• 18 اپریل, 2024

سیّدنا حضرت امیر المؤمنین کا دورہ امریکہ 2022ء (قسط 19۔ حصہ اول)

سیّدنا امیر المؤمنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا دورہٴ امریکہ 2022ء
14؍اکتوبر 2022ء بروز جمعہ
قسط 19۔ حصہ اول

• حضور انور ایدہ اللہ تعالی نے صبح چھ بج کر پندرہ منٹ پر مسجد بیت الرحمٰن میں تشریف لاکر نماز فجر پڑھائی۔ نماز کی ادائیگی کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ اپنی رہائش گاہ پر تشریف لے گئے۔

صبح حضور انور ایدہ اللہ تعالی نے دفتری ڈاک ملاحظہ فرمائی اور مختلف دفتری امور کی انجام دہی میں مصروفیت رہی۔

• آج جمعۃ المبارک کا دن تھا۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی اقتداء میں نماز جمعہ کی ادائیگی کے لیے مقامی جماعت میری لینڈ (Mary Land) کے علاوہ امریکہ بھر کی جماعتوں سے احباب اور فیملیز بڑے لمبے اور طویل سفر طے کر کے پہنچے تھے۔

میامی (Miami) سے آنے والے احباب 1078میل، ٹلسا (Tulsa)سے آنے والے احباب 1220میل، ڈیلس (Dallas)سے آنے والے احباب 1342 میل جبکہ ہیوسٹن سے آنے والے 1422 میل کا سفر طے کر کے آئے تھے۔

جماعت Tuscanسے آنے والے احباب 2280میل اور Los Angeles سے آنے والے احباب اور فیملیز 2653میل، سیاٹل(Seattle) سے آنے والے 2731 میل جبکہ جماعت Sacramentoسے آنے والے 2751میل اور جماعت San Joseسے آنے والے 2843میل کے لمبے اور طویل سفر طے کر کے اپنے پیارے آقا کی اقتداءمیں نماز جمعہ کی ادائیگی کے لیے پہنچے تھے۔

علاوہ ازیں ہمسایہ ممالک میکسیکو اور پورٹو ریکو سے آنے والے احباب نے اپنے آقا کی اقتداء میں نماز جمعہ ادا کرنے کی سعادت پائی۔ کینیڈا سے بھی ایک بڑی تعداد نماز جمعہ کی ادائیگی کے لیے مسجد بیت الرحمٰن پہنچی تھی۔

خطبہ جمعہ

• پروگرام کے مطابق ایک بجے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مسجد بیت الرحمٰن میں تشریف لا کر خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا۔

تشہد، تعوذ، تسمیہ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
اللہ تعالیٰ کا آپ پر یہ بڑا احسان ہے، جماعتِ احمدیہ پر بڑا احسان ہے، یہاں اس ملک میں آنے والے لوگوں پر بڑا احسان ہے کہ اس نے آپ کو اس ترقی یافتہ ملک میں آنے کی توفیق عطا فرمائی اور خاص طور پر گزشتہ چند سالوں میں پاکستان سے بہت سے احمدی یہاں آئے ہیں اور اب بھی آ رہے ہیں۔ جو پاکستان سے اس لیے ہجرت کر کے آئے کہ وہاں احمدیوں کے حالات سخت سے سخت تر ہوتے چلے جا رہے ہیں اور اس وجہ سے وہاں رہنا مشکل ہو گیا تھا اور اس لحاظ سے احمدیوں کو ان حکومتوں کا شکر گزار ہونا چاہیے جنہوں نے بہت سے مظلوم احمدیوں کو یہاں رہنے کی جگہ دی لیکن سب سے بڑا احسان جو اللہ تعالیٰ نے ہم احمدیوں پر کیا ہے وہ یہ ہے کہ اس نے ہمیں زمانے کے امام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشقِ صادق کو ماننے کی توفیق عطا فرمائی ہے۔

پس اس کے لیے ہم خداتعالیٰ کا جتنا بھی شکر کریں وہ کم ہے اور اللہ تعالیٰ کی شکر گزاری یہ ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے حکموں پر چلیں۔ اللہ تعالیٰ کی عبادت کے بھی حق ادا کرنے والے بنیں اور اس کی مخلوق کے بھی حق ادا کرنے والے بنیں اور یہ تبھی ممکن ہے جب ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کا حق ادا کرنے والے بنیں گے کیونکہ اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہی وہ راہنما ہیں جنہوں نے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے مطابق اسلام کی حقیقی تعلیم پر ہمیں چلایاہے۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
پس اس بات کو ہر احمدی کو اپنے سامنے رکھنا چاہیے کہ اب حقیقی اسلام کی تعلیم ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کے ذریعہ ہی مل سکتی ہے

کیونکہ آپ علیہ السلام ہی وہ شخص ہیں جن کو اس زمانے میں اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کے علوم و معارف عطا فرمائے ہیں اور اسلام کا حقیقی علم عطا فرمایا ہے۔ آپ ہی وہ شخص ہیں جو حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حقیقی عاشق ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم اور سنت کے مطابق اپنی جماعت کی تربیت کرنا چاہتے ہیں۔ پس ہمیں حقیقی مسلمان بننے کے لیے اب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی طرف ہی دیکھنا ہو گا اور آپ علیہ السلام کے بتائے ہوئے طریق کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھالنا ہو گا۔ اپنے ایمان کو مضبوط کرنا ہو گا۔ آپ علیہ السلام کی بعثت پر ایمان و یقین کامل کرنا ہو گا۔ آپ کو حَکم و عدل ماننا ہو گا۔ اس یقین پر قائم ہونا ہو گا کہ اب آپؑ کے بتائے ہوئے طریق پر چل کر ہی انسان اسلام کی حقیقی تعلیم پر چل سکتا ہے۔

چنانچہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام اپنے پر کامل یقین اور ایمان پر قائم ہونے کی نصیحت کرتے ہوئے اپنی بیعت کرنے والوں کو فرماتے ہیں: ’’جو شخص ایمان لاتا ہے اسے اپنے ایمان سے یقین اور عرفان تک ترقی کرنی چاہئے۔‘‘ صرف ایمان نہیں لے آئے بلکہ اس پر یقین بھی پیدا ہونا چاہیے اور اس کا عرفان بھی حاصل ہونا چاہیے کہ کیوں ہم بیعت کر رہے ہیں۔ ’’نہ یہ کہ وہ پھر ظن میں گرفتار ہو۔‘‘ پھر یہ نہیں ہے کہ دل میں بدظنیاں پیدا ہو جائیں کہ یہ کیوں ہوا اور یہ کیوں ہوا۔ سوال نہ اٹھنے شروع ہو جائیں۔ فرمایا کہ ’’یاد رکھو۔ ظن مفید نہیں ہو سکتا۔ خدا تعالیٰ خود فرماتا ہے۔ اِنَّ الظَّنَّ لَا یُغۡنِیۡ مِنَ الۡحَقِّ شَیۡئًا (یونس: 37) یقیناًظن حق سے کچھ بھی بے نیاز نہیں کر سکتا۔

