• 19 اپریل, 2024

’’ہر ایک کو اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے‘‘

ہمارے موجودہ امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ اپنے خطبات، خطابات، تقاریر اور گفتگو میں اپنے جائزے لینے کے حوالہ سے کثرت سے نصیحت فرماتےہیں۔ کبھی ’’پس اپنے جائزے لیں‘‘ کبھی ’’اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے‘‘ اور کبھی ’’ہمیں اپنے جائزے لینے چاہیں‘‘ کے الفاظ استعمال فرماتے ہیں۔

خاکسار ایک لمبے عرصہ سے حضور کے ان الفاظ کی روشنی میں آرٹیکل لکھنے کی کوشش میں تھا۔ مگر یہ سوچ کر کہ حضور جس درد دل کے ساتھ احباب جماعت کو اپنے جائزے لینے کی طرف توجہ دلاتے ہیں نجانے اس مضمون کا حق ادا کر پاؤں گا یا نہیں۔ ایک دفعہ میں نے یہ سوچا اور اس حوالہ سے کوشش بھی کی کہ پیارے حضور نے جہاں جہاں جائزے لینے کا ذکر فرمایا ہے ان کو قارئین کے استفادہ کے لئے اکٹھا کردوں۔ لیکن اس اثناء میں اخبار الفضل کی ایک قاری مکرمہ عطیۃ المصور نے ’’پس اپنے جائزے لیں‘‘ کے عنوان پر کچھ تحریر کرکے میرے لئے آسانی پیدا کردی اور رہنمائی کے لئے ایک لائین استوار کردی۔ محترمہ موصوفہ کا یہ آرٹیکل مورخہ 18 اگست 2020ء کے شمارہ میں شامل اشاعت ہوا ہے جس میں موصوفہ نے غیبت چغلی کے حوالہ سے احادیث کی روشنی میں قارئین کو توجہ دلائی ہے۔

آئیں! سب سے پہلے جائزہ کے لغوی معنی دیکھیں۔ یہ لفظ ’’محاسبہ‘‘ کا مترادف ہے۔ جس کے معنی جانچ، پڑتال، حساب کتاب کرنا، اپنے آپ کو ذہن میں تولنا کے ہیں۔ امتحانی نتائج کی شیٹ کو بھی جائزہ شیٹ بولا جاتا ہے۔ یہ لفظ جائزہ لینا اور جائزہ دینا دونوں معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔
اپنا جائزہ لینا اور محاسبہ کرنے کا مضمون ہمیں قرآن وحدیث میں بکثرت ملتا ہے۔ قرآن کریم سورہ بقرہ کی آخری دعائیہ آیات سے قبل ایک مومن کو اس کے اعمال کے حوالے سے اللہ تعالیٰ نے فرمایا یُحَاسِبۡکُمۡ بِہِ اللّٰہُ کہ اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال کے حوالے سے تمہارا محاسبہ کرے گا۔ اس لئے ایک مومن کو ہر لمحہ اپنا محاسبہ و جائزہ لیتے رہنا چاہیے کیونکہ انسان غلطیوں کا پُتلا ہے بعض خطائیں نادانستہ ہو جاتی ہیں۔ اسی وجہ سے اس محاسبہ کے ذکر کے معاً بعداللہ تعالیٰ نے مومنین کو یہ دعا سکھلائی رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذۡنَاۤ اِنۡ نَّسِیۡنَاۤ اَوۡ اَخۡطَاۡنَا ۚ رَبَّنَا وَ لَا تَحۡمِلۡ عَلَیۡنَاۤ اِصۡرًا کَمَا حَمَلۡتَہٗ عَلَی الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِنَا ۚ رَبَّنَا وَ لَا تُحَمِّلۡنَا مَا لَاطَاقَۃَ لَنَا بِہٖ ۚ وَ اعۡفُ عَنَّا ٝ وَ اغۡفِرۡ لَنَا ٝ وَ ارۡحَمۡنَا ٝ اَنۡتَ مَوۡلٰىنَا فَانۡصُرۡنَا عَلَی الۡقَوۡمِ الۡکٰفِرِیۡنَ (البقرہ: 287) اے ہمارے رب! ہمارا مؤاخذہ نہ کر اگر ہم بھول جائیں یا ہم سے کوئی خطا ہوجائے۔ اور اے ہمارے رب! ہم پر ایسا بوجھ نہ ڈال جیسا ہم سے پہلے لوگوں پر (ان کے گناہوں کے نتیجہ میں) تُو نے ڈالا۔ اور اے ہمارے رب! ہم پر کوئی ایسا بوجھ نہ ڈال جو ہماری طاقت سے بڑھ کر ہو۔ اور ہم سے درگزر کر اور ہمیں بخش دے۔ اور ہم پر رحم کر۔ تو ہی ہمارا ولی ہے۔ پس ہمیں کافر قوم کے مقابل پر نصرت عطا کر۔

