• 25 اپریل, 2024

مجاہد احمدیت محمد شریف کھوکھر (مرحوم)

محمد شریف کھوکھر مرحوم معلم وقفِ جدید فی الواقع جماعت مسلمہ احمدیہ کے ایک مجاھد تھے۔ آ پ کے حالات ِ زندگی کسی جماعتی اخبار یا رسالہ میں شائع نہیں ہوئے۔ چنانچہ خاکسار نے اپنی ذاتی یاد داشت سے جہاں تک مجھ سے ہو سکا مرحوم کے کچھ حالات جمع کئے ہیں جو افادۂ عام کے لئے درج ذیل ہیں۔

مکرم محمد شریف کھوکھر صاحب مرحوم موضع ’’عیسٰی پور‘‘ ضلاع فیصل آباد (سابق لائلپور) کے رہنے ولاے تھے۔ آپ کی پیدائش وہیں پر ہوئی۔ بعد ازیں تمام بہن بھائیوں کے ساتھ سندھ میں آباد ہو گئے۔

مرحوم کی پہلی شادی جس خاتون سے ہوئی اس میں سے دو لڑکے پیدا ہوئے مگر صغر سنی میں ہی وفات پا گئے۔ کچھ عرصہ بعد آپ کی اہلیہ بھی راھئی ملک اجل ہوئیں۔

آپ کی دوسری شادی جس خاتون سے ہوئی اُس میں سے ایک بیٹی پیدا ہوئی جو فیصل آباد (سابق لائلپور) میں رہائش پزیر ہیں اور صاحب اولاد ہیں۔ کھوکھر صاحب مرحوم کے قبول احمدیت سے کچھ عرصہ پہلے آپ کی اہلیہ نے آپ سے علیحدگی اختیار کر لی جس کی تفصیلی وجوھات اور اُس وقت کے حالات کا مجھے علم نہیں نیز آپ نے کس طرح احمدیت قبول کی اُس کا بھی مجھے علم نہیں۔ میں نے پہلی بار آپ کو سندھ میں دیکھا۔ آپ کی رہائش ناصرہ آباد سٹیٹ سندھ میں تھی۔ اور آپ احمدیت قبول کر چکے تھے اور آپ کی شادی میری پھوپھو جان محترمہ امتہ النصیر صاحبہ کے ساتھ ہو چکی تھی۔ اُس وقت آپ کے دو چھوٹے بھائی آپ کے گھر میں ہی رہائش پذیر تھے۔ لیکن وہ دونوں احمدی نہیں تھے۔ کھوکھر صاحب مرحوم کی تین بہنیں اور بہنوئی ناصر آباد کے قریب ہی، لیکن ناصرہ آباد اسٹیٹ سے باہر ایک جگہ آ باد تھے اور اپنے کاروبار میں مصروف تھے۔ ایک چھوٹا بھائی اپنی والدہ محترمہ کے ساتھ ’’عیسیٰ پور‘‘ میں رہائش پذیر تھا۔ بعد ازیں دونوں نے ’’عیسیٰ پور‘‘ کو ہمیشہ کے لیئے خیر باد کہا اور اپنے عزیزوں کے پاس سندھ چلے گئے۔

