• 20 اپریل, 2024

حضرت مغلانی نور جان بیگم

حضرت مغلانی نور جان بیگم
حضرت اقدس مسیح موعودؑ (پیدائش: تخمیناً 1813ء۔ بیعت: ابتدائی زمانہ۔ وفات:4؍ جون 1938ء)

حضرت مغلانی نور جان بیگم صاحبہ اہلیہ مرزا محمد بیگ صاحب رضی اللہ عنہا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی ایک ایسی صحابیہ تھیں جن کا تعلّق حضورؑ کے جدّی خاندان سے تھا اور جنہوں نے حضور علیہ السلام کے بچپن کا زمانہ بھی دیکھا تھا اور پھر بعد میں آپ پر ایمان لانے کی سعادت نصیب ہوئی۔

مختصر تعارف

حضرت مغلانی نور جان صاحبہ رضی اللہ عنہا کی پیدائش تخمیناً 1813ء میں ہوئی۔ آپ مغل برلاس تھیں۔ آپ کے نانا مرزا دسوندھا بیگ صاحب حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے جدِّ امجد مرزا ہادی بیگ کی نسل سے تھے۔ اس طرح ننہال کی طرف سے آپ کا سلسلۂ نسب آٹھویں پُشت پر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے عالی نسب سے جا ملتا ہے۔ یعنی مرزا دلاور بیگ پر دونوں انساب اکٹھے ہو جاتے ہیں۔
آپ کی شادی آپ کے حقیقی ماموں مرزا گاماں بیگ صاحب کے بڑے بیٹے مرزا محمد بیگ صاحب آف قادیان سے ہوئی جو آپ سے عمر میں بہت چھوٹے تھے۔ چونکہ اس زمانہ میں خاندان میں ہی رشتے ہوا کرتے تھے لہٰذا ان دونوں کی عمروں کے تفاوت کے باوجود یہ رشتہ طے ہوا۔ لیکن ان کی کوئی اولاد نہ ہوئی۔ آپ کے شوہر مرزا محمد بیگ صاحب حضرت مرزا غلام اللہ صاحب رضی اللہ عنہ کے بڑے بھائی تھے۔ چنانچہ اسی وجہ سے سلسلہ کی تاریخ میں آپ کا ذکر ’’بھاوجہ مرزا غلام اللہ صاحب‘‘ کے طور پر آیا ہے۔ یا حضرت مرزا غلام اللہ صاحب کے بیٹے حضرت مرزا سلام اللہ بیگ صاحب کی تائی کے حوالہ سے ذکر ملتا ہے۔ یہاں یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ حضرت مغلانی نور جان صاحبہؓ خاکسار راقم الحروف کی پڑدادی محترمہ رشیدہ بیگم صاحبہ اہلیہ محترم قریشی عبد اللطیف صاحب کی تائی تھیں۔

جہاں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے جدّی خاندان میں سے کئی بدقسمت احباب نے آپ کو قبول نہ کیا اور قہرِ الٰہی کے مورد بنے وہاں بعض ایسے خوش نصیب بھی تھے جنہوں نے بدل و جان آپ کو قبول کیا اور اپنا سب کچھ اسلام اور احمدیت کی خاطر قربان کر دیا۔ حضرت مغلانی نور جان صاحبہ بھی اُن خوش نصیبوں میں سے تھیں جنہوں نے آپؑ کی بیعت کی سعادت پائی۔ معیّن تاریخِ بیعت معلوم نہیں تاہم آپ کا شمار ابتدائی صحابیات میں ہوتا ہے۔

’’سیرت المہدی‘‘ میں آپؓ کی روایات

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کے متعلق حضرت مغلانی نور جان صاحبہؓ کی کُل پانچ (5) روایات ’’سیرت المہدی‘‘ مؤلّفہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ میں محفوظ ہیں۔ جو قارئین کے افادہ کے لئے درج ذیل ہیں۔

