• 24 اپریل, 2024

میرا آقاؐ عظیم تر ہے

آج کل پاکستانی ٹی وی چینلز پر آقائے دو جہاں آخر الزمان سیدنا حضرت محمد مصطفٰی ﷺ کو خراج عقیدت ’’میرا آقاؐ عظیم تر ہے‘‘ کے الفاظ میں پیش کیا جارہا ہے۔ یہ پیارا اور محبت بھرا فقرہ جب بھی میرے کانوں میں رس گھولتا ہے تو مجھے حضرت اماں جانؓ کے بھائی اور حضرت مصلح موعودؓ کے ماموں حضرت سید میر محمد اسحاقؓ کا کتابچہ ’’نسان کامل، دنیا کے لئے کامل نمونہ‘‘ سامنے آجاتا ہے۔ جس میں عاشق محمدؐ حضرت میر محمد اسحاقؓ نے ایک انسان کی پوری زندگی کا احاطہ کرکے 43 عنوان بنائے ہیں کہ ایک عام انسان کو اپنی زندگی میں ان 43 عناوین سے پالا و واسطہ پڑسکتا ہے۔ پھر ان 43 عناوین کو سیدنا و مولانا حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ پر apply فرمایا ہے کہ کس شان کے ساتھ آقا و مولیٰؐ ان عناوین میں سے گزرے ہیں۔ جو صرف آپؐ ہی کی شان تھی۔ وہ کسی اور کے حصہ میں نہ آئی۔ بالخصوص آپ نے سیدنا حضرت محمدﷺ کی زندگی کا موازنہ مذہبی لیڈروں ، پیشواؤں، قوموں کے اماموں کی زندگیوں سے فرمایا ہے۔ مثلاً اگر عیسائیوں کے مذہب کے بانی پر یہ حالات ہی نہیں آئے یعنی بیوی کرنی اور صاحب اولاد ہونا تو وہ ان حالات میں ہم میں سے شادی والے اور صاحب اولاد اشخاص کے لئے کیسے نمونہ ہوسکتے ہیں۔

عیسائی کیسے دنیا کے لوگوں کو اپنی طرف بُلا سکتے ہیں کہ ہمارے رسول کے جھنڈے تلے آؤ کہ وہ تمہارے لئے کامل نمونہ ہے۔ کیونکہ دیکھنا یہ ہے کہ دنیا کی قوموں اور مشہور مذہبوں کے پیشواؤں پر یہ سب کے سب حالات آئے یا نہیں۔ ان میں ہم صرف اپنے آقاو مولیٰ حضرت محمد ﷺ کو تمام مصائب اور معاصی سے پاک پاتے ہیں۔ اور تمام تعلقات انسانی جو دوستوں ، دشمنوں ، دور و نزدیک کے رشتہ داروں ، بیوی، بچوں ، اپنوں، بیگانوں اور ناواقفوں پر مشتمل ہوتے ہیں اس میں حضور انورﷺ کی ذات ستودہ صفات کامل نمونہ اور بینظیر اُسوہ ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں
’’وہ اعلیٰ درجہ کا نور جو انسان کو دیا گیا۔ یعنی انسان کامل کو وہ ملائک میں نہیں تھا نجوم میں نہیں تھا قمر میں نہیں تھا آفتاب میں بھی نہیں تھا۔ وہ زمین کے سمندروں اور دریاؤں میں بھی نہیں تھا۔ وہ لعل اور یاقوت اور زمرد اور الماس اور موتی میں بھی نہیں تھا۔ غرض وہ کسی چیز ارضی اور سماوی میں نہیں تھا صرف انسان میں تھا یعنی انسان کامل میں جس کا اَتم اور اَکمل اور اعلیٰ اور ارفَعْ فرد ہمارے سید و مولی سید الانبیاء سید الاحیاء محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں‘‘

(آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 160۔161)

آج اس آرٹیکل میں 12 ربیع الاول کے حوالہ سے حضرت میر محمد اسحاقؓ کی اسی کتاب کا جو آپ کے لئے ہمیشہ ثواب اور بلندی درجات کا موجب رہے گی خلاصہ پیشِ خدمت ہے۔

