیں جنہوں نے دُعا کے ذریعہ اپنی مشکلات سے نجات پائی۔ انبیاء علیہم السّلام کی زندگی کی جڑ اور ان کی کامیابیوں کا اصل اور سچا ذریعہ یہی دعا ہے۔ پس میں نصیحت کرتا ہوں کہ اپنی ایمانی اور عملی طاقت کو بڑھانے کے واسطے دعاؤں میں لگے رہو۔ دعاؤں کے ذریعہ سے ایسی تبدیلی ہوگی جو خداتعالیٰ کے فضل سے خاتمہ بالخیر ہو جاوے گا۔

(ملفوظات جلد7 صفحہ266-269 ایڈیشن 1984ء)

خدا تعالیٰ کی توفیق اور اس کا فضل دعا سے مانگو

پس تمہیں چاہیئے کہ تم ایک ہی بات اپنے لئے کافی نہ سمجھ لو۔ ہاں اوّل بدیوں سے پرہیز کرو۔ اور پھر ان کی بجائے نیکیوں کے حاصل کرنے کے واسطے سعی اور مجاہدہ سے کام لو اور پھر خدا تعالےٰ کی توفیق اور اس کا فضل دعا سے مانگو۔ جب تک انسان ان دونو صفات سے متصف نہیں ہوتا یعنی بدیاں چھوڑ کر نیکیاں حاصل نہیں کرتا وہ اس وقت تک مومن نہیں کہلا سکتا۔ مومن کامِل ہی کی تعریف میں تو اَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ فرمایا گیا ہے اب غور کرو کہ کیا اتنا ہی انعام تھا کہ وہ چوری چکاری رہزنی نہیں کرتے تھے یا اس سےکچھ بڑھ کر مراد ہے؟ نہیں۔ اَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ میں تو وہ اعلیٰ درجہ کے انعامات رکھے گئے ہیں جو مخاطبہ اور مکالمہ الٰہیہ کہلاتے ہیں۔

اگر اسی قدر مقصود ہوتا جو بعض لوگ سمجھ لیتے ہیں کہ موٹی موٹی بدیوں سے پرہیز کرنا ہی کمال ہے تو اَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ کی دعا تعلیم نہ ہوتی جس کا انتہائی اور آخری مرتبہ اور مقام خدا تعالیٰ کے ساتھ مکالمہ اور مخاطبہ ہے۔ انبیاء علیہم السلام کا اتنا ہی تو کمال نہ تھا۔ کہ وہ چوری چکاری نہ کیا کرتے تھے بلکہ وہ خدا تعالےٰ کی محبت، صدق، وفا میں اپنا نظیر نہ رکھتے تھے۔ پس اس دعا کی تعلیم سے یہ سکھایا کہ نیکی اور انعام ایک الگ شئي ہے۔ جب تک انسان اُسے حاصل نہیں کرتا۔ اس وقت تک وہ نیک اور صالح نہیں کہلا سکتا اور مُنْعَمْ عَلَیْہ کے زمرہ میں نہیں آتا۔ اس سے آگے فرمایا غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَلَا الضَّآلِّیۡنَ۔ اس مطلب کو قرآن شریف نے دوسرے مقام پر یوں فرمایا ہے کہ مومن کے نفس کی تکمیل دوشربتوں کے پینے سے ہوتی ہے ایک شربت کا نام کافوری ہے اور دوسرے کا نام زنجبیلی ہے کافوری شربت تو یہ ہے کہ اس کے پینے سے نفس بالکل ٹھنڈا ہو جاوے اور بدیوں کے لئے کسی قسم کی حرارت اس میں محسوس نہ ہو۔ جس طرح پر کافور میں یہ خاصہ ہوتا ہے کہ وہ زہریلے مواد کو دبا دیتا ہے۔ اسی لئے اُسے کافور کہتے ہیں۔ اسی طرح پر یہ کافوری شربت گناہ اور بدی کی زہر کو دبا دیتا ہے اور وہ موادِ ردّیہ جو اُٹھ کر انسان کی روح کو ہلاک کرتے ہیں اُن کو اُٹھنے نہیں دیتا بلکہ بے اثر کر دیتا ہے۔ دوسرا شربت شربت زنجبیلی ہے جس کے ذریعہ سے انسان میں نیکیوں کے لئے ایک قوت اور طاقت آتی ہے اور پھر حرارت پیدا ہوتی ہے۔ پس اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ اَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ تو اصل مقصد اور غرض ہے یہ گویا زنجبیلی شربت ہے۔ اور غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَلَا الضَّآلِّیۡنَ کافوری شربت ہے۔

(ملفوظات جلد7 صفحہ271-272 ایڈیشن 1984ء)

(حسنیٰ مقبول احمد۔ امریکہ)

پچھلا پڑھیں

This week with Huzur (20 مئی 2022ء)

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 29 جون 2022