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی بہن

آپ کی خوش نصیبی تھی کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام آپ کو اپنی بہن کہتے تھے۔ مندرجہ ذیل روایت میں اس بات کا ذکر ملتا ہے۔ چنانچہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ تحریر فرماتے ہیں:
’’مغلانی نور جان صاحبہ بھاوجہ مرزا غلام اللہ صاحب نے بواسطہ لجنہ اماء اللہ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ڈاکٹر نور محمد صاحب کی بیوی نے حضرت اُم المومنین صاحبہ سے پوچھا کہ نورجان نے ایسا ارائیوں والا لباس پہناہوا ہے۔ آپ اس کو اپنی نند کیوں کہتی ہیں۔ آپ نے کہا کہ اس کے بھائی سے پوچھو۔ پھر آپؑ سے پوچھا۔ آپؑ نے فرمایا۔ کہ ’’صرف لباس کی وجہ سے ہم بہن کو چھوڑ دیں؟ یہ خود سادگی پسند کرتی ہیں۔ پہلے ایسا ہی لباس ہوتا تھا‘‘۔

(سیرت المہدی، روایت 1354)

مرزا غلام قادر صاحب کی وفات

چونکہ آپؓ کا تعلّق حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے خاندن سے تھا اور آپ نے خاندان کے ابتدائی حالات اور قادیان کے مختلف ادوار دیکھے تھے، اس لئے آپ کی بعض روایات حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت اور جماعت احمدیہ کے قیام سے پہلے زمانہ کے متعلق ہیں۔ چنانچہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے بڑے بھائی جناب مرزا غلام قادر صاحب کی وفات کے وقت کا ایک واقعہ آپ بیان کرتی ہیں۔ یہ اوائل جولائی 1883ء کی بات ہے

(دیکھئے تاریخِ احمدیت، جلد اوّل، صفحہ 223)

’’مرزا غلام قادر صاحب کی وفات پر لوگوں نے ماتم کرنا شروع کیا۔ حضورؑ نے کہلا بھیجا ’’ان کو کہو کہ پیٹنا بند کرو۔‘‘ مگر کسی نے نہ سنا۔ پھر حضورؑ خود تشریف لے آئے اور سب کو خود منع فرمایا اس پر بھی وہ نہ مانیں۔ پھر آپ نے فرمایا۔ ’’اچھا جاؤ قیامت کے دن اس وقت کو یاد کروگی‘‘ یہ بھی فرمایا کہ ’’جاؤ پیٹو سکھنیو۔‘‘

(سیرت المہدی، روایت 1372)

حضرت صاحبزادی عصمت بی بی
کا ناک چھدوایا جانا

حضرت صاحبزادی عصمت بی بی رضی اللہ عنہا جو کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بڑی بیٹی تھیں اور حضرت امّاں جان کے بطن سے 15؍اپریل 1886ء کو پیدا ہوئیں اور جولائی 1891ء میں بعمر 5 سال وفات پائی، اُن کے بچپن کے زمانہ کا واقعہ حضرت مغلانی نور جان ؓ یوں بیان کرتی ہیں:
’’حضرت ام المومنین کی پہلی صاحبزادی عصمت بیگم کا ناک چھدوایا تو حضورؑ کی پہلی بیوی نے بھی خوشی کی۔‘‘

(سیرت المہدی، روایت 1375)