یقین ہی ایک ایسی چیز ہے جو انسان کو بامراد کر سکتی ہے۔ یقین کے بغیر کچھ نہیں ہوتا۔ اگر انسان ہر بات پر بدظنی کرنے لگے تو شاید ایک دم بھی دنیا میں نہ گزار سکے۔ فرمایا کہ وہ پانی نہ پی سکے کہ شاید اس میں زہر ملا دیا ہو۔ بازار کی چیزیں نہ کھا سکے کہ ان میں ہلاک کرنے والی کوئی شئے ہو۔ پھر کس طرح وہ رہ سکتا ہے۔ زندگی گزارنی مشکل ہو جائے گی۔ یہ ایک موٹی مثال ہے۔ اسی طرح پر انسان روحانی امور میں اس سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔فرمایا کہ اب تم خود سوچ لو اور اپنے دلوں میں فیصلہ کر لو کہ کیا تم نے میرے ہاتھ پر جو بیعت کی ہے اور مجھے مسیح موعود حَکم عدل مانا ہے تو اس ماننے کے بعد میرے کسی فیصلہ یا فعل پر اگر دل میں کوئی کدورت یا رنج آتا ہے تو اپنے ایمان کا فکر کرو۔

وہ ایمان جو خدشات اور توہمات سے بھرا ہوا ہے، کوئی نیک نتیجہ پیدا کرنے والا نہیں ہو گا۔ لیکن اگر تم نے سچے دل سے تسلیم کر لیا ہے کہ مسیح موعود واقعی حَکم ہے تو پھر اس کے حکم اور فعل کے سامنے اپنے ہتھیار ڈال دو اور اس کے فیصلوں کو عزت کی نگاہ سے دیکھو تا تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک باتوں کی عزت اور عظمت کرنے والے ٹھہرو۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شہادت کافی ہے وہ تسلی دیتے ہیں کہ وہ تمہارا امام ہوگا۔ یعنی آنے والا مسیح موعود تمہارے میں سے تمہارا امام ہو گا۔ وہ حَکم عدل ہو گا۔ اگر اس پر تسلی نہیں ہوئی تو پھر کب ہو گی۔ یہ طریق ہرگز اچھا اور مبارک نہیں ہو سکتا کہ ایمان بھی ہو اور دل کے بعض گوشوں میں بدظنیاں بھی ہوں۔ ظاہری طور پر یہ اظہار ہو کہ ہم ایمان بھی لے آئے لیکن پھر بعض معاملات میں بدظنیاں بھی پیدا ہو رہی ہوں۔ فرمایا جن لوگوں نے میرا انکار کیا ہے اور جو مجھ پر اعتراض کرتے ہیں انہوں نے مجھے شناخت نہیں کیا اور جس نے مجھے تسلیم کیا ہے اور پھر اعتراض رکھتا ہے وہ اَور بھی بدقسمت ہے کہ دیکھ کر اندھا ہوا۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
پس یہ ایمان کا معیار ہے جو ہم سب کا ہونا چاہیے۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہی اپنے بعد خلافت کے جاری رہنے کی اطلاع دی تھی اور صرف حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہی نہیں بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی مسیح و مہدی کے آنے کے ساتھ خلافت کے تا قیامت جاری رہنے کی خبر دی تھی اور خلافتِ احمدیہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے طریق کو ہی جاری رکھنے والا نظام ہے۔ اس حَکم اور عدل کے فیصلوں کو ہی جاری رکھنے والا نظام ہے۔ اپنے عہد میں ہر احمدی خلافت سے بھی وابستگی اور اطاعت کا عہد کرتا ہے۔ پس اس لحاظ سےخلافت کے ساتھ وابستگی اور اطاعت کے عہد کو نبھانا بھی ہر احمدی کا فرض ہےورنہ بیعت ادھوری ہے۔پس اس لحاظ سے بھی اپنے ایمان اور یقین کو بڑھانے کی ہر احمدی کو ہمیشہ کوشش کرتے رہنا چاہیے۔پھر جماعت کوقرآن کریم کو غور سے پڑھنے اور اسے سمجھنے کی طرف توجہ دلاتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:میں بار بار اس امر کی طرف ان لوگوں کو جو میرے ساتھ تعلق رکھتے ہیں نصیحت کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ نے اس سلسلہ کو کشفِ حقائق کے لئے قائم کیا ہے کیونکہ بدوں اس کے عملی زندگی میں کوئی روشنی اور نور پیدا نہیں ہو سکتا۔فرمایا اور میں چاہتا ہوں کہ عملی سچائی کے ذریعہ اسلام کی خوبی دنیا پر ظاہر ہو جیساکہ خدا نے مجھے اس کام کے لئے مامور کیا ہے۔ اس لیے قرآن شریف کو کثرت سے پڑھو مگر نرا قصہ سمجھ کر نہیں بلکہ ایک فلسفہ سمجھ کر پڑھو۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
پس ہر ایک کو اپنے جائزے لینے چاہئیں۔ اس دنیا کی مصروفیات میں ڈوب کر کہیں ہم اپنے بیعت کے مقصد کو بھول تو نہیں گئے۔حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام تو فرماتے ہیں کہ قرآنِ کریم کے علوم و معارف اور احکامات کو سمجھانے اور ان پر عمل کروانے کے لیے خدا تعالیٰ نے مجھے مامور کیا ہے اور جو میرے سلسلۂ بیعت میں داخل ہیں اس اہمیت کو سمجھیں اور قرآن کریم کے علوم و معارف پر غور کریں۔ اس کے معانی اور تفسیر کو سمجھنے کی کوشش کریں اور یہ اس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے روحانی خزانے کو بھی ہم سمجھنے اور پڑھنے کی کوشش نہیں کریں گے۔ آپؑ کے دیےہوئے لٹریچر کو بھی ہم سمجھنے اور پڑھنے کی کوشش نہیں کریں گے۔ آپؑ نے فرمایا کہ قرآن کریم کوئی قصہ کہانیاں نہیں ہیں بلکہ ضابطۂ حیات ہے۔ ایک لائحہ عمل ہے جس پر عمل کرنا ہر احمدی مسلمان کا فرض ہے۔اگر ہم یہاں آ کر، ان ملکوں میں آ کر اپنے اس مقصد کو بھول گئے اور دنیا کی مصروفیات میں ہی غرق ہو گئے، اپنے گھروں کے ماحول کو قرآنِ کریم کی تعلیم کے مطابق ڈھالنے کی کوشش نہ کی تو ہماری اولادیں اور نسلیں دین سے دُور ہوتی جائیں گی اور یہ شکرگزاری کے بجائے اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی نفی کرنے والی بات ہو گی۔ پس ہر احمدی کے لیے چاہے وہ پرانے احمدی ہیں، نئے احمدی ہیں، یہاں پیدا ہوئے ہوئے احمدی ہیں یا ہجرت کر کے آنے والے احمدی ہیں بہت غور اور سوچنے کی ضرورت ہے کہاللہ تعالیٰ کا قرب اور اس کی عبادت کا حق ادا کرنا اور اس کی کتاب کو پڑھنا، سمجھنا اور اس پر عمل کرنا ہمارا بنیادی مقصد ہونا چاہیے۔ تبھی ہم حقِ بیعت ادا کر سکتے ہیں۔

