• 25 اپریل, 2024

ایک مؤثر نصیحت، ایک بہترین لائحہ عمل

’’نہج البلاغہ‘‘ ایک شہرہ آفاق کتاب ہے ۔جس میں حضرت علی ؓ کے ارشادات خطبات اور مکتوبات جمع کئے گئے ہیں۔ ادب عربی میں اس کتاب کی اہمیت و افادیت بہت بلند و ارفع ہے۔ اسے چوتھی صدی کے آخر میں جناب سید رضی نے تالیف کیا۔ قطع نظر اس کے کہ بعض محققین کے نزدیک اس کتاب کا بہت سا مواد پایہ ثبوت تک نہیں پہنچتا اس امر میں کوئی شک نہیں کہ اس میں یقینی طور پر جگہ بہ جگہ حضرت علی ؓ کی طلاقت و بلاغت ضرور نظر آتی ہے۔

حضرت علی ؓ نے مالک اشترؓ کو مصر کا گورنر مقرر کرتے وقت ایک ہدایت نامہ عطا فرمایا تھا ۔یہ ایک طویل مکتوب ہے مگر اس میں ایک حاکم اور امیر کے لئے ایسی نصائح اور رہنمائی موجود ہے جن پر عمل کرنا یقینی کامیابی کی ضمانت بن سکتا ہے۔ اس اہم اورموثر مکتوب کے ایک حصہ کا ترجمہ درج ذیل ہے۔

’’یہ خدا کے بندے علی ؓ امیر المومنین نے مالک بن حارث کے نام اسے مصر کا حاکم مقرر کرتے وقت، اس علاقہ کا محصول جمع کرنے، اس کے دشمنوں سے لڑنے، اس کے شہروں کی بہتری اور شہریوں کی بھلائی کے لئے حاکم مقرر کرتے ہوئے تحریر کیا ہے۔اسے تاکید کی جاتی ہے کہ ہمیشہ اللہ تعالیٰ سے ڈرتا رہے۔ قرآن کریم کے تمام احکام و نصائح کی پابندی کرے کہ اس کے بغیر کوئی نیکی اور بھلائی نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کی اپنے دل ہاتھ اور زبان سے نصرت کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس کی مدد کرنا اپنی ذمہ داری قرار دی ہوئی ہے۔ جو اس کی مدد کرتا ہے ۔ یہ بھی تاکید کی جاتی ہے کہ جاہ طلبی اور حُبّ دنیا سے کنارہ کش رہے کیونکہ انسانی دل اس طرح بدی کی طرف لے جاتا ہے سوائے اس کے جس پر اللہ تعالیٰ رحم کرے۔

اے مالک تمہیں اس علاقے پر حاکم بناکر بھیجا جارہا ہے جہاں اس سے پہلے جابرانہ اور مُنصفانہ ہر طرح کی حکومتیں کام کرچکی ہیں۔ لوگ تمہارے کاموں کو بھی اسی طرح پر کھیں گے جس طرح تم اپنے حکام کو پرکھا کرتے تھے اور تم پر بھی اسی طرح تنقید کی جائے گی جس طرح تم تنقید کیا کرتے تھے۔ اچھا حاکم اپنی اس اچھی شہرت سے پہچانا جاتا ہے جو خدا تعالیٰ اس کے لئے لوگوں کے ذریعہ دنیا میں پھیلاتا ہے۔ تمہارا بہترین سرمایہ تمہارے اچھے کام ہیں۔اپنےجذبات کو ہمیشہ قابو میں رکھو اور کوئی ایسی بات یا حرکت نہ کرو جو خلاف قانون ہو۔ اپنا محاسبہ کرتے رہنے سے انسان کئی برے کاموں سے بچ جاتا ہے ۔ عوام سے محبت اور رحم کرنے کی عادت پیدا کرو اور ان سے درندوں کی طرح درشتی سے پیش نہ آؤ کیونکہ عوام یا تو تمہارے اسلامی بھائی ہیں اور اگر وہ مسلمان نہیں ہیں تو تمہارے جیسے انسان تو ضرور ہیں۔ ان سے کمزوریاں ہوسکتی ہیں وہ دانستہ یا نادانستہ غلطیوں کا ارتکاب کرسکتے ہیں، مگر پھر بھی ان سے اسی طرح رحم کا معاملہ کرو جس طرح تم چاہتے ہو کہ اللہ تعالیٰ تم سے رحم کا سلوک فرمائے۔ کیونکہ اللہ تمہارا ہی نہیں اس کا بھی حاکم و مالک ہے جس پر تمہیں حاکم مقرر کیا ہے۔

یہ خدا تعالیٰ کی طرف سے تمہاری آزمائش ہے کہ وہ دیکھے کہ تم عوام سے کس طرح پیش آتے ہو ۔خدا تعالیٰ کے مقابل آنے کی کبھی جسارت نہ کرنا کیونکہ نہ تو تم میں اس کی طاقت ہےاور نہ ہی اس کے رحم و کرم کے بغیر تم کچھ کرسکتے ہو۔