مخالف کے منہ سے سچائی کا اظہار

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے چچازاد مرزا نظام الدین صاحب ساری عمر حضور کے مخالف رہے اور تکلیف کا باعث بنے رہے۔ لیکن حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام ہمیشہ ان سے رحم اور مہربانی سے پیش آتے تھے اور کبھی بھی حضور نے انہیں کسی قسم کی تکلیف نہ پہنچائی اور نہ کبھی بدلہ لیا۔ اس بات کا انہیں آخری عمر میں بہت احساس ہو گیا اور عملاً اپنے بھائی مرزا امام الدین کی موت کے بعد انہوں نے مخالفت ترک کر دی تھی۔ بہرحال ایک دفعہ حضرت مغلانی نور جان صاحبہ اُن کے گھر گئیں۔ یہ اُسی زمانہ کی بات ہے جبکہ حضرت صاحبزادی عصمت بی بی کا ناک چھدوایا گیا اور اُس وقت مرزا نظام الدین سخت مخالفت کیا کرتے تھے۔ چنانچہ وہ خود بیان کرتی ہیں کہ جب میں اتفاق سے مرزا نظام الدین کے گھر گئی تو ’’مرز انظام الدین نے کہا کہ حضرت صاحب کی وجہ سے ہم پر بڑا فضل ہوا ہے۔ آبادی ہوگئی ہے۔ ہم امیر بن گئے ہیں۔ تو میں نے کہا کہ ’’اب امیر ہو کر ان پر آوازیں کستے ہو‘‘۔

(سیرت المہدی، روایت 1375)

بیواؤں کے نکاحِ ثانی کے متعلق
حضور علیہ السلام کا ارشاد

آپؓ بیان کرتی ہیں کہ ایک دفعہ ’’پشاور سے چار عورتیں آئی تھیں دو ان میں سے بیوہ، جوان اور مال دار تھیں۔ مَیں ان کو حضرت ؑ کے پاس لے گئی۔ حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ ’’جوان عورتوں کو نکاح کر لینا چاہئے‘‘۔ میں نے کہا جن کا دل نہ چاہے وہ کیا کریں؟ یا بچوں والی ہوں ان کی پرورش کا کون ذمہ دار ہو؟ آپ نے فرمایا ’’اگر عورت کو یقین ہو کہ وہ ایمانداری اور تقویٰ سے گذار سکتی ہے اس کو اجازت ہے کہ وہ نکاح نہ کرے مگر بہتر یہی ہے کہ وہ نکاح کر لے۔‘‘

(سیرت المہدی، روایت 1392)

’’محتاجوں کو روٹی دو‘‘

ایک اَور روایت میں آپ بیان کرتی ہیں کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا :
’’مُردوں کے نام پر محتاجوں کو روٹی دو۔ مُلانوں کو نہ دو ملاں جب کوٹھوں پر روٹیاں سکھانے کو ڈالتے ہیں کتے اور کوّے کھاتے ہیں اور وہ چوڑھوں کو روٹی دیتے ہیں۔‘‘

(سیرت المہدی، روایت 1385)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا بچپن

’’سیرت المہدی‘‘ کی مندرجہ بالا روایات کے علاوہ خاکسار سے مکرم مرزا مسعود احمد صاحب آف کینیڈا (ابن حضرت مرزا منظور احمد صاحب) جو حضرت مرزا غلام اللہ صاحب کے پوتے ہیں اور جنہوں نے حضرت مغلانی نور جان صاحبہؓ کو اپنی ہوش کی عمر میں دیکھا ہے بیان کیا:
’’آپؓ نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے بچپن کا زمانہ دیکھا تھا۔ چنانچہ وہ کہا کرتی تھیں کہ حضور علیہ السلام کو بچپن میں لوگ ’’سائیں بابا‘‘ کے نام سے یاد کرتے تھے۔ اور جب بھی کسی کو کوئی تکلیف ہوتی تو لوگ کہتے کہ ’’سائیں بابا‘‘ سے دم کروا آؤ۔‘‘

(از انٹرویو مؤرخہ 9؍ جنوری 2016ء)