جو ہجرت کر کے آئے ہیں وہ دنیا کی مخالفت سے تو یہاں آ کر بچ گئے ہیں لیکن اگر دین پر چلنے والے اور قرآن کریم کو سمجھنے والے نہیں تو پھر اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث نہیں بن سکتے۔ اسی طرح جو نئے ہونے والے احمدی ہیں یا یہاں رہنے والے پرانے احمدی ہیں وہ بھی یاد رکھیں کہ صرف بیعت کرنے سے مقصد پورا نہیں ہوتا۔ مقصد تبھی پورا ہو گا جب ہم اپنے آپ کو اسلامی تعلیم کا حامل بنائیں گے اور وہ اس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک ہم اللہ تعالیٰ کی کتاب کو پڑھیں اور سمجھیں گے نہیں۔

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:میں سچ کہتا ہوں کہ یہ ایک تقریب ہے جو اللہ تعالیٰ نے سعادت مندوں کے لئے پیدا کر دی ہے۔ مبارک وہی ہیں جو اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ تم لوگ جنہوں نے میرے ساتھ تعلق پیدا کیا ہے اس بات پر ہرگز ہرگز مغرور نہ ہو جاؤ کہ جو کچھ تم نے پانا تھا پا چکے۔ یہ سچ ہے کہ تم ان منکروں کی نسبت قریب تر بہ سعادت ہو جنہوں نے اپنے شدید انکار اور توہین سے خدا کو ناراض کیا اور یہ بھی سچ ہے کہ تم نے حسنِ ظن سے کام لے کر خدا تعالیٰ کے غضب سے اپنے آپ کو بچانے کی فکر کی لیکن سچی بات یہی ہے کہ تم اس چشمے کے قریب آ پہنچے ہو جو اس وقت خدا تعالیٰ نے ابدی زندگی کے لیے پیدا کیا ہے۔ ہاں پانی پینا ابھی باقی ہے۔پس خدا تعالیٰ کے فضل و کرم سے توفیق چاہو کہ وہ تمہیں سیراب کرے کیونکہ خدا تعالیٰ کے بدوں کچھ بھی نہیں ہو سکتا۔خدا تعالیٰ کا فضل نہ ہو تو اس کے بغیر کچھ نہیں ہو سکتا اس لیے اللہ تعالیٰ کا فضل ہمیشہ چاہو۔ فرمایا یہ میں یقیناً جانتا ہوں کہ جو اس چشمہ سے پئے گا وہ ہلاک نہ ہو گا کیونکہ یہ پانی زندگی بخشتا ہے اور ہلاکت سے بچاتا ہے اور شیطان کے حملوں سے محفوظ کرتا ہے۔ اس چشمہ سے سیراب ہونے کا کیا طریق ہے؟ یہی کہ خدا تعالیٰ نے جو دو حق تم پر قائم کئے ہیں ان کو بحال کرو اور پورے طور پر ادا کرو۔ ان میں سے ایک خدا کا حق ہے دوسرا مخلوق کا۔ اپنے خدا کو وحدہٗ لا شریک سمجھو جیساکہ اس شہادت کے ذریعہ تم اقرار کرتے ہو اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ۔ یعنی میں شہادت دیتا ہوں کہ کوئی محبوب، مطلوب اور مطاع اللہ کے سوا نہیں ہے۔یہ ایک ایسا پیارا جملہ ہے کہ اگر یہ یہودیوں، عیسائیوں یا دوسرے مشرک بت پرستوں کو سکھایا جاتا اور وہ اس کو سمجھ لیتے تو ہرگز ہرگز تباہ اور ہلاک نہ ہوتے۔ اسی ایک کلمہ کے نہ ہونے کی وجہ سے ان پر تباہی اور مصیبت آئی اور ان کی روح مجذوم ہو کر ہلاک ہو گئی۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
پس دیکھیں کس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تسلی دلائی اور ضمانت دی ہے کہ تم جس چشمے کے قریب پہنچے ہو، بیعت کر کے جس بات کا اقرار کیا ہے اگر اس سے پانی پیو گے، فیض اٹھاؤ گے، صرف باتوں تک ہی نہ رہو گے بلکہ عمل بھی کرو گے تو پھر تمہیں یہ ضمانت دی جاتی ہے کہ کبھی تمہاری روحانی ہلاکت نہیں ہو گی کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام ہی قرآن کریم کے پیغام کو اور اللہ تعالیٰ کے احکامات کو جاری کرنے کے لیے تشریف لائے تھے۔ فرمایا کہ پس اس بات کو سمجھ لو کہ صرف بیعت کافی نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ عمل کو چاہتا ہے اور جو عمل کرے گا وہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں سے خالی نہیں رہتا، کبھی ہلاک نہیں ہوتا اور یہ عملی حالت اس وقت پیدا ہو گی جب اَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کا کلمہ تمہارے ظاہر و باطن کی آواز بن جائے گا۔ اللہ تعالیٰ سے زیادہ تمہیں کوئی محبوب نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ کی رضا کے علاوہ کسی چیز کی طلب نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ کے حکموں کی کامل اطاعت ہو۔ اب ہر ایک اس بات سے اپنے جائزے لے سکتا ہے کہ جب ہم کلمہ پڑھتے ہیں تو کیا واقعی اللہ تعالیٰ ہمیں سب چیزوں سےزیادہ محبوب ہے؟ اس کی رضا حاصل کرنا ہمارا مقصود ہے؟ واقعی ہم اللہ تعالیٰ کے حکموں کی کامل اطاعت کر رہے ہیں۔اگر نمازوں کے وقت ہمیں نمازیں پڑھنے کی طرف فوری توجہ نہیں ہوتی، اگر ہم اپنا دنیوی کام چھوڑ کر اللہ تعالیٰ کی آواز پر فوری لبیک کہتے ہوئے نماز کے لیے حاضر نہیں ہوتے تو منہ سے تو کلمہ پڑھ رہے ہیں لیکن ایک مخفی شرک ہمارے دل میں ہے۔ ہمارے دنیاوی کاروبار خدا تعالیٰ کے مقابلے پر کھڑے ہیں۔ ایک مومن تو اس یقین پر قائم ہوتا ہے اور ہونا چاہیے کہ میرے کاروبار میں برکت، میرے کام میں برکت اللہ تعالیٰ کے فضل سے پڑتی ہے اور پڑنی ہے اور پھر یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ میرے دنیوی کام اللہ تعالیٰ کی آواز کے مقابلے پر آ کر کھڑے ہو جائیں۔ اگر ایسا ہے تو ہم نے کلمہ کی روح کو سمجھا ہی نہیں۔ ہم منہ سے تو اقرار کر رہے ہیں لیکن ہمارے عمل ہمارے اقرار کا ساتھ نہیں دے رہے۔ ہم پانی کے چشمہ کے نزدیک تو آ گئے ہیں لیکن پانی پینے کی طرف ہاتھ نہیں بڑھا رہے۔ پس آپؑ نے فرمایا اگر یہ صورتحال ہے تو پھر تو حقِ بیعت ادا نہیں ہوا۔یہ کلمہ شہادت اس بات کی ہی تلقین نہیں کرتا، اس بات کی ہی طرف توجہ نہیں پھیرتا کہ اللہ تعالیٰ کا حق ادا کرنا ہے بلکہ اللہ تعالیٰ نےجو حقوق العباد کے ادا کرنے کی تلقین فرمائی ہے اور حکم دیا ہےاس پر عمل کرنے کی طرف بھی توجہ دلاتا ہےاور جب انسان یہ دو حقوق ادا کرتا ہے تو تب ہی حقیقی مومن بنتا ہے اور تبھی ایک حقیقی احمدی مسلمان بیعت کا حق ادا کرتا ہے۔