احادیث میں جہاں اپنا محاسبہ یا جائزہ لیتے رہنے کا ذکر ملتا ہے وہاں آنحضور ﷺ کا یہ مبارک طریق بھی بیان ہوا ہے کہ آپؐ روزانہ رات کو بستر پر جانے سے قبل خود اپنا محاسبہ فرمایا کرتے تھے۔

مضمون کو آگے بڑھانے سے قبل ضروری معلوم ہوتا ہے کہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے وہ الفاظ ایک دو جگہوں سے نوٹ کر دیئے جائیں جس میں آپ نے اپنے جائزے لیتے رہنے کی بار بار تلقین فرمائی۔ تاحضور کے مبارک الفاظ میں ہمیں اپنی ذمہ داریوں کا احساس ہو اپنے جائزے لینے میں اپنی سمت کا تعین کر سکیں۔

آپ فرماتے ہیں:
’’پس ہم میں سے ہر ایک کو اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے کہ کس حد تک ہم میں پاک تبدیلیاں ہیں؟ کس حد تک ہم اپنے بچوں کو بھی جماعت سے جوڑنے کی کوشش کررہے ہیں؟ کس حد تک ہم قرآن کریم کی تعلیم پر عمل کررہے ہیں؟ ایسا عمل کہ غیر بھی ہمیں دیکھ کر برملا کہیں کہ یہ ہم سے بہتر مسلمان ہیں۔ کیا ہمارے نمونے ایسے ہیں کہ اسلام کے مخالف ہمیں دیکھ کر اسلام کی طرف مائل ہوں؟ اگر ہم یہ معیار حاصل کررہے ہیں تو ان شاء اللہ تعالیٰ یہ باتیں جہاں ہمیں اللہ تعالیٰ کے قرب کا باعث بنائیں گی وہاں ہمیں تعداد میں بھی بڑھائیں گی اور جماعت کے خلاف جو مخالفتیں ہیں ایک دن ہوا میں اُڑ جائیں گی۔‘‘

(خطبات مسرور جلد 11 صفحہ 536)

پھر فرمایا :
’’ہمیں خاص طور پر اپنے جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ اپنی حالتوں کو خدا تعالیٰ کی رضا کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرنے کی ضرورت ہے ہے۔‘‘

(خطبات مسرور جلد 11 صفحہ 566)

پھر آپ نے ایک سال کے آغاز پر سال نو کی مبارکباد دیتے ہوئے فرمایا:
’’مَیں یہ بھی کہوں گا کہ ایک دوسرے کو مبارکباد دینے کا فائدہ ہمیں تبھی ہو گا جب ہم اپنے یہ جائزے لیں کہ گزشتہ سال میں ہم نے اپنے احمدی ہونے کے حق کو کس قدر ادا کیا ہے اور آئندہ کے لئے ہم اس حق کو ادا کرنے کے لئے کتنی کوشش کریں گے۔ پس ہمیں اس جمعہ سے آئندہ کے لئے ایسے ارادے قائم کرنے چاہئیں جو نئے سال میں ہمارے لئے اس حق کی ادائیگی کے لئے چستی اور محنت کاسامان پیدا کرتے رہیں۔‘‘

