• 25 اپریل, 2024

اے چھاؤں چھاؤں شخص! تیری عمر ہو دراز

ڈائری عابد خان سے ایک ورق
اے چھاؤں چھاؤں شخص! تیری عمر ہو دراز
حالیہ دورہٴ امریکہ کی ڈائری

امریکہ کے لیے تیاری

امریکہ کے دورہ سے ایک ہفتہ قبل حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ازراہ شفقت مجھے اجازت دی کہ صیہون اور ڈیلس میں مدعو مہمانان کی ملاقات کے متعلق نوٹس بناؤں۔

حضور انور کے صیہون میں خطاب کی تیاری سے چند دن قبل حضور کی خدمت میں میں نے عرض کیا کہ ایک اخباری آرٹیکل میں میں نے شاہ چارلس کے متعلق پڑھا ہے کہ انہوں نے ماضی میں اس بات کا اظہار کیا تھا کہ انہیں ’’دین کا محافظ‘‘ کا لقب زیادہ پسند ہے بجائے اس کے یہ کہا جائے ’’حقیقی یا ہر دین کا محافظ‘‘ جو کہ تاریخی طور پر شاہ برطانیہ کا خطاب ہے۔

اس بات کا حوالہ ’’دا ٹائمز‘‘ کی شہ سرخی میں یوں درج تھا ’’سب مذاہب سے رواداری سے پیش آنا ایک خوش فہمی ہے۔‘‘

جب اس بات کو حضور کی خدمت اقدس میں رکھا تو آپ نے کچھ ارشاد نہیں فرمایا بلکہ اپنی میز پر ایک نوٹ پیڈ پر کچھ تحریر کرلیا۔

کچھ دیر کے بعد جب میں نے اپنی رپورٹ مکمل کر لی تو حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: ’’آج میں غور کر رہا تھا کہ صیہون میں اپنے خطاب کے دوران کیا موضوع پیش کیا جائے، اور پھر تم نے یہ مضمون پیش کیا جس میں شاہ چارلس نے یہ کہا کہ یہ ممکن نہیں کہ وہ تمام مذاہب کا محافظ شمار کیا جائے۔ میرے خیال میں یہ نکتہ میرے مضمون کا موضوع ہونا چاہئے۔‘‘

مجھے علم نہیں تھا کہ حضور انور کے ذہن میں دراصل کیا تفصیل ہے۔ اس کے بعد حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے خود مزید وضاحت فرمائی:
’’میں یہ نکتہ بیان کروں گا کہ شاہ چارلس کی نیت اور جذبات بہت اچھے اور قابل تحسین ہیں لیکن لوگ پہلے سے کہہ رہے ہیں کہ ایک مسیحی بادشاہ کےلیے یہ مشکل ہوگا کہ وہ تمام لوگوں میں یک جہتی پیدا کرے اور ہر مذہب کا محافظ بن سکے۔ جبکہ اس کے مقابل پر اسلام کی تعلیمات آفاقی ہیں جس میں قرآنی تعلیم یہ ہے کہ ایک مسلمان کا فرض ہے کہ تمام مذاہب کی حفاظت کرے اور ان کا محافظ ہو۔‘‘

حضور انور نے مزید فرمایا: ’’میں سورة الحج کی آیات 40-41 کا حوالہ دوں گا جس میں قرآن کریم کہتا ہے کہ اگر مسلمان آنحضورﷺ کے زمانہ میں زیادتی کرنے والوں کے خلاف جنگ نہ کرتے تو راہب خانے منہدم کر دیئے جاتے اور گرجے بھی اور یہود کے معابد بھی محفوظ نہ رہتے۔ مسلمانوں کے لیے دیگر مذاہب کے حقوق کی حفاظت کوئی رسمی ہم آہنگی کی بات نہیں بلکہ ایک مذہبی فریضہ ہے۔‘‘

ایسے مواقع نہایت ازدیاد ایمان کا باعث ہوتے ہیں جہاں ہم حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کو ایسے مضامین لکھتے ہوئے مشاہدہ کرتے ہیں۔ جب حضور اقدس نے اپنے موضوع کے متعلق دریافت فرمایا اور مجھ سے پوچھا ’’تمہارے خیال میں کیا یہ کافی ہوگا؟‘‘

