• 25 اپریل, 2024

تعریف اور ستائش

یہ ایک ایسا موضوع ہے جس پر نامہ نگاروں نے ذرا کم ہی قلم اٹھایا ہے۔لیکن یہ موضوع اپنی ذات میں بہت اہم ہے اور آج کے دور میں اس کی اہمیت اور افادیت اس لئے بھی بڑھ گئی ہے کہ معاشرے میں آپا دھاپی کا رجحان بڑھ رہاہے۔ تعریف و ستائش کے چھ پہلو ہو سکتے ہیں۔

  1. اللہ کی تعریف
  2. اپنی تعریف خود کرنا جیسے خود ستائی
  3. اپنی تعریف کروانا اورپسند کرنا
  4. کسی انسان کی سچی تعریف کرنا
  5. کسی انسان کی وہ تعریف کرنا جو اس کے اندر نہ ہو۔
  6. کسی کو محبوب بنانے کے لئے اس کی پسندیدہ چیز کی تعریف کرنا جیسے باپ کے سامنے اس کے بیٹے کی تعریف۔

جہاں تک نمبر1 یعنی اپنے خالق حقیقی اللہ تعالیٰ کی تعریف کرنا۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس سے کسی کو انکار نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے خود اپنے کلام کا آغاز بھی الحمدللہ رب العالمین یعنی تعریف سے کیا ہے اور ایک مومن کو ترغیب دلائی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی تسبیح و تحمید اورثناء کیا کرے۔ سورۃ فاتحہ جو دن کی فرض نمازوں میں سنت مؤکدہ ملا کر 32 دفعہ پڑھی جاتی ہے میں پہلی 4 آیات جو حمدو ثناء پر مشتمل ہے۔ پانچویں آیت اِہۡدِ نَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ کی دعا سکھلا کر انسان کو خود ستائی کرنے اور کروانے کی نفی کردی اور فرمایا کہ اے انسان! تمہارا پہلااور اصل کام حمدو ثناء کے مالک سےہر میدان میںہدایت طلب کرنا ہے۔ ایسےرستہ کی جو انعام یافتہ کا رستہ ہے۔ گویا اپنے آپ کو حقیر، منکسر المزاج رکھنا ہے۔ انسان کی اپنی تو یہ حالت ہے کہ نماز میں بھول جائے تو سبحان اللہ کہہ کر خدا کی تعریف کی جاتی ہے کہ اے اللہ! تو بھولن ہار سے پاک ہے۔

تعریف گو صرف اللہ تبارک و تعالیٰ کی ہے تاہم انسان بھی تعریف کو پسند کرتا ہے۔ اس کی جبلت کا یہ خاصہ ہے کہ اس کو سراہا جائے۔

اس کا یہ مطلب نہیں کہ انسان اپنی ہی تعریف کے پُل باندھتا پھرے یا اپنی تعریف کرنے پر اپنے منہ ہی نہ سوکھے جیسے کہتے ہیں اپنے منہ میاں مٹھو بننا۔ اردو محاورہ ہے خودی اور خدائی میں بَیر ہے۔ یہ تو انسان کو ہلاکت کے کنارے تک پہنچا دیتی ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔

وَ لَا تَفۡرَحُوۡا بِمَاۤ اٰتٰٮکُمۡ ؕ وَ اللّٰہُ لَا یُحِبُّ کُلَّ مُخۡتَالٍ فَخُوۡرِ ۣ﴿ۙ۲۴﴾ اور اُس پر اِتراؤ نہیں جو اُس نے تمہیں دیا اور اللہ کسی تکبر کرنے والے، بڑھ بڑھ کر فخر کرنے والے کو پسند نہیں کرتا۔

(الحدید:24)

اور انکساری و عاجزی اختیار کرنے کی تلقین وَ اقۡصِدۡ فِیۡ مَشۡیِکَ اور اپنی چال میں میانہ رَوی اختیار کر (لقمان:20) کے الفاظ میں ملتی ہے نیز ہدایت فرمائی وَ لَا تَمۡشِ فِی الۡاَرۡضِ مَرَحًا اور زمین میں اکڑ کر نہ چل۔ (بنی اسرائیل:38)

الغرض انسان کو خود اپنی تعریف اورخود فروشی زیب نہیں دیتی۔ خوشبو نے کب کسی سے تعریف مانگی ہے وہ تو خود اپنا وجود ظاہر کرتی ہے اور لوگ اس کی تعریف کرتےہیں۔ انسان بھی ایک پھول نما ہے جو اپنی خوشبو خود چھوڑتا ہے اور ماحول کو معطر کرتا ہے پھر لوگ خود اس کی تعریف کرتے ہیں۔