(خطبات مسرور جلد 13 صفحہ 1)

سب سے پہلے اپنا یہ جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ وہ خدا جس نے ہمیں اشرف المخلوقات پیدا کیا۔ ہمیں انسان بنایا۔ پھر مسلمان بنایا۔ اس پر بس نہیں اس نے آخری زمانے کے مہدی کو آنحضور ﷺ کا مبارک سلام پہنچا کر اسے قبول کرنے کی توفیق دی۔ کیا خدا کے ساتھ ہمارا زندہ تعلق ہے؟ کیا ہم اس کے احسانات کو یاد کرتے ہیں؟ کیا ہم تسبیحات کا حق ادا کرتے ہیں؟ کیا ہم اللہ تعالیٰ کی رضا کو مقدم رکھتے ہیں؟ اللہ تعالیٰ کی ایک مومن سے جو توقعات ہیں کیا ہم ان کی تلاش کرکے اس پر پورا اُترنے کی کوشش کرتے ہیں؟ پس ہمیں ہر وقت اس اللہ کی تلاش میں رہنا چاہیے۔ اس کا بن کر اس کو ہر چیز پر مقدم رکھیں۔

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں کہ
اللہ تعالیٰ کے احسانوں میں سے سب سے بڑا احسان تو یہی ہے کہ اس نے ہمیں زمانے کے امام کو ماننے کی توفیق عطا فرمائی۔ اگراللہ تعالیٰ کا یہ احسان یادر ہے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے خالص تعلق جوڑنے کی کوشش بھی ہر وقت رہے گی اور آپ کی باتوں پر عمل کرنے کی طرف توجہ رہے گی۔‘‘

(خطبات مسرور جلد 13 صفحہ 10)

مخفی شرک

پھر اس امر کا بھی جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ ہم میں کوئی لاعلمی یا نادانستگی میں اللہ تعالیٰ کا شرک تو نہیں کر رہا۔ یہ خفیف شرک کہلاتا ہے۔ جیسے گھروں میں اپنی عزت جتانے یا بڑھانے کے لئے بعض ایسے افعال کئے جاتے ہیں جو اللہ کی تعلیمات کے منافی ہوتے ہیں جیسے رسوم و رواج ہیں۔ بالخصوص شادی بیاہ کے موقع پر ہم ایسی حرکات کرجاتے ہیں جو خفیف شرک کے زمرہ میں آتی ہیں۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’پس اگر تم دنیا کی ایک ذرّہ بھی ملونی اپنے اغراض میں رکھتے ہو تو تمہاری تمام عبادتیں عبث ہیں۔ اس صورت میں تم خدا کی پیروی نہیں کرتے بلکہ شیطان کی پیروی کرتے ہو۔ تم ہرگز توقع نہ کرو کہ ایسی حالت میں خدا تمہاری مدد کرے گا۔ بلکہ تم اس حالت میں زمین کے کیڑے ہو اور تھوڑے ہی دنوں تک تم اس طرح ہلاک ہو جاؤ گے جس طرح کہ کیڑے ہلاک ہوتے ہیں اور تم میں خدا نہیں ہوگا…….بلکہ تمہیں ہلاک کر کے خدا خوش ہوگا لیکن اگر تم اپنے نفس سے درحقیقت مر جاؤ گے تب تم خدا میں ظاہرہو جاؤ گے اور خداتمہارے ساتھ ہوگا اور وہ گھر بابرکت ہوگا جس میں تم رہتے ہوگے اور اُن دیواروں پر خدا کی رحمت نازل ہوگی جو تمہارے گھر کی دیواریں ہیں۔ اور وہ شہر بابرکت ہوگا جہاں ایسا آدمی رہتا ہوگا۔ اگر تمہاری زندگی اور تمہاری موت اور تمہاری ہر ایک حرکت اور تمہاری نرمی اور گرمی محض خدا کے لئے ہو جائے گی اور ہر ایک تلخی اور مصیبت کے وقت تم خدا کا امتحان نہیں کرو گے اور تعلق کو نہیں توڑوگے بلکہ آگے قدم بڑھاؤ گے تو میں سچ سچ کہتا ہوں کہ تم خدا کی ایک خاص قوم ہو جاؤ گے۔‘‘