کھوکھر صاحب مر حوم اور اُن کے بھائیوں نے علیحدہ علیحدہ زندگی گزارنے کا فیصلہ کر لیا تو کھوکھر صاحب مرحوم ناصرہ آباد اسٹیٹ سندھ سے محمد آباد اسٹیٹ سندھ منتقل ہو گئے۔ کھوکھر صاحب اپنے خاندان میں اکیلے احمدی تھے۔ اُن کے غیر احمدی عزیز خاندان کا بڑا ہونے کی بنا ء پر کھوکھر صاحب مرحوم کا احترام کرتے تھے اور اُن کے سامنے منہ نہیں کھولتے تھے لیکن اُن میں سے کسی نے احمدیت قبول نہیں کی۔ غالباً یہ وجہ تھی کہ اُن کے خاندان کے پاس کافی زرعی زمین اور جائداد تھی۔ لیکن کھو کھر صاحب مرحوم قبول احمدیت کے بعد سب جائداد سے دست بردار ہو کر محمد آباد اسٹیٹ سندھ میں آباد ہو گئے۔ بایں ہمہ اپنے عزیزوں کے مقابل میں مالی لحاظ سے تنگ دست تھے۔ کھوکھر صاحب کا سب سے چھوٹا بھائی طالب علمی کے زمانہ میں ایک بار جلسہ سالانہ ربوہ میں بھی شامل ہوا۔ اُس وقت وہ کہا کرتا کہ جس طرف میرے بڑے بھائی ہیں میں بھی اُس طرف ہوں لیکن بالفعل اُس نے بیعت نہیں کی۔ غالباً اُس کی وجہ یہ تھی کہ وہ کالج کا سٹوڈنٹ تھا اور اُن کے تعلیمی اخراجات اس کے غیر از جماعت اور متمول بھائی ہی برداشت کرتے تھے۔ کھوکھر صاحب کے لئے اپنے بھائی کے اخراجات برداشت کرنا اُن کی استطاعت سے باہر تھا۔ کھوکھر صاحب کے بھائی نے ایم ایس کی تعلیم حاصل کی اور ملک سے باہر چلے گئے وہاں سے واپس آ کر کراچی میں رہائش پذیر ہو گئے اُ نہوں نے عملاً تو بیعت نہیں کی لیکن جماعت کے مخالف بھی نہیں تھے۔

یہی حال آپ کی والدہ محترمہ کا بھی تھا۔ وہ بے حد دین دار، نمازی تہجد گذار اور سادہ طبیعت کی مالک تھیں وہ کہا کرتی تھیں کہ جس طرف میرا محمد شریف ہے میں بھی اُسی طرف ہوں۔ اُن کو آپ سے بے حد محبت تھی۔ لیکن شائد اپنی سادگی کی وجہ سے اور کچھ اپنے غیر احمدی عزیزوں کے دباؤ میں آ کر وہ بھی با قاعدہ جماعت احمدیہ میں داخل نہ ہوئیں۔

جب حضرت مصلح موعودؓ نے 1957ء میں ’’وقفِ جدید‘‘ کا اعلان فر مایا تو مکرم محمد شریف صاحب کھوکھر مرحوم نے حضور اقدسؓ کی خدمت میں خط لکھ کر اپنی زندگی دین کے لئے وقف کر دی۔ آپ پہلے گروپ کے معلم وقفِ جدید تھے۔ آپ کی ڈیوٹی ’’تھر کے ریگستان میں لگائی گئی‘‘۔ آپ نے وہاں ہندوؤں میں تبلیغ کی اور کثیر تعداد میں ہندوؤں کو مسلمان بنایا اور متعدد جماعتیں قائم کیں۔ مجھے یاد ہے ہر سال اُ نہیں بیعتیں کرانے کا اوّل انعام وقفِ جدید کی طرف سے دیا جاتا تھا۔ میں اُن دنوں جامعہ احمدیہ کا طالب علم تھا۔ آپ کا ریفر شیر کورس ہوتا اور آپ ربوہ تشریف لاتے اور حضرت مرزا طاہر احمدصاحب ؒ ناظم ارشاد وقفِ جدید کی طرف سے آپ کو سب سے زیادہ بیعتیں کروانے پر اوّل انعام دیا جاتا۔ آپ نے جو جماعتیں قائم کیں اُن میں سے ایک کا نام ’’پھول پور‘‘ تھا۔ جو غالباً آپ کا سنٹر بھی تھا۔ آپ نے صرف بیعتیں کروانے پر اکتفا نہیں کیا بلکہ اُن کی تعلیم و تر بیت بھی کی۔ وہ دن بہت کٹھن تھے اور آج کل کے انتظامات وغیرہ موجود نہیں تھے۔ جماعت کا بھی کوئی سنٹر یا ہسپتال موجود نہیں تھا۔ آپ نے ان مشکل حالات میں بلا مبالغہ ہزاروں ہندوؤں یعنی بھیل اور کوہلی نسل کے لوگوں کو مشرف بہِ اسلام کیا۔ ہر سال کم از کم ساڑھے تین صد کے قریب لوگ بیعت کر کے مسلمان ہوتے اور جماعت اسلامیہ احمدیہ کا حصہ بنتے۔