حضرت امّاں جان رضی اللہ عنہا سے تعلقِ محبت

پھر حضرت امّاں جان رضی اللہ عنہا سے آپؓ کے تعلّق کے بارے میں مکرم مرزا مسعود احمد صاحب بیان کرتے ہیں:
’’حضرت امّاں جان رضی اللہ عنہا سے اُن کا خاص تعلّق تھا۔ حضرت امّاں جان ؓ انہیں اپنے پاس بلا لیا کرتی تھیں۔ آپ خاندان کی پرانی باتیں حضرت امّاں جان ؓ سے بیان کرتیں۔ اور حضرت امّاں جانؓ نہایت محبت اور مہربانی سے پیش آتیں۔ اور اُن کو پان بھی بنا کر دیتی تھیں۔ مگر پیرانہ سالی کی وجہ سے اُن کے دانت کمزور ہو چکے تھے۔ لہٰذا حضرت اماں جان رضی اللہ عنہا اُن کے لئے چھالیا باریک کر کے دیا کرتی تھیں۔ چنانچہ حضرت مغلانی نور جانؓ کو بھی پان کی عادت پڑ گئی۔ حضرت امّاں جان نے پھر میری والدہ کو یہ پیغام بھیجا کہ امۃ الحی کو کہو کہ لکڑی کے آون دستہ میں چھالیا کوٹ کر اُنہیں دیا کرو۔‘‘

(از انٹرویو مؤرخہ 9؍ جنوری 2016ء)

اپنی آخری عمر میں آپؓ اپنے خاوند کے بھتیجے حضرت مرزا منظور احمد صاحب کے گھر میں ہی رہائش پذیر تھیں۔ اور مکرم مرزا مسعود احمد صاحب بیان کرتے ہیں کہ چونکہ وہ ہمارے ابا جان کی تائی تھیں اس لئے ہم بھی اُنہیں ’’تائی‘‘ کہہ دیا کرتے تھے۔ لیکن وہ کہتیں کہ مَیں تمہاری تائی تو نہیں۔ مَیں تو تمہاری دادی ہوں۔

وفات

آپ کی وفات مؤرخہ 4؍ جون 1938ء کو بعمر 125 سال قادیان میں ہوئی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ۔ مکرم مرزا مسعود احمد صاحب بیان کرتے ہیں:
’’وفات کے وقت آپ کی عمر 125 سال تھی۔ آخری عمر تک ان کا حافظہ بہت اچھا تھا۔ ان کی eyesight بالکل ٹھیک تھی اور سر کے بال بھی سیاہ تھے۔ جب اُن کی وفات ہوئی تو میری والدہ امۃ الحی صاحبہ (اہلیہ حضرت مرزا منظور احمدؓ) اور میری تائی (اہلیہ حضرت مرزا سلام اللہ بیگؓ) نے اُن کو غسل دیا اور اُن کا جنازہ ہمارے گھر سے ہی اُٹھا تھا۔‘‘

(از انٹرویو مؤرخہ 9؍ جنوری 2016ء)

اخبار الفضل میں آپؓ کی وفات کی اطلاع ’’مدینۃ المسیح‘‘ کے عنوان کے تحت ان الفاظ میں دی گئی:
’’4؍ جون۔ مرزا سلام اللہ بیگ صاحب کی تائی نور جان صاحبہ بعمر تقریباً 125سال وفات پا گئیں۔ حضرت مولوی سیّد سرور شاہ صاحب نے نماز جنازہ پڑھائی۔ اور مرحومہ مقبرہ بہشتی میں دفن کی گئیں۔ مرحومہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صحابیہ تھیں۔‘‘

(الفضل قادیان، 7؍ جون 1938ء، صفحہ2)

اسی طرح ’’تاریخِ احمدیت‘‘ جلد7 میں مؤرخ احمدیت مولانا دوست محمد صاحب شاہدؔ نے 1938ء کے سال میں ’’جلیل القدر صحابہ کا انتقال‘‘ کے عنوان کے تحت حضرت مغلانی نور جان صاحبہ کی وفات کا ذکر نمبر 7 پر کیا ہے۔

(تاریخِ احمدیت، جلد7، صفحہ534، مطبوعہ قادیان 2007ء)

اللہ تعالیٰ اس مخلص صحابیہ کے درجات بلند سے بلند تر فرماتا چلا جائے۔ آمین۔

(فرحان احمد حمزہ قریشی ۔ استاد جامعہ احمدیہ کینیڈا)

پچھلا پڑھیں

پروگرام جلسہ سالانہ یو کے 2021ء

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 29 جولائی 2021