(رسالہ الوصیت، روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 308)

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
’’ایک مومن جو خدا پر ایمان لانے والا ہو اور خدا پر ایمان کی وجہ سے ہی اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل میں زمانے کے امام کی بیعت کر رہا ہو۔ ایسے شخص کا اور شرک کا تو دور کا بھی واسطہ نہیں ہو سکتا۔ یہ کس طرح ہوسکتا ہے کہ ایک مشرک اللہ تعالیٰ کی بات مانے۔ لیکن نہیں جس باریک شرک کی طرف ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام تو جہ دلا رہے ہیں وہ کوئی ظاہری شرک نہیں ہے بلکہ مخفی شرک ہے جو ایک مومن کے ایمان کو کمزور کر دیتا ہے۔‘‘

(خطبات مسرور جلد 13 صفحہ 2)

نبی پاکﷺ کے ارشادات کی تعمیل

اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ رسول حضرت محمد مصطفی ﷺکے حوالے سے اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے کہ کیا ہم اپنے پیارے رسولؐ کو وہ بلند عالی مقام دیتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں آپ کو دیا ہے۔ کیا ہم اللہ کی محبت چاہنےکے لئے رسول خداؐ سے محبت کا حق ادا کرتے ہیں۔ ان کے تمام بیان فرمودہ ارشادات اور فرمودات کو حرزِ جان سمجھتے ہیں۔ کیونکہ ہماری نجات صرف اور صرف خاتم الرسل حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی مکمل اتباع اور پیروی میں ہے۔

قرآنی احکامات کی تعمیل

ہم اپنا یہ بھی جائزہ لیں کہ اللہ تعالیٰ کی پیاری اور آخری کتاب میں بیان تمام تعلیمات اور احکامات پر عمل پیرا ہیں۔ ہماری نجات کے لیے قرآن کریم میں بیان ہر چھوٹےسے چھوٹے حکم کی تعمیل بھی ضروری ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’جو شخص قرآن کے سات سو حکم میں سے ایک چھوٹے سے حکم کو بھی ٹالتا ہے وہ نجات کا دروازہ اپنے ہاتھ سے اپنے پر بند کرتا ہے۔‘‘

(کشتی نوح، روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 26)

ایک مہاجر صحابی رسولؐ نے قرآنی احکام کی فہرست تیار کر رکھی تھی اور ان کی کوشش ہوتی کوئی ایسا حکم قرآن نہ رہ جائے جس پر وہ عمل پیرا نہ ہوں۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ قرآنی حکم ’’اگر تمہیں کہا جائے کہ لوٹ جاؤ تو لوٹ آیا کرو پر تعمیل کی غرض سے ساری عمر کو شاں ر ہا۔ مدینہ کے ہر گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا کہ کوئی کہہ دے کہ چلے جاؤ !میں اس وقت ملاقات کرنا نہیں چاہتا تو میں واپس لوٹ آؤ ں مگرمجھے ایسی کوئی آواز سنائی نہ دی اور یہ حکم بغیر تعمیل کے رہ گیا۔

(جامع البیان فی تفسیر القرآن از ابو جعفر محمد بن حریر الطبری جلد 18 زیر آیت النور 28 از 700 احکام خداوندی از حنیف احمد محمود صفحہ 37)

