• 19 اپریل, 2024

اس کی طرف توبہ کرتے ہوئے جھکو

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:۔

یہ آیت جو مَیں نے تلاوت کی ہے اس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ:
اور یہ کہ تم اپنے رب سے استغفار کرو، پھر اس کی طرف توبہ کرتے ہوئے جھکو تو وہ تمہیں ایک مقررہ مدت تک بہترین معیشت عطا کرے گا۔ اور وہ ہر صاحبِ فضیلت کو اس کے شایان شان فضل عطا کرے گا۔ اور اگر تم پھر جاؤ تو یقینا مَیں تمہارے بارے میں ایک بہت بڑے دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں۔ تو دیکھیں فرمایا کہ استغفار کرو اور جو استغفار نیک نیتی سے کی جائے، جو توبہ اس کے حضور جھکتے ہوئے کی جائے کہ اے اللہ! یہ دنیاوی گند، یہ معاشرے کے گند، ہر کونے پر پڑے ہیں۔ اگر تیرا فضل نہ ہو، اگر تو نے مجھے مغفرت کی چادر میں نہ ڈھانپا تو مَیں بھی اِن میں گر جاؤں گا۔ مَیں اس گند میں گرنا نہیں چاہتا۔ میری پچھلی غلطیاں، کوتاہیاں معاف فرما، آئندہ کے لئے میری توبہ قبول فرما۔ تو جب اس طرح استغفار کریں گے تو اللہ تعالیٰ پچھلے گناہوں کو معاف کرتے ہوئے، توبہ قبول کرتے ہوئے، اپنی چادر میں ڈھانپ لے گا۔ اور پھر اپنی جناب سے اپنی نعمتوں سے حصہ بھی دے گا۔ دنیا سمجھتی ہے کہ دنیا کے گند میں ہی پڑ کر یہ دنیاوی چیزیں ملتی ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو توبہ کرنے والے ہیں، جو استغفار کرنے والے ہیں، ان کومَیں ہمیشہ کے لئے دین و دنیا کی نعمتوں سے نوازتا رہوں گا۔ اُن کی زندگی میں بھی ان کے لئے اس دنیا کے دنیاوی سامان ہوں گے اور ان پر فضلوں کی بارش ہو گی۔ اور اُن کے یہ استغفار اور اُن کے نیک عمل آئندہ زندگی میں بھی اُن کے کام آئیں گے۔ اور یہی استغفار ہے جس سے شیطان کے تمام حربے فنا ہو جائیں گے۔

استغفار کا مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ سے اس کے فضل اور قُرب کی چادر میں لپٹنے کی دُعا مانگی جائے۔ جب انسان اس طرح دعا مانگ رہا ہو تو کس طرح ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ یہ دُعا نہ سنے اور انسان کی دنیا و آخرت نہ سنورے۔ اللہ تعالیٰ نے تو خود فرمایا ہے کہ اُدْعُوْ نِیٓ اَسْتَجِبْ لَکُمْ (المُؤْمن :61) کہ اللہ تعالیٰ سچے وعدوں والا ہے، وہ تو اس انتظار میں ہوتا ہے کہ کب میرا بندہ مجھ سے دعا مانگے۔ خود فرماتا ہے کہ تم مجھ سے مانگو مَیں دعا قبول کروں گا۔ اللہ تعالیٰ تو یہ کہتا ہے کہ کب میرا بندہ مجھ سے استغفار کرے، کب وہ سچے طور پر توبہ کرتے ہوئے میری طرف رجوع کرے اور مَیں اس کی دُعا سنوں۔ حدیث میں آتا ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’اپنے بندے کی توبہ پر اللہ تعالیٰ اتنا خوش ہوتا ہے کہ اتنی خوشی اس آدمی کو بھی نہیں ہوتی جسے جنگل بیابان میں کھانے پینے کی چیزوں سے لدا ہوا اس کا گم ہونے والا اونٹ اچانک مل جائے۔‘‘

(صحیح بخاری – کتاب الدعوات – باب التوبۃ)

تو دیکھیں اللہ تعالیٰ تو اس انتظار میں ہوتا ہے کہ کب میرا بندہ توبہ کرے، استغفار کرے اور مَیں اس کے گزشتہ گناہ بخشوں اور آئندہ سے اسے اپنی چادر میں ڈھانپ لوں تاکہ وہ شیطان کے حملوں سے محفوظ رہے۔ لیکن یاد رکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ مستقل مزاجی سے اس پر قائم رہو۔ ورنہ اگر ایک دفعہ استغفار کی، دوبارہ گند میں پڑ گئے اور موت اس صورت میں آئی کہ شیطان کے پنجے میں گرفتار ہو تو پھر اس دن سے بھی ڈرو جس میں گناہوں میں گرفتار لوگوں کے لئے عذاب بھی بہت بڑا ہو گا۔

پس ہر احمدی کو کوشش کرنی چاہئے کہ استغفار کرتے ہوئے اپنے گزشتہ گناہوں کی بخشش مانگتے ہوئے اور آئندہ کے لئے ان سے بچنے کا عہد کرتے ہوئے مستقل خدا کے سامنے جھکا رہے۔ اور جب اِس طرح عمل ہو رہے ہوں گے تو خداتعالیٰ اپنی پناہ میں لے لے گا۔ اور جو خداتعالیٰ کی پناہ میں آ جائے تو اسے جیسا کہ مَیں نے پہلے بتایا شیطان کبھی کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ کیونکہ اب اس سے وہی عمل سرزد ہو رہے ہوں گے جو خدا تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے والے عمل ہوں گے۔ وہ تمام برائیاں ختم ہو جائیں گی جو خداتعالیٰ کا قرب حاصل کرنے میں روک ہیں۔ پس ہر احمدی ہر وقت سچے دل سے استغفار کرتے ہوئے، توبہ کرتے ہوئے، خداتعالیٰ کے حضور جھکے تاکہ اس کا پیار حاصل ہو۔ اللہ تعالیٰ تو اپنے بندے کو اپنا پیار اور قرب دینے کے لئے ہر وقت تیار رہتا ہے بلکہ بے چین رہتا ہے۔ بلکہ بندے کی اس بارے میں ذرا سی کوشش کو بے حد نوازتا ہے۔

(خطبہ جمعہ 20؍ مئی 2005ء)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 28 ستمبر 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 29 ستمبر 2020