حضور انور کا یہ عجز غیرمعمولی ہے اور میری کیا حیثیت ہے کہ کچھ بھی مشورہ دوں، لیکن چونکہ ارشاد ہوا تو میں نے عرض کی ’’یقیناً میری دانست میں یہ آپ کے خطاب کےلیے بہت موزوں ہوگا۔‘‘

میں نے مزید عرض کیا کہ شاید مقامی ممبران جماعت احمدیہ امریکہ آپ کی جانب سے الیگزینڈر ڈوئی سے متعلق مباہلہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے چیلنج کا تذکرہ بھی سننا چاہیں گے۔

اس پر آپ نے فرمایا: ’’میں اپنے جمعہ کے خطبہ میں، جبکہ میں ممبران جماعت سے مخاطب ہوں گا، ڈوئی سے متعلق بات پیش کروں گا کہ کیسے یہ واقعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے عظیم نشان کے طور پر ظاہر ہوا۔ البتہ مہمانان کی دعوت کے دوران یہ اہم ہے کہ ہمیں اس بات کا خیال رکھنا چاہیے اور ہمیں یہ زور نہیں دینا چاہیے کہ عیسائیت کے مقابل پر یہ اسلام کی فتحِ عظیم تھی کیونکہ یہ مہمانوں کے جذبات کو مجروح کر سکتی ہے۔ احتیاط اور دانشمندی سے بات کرنا کوئی دروغ گوئی نہیں بلکہ یہ قرآن کی تعلیم ہے کہ ’’لوگوں کو خدا کی طرف حکمت اور احسن قول سے بلاؤ۔‘‘

حضور انور نے مزید ارشاد فرمایا: ’’لہٰذا اپنے خطاب کے دوران بجائے اس بات کے کہنے سے کہ یہ اسلام کی فتحِ عظیم تھی میں یہ بیان کروں گا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کن دلائل کے ساتھ ڈوئی کو متوجہ کیا اور جب اس نے اسلام اور آنحضور ﷺ کی مخالفت میں اپنے حملوں سے تمام حدود پار کر لیں تو تب آپ علیہ السلام نے اسے مباہلہ کا چیلنج دیا۔ میں اس کا بھی ذکر کروں گا جہاں ڈوئی نے مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان جنگ کا کہا ہے جبکہ اس کے مدمقابل حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ہتھیار دعا تھی۔ یہ آج بھی ہمارا ہتھیار ہے اور ہمیشہ رہے گی۔‘‘

اس کے بعد اگلے چند روز حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے صیہون اور ڈیلس میں خطابات کے نوٹس لکھوائے۔ جنہیں میں نے سفر سے چند روز قبل پرنٹ کرکے آپ کی خدمت میں پیش کردیا۔

اس سے پیشتر میں نے حضور انور سے اجازت لی کہ اگر ڈیلس کے خطاب کے نوٹس امریکہ سفر کے دوران حضور کی خدمت میں پیش کردوں۔ اس پر حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے ازراہ مزاح ارشاد فرمایا: ’’تم اس میں دیر کیوں کرنا چاہتے ہو؟ اگر اپنے سوٹ کیس کی پیکنگ کی فکر ہے تو ابھی دو گھنٹے میں تیار کردو۔ تاکہ جانے سے پہلے دے دو۔‘‘

گو میں نے سوچ رکھا تھا کہ بعد میں پیش کروں گا لیکن حضور کا یہ حکم ایک برکت کا باعث بنا۔ میں یہ کام سفر سے پہلے مکمل کرنے میں کامیاب ہوگیا اور سفر کے دوران اس کے متعلق فکر اور اندیشوں سے بھی بچ گیا۔

حضور میری پیکنگ کے متعلق بھی صحیح فرما رہے تھے۔ چونکہ میں نے کافی عرصہ سے سفر نہیں کیا تھا اور میرا خیال تھا کہ اس تیاری میں بہت وقت درکار ہوگا لیکن میں یہ کام دو گھنٹے میں ہی کرنے میں کامیاب ہوگیا۔

