• 16 اپریل, 2024

اِنَّا لِلّٰہِ پڑھنے کے ثمرات

ہم نے جس معاشرہ میں تر بیت پائی یعنی ربوہ دارالہجرت میں۔ وہاں ہمارا معاشرہ اُ ٹھتے بیٹھتے ہماری خاموش تر بیت کر رہا ہوتا تھا۔ مجھے ربوہ کے 1950ء اور اُس سے دو ایک سال بعد کے حالات کا علم ہے، ایسا پاکیزہ معاشرہ تھا کہ الفاظ اُس کے بیان سے قاصر ہیں ۔ چھوٹی چھوٹی باتیں ہر وقت ہمارے کانوں میں پڑتی رہتی تھیں۔ اُن کا اُس عمر میں (7۔8 سال کی عمر میں) ہم پر کیا اثر ہوتا تھا شاید ایک بچہ بیان کر سکے یا ناں۔ لیکن ان باتوں کا اُس کے لا شعور پر لازماً اثر ہوتا ہوگا۔ مثلاً جس چھوٹے بڑے سے ملو انہیں سلام کریں۔ کوئی چیز کسی سے لیں تو دائیں ہاتھ سے لیں اور دائیں ہاتھ سے دیں۔ اور لیتے ہوئے جَزَاکَ اللّٰہُ کہیں۔ بچے مغرب کی نماز ضرور مسجد میں ادا کریں اور اپنے باپ یا بڑے بھائی کے ساتھ جائیں مسجد میں اگر مغرب کے بعد مربی اطفال کی کلاس لیں تو اس میں شریک ہوں سارا ربوہ ایک چھوٹے سے محلہ کی طرح تھا۔ وہاں شروع میں صرف ایک مسجد۔ کچے قصر خلافت کے ساتھ ریلوے لائن سے اِس طرف ہوتی تھی۔ مغرب کے بعد ہمیں گھر سے باہر جانے کی اجازت نہ تھی۔ اگر کسی سے کوئی چیز اِدھر اُدھر رکھی جاتی یا گُم ہو جاتی تو سب اِنا للہ پڑھتے تھے اور ہمیں بھی یہی سبق تھا۔

اِ نَّا لِلّٰہِ! کے بارہ میں اور اس کی حیرت انگیز تا ثیر کے متعلق دو واقعات جس کا میں شاہد ہوں ہدیہ قارئین کرنا چاہتا ہوں ۔

ایک واقعہ 1970ء کا ہے میرے ایک عزیز دوست جو مجھ سے بھائیوں کی طرح محبت کرتے تھے یعنی چوہدری بشیر اصغر باجوہ صاحب نے مجھے کہا کہ میرے ایک دوست امریکہ سے آ رہے ہیں، وہاں polaroid Camera بر طانیہ کے مقابلہ میں کافی سستا ملتا ہے منگوانا ہو تو میں ان سے کہہ کر منگوا سکتا ہوں۔ مَیں نے یہ کیمرا منگوالیا ۔ شاید اس کی قیمت 20 یا 25 پونڈ کے برابر تھی جو خاکسار نے ادا کردی۔ احباب کو یہ علم ہوگا کہ اس کیمرہ کا حُسن یہ ہے کہ 30۔40 سیکنڈ میں تصویر بنا دیتا ہے۔