پھر آپؑ اپنی بیعت میں آنے والوں کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:اگر دنیاداروں کی طرح رہوگے تو اس سے کچھ فائدہ نہیں کہ تم نے میرے ہاتھ پر توبہ کی۔ میرے ہاتھ پر توبہ کرنا ایک موت کو چاہتا ہے تاکہ تم نئی زندگی میں ایک اَور پیدائش حاصل کرو۔ یعنی بیعت کرنے کے بعد تمہیں ایک نئی روحانی زندگی ملنی چاہیے۔ اگر وہ روحانی زندگی نہیں ملتی اور وہی مادی زندگی کی خواہشات اور ترجیحات ہیں تو پھر ایسی بیعت کچھ فائدہ نہیں دے گی۔ فرمایا بیعت اگر دل سے نہیں تو کوئی نتیجہ اس کا نہیں۔

میری بیعت سے خدا دل کا اقرار چاہتا ہے۔ پس جو سچے دل سے مجھے قبول کرتا ہے اور اپنے گناہوں سے سچی توبہ کرتا ہے غفور و رحیم خدااس کے گناہوں کو ضرور بخش دیتا ہے اور وہ ایسا ہو جاتا ہے جیسے ماں کے پیٹ سے نکلا ہے تب فرشتے اس کی حفاظت کرتے ہیں۔بالکل معصوم ہو جاتا ہے۔ فرمایا کہ ایک گاؤں میں اگر ایک نیک آدمی ہو تو اللہ تعالیٰ اس نیک کی رعایت اور خاطر سے اس گاؤں کو تباہی سے محفوظ کر لیتا ہے لیکن جب تباہی آتی ہے تو پھر سب پر پڑتی ہے مگر پھر بھی وہ اپنے بندوں کو کسی نہ کسی نہج سے بچا لیتا ہے۔ سنت اللہ یہی ہے کہ اگر ایک بھی نیک ہو تو اس کے لیے دوسرے بھی بچائے جاتے ہیں۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
ابھی آتے ہوئے مجھے امیر صاحب نے یہ بھی بتایا کہ آج سے اٹھائیس سال پہلے آج کے دن ہی 14؍اکتوبر کو اس مسجد کا بھی افتتاح ہوا تھا اور یہ کھولی گئی تھی۔ اس مسجد کو اب اٹھائیس سال ہو گئے ہیں۔

یہاں رہنے والے اس علاقے میں رہنے والے پرانے احمدی بھی، نئے آنے والے بھی جائزہ لیں کہ ان اٹھائیس سالوں میں انہوں نے اپنی روحانیت میں کس حد تک ترقی کی ہے۔ کس حد تک اس مسجد کے حق کو ادا کرنے کی کوشش کی ہے۔

اللہ تعالیٰ آئندہ بھی کئی دہائیاں اور کئی صدیاں اس مسجد میں آنے والوں کو مہیا فرماتا رہے اور یہ ہر قسم کی دنیاوی آفات سے بھی بچی رہے لیکناصل حق تبھی ادا ہو گا جب ہم مسجدوں کے حق ادا کرتے ہوئے انہیں آباد کرنے کی کوشش کریں گے۔اللہ تعالیٰ اس کی بھی ہمیں توفیق عطا فرمائے۔

• حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے اس خطبہ جمعہ کا مکمل متن علیحدہ سے شائع ہو چکا ہے۔
• حضور انور کا یہ خطبہ ایم ٹی اے انٹرنیشنل کے ذریعے براہ راست ساری دنیا میں لائیو نشر ہوا۔
• حضور انور کا یہ خطبہ جمعہ دو بجے تک جاری رہا۔ بعد ازاں حضور انورنے نماز جمعہ کے ساتھ نماز عصر جمع کرکے پڑھائی۔
• نمازوں کی ادائیگی کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنی رہائش گاہ پر تشریف لے گئے۔

نیشنل مجلس عاملہ خدام الاحمدیہ امریکہ کی
حضور انور سے ملاقات

• پروگرام کے مطابق چھ بجے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز میٹنگ روم میں تشریف لائے جہاں نیشنل مجلس عاملہ خدام الاحمدیہ امریکہ کی حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ میٹنگ شروع ہوئی۔

• حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے دعا کے ساتھ میٹنگ کا آغاز فرمایا۔

سب سے پہلے نائب صدر مجلس نے اپنا تعارف کروایا۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے استفسار فرمانے پر نائب صدر صاحب نے عرض کیا کہ ان کے سپرد ریجنل قائدین، تعلیم، اطفال اور مال کے شعبہ جات کی نگرانی کرنا ہے۔

حضور انور کے استفسار پر پر نائب صدر صاحب نے عرض کیا کہ مختلف شعبہ جات کی رپورٹس پر متعلقہ مہتمم ہی تبصرے کرتا ہے۔

اس کے بعد نائب صدرو مہتمم خدمت خلق نے اپنے شعبہ کی رپورٹ پیش کرتے ہوئے عرض کیا کہ ہم بھوکوں کو کھانا کھلانے کے پروجیکٹ پر کام کر رہے ہیں۔ اسی طرح فنڈ ریزنگ اور Blood drives پر بھی کام کر رہے ہیں۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے دریافت فرمانے پر مہتمم خدمت خلق نے عرض کیا کہ ہم نے دوران سال دو لاکھ دس ہزار ڈالرز تنزانیہ میں ایک ہسپتال کے لئے اکٹھے کیے ہیں۔ اس کے علاوہ بھی تیس ہزار ڈالرز اکٹھے کیے ہیں۔

• حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ پاکستان میں سیلاب زدگان کی امداد کے لئے بھی آپ نے پیسے دیے تھے؟

اس پر مہتمم صاحب نے عرض کیا کہ ہم نے 25 ہزار ڈالرز یہاں پاکستانی ایمبیسی کو دیے تھے۔

• حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے استفسار پر کہ کیا آپ یہاں کسی چیریٹی کے لیے یا افریقہ کے کسی پراجیکٹ کے لیے بھی رقم اکٹھی کر رہے ہیں؟

اس پر مہتمم خدمت خلق نے عرض کیا کہ افریقہ کے کسی پراجیکٹ کے لیے تو سرِدست رقم جمع نہیں کر رہے تاہم ہم نے یہاں امریکہ کے لئے 10 ہزار ڈالرز جمع کیے تھے اور ہمارے نیشنل اجتماع کے موقع پر 50 ہزار افراد کو کھانا تقسیم کیا تھا۔

• حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے استفسار فرمایا کہ کیا آپ افریقہ میں کسی ماڈل ولیج کو اسپانسر نہیں کرتے؟

اس پر مہتمم صاحب نے عرض کیا کہ سردست ہم کسی ماڈل ولیج کو اسپانسر نہیں کر رہے لیکن آئندہ کریں گے۔

• اس پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ ایک ماڈل ولیج پر اندازاً 75 ہزار ڈالرز لگتے ہیں آپ کو ماڈل ولیجز کی بھی فنڈنگ کرنی چاہیے۔

• بعد ازاں مہتمم مال نے اپنے شعبہ کی رپورٹ پیش کی۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی دریافت فرمانے پر مہتمم مال صاحب نے عرض کیا کہ اس سال خدام الاحمدیہ کا کل بجٹ 8 لاکھ 25 ہزار ڈالر زہے۔ 2ہزار130 کمانے والے خدام ہیں جو کہ کل تجنید کا 52 فیصد بنتے ہیں۔ تاہم ہمارے بجٹ کا 84 فیصد سے زائد 805 خدام کی طرف سے دیئے گئے چندہ پر مشتمل ہے۔ اس کے علاوہ ایک ہزار952 طالب علم ہیں۔ طلباء پانچ ڈالرز فی مہینہ کے حساب سے چندہ ادا کرتے ہیں۔

• حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ: اگر تمام خدام اپنی آمد کے بجٹ کے حساب سے چندا ادا کریں تو آپ کا کل بجٹ ڈیڑھ ملین تک جا سکتا ہے۔

اس پر مہتمم مال نے عرض کیا کہ ہم اس ٹارگٹ کو پورا کرنے کی کوشش کریں گے۔ ان شاءاللّٰہ

• بعد ازاں محترم صدر صاحب تربیت نومبائعین نے اپنے شعبہ کی رپورٹ پیش کی کہ گزشتہ تین سال کے اندربیعت کرنے والوں کے حساب سے خدام نومبائعین کی کل تعداد 92 ہے۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے دریافت فرمانے پر کہ یہ شادیوں کی وجہ سے احمدی ہوئے ہیں یا باقاعدہ لٹریچر پڑھ کر احمدی ہوئے ہیں۔

مہتمم صاحب نے عرض کیا کہ ان میں سے چند ایک ایسے بھی ہیں جو شادی کی وجہ سے احمدی ہوئے ہیں۔ لیکن ہم انہیں نومبائعین میں ہی شامل کرتے ہیں۔

• حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے دریافت کرنے پر مہتمم صاحب نے عرض کیا کہ ہم نومبائعین کے لیے سالانہ اجتماع کا انعقاد کرتے ہیں اور ان کےساتھ ہفتہ وار سیشن بھی منعقد کیے جاتے ہیں۔

• اس پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: سال میں ایک مرتبہ یا دو مرتبہ اجتماع کر لینا ہی کافی نہیں ہے۔ صرف ایک دو اجتماعات سے ان کی تربیت ممکن نہیں ہوسکتی یا تربیت کا حق ادا نہیں ہو سکتا۔ ان کے لئے باقاعدگی کے ساتھ پروگرامز منعقد ہونے چاہئیں۔

• حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: جن نومبایعین کا مسلم بیک گراؤنڈ نہیں ہے انہیں سورہ فاتحہ مع ترجمہ آنی چاہیے۔

• اس کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مہتمم صاحب وقار عمل سے دریافت فرمایا کہ آپ سال میں کتنے وقار عمل کر لیتے ہیں۔

• اس پر مہتمم صاحب نے عرض کیا کہ نیشنل لیول پر جلسہ سالانہ اور نیشنل اجتماع کے موقع پر وقار عمل کیے جاتے ہیں جب کہ لوکل لیول پر کافی تعداد میں وقار عمل کیے جاتے ہیں۔

مہتمم صاحب نے مزید عرض کیا کہ اس سال چونکہ Covid ختم ہو رہا ہے، اس لیے ہم نے مساجد کو Deep Clean کیا ہے۔

مساجد کی اندر سے بھی صفائی کی ہے اور باہر سے بھی مساجد کو دھویا ہے۔

• بعد ازاں مہتمم صاحب صحت و جسمانی نے اپنا تعارف کروایا۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے استفسار پر انہوں نے بتایا کہ یہاں نیشنل لیول پر باسکٹ بال کافی کھیلا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ والی بال بھی کھیلا جاتا ہے۔

بعد ازاں مہتمم صاحب صنعت و تجارت نے اپنے شعبہ کی رپورٹ پیش کی۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت ہم دو چیزوں پر کام کر رہے ہیں۔ ایک تو یہ کہ کالج کے طلباء کو Internship کے ذریعہ ملازمت تلاش کرنے میں معاونت کر رہے ہیں دوسری چیز ہم نے یہ شروع کی ہے کہ ہم ایسے خدام جن کی ملازمت سے کم تنخواہیں مل رہی ہیں ان کو ذاتی کاروبار شروع کروانے میں مدد کر رہے ہیں۔

• اس کے بعد مہتمم اشاعت نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے استفسار فرمانے پر عرض کیا کہ مجلس خدام الاحمدیہ کا سہ ماہی رسالہ ’’مجاہد‘‘ باقاعدگی سے شائع ہو رہا ہے۔ اس کے علاوہ دوران سال ایک کتاب Understanding Salat کے عنوان سے مکمل ہوئی ہے۔ اس کے 267 صفحات ہیں۔

• حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے استفسار فرمایا کہ آپ کے میگزین میں باقاعدہ کتنے لکھنے والے ہیں۔ اس پر مہتمم اشاعت نے عرض کیا کہ لکھنے والوں کی تعداد دس سے کم ہے۔

