• 25 اپریل, 2024

میرے والد حکیم میاں غلام حسین کی قبولِ احمدیت

خاکسار کے والد حکیم میاں غلام حسین (ولد حافظ حاجی میاں حبیب اللہ) 1904 ء میں لالیاں کے قریبی گاؤں مل سپرا میں پیدا ہوئے اور ایک کٹر مذہبی خاندان سے تعلق رکھتے تھے جو احمدیت کے بارہ میں خاصا متعصب تھا، والد صاحب کے پاس دو مولوی صاحبان آیا کرتے تھے، ایک احمدی مولوی تھے جن کا نام مولوی محمد ابراہیم آف چوڑاں والا ضلع شیخوپورہ تھا اور دوسرے غیر احمدی مولوی محمد حسین تھے۔ مولوی محمد حسین انبیاکی عصمت پر ناپاک حملے کرتے اور گندے الزامات لگایا کرتے اور کہا کرتے تھے کہ یہ قرآن کریم سے ثابت ہیں مثلاً سورہ یوسف میں ولقد ہمت بہ وھم بھا لو لا ان رابرھان ربہ (یوسف: 25) یعنی زلیخا نے برائی کا ارادہ اور کوشش کی اور حضرت یوسف ؑ نے بھی برائی کا ارادہ اور کوشش کی (نعوذ باللہ)۔ احمدی مولوی محمد ابراہیم فرمایا کرتے تھے کہ زلیخا نے برائی کا پختہ ارادہ و کوشش کی مگر حضرت یوسف ؑ نے اس سے بچنے کا ارادہ اور کوشش کی اور بچ گئے، الغرض کوششیں دونوں نے کیں، ایک نے منفی اور دوسرے نے مثبت، گویا اُن دونوں کی کوششیں متضاد تھیں۔ دیگر موضوعات کے علاوہ بطور خاص عصمتِ انبیا پر ناپاک حملے، حضرت سلیمانؑ کا واقعہ اور دیگر ایسے واقعات بھی زیرِ بحث آتے تھے، الغرض قرآن پاک کی پاک تعلیم پر ناپاک حملے اور احمدی مولوی صاحب کی طرف سے ان کا مضبوط دفاع اکثر یہی عنوانات زیرِ بحث رہتے تھے، والد صاحب مولوی ابراہیم صاحب کی باتوں سے بہت متاثر ہوتے تھے اور اپنوں کے سامنے اعتراف کیا کرتے تھے کہ یہ صاحب کتنے پاکیزہ نظریات و خیالات انبیا اور قرآن کریم کے بارہ میں رکھتے ہیں مگر بد قسمتی یہ ہے کہ ہیں مرزائی کاش کہ مرزائی نہ ہوتے! مولوی ابراہیم ملہم من اللہ بزرگ تھے انہوں نے ایک ڈائری بنائی ہوئی تھی جس میں اپنے الہامات و مکاشفات درج کیا کرتے تھے بقول والد صاحب اُن کے کئی الہامات و کشوف انہوں نے اپنی آنکھوں کے سامنے پورے ہوتے دیکھے، والد صاحب مولوی صاحب کی پاکیزہ شخصیت روحانیت اور تقویٰ سے بےحد متاثر ہوتے تھے مگر ساتھ ساتھ حیران بھی ہوتے تھے کہ ایسا سچا اور کھرا انسان گمراہ کیسے ہو سکتا ہے؟ جیسا کہ ایک حدیث ِ مبارکہ کا مفہوم کچھ یوں ہے کہ ایک صحابی رسول ﷺ نے سوال پوچھا کہ آیا قبولِ اسلام سے قبل میری کی گئی نیکیوں کا مجھے بدلہ ملے گا؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہ انہی نیکیوں کا بدلہ ہی تو ہے کہ خدا نے تمہیں قبولِ اسلام سے نوازا۔