خیر اس سال جب سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؓ افریقہ سے واپس تشریف لائے اور لندن میں حضور نے چند ہفتے قیام فر مایا تو شمع کے پروانے سارے یورپ سے لندن آ گئے ایک دفعہ کبا بیر سے عودہ فیملی کے ایک بزرگ اور مکرم مسعود احمد صاحب مشن ہاؤس کے لان (lawn) میں کھڑے تھے۔ باہم محوگفتگو تھے کہ میں نے کہا کہ ذرہ میری طرف توجہ کریں۔ آپ کی ایک تصویر بنالوں۔ مَیں نے اپنے کیمرہ سے تصویر بنالی۔ اور ذرہ سے وقفہ کے بعد ان سے اوجھل ہو کر تصویر نکال لی۔ بہت خوبصورت تصویر تھی۔ جب عودہ صاحب نے تصویر دیکھی تو سخت حیرت زدہ ہو گئے کہ چند سکینڈ میں تصویر کیسے بن گئی اور بار بار کہتے تھے۔ ھٰذَآ اِعْجَازٌ ۔ ھٰذَآ اِعْجَازٌ۔ کہ یہ تو معجزہ ہے۔ خیر انہوں نے اُسی وقت لندن سے اُس کے ساتھ کا پولے رائڈ کیمرہ خرید لیا۔ بڑے صاحب حیثیت تھے۔ آمدم بر سر مطلب۔ حضورؒ نے محمود ہال (لندن) کا افتتاح فرمانا تھا۔ لیکن اُس کے سٹیج کی تعمیر کا کام ابھی جاری تھا۔ وقتی طور پر قالین ڈال کر۔ پوچا پھیر دیا گیا تا کیمرہ کی آنکھ یہ کمی نمایاں نہ کر سکے۔ خیر افتتاح ہوا۔ بڑی رونق تھی۔ اس گہما گہمی میں عودہ صاحب کا کیمرہ گُم ہو گیا۔ اب ایک طرف حضور پُر نور کے ساتھ ہماری مصروفیات ۔ دوسری طرف یہ خیال کہ مکرم عودہ صاحب کیا سوچیں گے کہ کیمرہ کون لے گیا۔ چند دوستوں سے خاکسار نے کہا تلاش کریں لیکن کامیابی نہ ہوئی۔ مَیں نے عودہ صاحب سے کہا اِ نَّا لِلّٰہِ پڑھیں کیمرہ مل جائے گا کہنے لگے کہ ’’اِ نَّا لِلّٰہِ‘‘ تو اُس چیز پر پڑھتے ہیں جو ہمیشہ کے لئے رخصت ہو جائے۔ میں نے تو اِ نَّا لِلّٰہِ نہیں پڑھنا‘‘۔ دو ایک دن تک کیمرہ نہ ملا تو میں نے کہا کہ اب آپ میرے کہنے پر اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ پڑھ کر اس کی تاثیر بھی دیکھ لیں۔ انہوں نے میرے اصرار پر سخت مایوسی اور بد دلی کے ساتھ اِ نَّا لِلّٰہِ بادِل نخواستہ پڑھ ہی لیا۔ اب خدا تعالیٰ کی شان ِکریمی دیکھئے۔ دوستوں کو میں یاد دلا رہا تھا کہ ایک مہمان عرب کا کیمرہ ہے کیمرہ تلاش کریں۔ وہ کہیں یہ تاثر نہ لے کر جائیں کہ کسی احمدی نے کیمرہ اُ ٹھا لیا ہے۔ تیسرے چوتھے دن ایک دوست میرے پاس وہ کیمرہ لے کر آ گئے۔ کہنے لگے کہ میں نے سوچا کہ جو قالین کے ٹکڑے اسٹیج کے سامنے ڈال کر وہ حصہ چھپایا ہوا تھا وہ چیک کریں۔ مَیں نے قالین اُ ٹھا کر دیکھا تو سامنے اسٹیج کے نیچے یہ کیمرہ پڑا ہوا تھا۔ مَیں نے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا اور عودہ صاحب کو کیمرہ دیا تو ان کا مُنہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔ مَیں نے اُنہیں بتایا کہ افتتاح کے موقع پر آپ نے اسٹیج پر کیمرہ رکھ دیا تھا۔ منتظمین نے حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کی آمد کے موقع پر اُٹھا کر نیچے رکھ دیا اور سامنے قالین کے ٹکڑے بچھا دئے۔ الحمد للہ۔ احمدی چوری نہیں کرتے غلطی آپ سے ہوئی اور آپ بے جگہ کیمرہ چھوڑ کر بھول گئے۔