اس پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: چار ہزار کی تجنید میں سے صرف دس لکھنے والے ہیں۔ آپ کو مزید رائٹر تلاش کرنے چاہئیں۔ میرے نزدیک آپ کے پاسPotential موجود ہے۔

• بعد ازاں مہتمم تجنید نے اپنا تعارف کروایا اور حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے استفسار فرمانے پر عرض کیا کہ امریکہ میں کل تجنید 5448 ہے جس میں 4082 خدام ہیں اور اطفال کی تعداد 1366 ہے۔ گیارہ ریجن ہیں اور 57 مجالس ہیں۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے استفسار پر موصوف نے عرض کیا کہ لوکل مجالس اپنی تجنید کے متعلق ہمیں رپورٹس بھجواتی ہیں اور ہم اس کے مطابق تجنید کو اپ ڈیٹ کرتے ہیں۔ ہمارے پاس اپنا ڈیٹا بیس ہے۔ ہم جماعت کے ساتھ بھی اس کو چیک کرتے ہیں۔

اس پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: آپ کو جماعت کے ڈیٹا بیس پر انحصار نہیں کرنا چاہیے بلکہ آپ کا اپنا ایک ڈیٹا بیس ہونا چاہیے۔ آپ کو چاہیے کہ آپ جماعت کو معلومات فراہم کریں۔

• بعد ازاں مہتمم امور ِطلباء نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے استفسار فرمانے پر عرض کیا کہ ان کے ریکارڈ میں طلباء کی کل تعداد 1952 ہے اور اس میں سے 607یونیورسٹی کے طالب علم ہیں۔ ہائی اسکول کے طلباء 912 ہیں۔ گریجویٹس کی تعداد 370 ہے۔

• حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے دریافت فرمانے پر مہتمم امورِ طلباء نے بتایا کہ دوران سال انہوں نے 8سیمینارز کا انعقاد کیا ہے۔ یہ سیمینارز مختلف عناوین پر ہوتے ہیں جیسے کہ کس طرح بہترین میڈیکل اسکول یا لاءاسکول وغیرہ تلاش کیا جا سکتا ہے اسی طرح S.A.T اور A.C.T کے امتحانات کے حوالہ سے بھی سیمینارز کیے گئے۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ آپ اسلام کی تاریخ یا اسلام کی تعلیمات کے تعارف جیسے عناوین کا بھی انتخاب کرسکتے ہیں۔ اسی طرح سوشل سائنسز اور سائنس کے دیگر شعبہ جات کے موضوعات کا انتخاب کرکے سیمینار رکھ سکتے ہیں جس میں احمدیوں کے علاوہ دیگر طلباء کو بھی مدعو کیا جا سکتا ہے اس میں غیر احمدی اسکالرز اور پروفیسرز کو بھی مدعو کیا جا سکتا ہے کہ وہ ان سمینار میں اپنا لیکچر پیش کریں۔

• اس کے بعد مہتمم مقامی صاحب نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے استفسار پر عرض کیا کہ مقامی ریجن میں 344خدام ہیں اور یہ ریجن 35میل Radius پر مشتمل ہے۔

بعد ازاں مہتمم عمومی نے اپنی رپورٹ پیش کرتے ہوئے عرض کیا کہ نماز جمعہ پر مساجد میں خدام کی سکیورٹی موجود ہوتی ہے۔ آج کل بھی خدام سکیورٹی کی ڈیوٹیاں دے رہے ہیں۔

اس کے بعد ایڈیشنل مہتمم تربیت (برائے رشتہ ناطہ) نے اپنا تعارف پیش کیا۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ یہ شعبہ نیا قائم ہوا ہے؟ اس پر صدر صاحب مجلس خدام الاحمدیہ نے عرض کیا کہ یہ شعبہ گزشتہ سال قائم کیا گیا تھا۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے استفسار فرمانے پر موصوف نے بتایا کہ ہم نے امسال اجتماع کے موقع پر رشتہ ناطہ کے حوالے سے ایک Talk رکھی تھی۔ باقی کونسلنگ وغیرہ تو جماعت کے لیول پر ہوتی ہے۔ تاہم ہم کوشش کرتے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ خدام رشتہ ناطہ کے ڈیٹا بیس میں اپنے آپ کو رجسٹر کریں۔

بعد ازاں محاسب نے اپنا تعارف پیش کیا۔

• اس کے بعد ریجنل قائدین نے اپنے اپنے ریجن کا تعارف کروایا۔

اس کے بعد معاون صدر صاحب نے اپنا تعارف کرواتے ہوئے عرض کیا کہ صدر صاحب مجلس خدام الاحمدیہ نے اجتماع وغیرہ کے لئے زمین خریدنے کا کام سپرد کیا ہوا ہے۔

• حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے استفسار فرمانے پر انہوں نے عرض کیا کہ اس وقت ایک 88 ایکڑ زمین کا رقبہ خریدنے کی بات چل رہی ہے جس کی قیمت ساڑھے سات لاکھ ڈالرز کے قریب ہے۔ اس میں سے 12 ایکڑ زمین کمرشل ہے اور جب کہ 68 ایکڑ Residential ہے۔ وہاں پر اجتماع منعقد کرنے کی اجازت ہوگی۔

• اس کے بعد ایک اور معاون صدر نے اپنا تعارف پیش کرتے ہوئے کہا کہ ان کے سپرد Event managment کا کام ہے۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے استفسار فرمانے پر انہوں نے عرض کیا کہ جو Events نیشنل لیول پر منعقد ہوتے ہیں جس میں اجتماع اور شوریٰ وغیرہ شامل ہیں، ان کو آرگنائز کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ سرائے خدمت کی دیکھ بھال کرنا بھی میری ذمہ داری ہے۔

بعد ازاں مہتمم تبلیغ نے اپنا تعارف پیش کیا اور حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے استفسار فرمانے پر عرض کیا کہ اس وقت ہم دو چیزوں پر کام کر رہے ہیں۔ ایک تو یہ کہ ان خدام کو تبلیغی کاموں میں لگایا جائے جنہیں تبلیغ کرنے کی عادت نہیں ہے۔ انہیں فلائرز وغیرہ تقسیم کرنے میں شامل کیا جائے۔ دوسری چیز یہ کہ داعین الیٰ اللہ کو کہا جائے وہ اپنا حلقہ احباب کو مسجد میں لے کر آئیں۔

• حضور انور ایدہ اللہ تعالی بنصرہ العزیز کے استفسارفرمانے پر مہتمم تبلیغ نے عرض کیا کہ گزشتہ سال ہم نے 13 ہزار 629فلائرز تقسیم کیے تھے۔