ہم نے یہ بھی پڑھا کہ صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام میں سے بعضوں نے احکام خداوندی کی فہرستیں تیار کر رکھی تھیں اور کسی حکم پر عمل کرکے اس پر نشان لگا دیتے تھے کہ میں نے اس پر عمل کر لیا ہے۔

مسیح موعودؑ کے ارشادات کی تعمیل

ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ایمان لانے کے تقاضوں کو سامنے لا کر اپنے جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ تجدیددین کے جو کام حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کیے کیا ہم میں ہر چھوٹا بڑا اس پر عمل پیرا ہے؟ اور پھر یہ بھی جائزہ لیں کہ کیا یہ تعلیم ہم اپنی اگلی نسلوں میں سرایت کر پا رہے ہیں؟

خلافت کی قدر

اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے تابع ہمیں خلافت کا روحانی نظام عطا فرمایا۔ کیا ہم اس کی قدر کرتے ہیں؟ کیا خلیفۃ المسیح کی صحت و سلامتی اور کامیابیوں کے لئے ہم دعاگو ہیں؟ کیا دربار خلافت سے اٹھنے والی ہر آواز پر لبیک کہتے اور اسے اپنی اولادوں کے دلوں میں جاگزیں کرنے کی کوشش کرتے ہیں ؟ اس سلسلے میں یہ بھی جائزے لینے کی ضرورت ہے کہ ہمارے گھروں میں MTA کے لئے ڈش کا انتظام ہے؟ کیا ہم حضور کا خطبہ جمعہ سنتے ہیں؟ ہم اپنے گھروں میں روزانہ نہیں تو کچھ دنوں بعد نت نئی ڈشیں تیار کرکے Enjoy کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہماری روحانی، دینی، اخلاقی او رتعلیمی اصلاح کے لئے MTA کو جو Dish کے ذریعہ اُتارا ہے اور نت نئے روحانی مائدے ہمیں اس سےملتے ہیں اور ہم محظوظ ہوتے ہیں۔ کیا ہمارے گھرانہ کا ہر فرد اس سے مستفیض ہو رہا ہے؟

بے حیائی سے اجتناب

اس ضمن میں ہمارا معاشرہ ہمیں اس حوالہ سے بھی اپنے جائزے لینے پر مجبور کرتا ہے کہ دنیا بھر بالخصوص مغربی دنیا میں ٹی وی، انٹرنیٹ اور دوسرے Gadgets کے ذریعہ جو بے حیائی، بےہودگی، بےپردگی پھیلائی جارہی ہے۔ ہم یا ہماری معصوم نسلیں تو اس میں Involve تونہیں ہو رہی؟غض بصر کرنے میں اور بد نظری سے اجتناب کرنے میں۔ آنکھ کا زنا تو نہیں کررہیں۔ جو چیز آنکھ پر حرام ہے۔ ہماری آنکھیں ان کو دیکھنے کی طرف تو نہیں جھک رہیں؟

اسلامی اخلاق کا جائزہ

قرآن کریم میں اور احادیث میں جو اخلاق حسنہ کی نشان دہی کرکے اپنانے کی تلقین ملتی ہے اور اخلاق سیئہ سے بچنے کی نصیحت ہے۔ کیا ہم اس پر عمل پیرا ہیں؟ان میں آج کے دور میں سچ بولنا اور جھوٹ سے نفرت ہے۔ ہمارے مغربی معاشرے میں اسائلم کے نام پر بعض جگہوں پر بعض دوست جھوٹ کا سہارا لیتے ہیں جو مناسب نہیں یہ بھی ایک مخفی شرک ہے کہ ہم اپنے پیدا کرنے والے پر انحصار کرنے کے بجائے جھوٹ کو خدا بنالیتے ہیں۔

