• 20 اپریل, 2024

حقیقی توبہ کی شرائط

توبہ کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں :۔
‘‘یہ بات بھی یاد رکھنی چاہئے کہ توبہ کے تین شرائط ہیں۔ بدوں اُن کی تکمیل کے سچی توبہ جسے توبۃ النّصوح کہتے ہیں، حاصل نہیں ہوتی۔ ان ہرسہ شرائط میں سے پہلی شرط جسے عربی زبان میں اِقْلَاع کہتے ہیں۔ یعنی ان خیالات فاسدہ کو دور کر دیا جاوے جو اِن خصائل ردیّہ کے محرک ہیں۔اصل بات یہ ہے کہ تصورات کا بڑا بھاری اثر پڑتا ہے۔ کیونکہ حیطۂ عمل میں آنے سے پیشتر ہر ایک فعل ایک تصوّری صورت رکھتا ہے۔ پس توبہ کے لئے پہلی شرط یہ ہے کہ اُن خیالات فاسدہ و تصوّرات بد کو چھوڑ دے۔ مثلاً اگر ایک شخص کسی عورت سے کوئی ناجائز تعلق رکھتا ہے تو اُسے توبہ کرنے کے لئے پہلے ضروری ہے کہ اس کی شکل کو بدصورت قرار دے۔ اور اس کی تمام خصائلِ رذیلہ کو اپنے دل میں مستحضر کرے (یعنی گھٹیا اور ذلیل باتوں کو ذہن میں لائے) کیونکہ جیسا مَیں نے ابھی کہا ہے تصوّرات کا اثر بہت زبردست اثر ہے۔ ……پس جو خیالات بدلذات کا موجب سمجھے جاتے تھے ان کا قلع قمع کرے۔ یہ پہلی شرط ہے۔

دوسری شرط نَدَم ہے۔ یعنی پشیمانی اور ندامت ظاہر کرنا۔ ہر ایک انسان کا کانشنس اپنے اندر یہ قوت رکھتا ہے کہ وہ اس کو ہر برائی پر متنبہ کرتاہے۔ مگر بدبخت انسان اس کو معطّل چھوڑ دیتا ہے۔ پس گناہ اور بدی کے ارتکاب پرپشیمانی ظاہر کرے اور یہ خیال کرے کہ یہ لذّات عارضی اور چند روزہ ہیں۔ اور پھر یہ بھی سوچے کہ ہر مرتبہ اس لذّت اور حظّ میں کمی ہوتی جاتی ہے۔ یہاں تک کہ بڑھاپے میں آکر جبکہ قویٰ بیکار اور کمزور ہو جائیں گے۔ آخر ان سب لذّاتِ دنیا کو چھوڑنا ہو گا۔ پس جبکہ خود زندگی ہی میں یہ سب لذّات چھوٹ جانے والی ہیں تو پھر ان کے ارتکاب سے کیا حاصل؟ بڑا ہی خوش قسمت ہے وہ انسان جو توبہ کی طرف رجوع کرے۔ اور جس میں اوّل اِقْلَاع کا خیا ل پیدا ہو یعنی خیالاتِ فاسدہ و تصورات بیہودہ کا قلع قمع کرے۔ جب یہ نجاست اور ناپاکی نکل جاوے تو پھر نادم ہو اور اپنے کئے پر پشیمان ہو۔

تیسری شرط عزم ہے۔ یعنی آئندہ کے لئے مصمّم ارادہ کر لے کہ پھر ان برائیوں کی طرف رجوع نہ کرے گا اور جب وہ مداومت کرے گا (باقاعدگی کرے گا) تو خداتعالیٰ اسے سچی توبہ کی توفیق عطا کرے گا۔ یہاں تک کہ وہ سیّئات اس سے قطعاً زائل ہو کر اخلاق حسنہ اور افعال حمیدہ اس کی جگہ لے لیں گے۔ اور یہ فتح ہے اخلاق پر۔ اس پر قوت اور طاقت بخشنا اللہ تعالیٰ کا کام ہے کیونکہ تمام طاقتوں اور قوتوں کا مالک وہی ہے جیسے فرمایا اَنَّ الْقُوَّۃَ لِلّٰہِ جَمِیْعًا (البقرۃ: 166)

(ملفوظات جلد 1صفحہ 88`87 جدید ایڈیشن- رپورٹ جلسہ سالانہ 1897ء صفحہ 158)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 28 ستمبر 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 29 ستمبر 2020