• 23 اپریل, 2024

دعاؤں سے ہم اپنی روحانی اور جسمانی حالت کو صحت مند کر سکتےہیں

اجالے اپنی یادوں کے ہمارے ساتھ رہنے دو
نہ جانے کس گلی میں زندگی کی شام ہو جائے

کس نے سوچا تھا کہ زندگی ایسی بھی بے کیف ہو جائے گی کہ بشیر بدر کی کی ہوئی خواہش صرف ان کی خواہش ہی نہیں رہے گی بلکہ8 ارب انسانوں کے لئے ایک حقیقت بن جائے گی۔ آج جو جہاں ہے جیسے ہے وہاں رک گیا ہے یا روک دیا گیا ہے ۔ کہیں کوئی گنجائش ہے بھی تو وبا کےبڑھنے کے ساتھ ساتھ ہر لمحہ انسان محصور و مجبور ہو تا جا رہا ہے۔ یہی کیفیت کچھ عرصہ مزید رہی تو پھر کس کی شام کس گلی میں ہوئی اور کس کا سور ج کہاں اور کیسے ڈوباکوئی غزال آنکھیں دیکھنے والی ہوں گی نہ سہارا دینے والی۔ حال تو اب بھی یہ ہے کہ میل ملاقات جو انسانیت کا بنیادی خُلق ہے بندگان خدا اسی سے کنارہ کش ہوئے بیٹھے ہیں ۔ ایک ادنیٰ سے کیڑے کرونا وائرس نے انسان پر ایسا حملہ کردیا ہے کہ بنیادی خلق اور اقدار داؤ پرلگ چکے ہیں۔ گلے ملنا تو دور کی بات ہاتھ ملانے سے بھی گئے۔ بس دید کے نظارے اور وہ بھی اب محدود سے محدود تر ہوتے ہوئے۔

بشیر بدر تو شاید کسی ایسی ہی آفت کی پیش خبری میں جانے اَن جانے میں چپکے سے یہ بھی کہہ گئے ہیں۔

یونہی بے سبب نہ پھرا کرو کوئی شام گھر بھی رہا کرو
وہ غزل کی سچی کتاب ہے اسے چپکے چپکے پڑھا کرو
کوئی ہاتھ بھی نہ ملائے گا جو گلے ملو گے تپاک سے
یہ نئے مزاج کا شہر ہے ذرا فاصلے سے ملا کرو

میں ضروری کام سےباہر گیا شہر کا چکر لگایا۔ ہر طرف ایک عجیب ما حول ہو گیا ہے ۔ جیسے سارے شہر کو سانپ سونگھ گیاہو۔ شہر نیم مردہ میں رونق باقی نہ شوخ رنگ جمگٹھے۔جہاں دو چار لوگ کھڑے بھی ہیں وہ بھی ایک دوسرے سے فاصلے پر ۔ اپنے اپنے منہ کو چھپائے اور ماسک چڑھائے ۔ کل تک ہنسنے کھیلنے والے گھنٹوں باہم خوش گپیاں کرنے والے آج ایک دوسرے سے فاصلے پر کھڑے ہیں۔ ہر ایک شاکی ہے ہر ایک مشکوک ہے ۔ بات کرتے ہو تو ذرا فاصلے سے یہی پیغام اب ہر ایک کی آنکھ میں دوسرے کے لئے ہے۔ آگے پیچھے دھیان رہتا ہے کہ کوئی چھینک نہ دےکوئی کھانسی نہ کرے۔ سپر مارکیٹ میں گھسیں تو دم گھٹتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ وجہ وہ خوف ہے جو طاری ہوچکا ہے۔ اتنا تو شاید لوگ خود کش حملہ آوروں سے کبھی خوف زدہ نہیں ہوئے جتنا اب ہو چکے۔

اب یہ قصہ کسی ایک شہر کا رہا نہیں پوری دنیا نئے اور عجیب مزاج کی ہو گئی ہے ۔ فاصلے سے ملنا ضروری ٹھہرا۔ ہاتھ ملانا نہیں بس ہلانا ہے کہ وقت کا تقاضا یہی ہے ۔ بعض کے لئے واقعی یہ تعزیر سے کم نہیں کہ انہیں اکیلے رہنے اور باہر نہ نکلنے کا کہا جائے۔ جو بھی ہو فی الوقت تو اسی حال میں گزارا کرنا سب کے بھلے میں ہے۔ چلیں مجبوراً ہی سہی جب تنہائی میسرآ ہی گئی ہے تو پھر ایک درویش مضطر عارفی کا مشورہ بڑے کام کا ہے ۔

تم اپنے آپ سے ملتے اگر اکیلے تھے
کڑا تھا وقت تو ہنس کر گزار دینا تھا

27مارچ کے خصوصی پیغام میں حضور انور نے جو ہدایات عطا فرمائی ہیں اور احتیاطیں کرنے کے بارے میں رہنمائی فرمائی ہے وہ بہت قیمتی اثاثہ ہیں۔دعا کرنے اور اللہ کے قریب ہونے کی جو نصائح ہیں وہ بھی سننے سے تعلق رکھتی ہیں۔ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: دُعاؤں کی طرف بہت توجہ دیں۔ دُعاؤں سے اللہ تعالیٰ کے فضل کو ہم جذب کر سکتے ہیں اور اپنی روحانی اور جسمانی حالت کو صحت مند کر سکتےہیں۔
اللہ تعالیٰ ہمیں تمام آفات سے بچائے اور خلیفہ وقت کے جملہ احکام پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین

(چوہدری نعیم احمد باجوہ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 28 مارچ 2020

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