• 20 اپریل, 2024

’’سیلابِ رحمت‘‘ از امۃ الباری ناصر

تعارف کتب

الفضل کا یہ ایک خاصہ ہے کہ مصنفین اس کے ذریعہ شائع ہونے والی اپنی تازہ تصنیفات کا تعارف کرواتے ہیں اگر آپ بھی ’’تعارف کتب‘‘ کے عنوان کے تحت اپنی تازہ تصنیف کا تعارف کروانا چاہیں تو کتاب کا ایک نسخہ بھجوادیں۔

(ایڈیٹر)

یہ تحریر مکرمہ امۃ الباری ناصربنت مکرم میاں عبدالرحیم (مرحوم) درویشِ قادیان اہلیہ مکرم ناصراحمد قریشی جنرل مینجر ٹیلی فون وٹیلی گراف کراچی (ریٹائرڈ) حال ڈیٹرائٹ مشی گن امریکہ کی ہے۔ آپ کا تعلق لجنہ اماء اللہ کراچی سے تھا۔ آپ نے ممبرات لجنہ کراچی کے ساتھ مل کر لجنہ کی تصنیفات میں رنگ بھرے۔ آپ ایک منجھی ہوئی شاعرہ ،نثرنگار اور ادیب بھی ہیں۔ آپ نے 22 کتب تصنیف کی ہیں جن میں نمایاں طورپر حضرت مفتی محمد صادق رضی اللہ عنہ، مرزا غلام قادر احمد خاندان حضرت مسیح موعود ؑ کا پہلا شہید اور زندہ درخت ہیں اور 22 ہی کتب مرتب کی ہیں جن میں نمایاں طور پر درثمین اردو مع فرہنگ ۔درثمین فارسی مع فرہنگ۔ کلام محمود مع فرہنگَ کلام طاہر مع فرہنگ ۔مضامین حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمٰعیلؓ ہیں اور دسیوں کتب کی اشاعت میں لجنہ کراچی کی مددگار بھی ثابت ہوئیں۔ آپ اور دیگر وفادارممبرات ہی کے مثالی تعاون کی بدولت لجنہ کراچی اتنے مختصر سےعرصہ میں کتب کی سنچری مکمل کرپائی ۔ شاید یہ سعادت آج تک دنیا بھر کی کسی اور لجنہ کے حصہ میں نہیں آئی۔

موصوفہ گوان دنوں شی گن امریکہ میںمقیم ہیںاوریہ کتاب انڈیا سے 1ہزار کی تعداد میں طبع ہوئی ہے۔لیکن موصوفہ نےاپنی اس کاوش کو لجنہ کراچی کی تصانیف ہی کا تسلسل قرار دیتے ہوئے اسے کتب کے دوسرے سویں کی پہلی تصنیف یعنی 101ویں تصنیف قرار دیاہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے اپنے ایک خط بنام مکرمہ صدر صاحبہ لجنہ کراچی میں ممبرات لجنہ کو ’’شہد کی مکھیاں‘‘ کے پیارے لقب سے نوازا تھا، تویہ کہنا بجا ہوگا کہ یہ تصنیف کراچی کی لجنہ کی شہد کی مکھیوں میں سے ایک مکھی کی تصنیف ہے۔ جس طرح شہد کی مکھیاں اپنی ملکہ کے تابع رہ کر اس کی مکمل نگرانی میں ’’شفاء للناس‘‘ تیار کرتی ہے۔ اسی طرح مکرمہ امۃ الباری ناصر نے خلافت کے تابع رہ کر اس کی رہنمائی میں روحانی و علمی غذا تیار کی ہے۔جیساکہ موصوفہ نےانتساب میں لکھا ہے۔ ؎

حقیر کاوش کا سارا حاصل کیا خلافت کے نام میں نے
اسی کے سائے میں لمحہ لمحہ سکون پایا مدام میں ہے

آپ ان دنوں ’’النور‘‘ امریکہ کی مدیر اعلیٰ بھی ہیں۔ جب محترمہ نے مجھے یہ کتاب بھجوائی تو کتاب کا نام ’’سیلاب رحمت‘‘ بظاہر انجاناسا لگامگر جب خاکسار نے اس نام پر غور شروع کیا تو آہستہ آہستہ یہ نام اپنے وسیع تر مفہوم کے اعتبار سے دل کو بھاتا گیا اور پسند آنے لگا۔ لیکن جب خاکسار نےاس تصنیف کی ورق گردانی کی تو یہ عقدہ کھلا کہ اس کتاب کا نام آج سے 25-22 سال قبل حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے موصوفہ کو تحریر فرما دیا تھا اور لکھا تھا۔ ’’نمی کا عکس‘‘ عنوان بھی آپ نے خوب چنا ہے۔ اس کے بعد آنے والے مجموعہ کلام کا عنوان تعجب نہیں کہ ’’سیلاب رحمت‘‘ ہو۔

(صفحہ 238)

