وعدے کر کے مشکل کیوں پھر ان کو نبھانے ہو جاتے ہیں
لوگ محبّت کرتے ہیں پھر خود انجانے ہو جاتے ہیں
جیون ایسی راہگزر ہے جس پر چلنا مشکل ہے
چلتے چلتے رُکنے کے بھی لاکھ بہانے ہو جاتے ہیں
ہم جیسوں کو علم کتابوں سے ہی پڑھنا پڑتا ہے
قاضی کے گھر کے بچے تو آپ سیانے ہو جاتے ہیں
کہتے کہتے شعروں کو بنتے ہیں غزل اپنی ، شاعر
لکھنے والے لکھتے لکھتے خود افسانے ہو جاتے ہیں
ستّاری کا پردہ رکھ کر بات کیا کر اپنوں سے
ورنہ مشکل ، لوگوں سے پھر ، عیب چھپانے ہو جاتے ہیں
روشن دن کو سورج رکھے، رات جو آئے چاند کھلے
اُترا جب تک نُور نہ ہو تاریک زمانے ہو جاتے ہیں
طارق اس سنسار کی رِیت سمجھ کر من کو سمجھا لے
لوگ نئے آتے ہیں جب کچھ لوگ پرانے ہو جاتے ہیں
(ڈاکٹر طارق انور باجوہ۔ لندن)