جوانی سے ہی والد صاحب پکّے نمازی، گرمیوں میں بھی مسلسل کئی کئی ماہ کے نفلی روزے رکھنے والے اور بکثرت قرآن کریم کی تلاوت کرنے والے تھے، درود شریف کو بڑے التزام سے پڑھنے والے صاحبِ کشوف، نعت خوان، امام الصلوۃ، ذکرو اذکارودرس و تدریس ان کا مشغلہ رہتا تھا مگر احمدیت کے بارہ میں تعصب و انقباض بھی ساتھ ساتھ چلتا تھا، بتایا کرتے تھے کہ قبل از قبولِ احمدیت کی بعض نیکیوں میں سے کوئی نیکی خدا نے از راہِ نوازش و امتنان قبول کرکے اس کے بدلہ میں احمدیت کی عظیم نعمت سے انہیں نوازا، والد صاحب نے طبی تعلیم کے حصول کا آغاز شاہدرہ لاہور سے کیا، حکیم میاں احمد دین موجد طبِ جدید آپ کے استادِاوّل تھے ان کی تبحرِعلمی سے ایک دنیا واقف ہے ’’کلیات طبِ جدید‘‘ ان کی مایہ ناز تصنیف ہے۔ ہمارے والدصاحب ہمارے خاندان میں پہلے احمدی تھے جنہیں اس پُر تعصب مذہبی تنگ نظری کے ماحول میں قبولِ احمدیت کی توفیق ملی۔ جیسا کہ اوپر مذکور ہوا ہے ہمارا خاندان مذہبی اور علمی خصوصا دینی علم سے متصف تھا، خاکسار کے بردارِ اکبر محمد یوسف مرحوم، قرآن کریم کے حافظ، والد صاحب مرحوم حد درجہ خوش الحان قاری قرآن کریم، خاکسار کے دادا حافظِ قرآن اورحاجی تھے جبکہ اُس زمانہ میں حج آج کی طرح سہل و آرام دہ نہ تھا بلکہ انتہائی پُر خطر سفرِ حج ہوا کرتا تھا اور عازمِ حج کو لواحقین بھول جایا کرتے تھے۔