آپ نے وقفِ جدید کے انتظام کے تحت حضرت مرزا طاہر احمد صاحب ناظم ارشاد وقفِ جدید (بعد ازیں حضرت خلیفتہ الرابعؒ) سے ہومیو پیتھی بھی سیکھی تھی۔ وقفِ جدید سے ریٹائر منٹ کے بعد آپ نے بدین کے علاقہ میں ہومیو پیتھی کی پریکٹس بھی کی۔ آپ ایک کامیاب ہومیو پیتھی ڈاکٹر تھے۔ متعدد مریضوں نے آپ کے ذریعہ شفا پائی۔

آپ کا غیر احمدی خاندان متمول تھا اور آپ کے سامنے ادب سے سر جھکا تا تھا لیکن آپ نے محض احمدیت کی اور خلافت دین کی خا طر تکلیف سے گزارہ کرنے کو تر جیح دی۔ آپ کی ان قر بانیوں کا ہی ثمرہ ہےکہ آج آپ کی اولاد جرمنی اور انگلستان میں خوشحالی کی زندگی بسر کر رہی ہے۔ آپ کا ایک پوتا حافظ قرآن ہے اور جامعہ احمدیہ ربوہ میں آخری کلاس کا طالب علم ہے۔

جوانی میں آپ کی صحت بہت عمدہ تھی اور آپ پورے علاقہ میں کلائی پکڑنے میں سب سے آگے تھے۔ آپ ایک غیرت مند انسان تھے اور کسی مخالف کی بد زبانی کو برداشت نہیں کرتے تھے۔ اس طرح کے متعدد واقعات عاجز کے علم میں بھی ہیں۔ بایں ہمہ آپ کی طبیعت میں عاجزی اور انکساری تھی اور آپ بلا وجہ کسی سے نہیں الجھتے تھے اور ایک عاجز انسان کی طرح زندگی بسر کرتے رہے۔

آپ نہات شیریں لسان تھے اور آپ کی باتوں میں مٹھاس تھی۔ آپ جس سے گفتگو کرتے اُس کے دل کو موہ لیتے اور وہ آپ کا گرویدہ ہو جاتا۔

خلافت احمدیہ اور خلیفئہ وقت کے ساتھ آپ کو بے انتہا ء محبت تھی۔ یہی محبت اور عشق آپ نے اپنی اولاد میں بھی پیدا کیا اور خُدا تعالیٰ کے فضل سے آپ کی ساری اولاد آپ کے رنگ میں رنگین ہے اور خلیفۂ وقت کے ساتھ بے حد پیار کرتی ہے۔ آپ کے ایک بیٹے عزیزم طاہر احمد محمود نے خلیفئہ وقت اور خلافت ِ احمدیہ کے عشق میں ایک بہت عمدہ نظم بھی کہی تھی۔ جو ایک جماعتی رسالہ میں شائع بھی ہوئی۔ آپ پنجوقتہ نمازوں کے پابند، تہجد گزار اور دعا گو بزرگ تھے۔ کبھی اگر کسی مجبوری کے تحت گھر میں نماز پڑھنی پڑ جاتی مثلاً آپ کسی سفر وغیرہ سے دیر سے گھر تشریف لاتے اور نماز کی ادائیگی کرنی ہوتی تو اپنے اہل خانہ کو جمع کر کے با جماعت نماز پڑھتے۔ آپ ’’اِیّا ک نعبد وَ اِ یاّ ک نستعین اِ ھد نا الصراط المستقیم‘‘ کی بہت تکرار کرتے اور آپ کی آنکھوں سے آنسو رواں ہوتے۔ آپ کی آواز سننے والوں کے دلوں پر بھی اثر کئے بغیر نہ رہتی۔

آپ قرآن کریم کی تلاوت بلند آواز سے کرتے۔ بالخصوص سورة یٰسین کی بہت کثرت کے ساتھ تلاوت کیا کرتے تھے۔ میں نے اِس سورة کا بہت سا حصہ بچپن میں آپ کی تلاوت سُن کر یاد کیا تھا۔ آپ کی اہلیہ، میری پھو پھو جان محترمہ امتہ النصیر صاحبہ، فی الواقع ایک واقفِ زندگی کی اہلیہ تھیں۔ اُ نہوں نے ہمیشہ صبر ورضا سے زندگی گزاری اور کبھی تنگدستی کا گلہ نہیں کیا۔ وہ ماشاء اللہ ربوہ میں رہائش پذیر ہیں اور عبادت الہٰی اور دعاؤں میں مصروف رہتی ہیں۔ اُ نہوں نے اپنے میاں کی وفات کے بعد کا عرصہ نہایت صبر و رضاسے گزارا۔