دوسرا واقعہ

جو اِ نَّا لِلّٰہِ کی تاثیر کا حیرت انگیز ہے۔ جس کا سوچ کے میں خود حیران ہو جاتا ہوں۔ 2001ء میں سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے میری بیٹی قرةالعین سے فر مایا کہ تم نے جلسہ سالانہ جرمنی میں میرے ساتھ شریک ہونا ہے اور عَلَیْکَ الصَّلٰوةُ عَلَیْکَ السَّلَامُ والی نظمیں لجنہ کے اجلاس میں میری تقریر سے قبل پڑھنی ہے۔ خیر ہم نے جلسہ میں شرکت کی۔ بیٹی کی نظم نے ہمیں بھی زندہ جاوید کر دیا ۔ دوسرے دن بیٹی کی نظم تھی ۔ ہم فرینکنتھال (Frankenthal) جرمنی میں ٹھہرے ہوئے تھے۔ وہاں میری بڑی بہن مکرمہ امینہ خالد صاحبہ اور بہنوئی مکرم نعیم اللہ خالد صاحب کے ہاں ہمارا قیام تھا۔ جلسہ کے آخری دن ہم رات کو ٹیکسی پر دیر گئے Frankenthal پہنچے۔ سوئے اتفاق کہ اندھیرے کی وجہ سے میری بیٹی کو اپنا پرس نظر نہ آیا اور پرس وہیں ٹیکسی میں رہ گیا۔ اس میں بیٹی کا زیور اور ہماری حیثیت کے مطابق کافی بڑی رقم موجود تھی۔ گھر پہنچنے کے کچھ دیر بعد کوئی چیز نکالنے کے لئے پرس کی ضرورت پڑی تو یاد آیا کہ پرس تو ٹیکسی میں رہ گیا ہے۔ اب ٹیکسی اسٹینڈ تو وہاں کئی تھے۔ کہاں فون کرکے پوچھیں؟ خاکسار نے کہا چلیں پہلے مغرب و عشا کی نمازیں پڑھتے ہیں اور خدا تعالیٰ کے حضور دعا کرتے ہیں۔ نماز میں مَیں نے وہ آیت پڑھی جس میں ذکر ہے کہ جب مومنوں کا کوئی نقصان ہوجاتا ہے تو وہ نقصان پر اِ نَّا لِلّٰہِ پڑھتے ہیں۔ اَلَّذِیۡنَ اِذَاۤ اَصَابَتۡہُمۡ مُّصِیۡبَۃٌ ۙ قَالُوۡۤا اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ۔

نماز کے بعد دل کو ڈھارس ملی اور تسلی ہوئی۔ میرے بہنوئی نعیم صاحب نے کہا کہ مجھے لگتا ہے کہ یہ ٹیکسی فلاں اسٹینڈ کی تھی۔ میری ہمشیرہ نے اُس اسٹینڈ کو فون کیا اور پرس ان کی کسی ٹیکسی میں بھول جانے کا ذکر کیا۔ تو ٹیکسی اسٹینڈ والوں نے توجہ نہ کی۔ ا ُس کے بعد جب بھی فون کیا۔ اب اُن کے پاس ہمارا نمبر آ چکا تھا انہوں نے جواب دینا بند کر دیا۔ اس سے ہمیں یقین ہو گیا کہ ہمارا پرس انہی کے پاس ہے۔ اس کے بعد میری بہن نے ہمارے ایک موبائل سے فون کیا تو وہ یہ سمجھے کہ کسی کسٹمر Customer کا فون ہے انہوں نے فون اُ ٹھا لیا۔ اس پر میری بہن نے انہیں کہا کہ وہ پولیس کو فون کر رہی ہیں۔ اور یہ کہ ہمارا خیال ہے کہ پرس آپ کے پاس ہے۔ چنانچہ پولیس کو اطلاع کر دی گئی۔

خیر رات گزر گئی۔ اگلے دن صبح 8۔9 بجے ہمیں پولیس اسٹیشن سے فون آیا، کہ انہیں کسی جگہ سے ایک پرس ملا ہے۔ آپ پولیس اسٹیشن آکر ملیں۔ خیر ہم وہاں گئے انہوں نے پرس کے Contents کے بارہ میں سوال کئے۔ کہ اس میں کیا کیا چیزیں تھیں۔ کرنسی کس کس ملک کی تھی، زیور کون کون سا تھا۔ جب تسلی ہو گئی تو انہوں نے پرس لا کر دیا اور بتایا کہ ایک پارک میں انہیں یہ پرس ملا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ جب ٹیکسی اسٹینڈ کو یقین ہوگیا کہ اب معاملہ الجھ گیا ہے اور اگر پرس ان کے ہاں سے نکل آیا تو انہیں اس جرم کی سزا ہو سکتی ہے تو انہوں نے ٹیکسی ڈرائیور سے کہا کہ یہ پرس کسی جگہ پھینک آؤ تا ہم پولیس کی گرفت میں نہ آ جائیں۔ اور یوں اِ نَّا لِلّٰہِ پڑھ کر حضورِ دل سے دعا کریں۔ یہ سبق اپنے بچوں کو بار بار دیں کہ اس پر ان کا عمل پختہ ہو جائے تا ان کا ایمان اللہ تعالیٰ کی ذات پر مستحکم ہو جائے۔ آمین

(مولانا لئیق احمد طاہر۔مربی سلسلہ انگلستان)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 29 جولائی 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 30 جولائی 2021