موصوفہ نے نہایت عرق ریزی اور محنت سے مگر بلاغت و فصاحت کے ساتھ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کے وہ تمام خطوط اس 408صفحات پر مشتمل کتاب میں اکٹھے کر دئیے ہیں جو صدر صاحبہ لجنہ کو اشاعت کے حوالہ سے آئے یا ان کے نام براہ راست آئے۔ عمومی طور پر انسان اپنے نام خلیفۃ المسیح کے ذاتی خطوط کی اشاعت میں حجاب محسوس کرتا ہے مگر موصوفہ نے نہایت مہارت اور حسن کے ساتھ ان تمام تاریخی دستاویزات کو جمع کردیا ہے جن سے خلفائے کرام کی شفقت و محبت اور قدردانی کا پہلو نمایاں ہو اور اپنی عاجزی کا بھرم بھی رہ جائے۔

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع کی طرف سے ستائشی دُعائیہ و تعریفی کلمات ہی دراصل ایک احمدی کا سرمایہ حیات ہوتے ہیں۔ موصوفہ نے اپنے تمام سرمایہ حیات کو اس کتاب میں جمع کردیا ہے حیرت ہوتی ہےکہ کس طرح خلیفہ ٔوقت کی دعائیں، حوصلہ افزائی اور خراج تحسین قوت کار کو بڑھادیتی ہے۔

حضرت خلیفۃالمسیح الرابع رحمہ اللہ کےموصوفہ کوتحریرفرمودہ چندکلمات دیکھئے۔ فرماتے ہیں۔

  • ’’احمدی شعراء کو اللہ تعالیٰ نے سچائی کی تجوری بخشی ہے اور سچائی ہی ان کے کلام کو ایک امتیازی حسن بخشتی ہے۔ آپ کا کلام بھی اس منبع حسن سے بہرہ ور ہے۔‘‘

(صفحہ 240)

  • ’’بعض اشعار تو پھولوں کی طرح کھلے ہوئے ہیں اور رنگ و بو بھی بہار کی سی رکھتے ہیں۔ یہ کلام پڑھتے ہوئےدل کی دل تک جو خیالات کی ہجرت دیکھی ایک بہت پُر لطف نظارہ تھا۔‘‘

(صفحہ 246)

  • ’’میں نے سوچا تھا کہ اس غیر متوقع اچانک خوشی پر باری اور ناصر جب خوش ہوں گے تو میرا دل بھی طمانیت سے بھر جائے گا۔‘‘
  • ’’آج میں آپ کا نواسہ دیکھنے آپ کی بچی کے گھر گیا تھا۔بہت مزہ آیا۔ ماشاء اللہ دونوں بہت خوش ہیں۔ اپنے اپنے آرٹ سے اپنا گھر سجایا ہوا ہے۔ اب جو مشترکہ آرٹ کا نمونہ بیٹے کی صورت میں تخلیق ہوا ہے وہ ماں باپ دونوں کی دلکش آمیزش سے تخلیق پایا ہے۔‘‘

(صفحہ 328)

  • ان کے بھتیجے مکرم آصف محمود باسط کے نام ایک خط میں حضور رحمہ اللہ نے تحریر فرمایا۔

’’ان کے کلام کی انفرادیت اور جذب و اثر، یہ ایسی باتیں ہیں جو خود ہی مجھ سے تقاضاکرتی ہیں کہ کبھی کبھی ان کی حوصلہ افزائی کروں جوان کی سکینت کاموجب بنے۔‘‘

الغرض یہ کتاب قارئین کے علم و عرفان اور ایقان میں ترقی کا باعث ہوگی اور اس بات پر رشک بھی آئے گا کہ کس طرح ایک خادم کا بے لوث تعلق حضرت خلیفۃ المسیح سے ہونا چاہئے اور پھر حضرت خلیفۃ المسیح کس طرح دعاؤں سےاس کایادگار Return بھی عنایت کرتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ مصنفہ کے علم و عرفان میں ترقی عطا کرتا چلا جائے اور یہ کتاب بہتوں کی روحانی و علمی پیاس بجھانے کا موجب ہو۔

خلافت سے پیار و عقیدت کا محترمہ کا یہ عالم ہے کہ آپ نے اپنی شادی پرا پنے ابا سے جہیز کی یوں فرمائش کی۔ ؎

ابا مجھے جہیز میں کچھ بھی نہ دیجئے
چاندی نہ دیجئے مجھے سونا نہ دیجئے
بستر نہ دیجئے صوفہ نہ دیجئے
سب چھوڑ کے بس ایک ڈش انٹینا دیجئے

اور مکرم منیر احمد جاوید پرائیویٹ سیکرٹری حضور اقدس لندن نے اس کتاب پر جو ریویو تحریر فرمایا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے اور لاجواب ہےکہ ریویو بھی موصوفہ کے قدوقامت میں اضافہ کا موجب ہوگا یہ بھی کتاب کے آغاز میں کتاب کا حصہ ہے۔

(ابو سعید)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 29 مئی 2020

اگلا پڑھیں

Covid-19 اپ ڈیٹ30۔مئی2020ء