یتیموں کے لئے کامل نمونہ

آنحضورﷺ ابھی اپنی والدہ حضرت آمنہؓ کے پیٹ میں ہی تھے کہ والد وفات پاگئے۔ مگر اس یتیمی میں بغیر والد کے پرورش پانے والا یہ یتیم اعظم ایسا شریف اور تربیت یافتہ نکلا کہ دادا اپنے حقیقی بیٹوں سے بڑھ کر پوتے سے اور چچا اپنے حقیقی نو رچشموں سے بڑھ کر اپنے بھتیجے سے محبت کرتا ہے اور اس کی امانت داری کے سبب اس کو اپنی تجارت میں شامل کرتا ہے۔ شام کے سفر میں ساتھ رکھتا ہے۔ یہ تھے اس یتیم کے اخلاق۔ آپؐ نے اپنی عادات کو درست رکھا، خوبیوں میں ترقی کی، لوگوں سے ادب سے پیش آئے کہ دنیا کہنے لگی کہ کیسا شریف اور اچھا بچہ ہے۔ پس آپؐ نمونہ ہیں۔ ان تمام یتیموں کے لئے جن کے والد ان کی پیدائش سے قبل یا بعد وفات پاگئے۔ اے دنیا بھر کے یتیمو! نمونہ پکڑو اپنے آقا حضرت محمدمصطفیٰ ﷺ کو اور دنیا کی آلائشوں سے اپنے آپ کو دور رکھ کر مؤدب بن جاؤ۔

والدین والے بچوں کے لئے کامل نمونہ

سوال یہ پیدا ہوسکتا ہے کہ آنحضورﷺ تو یتیم تھے اور یتیموں کے لئے نمونہ ہوئے مگر صاحب اولاد لوگوں کے لئے نمونہ کیسے ہوگئے کہ کس طرح والد کی اطاعت کرنی چاہیے۔ آپؐ کے ابا تو وفات پاگئے تھے۔ مگر آپؐ نے اپنے دادا اور چچا کی ساری عمر ایسی فرمانبرداری اختیار کی کہ کوئی شخص باپ کی بھی نہیں کرسکتا۔

غریبوں کے لئے کامل نمونہ

آنحضورﷺ غریب تھے اور غریب بھی ایسے کہ جس کا کوئی گزارہ نہ ہو۔ مگرآپؐ دنیا کے ہر غریب کے لئے کامل نمونہ اور بے نظیر اسوہ ٹھہرے۔ آپؐ ہاتھ سے محنت کرکے کماتے، کلہاڑا لے کر جنگل سے لکڑیاں لاکر بیچتے، بکریاں چرانا، ملازمت اختیار کرنا اور معمولی معمولی تجارت کرنا آپؐ کا شیوہ تھا۔ کبھی کسی سے سوال نہ کیا بلکہ اپنے صحابہ کو مانگنے سے منع فرمایا اور صحابہ نے اس پر اس حد تک عمل کیا کہ اگر سواری سے کوڑا زمین پر گر جاتا تو کسی سے اٹھانے کا سوال نہ کرتے۔ آپؐ امین اوردیانت دار کے طور پر مشہور تھے۔ قرض واپس کرتے بلکہ جب آپ ؐ کو نبوت کا تاج پہنایا گیا تو بڑے فخر سے فرمایا کہ وَلَقَدْ رَعَیْتُ لِاَھْلِ مَکَّۃَ عَلَی قَرَارِیْطَ کہ میں چند پیسوں کے عوض مکہ والوں کی بکریاں چرایا کرتا تھا۔ پھر امت کو ڈرانے کے لئے یہ دعا سکھلائی اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُبِکَ مِنَ الْھَمِّ وَالُحُزْنِ وَاَعُوْذُبِکَ مِنَ الْعَجْزِ وَاْلکَسَلِ (ابو داؤد) کہ الہٰی! مجھے فکر و غم، سستی، نکمے پن اور بے کار رہنے سے بچا۔ اللہ تعالیٰ آپ کے ان اعلیٰ اخلاق ہونے کے ناطے مخاطب ہوکر فرمایا وَوَجَدَكَ عَائِلًا فَأَغْنَی (ضحیٰ9) کہ ہم نے تجھے غریب پایا پھر غنی کردیا۔ اس حوالہ سے آپ دنیا بھر کے تمام غرباء کے لئے نمونہ ہیں۔ بالخصوص مسلمانوں کے لئے جو ہاتھ سے کام کرنے کو عار سمجھتے ہیں۔ محنت سے نہیں۔ حقیر کام کو اپنی شان کے خلاف سمجھتے ہیں۔ دوسروں کے آگے اپنا دست دراز کرتے ہیں۔

