• 23 اپریل, 2024

اسلام میں مالی قربانی کی مثالیں صرف مردوں تک ہی محدود نہیں ہیں

اسلام میں مالی قربانی کی مثالیں صرف مردوں تک ہی محدود نہیں۔
عورتیں بھی مالی قربانی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ہیں

ضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
اسلام میں مالی قربانی کی مثالیں صرف مردوں تک ہی محدود نہیں ہیں۔ بلکہ اس پیاری تعلیم اور جذبہ ایمان کی وجہ سے عورتیں بھی مالی قربانی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی رہی ہیں اور لیتی ہیں اور اپنا زیور اتار اتار کر پھینکتی رہی ہیں اور آج پہلوں سے ملنی والی جماعت میں یہی نمونے ہمیں نظر آتے ہیں اور عورتیں اپنے زیور آ آ کر پیش کرتی ہیں۔ عموماً عورت جو شوق سے زیور بنواتی ہے اس کو چھوڑنا مشکل ہوتا ہے لیکن احمدی عورت کا یہ ایمان ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کا بہترین ذریعہ یہی ہے کہ اپنی پسندیدہ چیز پیش کی جائے۔

گزشتہ دنوں میں جب انگلستان کی مساجد اور پھر تحریک جدید کے بزرگوں کے پرانے کھاتے کھولنے کی میں نے تحریک کی تھی تو احمدی خواتین نے بھی اپنے زیور پیش کئے اور بعض بڑے بڑے قیمتی سیٹ پیش کئے کہ یہ ہمارے زیوروں میں سے بہترین ہیں۔ تو یہ ہے احمدی کا اخلاص۔ اس حکم پر عمل کر رہے ہیں کہ

لَنۡ تَنَالُوا الۡبِرَّ حَتّٰی تُنۡفِقُوۡا مِمَّا تُحِبُّوۡنَ (آل عمران: 93) جو سب سے پسندیدہ چیزیں ہیں وہ ہی پیش کی جا رہی ہیں۔ تو مردوں کے ساتھ ساتھ عورتوں کا بھی یہی ایمان ہے۔ ان باتوں کو دیکھ کر کون کہہ سکتا ہے کہ جماعت میں اخلاص کی کمی ہے۔ ہاں یاددہانی کی ضرورت پڑتی ہے اور وہ کرواتے رہنا چاہئے۔ اس کا حکم بھی ہے۔

تو وقف جدید کے ضمن میں احمدی ماؤں سے مَیں یہ کہتا ہوں کہ آپ لوگوں میں یہ قربانی کی عادت اس طرح بڑھ بڑھ کر اپنے زیور پیش کرنا آپ کے بڑوں کی نیک تربیت کی وجہ سے ہے اور سوائے استثناء کے اِلاّماشاء اللہ، جن گھروں میں مالی قربانی کا ذکر اور عادت ہو ان کے بچے بھی عموماً قربانیوں میں آگے بڑھنے والے ہوتے ہیں۔ اس لئے احمدی مائیں اپنے بچوں کو چندے کی عادت ڈالنے کے لئے وقف جدید میں شامل کریں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے پاکستان میں بچوں کے ذمہ وقف جدید کیا تھا اور اُس وقت سے وہاں بچے خاص شوق کے ساتھ یہ چندہ دیتے ہیں۔ اگر باقی دنیا کے ممالک بھی اطفال الاحمدیہ اور ناصرات الاحمدیہ کو خاص طورپر اس طرف متوجہ کریں تو شامل ہونے والوں کی تعداد کے ساتھ ساتھ چندے میں بھی اضافہ ہو گا اور سب سے بڑا مقصد جو قربانی کا جذبہ دل میں پیدا کرنا ہے وہ حاصل ہو گا۔ انشاء اللہ۔ اگر مائیں اور ذیلی تنظیمیں مل کر کوشش کریں اور صحیح طریق پرکوشش ہو تو اس تعداد میں آسانی سے(جو موجودہ تعداد ہے) دنیا میں 6لاکھ کا اضافہ ہو سکتا ہے، بغیرکسی دقت کے اور یہ تعداد آسانی سے 10لاکھ تک پہنچائی جا سکتی ہے۔ کیونکہ موجودہ تعداد 4لاکھ کے قریب ہے جیسا کہ مَیں آگے بیان کروں گا۔