معافی اور درگزر پر کبھی نادم نہ ہو۔ غصہ اور جلد بازی میں کوئی کام نہ کرو۔ یہ نہ سمجھو کہ میں حاکم ہوں اور میری ہر بات ضرور مانی جائے۔ اس طرح دلوں میں الجھن اور مذہب میں کمزوری آجاتی ہے اور انسان تباہی کے کنارے پہنچ جاتا ہے۔ اگر تمہارا اختیار و حکومت تم میں فخر و غرور پیدا کرے تو خدا تعالیٰ کی عظمت کی طرف نظر ڈالو جس کے اختیار کی کوئی حد نہیں ہے اور تمہیں تو اس طرح کا اختیار اپنی ذات پر بھی نہیں ہے۔ یہ سوچنے سے تم اپنے غرور اور بد مزاجی پر قابو پاکر اعتدال اور عقل کی طرف واپس آسکو گے۔ اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کی طرح بڑایا اس کے برابر نہ سمجھو کیونکہ اللہ تعالیٰ مغرور و متکبر کو ضرور ذلیل کرتا ہے۔

ان لوگوں سے بھی انصاف اور برابری کا معاملہ کرو جو تمہارے نزدیکی اور مقرب ہیں اور جن کو تم پسند کرتے ہو۔ لوگوں کو بے جا دبانے اور ان پر ظلم کرنے والے کاخدا تعالیٰ دشمن ہو جاتا ہے اور جب اللہ تعالیٰ کسی کا دشمن ہو جائے تو اس کی بیخ کنی کردیتا اور اسے پامال کرکے چھوڑتا ہے۔ ظلم سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کے فضل و رحم سےمحرومی کا اور کوئی ذریعہ نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ مظلوم کی دعا سنتا ہے اور ظالم کا خود مقابلہ کرتا ہے۔ تمہارے لئے پسندیدہ طریق وہی ہے جو حق و انصاف پر مبنی ہو اور جسے عام لوگ پسند کریں کیونکہ مخصوص افراد کے دلائل عوام کی متفقہ پسند کے مقابل پر رد کئے جانے کے قابل ہوتے ہیں۔

ایک حاکم کے لئے وہ شخص درد سر بنا رہتا ہے جو مشکل میں مدد گار نہ ہو اور معقول طریق کو پسند نہ کرتا ہو ۔ حسن سلوک پر شکر گزار نہ ہوتا ہو اور کوئی وجہ اور دلیل نہ سمجھتا ہو اور قوت برداشت کم رکھتا ہو اور بے جا مطالبات کرنے کا عادی ہو۔

کسی جماعت کے عام آدمی ہی مذہب کے ستون، قوم کی طاقت اور دشمنوں کے خلاف دفاع کا ذریعہ ہوتے ہیں اس لئے تمہیں ہمیشہ ان کا خیال رکھنا چاہئے ۔ تمہارے لئے سب سے زیادہ ناپسندیدہ وہ شخص ہونا چاہئے جو لوگوں کی کمزوریوں کی ٹوہ میں لگا رہے کیونکہ لوگوں میں کمزوریاں تو ہوتی ہیں اور حاکم کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ ان کی پردہ پوشی کرے۔ تمہاری ذمہ داری تو صرف انہی امور کی اصلاح کی حد تک ہے جو سامنے اور ظاہر ہیں۔ پوشیدہ امور کو خدا تعالیٰ پر چھوڑ دو وہ جیسے چاہے سلوک فرمائے۔ لوگوں سے درگزر کا معاملہ کرو۔ اللہ تعالیٰ ان امور کے متعلق جو تم ظاہر نہیں کرنا چاہتے تمہاری پردہ پوشی فرمائے گا۔

نفرت اور دشمنی کی ہر گرہ کو کاٹ کر پھینک دو۔ جو بات پوری طرح واضح نہ ہو اس کے متعلق چشم پوشی کا طریق رکھو۔ کسی چغل خور کی بات ماننے میں جلدی نہ کرو کیونکہ چغل خور اگرچہ خیر خواہ نظر آتا ہے مگر وہ دھوکے باز ہے۔ کسی کنجوس کو اپنے مشیروں میں شامل نہ کرو۔ وہ تمہیں سخاوت سے محروم رکھے گا۔ نہ ہی کسی بزدل کو مشیر رکھو کیونکہ وہ کوشش کرے گا کہ تم اپنے آپ کو کمزور ہی سمجھتے رہو۔ کوئی لالچی بھی تمہارا مشیر نہیں ہونا چاہئے ۔وہ تمہیں ناجائز ذرائع سے مال جمع کرنے کی رغبت دلاتا رہے گا۔ کنجوسی، بزدلی اور لالچ اگرچہ تین مختلف برائیاں ہیں مگر ان تینوں کی وجہ سے خدا تعالیٰ کے متعلق بدظنی پیدا ہوتی ہے۔ اچھا مشیر وہی ہوسکتا ہے جو تمہارے سامنے سچ بات کہنے کی جرأت و صلاحیت رکھتا ہو اور وہ تمہارے رجحان کو دیکھ کر تمہارے ایسے کاموں کی تعریف نہ شروع کردے۔ جو اولیاء اللہ کی شان سے بعید ہوں۔ایسے لوگوں کی صحبت اختیار کرو جو خدا کا خوف رکھنے والے اور صداقت شعار ہوں اور انہیں یہ موقع نہ دو کہ وہ بلاوجہ تمہاری تعریف کرتے رہیں کیونکہ خوشامد تکبر پیدا کرتی اور راہ راست سے دور لے جاتی ہے۔‘‘

(عبدالباسط شاہد۔لندن)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 29 مئی 2020

اگلا پڑھیں

Covid-19 اپ ڈیٹ30۔مئی2020ء