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’پس نفسانی غرض ہو، کوئی مفاد ہو تبھی انسان جھوٹ کی طرف مائل ہوتا ہے لیکن اعلیٰ اخلاق یہ ہیں کہ جان و مال یا آبرو کو خطرہ ہو پھر بھی جھوٹ نہ بولے اور سچ کا دامن کبھی نہ چھوڑے۔ جھوٹے اور سچے کا تو پتا ہی اس وقت چلتا ہے جب کوئی ابتلا درپیش ہو۔ ذاتی مفاد متاثر ہونے کا خطرہ ہو۔ لیکن پھر بھی اس میں سے سرخرو ہوکر نکلے۔ اپنے ذاتی مفادات کو سچائی پر قربان کر دے۔ آج کل یہاں اور یورپین ممالک میں بھی اسائلم کے لیے لوگ آتے ہیں لیکن باوجود میرے بار بار سمجھانے کے ان وکیلوں کے کہنے پر جھوٹ بول دیتے ہیں۔‘‘

(خطبات مسرور جلد13 صفحہ3)

محبت کی بجائے نفرت پھیلانے کا جائزہ

آج کل دنیا مختلف خساروں میں مبتلا ہے۔ مختلف ممالک آپس میں، جماعتیں ایک دوسرے کے خلاف برسرپیکار ہیں۔ محبت پیار کی بجائے نفرت اور فساد کو ہوا دی جا رہی ہے۔ پس اپنے جائزے لیں کہ نہ اپنوں سے جھگڑیں نہ غیروں سے۔ بغاوت کے طریقوں سے بچیں۔ نفسانی جوشوں سے مغلوب نہ ہوں اور باغیانہ رویوں کو ترک کریں۔

اس حوالہ سے تفسیر صغیر یا ترجمہ و تفسیر حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کے انڈیکس اور احادیث کی کتب میں حدیقۃ الصالحین از حضرت ملک سیف الرحمن مفتی سلسلہ کے انڈیکس کو سامنے رکھ کر اسلام میں بیان اخلاق حسنہ اور اخلاق سیئہ کی فہرست تیار کر کے ہمیں اپنے جائزےلینے میں آسانی رہے گی۔

مالی قربانی

مالی قربانی میں بھی اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے۔ ہم گھر سے تو کچھ نہ لائے تمام اموال خدا تعالیٰ کی دین ہے۔ خدا دے کر پھر کچھ حصہ اپنے لیے مانگتا بھی ہے۔ کیا ہم اس کے لئے اپنے آپ کو ہمہ وقت تیار پاتے ہیں۔ یہ مالی قربانی بہت ضروری ہے۔ انسان خالی ہاتھ اس دنیا میں آتا ہے اور خالی ہاتھ ہی دنیا سے جاتا ہے۔ اس کا آخری ٹھکانہ ایک ایسی قبر ہے جس کی لمبائی، چوڑائی اور گہرائی ہر بندہ کے لیے ایک جیسی ہوتی ہے۔ اس جگہ ایک امیر دولت مند نےبھی دفن ہونا ہے اور ایک غریب نے بھی وہیں جانا ہے۔ اس لیے اموال کا اللہ کی خاطر، اس کے دین کی خاطر، اس کی مخلوق بالخصوص غرباء کے لئے خرچ کرنا انسان کو بہت سعادت مند بنا دیتا ہے اور اس کی صراط مستقیم کی طرف سمت متعین کر دیتا ہے۔

یہ مضمون تو بہت لمبا ہے۔ جن امور میں جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ اس کی فہرست بہت طویل ہو سکتی ہے جس کا ایک مضمون متحمل نہیں ہو سکتا۔ تاہم یہاں مضمون کو سمیٹتے ہوئے صرف ایک اہم امر کا اظہار کرنے کی ضرورت محسوس ہورہی ہےاور وہ ایسا اہم اور ضروری امر ہے جس کے بارہ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ (الذاریات:57) اور میں نے جن و اِنس کو پیدا نہیں کیا مگر اس غرض سے کہ وہ میری عبادت کریں۔