اللہ کی حفاظت کے لیے دعا

سفر سے ایک روز قبل اتوار کی سہ پہر 25؍ستمبر کو ملاقات کے لیےمیں حضور انور کی خدمت میں پیش ہوا۔ حضور اپنے مقررہ وقت پر دفتر تشریف لائے اور حضور کی آمد پر میں نے عرض کیا:
’’حضور! میرا خیال تھا کہ آج آپ دیر سے تشریف لائیں گے چونکہ آپ کو سفر کے لیے تیاری کرنا ہوگی اور اپنا سامان بھی تیار کرنا ہوگا۔‘‘

اس پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ارشاد فرمایا: ’’مجھے کچھ زیادہ تیار نہیں کرنا ہوتا، چند شلوار قمیض اور اچکنیں رکھ لیتا ہوں اور یہ سب میری بیگم صاحبہ تیار کردیتی ہیں۔‘‘

اس ملاقات کے دوران آپ خوش اور مطمئن نظر آئے۔ اس دورہ کےلیے سکیورٹی اور بعض دیگر امور پر کچھ خدشات تھے لیکن آپ ایدہ اللہ تعالیٰ بالکل بھی پریشان نظر نہ آئے۔

کچھ روز قبل ایک دوست نے مجھ سے آنحضور ﷺ کی سنت کے متعلق تبادلہ خیال کیا کہ جب آنحضرتؐ سفر کے متعلق ارادہ باندھ لیتے تو تیاری کرتے اور ہتھیار بند ہوجاتے، صحابہ رضوان اللہ عنہم بتاتے تھے پھر آپؐ اپنا ارادہ نہ بدلتے اور خدا تعالیٰ پر مکمل توکل کرتے۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا مطمئن چہرہ دیکھ کر مجھے احساس ہوا کہ گو پہلے چند لوگ خدشات کا اظہار کررہے تھے کہ شاید سفر کے لیے یہ موقع ٹھیک نہ ہو لیکن جب آپ نے فیصلہ کیا تو پھر آپ نے اللہ تعالیٰ کی ذات پر مکمل بھروسہ کر لیا اور آپ کے چہرے سے اطمینان اور سفر کے لیے جوش عیاں تھا۔

جب میری ملاقات ختم ہونے کو آئی تو آخر میں حضور اقدس نے مجھے بتایا کہ شکاگو اور صیہون کا موسم جہاں شروع میں ٹھہریں گے برطانیہ کے موسم سے ملتا جلتا ہے۔

میں نے عرض کیا کہ شکاگو امریکہ میں اپنی ہواؤں کی وجہ سے مشہور ہے۔ اس پر آپ نے ارشاد فرمایا: ’’میں امید کرتا ہوں کہ فلائٹ کے دوران ایسی ہنگامہ خیز ہوائیں نہیں چلیں گی۔‘‘

میں نے حضور کی خدمت میں عرض کیا کہ ہمارے مربی فرحان احمد صاحب MTA کے لیے چند روز پہلے امریکہ گئے ہیں انہوں نے بتایا ہے کہ ان کی فلائٹ کے دوران شدید ہوائیں چل رہی تھیں جس سے فلائٹ متاثر ہوئی۔

میں نے مزید عرض کیا حضور! عموماً جب میں سفر پر ہوں اور فلائٹ کے دوران ایسی ہنگامہ خیز ہوائیں چلیں تو مجھے بہت تشویش ہوتی ہے لیکن جب آپ کے ساتھ سفر پر ہوں تو تشویش نہیں ہوتی اور سوچتا ہوں کہ ان شاءاللّٰہ سب ٹھیک رہے گا۔

اس پر آپ ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے جواب دیا ’’چاہے کوئی بھی ہو اور کسی کے ساتھ سفر کر رہے ہو۔ ہمیشہ اللہ تعالیٰ سے حفاظت کی دعا کرتے رہنا چاہیے۔‘‘

(مترجم: مرزا عمران احسن۔ آسٹریلیا)

پچھلا پڑھیں

سو سال قبل کا الفضل

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 30 جنوری 2023