؎ پھر ملیں گے اگر خدا لایا

میرے دادا کے والدحافظِ قرآن، اُن کے والد حافظِ قرآن، پھر اُن کے والد بھی حافظِ قرآن، اس طرح ہمارے معلوم چھ آباءو اجدادمسلسل حافظِ قرآن تھے جبکہ اس سے قبل کا علم نہیں۔ پھر قرآنِ کریم کی تدریس ان کا معمول تھا انہوں نے دینی علوم کی تحصیل و ترویج کو دنیا داریوں کے حصول پر ترجیح دی اور غریبی اور سادگی میں زندگیاں گزاریں، ہمارے ساتویں دادا حافظ بختاور لالیاں، ضلع چنیوٹ کے کہانہ تھیں قبرستان میں مدفون ہیں، جب ہمارے والد صاحب نے دسمبر1946ء کے جلسہ سالانہ قادیان میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ کے دستِ مبارک پر بیعت کی اور مشرف بہ احمدیت ہوئے تو گھر آکر ہماری والدہ صاحبہ کو بتایا اور پوچھا کہ تمہارا کیا خیال ہے؟ ہماری والدہ صاحبہ نے بلا تامّل کہا کہ میں بھی احمدیت قبول کرتی ہوں، والد صاحب علاقہ کے نامی گرامی طبیب تھے اور قرآن کریم بھی پڑھایا کرتے تھے، قرآن کریم بہت دلنشین انداز میں پڑھا کرتے تھے، جب نماز پڑھاتے تو مقتدین سرور اور لذت میں جھوم جھوم جاتے اور بعد ازاں عش عش کراٹھتے تھے، والد صاحب کے خاندان کے دیگر احباب اور بزرگ بھی صدیوں سے دینی استاد مانے جاتے تھے لہٰذا والد صاحب کے قبولِ احمدیت کے نتیجہ میں علاقہ میں ایک شور بدتمیزی برپا ہو گیا کہ ہمارا تو امام ہی ’’بے ایمان‘‘ ہوگیا، ’’کافر‘‘ ہوگیا وغیرہ وغیرہ۔ مخالفت دن بدن بڑھتی گئی، لالیاں شہر کے اندر جلسے جلوس بھی نکلے علاقہ کے رئیس نے ایک دن جبکہ والد صاحب اپنے کلینک میں بیٹھے ہوئے تھے خود آکر دھمکی دی کہ تمہارے ساتھ ہم ’’نبڑ‘‘ لیں گے، والد صاحب کا ایک قریبی دوست جو پہلوانی کرتا تھا، نے اُنہیں بتایا کہ آج رات تمہارے اوپر قاتلانہ حملہ ہونے والا ہے جو علاقے کا رئیس کروا رہا ہے، میں مجبور ہوں کوئی مدد نہیں کر سکتا صرف پیشگی خبر دے سکتا ہوں اور دے دی ہے اپناخود ہی کوئی بندوبست کر لو، لالیاں میں ہمارے بہت سارے قریبی رشتہ دار تھے، دیگر دوست احباب بھی تھے جو اکثر مخالف ہو چکے تھے چند جو موافق تھے وہ اس مشکل گھڑی میں کام آنے کی طاقت نہیں رکھتے تھے۔ چنانچہ اسی رات 1952ء میں والد صاحب پر قاتلانہ حملہ ہوگیا، خدا نے والد صاحب کو بال بال بچا لیا اور حملہ آور ڈر کے بھاگ گئے جو کہ الٰہی تصرف تھا، خاکسار اس وقت چھ سال کا تھا اور دوسرے دو بھائی بڑے تھے۔ والد صاحب نے مرکز یعنی ربوہ میں بزرگان ِ سلسلہ اور دفاتر سے رابطہ کیا تو ہدایت ملی کہ آپ ربوہ یا احمد نگر شفٹ ہو جائیں، لالیاں میں آپ محفوظ نہیں ہیں۔ پس ہم احمد نگر منتقل ہو گئے، اگروالد صاحب احمدی نہ ہوتے تو آج ہم بھی احمدیت کی نعمت سے محروم ہوتے، وہ سخت پکے نمازی تھے، ہم سب بہن بھائیوں کو بفضل ِخدا پکا نمازی بنایا، قرآن کریم سے حد درجہ محبت تھی، ہمارے بڑے بھائی کو حافظِ قرآن کریم بنایا،قرآن کریم کی لمبی تلاوت کیا کرتے تھے اس کا شوق وشغف ہم میں پیدا کیا، والد صاحب نہایت نفیس الطبع، خوش پوش تھے کلف والی پگڑی اور اعلیٰ لباس زیبِ تن کرتے تھے اور علاقے میں مریضوں کو دیکھنے جانے کیلئے اعلیٰ نسل کی قیمتی گھوڑی رکھتے تھے اسی وجہ سے گھوڑے والے مشہور تھے، اُس زمانہ میں مریضان دور افتادہ علاقوں سے بھی والد صاحب کے پاس بغرضِ علاج آیا کرتے تھے مثلاً میرن شاہ، ٹل، ٹانک، وزیرستان، افغانستان وغیرہ سے،اُس علمی تاریکی کے دور میں والد صاحب اور ہمارے بزرگان نے علم کی شمعیں روشن کیں اور حصول دنیا سے کنارہ کش رہے اور فقیری اور درویشی کی زندگی کو تمول پر ترجیح دی، والد صاحب کی وفات 13جنوری 1985ء کو 81 سال کی عمر میں ہوئی۔

آسماں اُن کی لحد پہ شبنم افشانی کرے
اے خدا بر تربتِ اُ وابر رحمت ہا ببار

اللہ تعالیٰ والد صاحب مرحوم کو جنت الفردس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور اُن کے درجات بلند فرماتا رہے، آمین، آج ہم اپنے والدین و دیگر مرحومین کی روح کے ایصالِ ثواب کیلئے چندہ جات کی توفیق پا رہے ہیں مثلاً چندہ تحریک جدید، وقفِ جدید کے علاوہ چندہ مساجد ممالکِ بیرون، بیوت الحمد منصوبہ، مریم شادی فنڈ، سیدنا بلال فنڈ، حفظ قرآن، کفالت یک صد یتامیٰ، امداد مریضان، امداد طلبا، امانت تریبت وغیرہ، خدا کرے کہ یہ توفیق ہمیں اور ہماری آئندہ نسلوں کو تاقیامت عطا ہوتی رہے۔ آمین


(ہومیو ڈاکٹر نذیر احمد مظہر، کینیڈا)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 29 مئی 2020

اگلا پڑھیں

Covid-19 اپ ڈیٹ30۔مئی2020ء