ایک احمدی دوست کی اہلیہ کی وفات کے بعد اُس کے بچوں کی دیکھ بھال کرنے والا کوئی نہ تھا۔ مکرم کھوکھر صاحب تنگدستی کے باوجود اُس کے بچوں کو گھر لے آئے اور آپ کی اہلیہ نے کئی ماہ اُن کی پرورش کی اور کبھی بھی شکوہ زبان پر نہ لائیں۔ یہ ان دونوں بزرگوں کی دینداری او ر تعلق باللہ کا زندہ ثبوت ہے۔

آپ فضول خرچی سے بچتے۔ بایں ہمہ اپنے بچوں کو کسی چیز کی کمی کا احساس نہ ہونے دیتے۔ موسم کا پھل مثلاً آم کثرت سے گھر لے کر آتے اور بچوں کو کھلاتے اور ہر طرح سے اُن کی نگہداشت کرتے اور اُن کو خوش رکھتے۔ عاجز کو کھوکھر صاحب کا داماد ہونے کا شرف حاصل ہے۔ میری اہلیہ اپنے والدین کی پروردہ ہونے کی بناء پر نہائت ہی صبر اور شکر سے زندگی گذارنے والی ہیں اور اپنے واقفِ زندگی خاوند کا ہر قربانی میں اور ہر قدم پر ساتھ دیتی ہیں۔ فجزا ھا اللّٰہ خیراً۔

آپ ایک کامیاب معلم وقفِ جدید تھے۔ حضرت مرزا طاہر احمد صاحب ناظم ارشاد وقف جدید آپ کے بچوں سے بے حد پیار کرتے تھے۔ آپ کے خلیفۃ المسیح بننے پر بھی یہ سلسلہ جاری رہا۔ میری بیٹی عزیزہ عطیہ الحیی بچپن میں اپنی والدہ، خالہ یا نانی جان کے ساتھ حضورؒ کے گھر چلی جاتی تھی تو حضورؒ اُس کے ساتھ غیر معمولی شفقت اور محبت کا سلوک فر ماتے۔ حضور کی ذرہ نوازی کا یہ سلسلہ حضورؒ کی وفات تک جاری رہا۔ اسلام آباد ٹلفورڈ میں حضورؒ جب بھی تشریف لاتے تو بالعموم اپنی بیٹی عزیزہ طوبیٰ کو ہمارے گھر بھجوا دیتے۔ یا میری بیٹی کو اپنے گھر طلب فر ماتے تا کہ دونوں بچیاں مل جل کر وقت گذار سکیں۔ حضورؒ ہمبرگ جرمنی تشریف لائے تو میری بیٹی عزیزہ عطیہ الحیی کو خدمت کا موقع میسر آیا۔ فالحمد للہ علیٰ ذالک

میری اہلیہ کی چھوٹی بہن عزیزہ شاہدہ یاسمین صاحبہ نے حضرت خلیفتہ الرابعؒ کی بیٹیوں کو بچپن میں قرآن کریم پڑھایا۔ حضورؒ اِسی وجہ سے عزیزہ شاہدہ سے بےحد حسنِ سلوک فر ماتے تھے۔

آ خر میں میری دعا ہے مولا کریم مکرم محمد شریف صاحب کھوکھر مرحوم کے در جات بلند فر مائے اور اُن کی نسلوں کو بھی اُن کے رنگ میں رنگین ہونے اور ان نیکیوں کو قائم رکھنے کی توفیق دے۔ نیز اُنہی کی طرز پر ہمیشہ ہی خلافتِ احمدیہ سے وابستہ رکھے۔ الھم آمین

(مرسلہ: ڈاکٹر محمد جلال شمسؔ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 28 ستمبر 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 29 ستمبر 2020