عورتیں یاد رکھیں کہ جس طرح مرد کی کمائی سے عورت جو صدقہ دیتی ہے اس میں مرد کو بھی ثواب میں حصہ مل جاتا ہے تو آپ کے بچوں کی اس قربانی میں شمولیت کا آپ کو بھی ثواب ہو گا۔ اللہ تعالیٰ نیتوں کو جانتا ہے اور ان کا اجر دیتا ہے اور جب بچوں کو عادت پڑ جائے گی تو پھر یہ مستقل چندہ دینے والے بچے ہو ں گے اور زندگی کے بعد بھی یہ چندہ دینے کی عادت قائم رہے گی تو یہ ماں باپ کے لئے ایک صدقہ جاریہ ہو گا۔ جیسا کہ مَیں نے کہا تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نصائح پر عمل کرنے کے نمونے، قربانیوں میں ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کے نمونے، ہمیں آخرین کی اس جماعت میں بھی ملتے ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے قائم کئے۔

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ نے جو قربانیوں کے نمونے قائم کئے ہیں ان کے نظارے بھی عجیب ہیں۔ آج بھی ہمیں جو قربانیوں کے نظارے نظر آتے ہیں جیسا کہ مَیں نے کہا کہ بڑوں کی تربیت کا اثر ہوتا ہے۔ یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ کی اپنی اولا د کی تربیت اور ان کے لئے دعاؤں کا نتیجہ ہے اور سب سے بڑھ کر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اپنی جماعت کے لئے دعاؤں کی وجہ سے ہے۔ جس درد سے آپؑ نے اپنی جماعت کی تربیت کرنے کی کوشش کی ہے جن کا ذکر حضور علیہ السلام کی تحریرات میں مختلف جگہ پر ملتا ہے اور جس تڑپ کے ساتھ آپؑ نے اپنی جماعت کے اعلیٰ معیار قائم کرنے کے لئے دعائیں کی ہیں، تقویٰ کے اعلیٰ معیار قائم کرنے کے لئے دعائیں کی ہیں۔ یہ و ہی پھل ہیں جو ہم کھا رہے ہیں۔ مردہ درخت انہیں دعاؤں کے طفیل ہرے ہو رہے ہیں جن میں بزرگوں کی اولادیں بھی شامل ہیں اور نئے آنے والے بھی شامل ہیں۔ ایک دور دراز علاقے کا آدمی جو عیسائیت سے اسلام قبول کرتا ہے اور پھر قربانیوں میں اس قدر بڑھ جاتا ہے کہ مَیں ہر وقت قربانی کرتا رہوں اور اگر بس چلے تو کسی کو آگے آنے ہی نہ دوں۔ تو یہ سب کچھ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی قوت قدسی اور دعاؤں کا ہی نتیجہ ہے۔ آپؑ کے زمانے میں یہ قربانیوں کے معیار قائم ہوئے جن کی آگے جاگ لگتی چلی جا رہی ہے۔ اس لئے اگر یہ معیار قائم کرنے ہیں تو اس زمانے کے اعلیٰ معیار قائم کرنے والوں، اپنے اندر اس قوت قدسی سے پاک تبدیلی پید اکرنے والوں کے بھی جو ذکر ہیں ان کا ذکر چلتا رہنا چاہئے تاکہ ان بزرگوں کے لئے بھی دعا کی تحریک ہو اور ہمیں بھی یہ احساس رہے کہ یہ پاک نمونے نہ صرف اپنے اندر قائم رکھنے ہیں، بلکہ اپنی نسلوں کے اندر بھی پیدا کرنے ہیں۔

(خطبہ جمعہ 7 جنوری 2005ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

مصلح موعود کی یاد میں

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 29 دسمبر 2022