اس کے مقابل پر کسی کی اس کے اچھے کام کی تعریف اس کے لئے Tonic کا کام کرتی ہے۔ حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔ یہ تعریف بجا طور پر ہونی چاہئے۔

اگر اس کام کو اپنے گھر سے شروع کریں تو سب سے پہلے میاں بیوی کو ایک دوسرے کے اچھے کاموں کو ستائش کی نظر سے دیکھنا چاہئے۔ گھر کی مالکہ جب کھانا تیار کرتی ہے تو اس کھانے کی تعریف لازماً گھر میں سکون کا باعث بنے گی۔ ورنہ زندگی تلخ ہو جاتی ہے۔ اپنے بچوں میں نیکی اور اچھے کاموں کی ترغیب دلانے کے لئے ان کے اچھے کاموں کو قدر کی نگاہ سے دیکھنا اور اس کی حوصلہ افزائی ضروری ہے۔ اسلام نے حوصلہ افزائی کے لئے جَزَاکُمُ اللّٰہُ خَیْراً یا مَاشَاءَا للّٰہ کے الفاظ کہنے کی طرف توجہ دلائی ہے۔ ہم اپنے بچوں کو شاباش Weldone کہہ کران کا حوصلہ بڑھاتے ہیں کیونکہ میٹھے بول حوصلہ بڑھاتے ہیں۔ خاندان کا یونٹ قائم رکھنے میں تعریفی کلمات بہت اہم کردارادا کرتے ہیں۔ ساس بہو،نند بھابھی اگر ایک دوسرے کی تعریف شروع کردیںتو خاندانی معاملات سُدھر جائیں۔

تعریف اور ستائش میں میانہ روی مدنظر رہنی چاہئے۔ حد یا ضرورت سے زیادہ تعریف ہر دو اطراف میں نقصان دہ ہو سکتی ہے۔ تعریف کرنے والے میں بھی جھوٹ کی آمیزش شامل ہوجاتی ہے۔ جو ایک گناہ ہے اوردوسری طرف جس کی تعریف کی جارہی ہو اس میں تکبر آجاتا ہے۔ جو ہلاکت کی طرف لے جاسکتا ہے۔ تعریف میں کنجوسی سےکام بھی نہیں لینا چاہئے۔

ہمارے معاشرے میں ایک ماتحت کی اپنے افسر کی تعریف بہت پائی جاتی ہے۔ ایک حد تک تو یہ بھی جائز ہے لیکن جب ایسی باتوں کی تعریف شروع کردی جائے تو افسر میں پائی نہ جاتی ہوں تو یہ بھی گناہ ہے۔ پھر تعریف، حسد کابھی موجب بنتی ہے۔ آپ اگر کسی کے بچے کی تعریف کئے جائیں اور سامنے موجود کے شخص کے بچوں کے بارے کچھ نہ کہیں تو اس کے دل میں حسد پیدا ہوگا۔ بعض اوقات لوگ کسی کی تعریف پر ناراض ہو جاتے ہیں جو درست نہیں۔ صرف اپنے بچوں کی خوبیوں کے گُن نہیں گانے چاہئیں۔ ہمارے معاشرے میں بالخصوص جماعت کے بچے ہمارے بچے ہیں۔ ان کی کارگزاری کو بھی سراہناضروری ہے۔

جماعت کاذکر ہوا ہے تو جماعت میں ایک دوسرے کے لئے تعریفی کلمات لازماً جماعت کی تقویت اور بڑھوتی کا موجب ہوں گے۔ دراصل تعریف یا تعریف کرنے والے کی طبیعت کی عکاسی کرتی ہے۔ انسان کی اچھی سوچ اجاگر ہوتی ہے۔

مندج بالا امور کی تائید میں درود شریف کی مثال دی جا سکتی ہے۔ جس قدر اپنے سب سے پیارے رسول حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ پر درود بھیجیں گےاسی قدر ہم اپنے خالق حقیقی کے پیارے ہو جائیں گے۔ہم روزانہ اپنی زندگیوں میں مشاہدہ کرتے ہیں کہ فقیر ہمارا دل جیتنے کے لئے بالخصوص خواتین کے دل نرم کرنے کے لئے ان کے بچوں کے حق میں دعاؤں کی صدا بلند کرتاہے۔جیسے بی بی! تیرےبچے جیون،بی بی! تیری بچیاں نوں بھاگ لگن تو ماں کا دل پسیج جاتا ہے اور وہ فوراً فقیر کو حسب استطاعت دے کر روانہ کرتی ہے۔ یہ بھی ایک انداز ہے تعریف اور ستائش کا۔

(ابو سعید)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 29 مئی 2020

اگلا پڑھیں

Covid-19 اپ ڈیٹ30۔مئی2020ء