پنجوقتہ نمازوں کےبارے میں جائزہ

اپنے خالق حقیقی کا عبد بننے میں سب سے پہلے عبادات آتی ہیں کہ ان کا کس حد تک حق ادا ہو رہا ہے۔ جیسے پنجوقتہ نماز ہے۔ نفلی عبادات میں نماز تہجد کا نمبر سب سے پہلے آتا ہے۔ پھر وہ نوافل ہیں جو ہمارے بہت ہی پیارے رسول حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ نے عملی طورپڑھ کر ہماری رہنمائی فرمائی۔ پھر وہ نوافل ہیں جن کی ادائیگی کی طرف خلفائے احمدیت نے مختلف وقتوں میں توجہ دلائی۔

جہاں تک پنجوقتہ نمازوں کے متعلق جائزےلینے کا تعلق ہے اللہ تعالیٰ نے شرائط کے ساتھ اس کی وقت پر ادائیگی فرض قرار دی ہے۔ شرائط کے مطابق ادائیگی پر انعامات اور عدم ادائیگی پر زجر اور تنبیہ و سزا بھی متعین کردی ہے۔ 10 سال کی عمر پر نماز فرض ہو جاتی ہے۔ والدین نگرانی کریں۔ جماعتی نظام اور ذیلی تنظیموں کا نظام مسلسل اس حوالہ سے توجہ دلاتا رہتا ہے اور کوشش، نگرانی بھی کرتا ہے کہ ہر احمدی مرد، عورت، بوڑھا، جوان اور بچہ نمازوں کی ادائیگی کر رہا ہے یا نہیں۔ اس نظام کو کامیاب بنانے کے لیے ضروری ہے کہ ہم میں سے ہر ایک اپنے جائزے خود لے اور کمیوں، خامیوں اور کمزوریوں کو دور کرنے کے لئے خود سعی کرے کیونکہ نماز ہر حال میں فرض ہے۔ بیمار اگر کھڑا ہو کر نماز ادانہیں کر سکتا تو بیٹھ کر، اگر بیٹھ کر ادا نہیں کرسکتا تو لیٹ کر اور اشاروں سے پڑھ لے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے إنَّ الصَّلـوۃَ کَانَتْ عَلَی الْمُوْمِنِیْنَ کِتَابًا مَّوْقُوْتًا (النساء:104) کہ نماز پابندی اوقات کے ساتھ فرض کی گئی ہے۔

نوافل کا جائزہ

پھر تہجدکے بارہ میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ
’’تمہیں نماز تہجد کا التزام کرنا چاہیے کیونکہ گزشتہ صالحین کا طریق رہا ہے اور قرب الہٰی کا ذریعہ بھی۔ یہ عادت گناہوں سے روکتی اور برائیوں کو ختم کرتی اور جسمانی بیماریوں سے بچاتی ہے۔‘‘

(ترمذی کتاب الدعوات)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ
’’ہماری جماعت کو چاہیے کہ وہ تہجد کی نماز کو لازم کرلیں۔ جو زیادہ نہیں وہ دو ہی رکعت پڑھ لیں کیونکہ اس کو دعا کرنے کا موقع بہرحال مل جائے گا۔ اس وقت کی دعا ؤں میں ایک خاص تاثیر ہوتی ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد 3 صفحہ 245) نمازوں کی ادائیگی اور نوافل پڑھنے سے درود شریف، استغفاراور خدا کی حمد اور احسانوں کو یاد کرنے کا موقع ملتا ہے۔ اسی حوالہ سے بھی ہم میں سے ہر ایک کو جائزہ لینا چاہیے۔

اسلام میں ہمارے بزرگوں نے ذاتی احتساب کا سلسلہ جاری رکھا۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم ذاتی احتساب اور ذاتی جائزے کو اپنے اوپر لازم کرلیں۔ تا ہمارے دینی اسلامی کاموں میں چاشنی پیدا ہو اور خدا اور اس کا رسولؐ ہم سے راضی ہو جائے۔

(ابوسعید)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 29 ستمبر 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 30 ستمبر 2020