• اس پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ: سارے سال میں صرف تیرہ ہزار فلائرزتقسیم ہوئے ہیں۔ آپ کی کل تجنید 4ہزار ہے۔ اس حساب سے تین فلائرز فی خادم بنتے ہیں۔ کم از کم 10فلائرز فی خادم ہونے چاہئیں۔ اس سے کم از کم چالیس ہزار فلائرزتقسیم ہو جائیں گے۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے دریافت فرمانے پر مہتمم تبلیغ نے عرض کیا کہ گزشتہ سال براہ راست خدام الاحمدیہ کے ذریعہ ہونے والی بیعتوں کی کل تعداد 22 تھی۔ بیعت کرنے والوں کی عمریں مختلف ہیں تاہم ان کو تبلیغ کرنے والے خدام ہی ہیں۔

• بعد ازاں مہتمم تربیت نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے استفسار فرمانے پر عرض کیا کہ Covid کی پابندیاں کم ہورہی ہیں اس لئے ہم باجماعت نماز کی ادائیگی کی طرف خاص توجہ دے رہے ہیں

حضور انورایدہ اللہ تعالی بنصرہ العزیز نے فرمایا: آپ کی نیشنل عملہ کے 37 ممبران ہیں۔ اسی طرح ریجنل عاملہ ہے، پھر لوکل عاملہ ہے۔ اگر ہر لیول پر عاملہ کے تمام ممبران باقاعدگی سے باجماعت نماز ادا کرنے لگ جائیں تو پھر حاضری میں کافی اضافہ ہو جائے گا۔ اس لئے سب سے پہلے آپ کو عاملہ ممبرز پر خاص توجہ دینی ہوگی۔

• حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے دریافت فرمایا کہ گزشتہ سال آپ نے کیا achieve کیا ہے؟

اس پر مہتمم صاحب نے عرض کیا کہ سروے کے مطابق پنجوقتہ نماز ادا کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ اس کے علاوہ ہم نے خلافت کی حفاظت اور خلافت کی برکات کے حوالہ سے Webinars کا بھی انعقاد کیا ہے۔

خدام کو نصائح

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: سب سے بنیادی چیز نماز ہے۔ اس پر خاص توجہ دیں۔ اگر خدام کاموں کی وجہ سے ظہر اور عصر میں نہیں آسکتے تو فجر، مغرب اور عشاء باجماعت ادائیگی کی طرف خاص توجہ دیں۔ اس کے بعد قرآن کریم ہے۔ روزانہ قرآن کریم کی تلاوت ہونی چاہیے۔ عاملہ کے تمام ممبران کو باقاعدگی کے ساتھ روزانہ تلاوت قرآن کریم کرنی چاہیے اور پھر اس کا ترجمہ بھی پڑھیں اور سیکھیں۔ باقی چیزیں اس کے بعد آتی ہیں۔

• اس کے بعد مہتمم تعلیم صاحب نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے استفسار فرمانے پر عرض کیا کہ گزشتہ سال مطالعہ کے لئے جو کتب رکھی گئی تھیں ان میں سے ایک کتاب برکات الد عا تھی۔ الحمدللّٰہ تمام عاملہ نے اس کتاب کا مطالعہ کیا۔ اس کے علاوہ 214 دیگر خدام نے اس کا مطالعہ کیا۔

اس پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ چار ہزار میں سے صرف 214 خدام نے اس کتاب کا مطالعہ کیا ہے۔ یہ تو آدھا فیصد بنتا ہے۔ کم از کم بیس فیصد ہونے چاہئیں۔

• بعد ازاں مہتمم اطفال نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے دریافت فرمانے پر عرض کیا کہ اس وقت ہمارا main Focus یہی ہے کہ دوبارہ باقاعدگی کے ساتھ اطفال کلاسز کا اجراء ہو۔ کوشش یہ ہے کہ ہر مجلس میں کم از کم ہفتہ وار کلاسز کا اجرا ہو جائے یا ہفتہ میں دو مرتبہ کلاسز ہوں۔ ان کلاسز میں 78 فیصد اطفال شامل ہو رہے ہیں۔ اسی طرح ہم نے ریجنل اور لوکل سطح پر اطفال کے اجتماعات منعقد کیے ہیں۔

• بعد ازاں معتمد صاحب نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے استفسار فرمانے پر عرض کیا کہ اوسطاً57 مجالس میں سے سے 51 مجالس باقاعدگی سے اپنی رپورٹ بھجواتی ہیں۔اعتماد کے شعبہ کی طرف سے صرف معتمدین کی رپورٹس پر Feedback بھجوائی جاتی ہے .باقی بعض مہتمین میں اپنے اپنے شعبہ کی رپورٹس پر فیڈ بیک دیتے ہیں اور بعض نہیں دیتے۔

• اس کے بعد معاون صدر برائے وصیت نے اپنی رپورٹ پیش کی کہ دوران سال 119 وصیتیں ہوئی ہیں اور کل موصیان کی تعداد 865 ہے۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: کوشش کریں کہ جو کمانے والے خدام ہیں وہ بھی وصیتیں کریں۔

بعد ازاں معاون صدر برائے I.T نے اپنی رپورٹ پیش کرتے ہوئے عرض کیا کہ خدام الاحمدیہ کا IT سسٹم ان کی ذمہ داری ہے۔

• اس کے بعد مجلس انصار سلطان القلم کے چیئرمین نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے استفسار پر عرض کیا کہ گزشتہ سال کے دوران ہمارے پاس 24 لکھنے والے تھے۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: مزید لکھنے والے تلاش کریں۔ اپنے لکھنے والوں سے کہیں کہ وہ خدام الاحمدیہ کے رسالہ میں بھی مضامین لکھا کریں۔

• اس کے بعد معاون صدر برائے سوشل میڈیا وپریس نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے استفسار فرمانے پر عرض کیا کہ وہ براہ راست صدر مجلس سے Guidance لیتے ہیں۔ ہم خدام الاحمدیہ کی مختلف مجالس کی Activities وغیرہ کو سوشل میڈیا پر ڈالتے ہیں۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی طرف سے ملنے والی ہدایات کو بھی سوشل میڈیا پر ڈالا جاتا ہے۔ اسی طرح حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی تحریرات کو بھی سوشل میڈیا پر ڈالا جاتا ہے۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے دریافت فرمایا کہ مخالفین بھی سوشل میڈیا پر جماعت کے خلاف اعتراضات کرتے رہتے ہیں کیا آپ ان کا بھی جواب دیتے ہیں؟

اس پر معاون صدر نے عرض کیا کہ ہم براہ راست ان کا جواب تو نہیں دیتے لیکن ہم نے اس قسم کا مواد ڈالا ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ اسلام احمدیت کیا چیز ہے۔

• حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: یہ جو جماعت کے خلاف اعتراضات کرتے ہیں ان کے جوابات کے لیے آپ مجلس انصارسلطان القلم سے بھی معاونت لے سکتے ہیں۔

• حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے آئندہ سال کی مجوزہ مجلس عاملہ کے بارہ استفسار فرمایا۔ اس پر صدر صاحب نے عرض کیا کہ کل ہی مجوزہ مجلس عاملہ بغرض منظوری بھجوائی ہے۔

• حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: جو بھی نئے مہتممین مقرر ہوئے ہیں انہیں چاہیے کہ وہ اپنے اپنے شعبہ جات میں محنت سے کام کریں اور جو دوبارہ منتخب نہیں ہوئے انہیں بھی چاہیے کہ وہ اپنے آپ کو معاونت کے لیے پیش کریں اور جو بھی آپ کو تجربہ ہوا ہے وہ ان کے ساتھ شیئر کریں تاکہ نئے مہتممین اپنی کارکردگی میں بہتری پیدا کرنے والے ہوں۔

• اس کے بعد مہتمم وقار عمل نے عرض کیا کہ ہم نے شجرکاری کی مہم شروع کی ہے لیکن کچھ عرصہ سے خدام اس میں بھرپور طریق پر حصہ نہیں لے رہے۔ بعض کہتے ہیں کہ ان کے پاس گھر میں درخت لگانے کی کوئی جگہ نہیں ہے یا ان کے قریب شجرکاری کا پروگرام نہیں ہوتا۔

• حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: ایسے خدام کو Climate change کے اثرات کا صحیح طرح ادراک نہیں ہے۔ یہاں امریکہ میں تو وسیع و عریض زمین ہے۔ کہیں بھی جا کر درخت لگا سکتے ہیں۔ ہر خادم کو چاہیے کہ وہ سال میں تین سے دس درخت لگائے۔ اس طرح آپ لوگ 12 ہزار سے لے کر چالیس ہزار تک درخت ایک سال میں لگا سکتے ہیں اور شجرکاری میں یہ آپ کی طرف سے اچھا خاصا حصہ ہوگا۔ حکومت بھی اس کو سراہے گی آپ Forest Department سے بھی اس حوالہ سے معلومات لے سکتے ہیں۔ اسی طرح مشن ہاؤس کے قریب بھی جہاں جہاں جگہیں ہیں وہاں درخت لگانے چاہئیں۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:خدام کو شجر کاری کی اہمیت کا احساس دلائیں کہ انہیں بتائیں کہ دنیا Climate change کی وجہ سے مصائب کا شکار ہے۔ میرا خیال ہے اگر انہیں اس بات کا احساس ہو جائے تو وہ ضرور آپ کی مدد کریں گے۔

• حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: اگر لوکل سطح پر ناظمین متحرک ہوں تو آپ اس میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔ آپ کو پیچھے پڑنا پڑے گا۔ خاص توجہ دینی پڑے گی۔ ایسے ہی فعال خدام کی ٹیم بنائیں جو کہ شجر کاری یا اس فیلڈ میں دلچسپی رکھتے ہوں۔

• بعد ازاں نائب صدر صاحب نے عرض کیا کہ لوکل سطح پر قائدین کو کیسے متحرک کیا جا سکتا ہے۔ ہم سال کے شروع میں قائدین کانفرنس تو رکھتے ہیں لیکن اس کو مزید کیسے بہتر کیا جا سکتا ہے۔

اس پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: سال میں ایک مرتبہ تو کافی نہیں ہے۔ سہ ماہی بنیادوں پر مختلف ریجنز میں مستقل طور پر قائدین کی ٹریننگ کے لیے میٹنگز یا سیمینارز ہونے چاہئیں۔ ہر ریجن میں علیحدہ کانفرنس ہونی چاہیے۔ اگر سال میں ایک کانفرنس بھی رکھنی ہے تو ہر ریجن سے سارے قائدین تو اس میں شامل نہیں ہوسکتے۔ اس لیے ہرریجن کے قائدین کے لیے علیحدہ کانفرنس ہونی چاہیے۔ اسی طرح اجتماع پر یا جب بھی آپ چاہیں ایک نیشنل لیول پر بھی کانفرنس رکھی جا سکتی ہے۔ اس طرح آپ ان کی تربیت کر سکتے ہیں۔

• حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: نیز ان کی باقاعدگی کے ساتھ رہنمائی کریں جب ان کی رپورٹس آتی ہیں تو ان پر ان کو باقاعدہ Guidance جانی چاہیے۔ اس طرح جب وہ اپنی رپورٹس میں کمزوری یا کمی دیکھیں گے تو انہیں علم ہوگا کہ ہم نے اس کو کس طرح بہتر کرنا ہے۔پس ان کی رپورٹس پر مستقل بنیادوں پر باقاعدہ تبصرے جانے چاہئیں۔ وہ ان تبصروں کو دیکھیں گے اس سے ان کو مدد ملے گی۔

• مہتمم اطفال نے عرض کیا کہ خدام الاحمدیہ کے دستور اساسی میں ہر شعبہ کا لائحہ عمل موجود ہے جبکہ اطفال الاحمدیہ کے شعبہ جات کا لائحہ عمل نہیں ہے۔

• اس پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: اس طرح شاید واضح طور پر تو نہیں لکھا ہوا۔ لیکن آپ حالات کے مطابق متعلقہ سیکریٹریان کو ڈیوٹی دے سکتے ہیں۔ ان کے بھی وہی شعبہ جات ہیں جو خدام الاحمدیہ کے ہیں۔ آپ خدام الاحمدیہ کے دستور اساسی سے مدد لے سکتے ہیں اور متعلقہ سیکریٹریان کو بتا سکتے ہیں کہ یہ آپ کی ذمہ داریاں ہیں یا یہ آپ کے کام ہیں اور اس طرح آپ نے نے کام کرنے ہیں اور پھر باقاعدہ ان کی رپورٹ پر تبصرے کریں۔ عملاً تو وہی شعبہ جات ہیں جو خدام الاحمدیہ کی عاملہ کے پاس ہوتے ہیں۔ اس لیے اس کی outline تو پہلے سے ہی موجود ہے۔ آپ اس کو فالو کر سکتے ہیں۔

• میٹنگ کے آخر پر صدر صاحب خدام الاحمدیہ نے مجلس عاملہ کے ممبران کی حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ تصویر بنوانے کی درخواست کی تھی چنانچہ میٹنگ کے اختتام پر نیشنل مجلس عاملہ خدام الاحمدیہ امریکہ کو حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ گروپ فوٹو بنوانے کا شرف حاصل ہوا ۔

• یہ میٹنگ 06:55 پر ختم ہوئی۔

اَللّٰھُمَّ اَیِّدْ اِمَامَنا بِرُوْحِ الْقُدُسِ وَ بَارِکْ لَنَا فِیْ عُمُرِہٖ وَ اَمْرِہٖ

(حصہ دوم آئندہ ان شاء اللّٰہ)

(کمپوزڈ بائی: عائشہ چوہدری۔ جرمنی)

(رپورٹ: عبدالماجد طاہر۔ ایڈیشنل وکیل التبشیر اسلام آباد برطانیہ)

پچھلا پڑھیں

نماز جنازہ حاضر و غائب

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 29 نومبر 2022