دولتمندوں کے لئے کامل نمونہ

ایک وقت آیا کہ آپؐ کو اللہ تعالیٰ نے دنیا کی بے انتہاء نعماء سے نوازا۔ بالخصوص فتح مکہ کے بعد آپؐ اتنے امیر ہوگئے تھے کہ ہزاروں غلام آزاد کردیئے۔ اونٹ اور مویشی دینے پر آتے تو ایک ایک شخص کو 100، 100 اونٹ بخش دیتے۔ آپؐ عوام اور غرباء پر اتنا خرچ کرتے تھے کہ مکہ کے روساء یہ کہنے پر مجبور ہوگئے کہ محمدؐ تو اس طرح خرچ کرتا ہے جس طرح اسے خزانہ میں کمی کا ڈر نہ ہو۔ لیکن آپؐ اپنی ذات پر بے جا خرچ نہ کرتے۔ سادہ کپڑے، سادہ خوراک اور وہی پہلے والی سادہ زندگی۔ بلکہ اپنی بیگمات کو سالانہ خرچ دے کر باقی رقم غرباء میں تقسیم کردیتے اور وفات سے قبل خلفاء کو بھی یہ وصیت کرگئے کہ میرے بعد میری بیگمات کو میری جائیداد سے سالانہ خرچ دے کر باقی غرباء میں تقسیم کردیں۔ پس تمام دولتمندوں کے لئے جو عیاشی اور اسراف کرتے ہیں آپؐ نمونہ ہیں۔

محکوموں کے لئے کامل نمونہ

آپؐ کی کتاب حیات میں یہ بھی لکھا ہوا ہےکہ آپؐ 13 سال تک محکوم رہے اور ظالموں نے خوب ظلم ڈھائے۔ مگر آپؐ نےعلم بغاوت بلند نہ کیا۔ اور صحابہ کو ایسے علاقوں کی طرف ہجرت کی ہدایت فرمائی جو پُر امن تھے اور ایک وقت آیا جب جبر اور ظلم بہت بڑھ گیا تو آپؐ نے بھی مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی۔ مگر حکومت کے خلاف بغاوت نہ کی۔

حاکموں اور بادشاہوں کے لئے کامل نمونہ

اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو محکوم ہی نہیں رکھا بلکہ امارت، حاکمیت اور بادشاہت سے بھی نوازا مگر آپؐ نے عدل کو ہاتھ سے نہ جانے دیا۔ اسامہؓ کسی کی سفارش کرتے ہیں تو فرماتے ہیں

لَوْأنَّ فَاطِمَةَ بِنْتَ مُحَمَّدٍ سَرَقَتْ لَقَطَعْتُ يَدَهَا

(مسلم)

کہ یہ مجرم تو دور کی بات ہے اگر میری لخت جگر فاطمہ بھی چوری کرتی تو میں اس پر حد جاری کرتا اور ہاتھ کاٹ دیتا۔

آپؐ نے حاکموں کو مخاطب ہوکر فرمایا سَیِّدُ الْقَوْمِ خَادِمُھُمْ کہ قوم کا سردار ان کا خادم ہوتا ہے۔ ایک شخص آپؐ کے رعب سے کانپ رہا ہے اسے آپؐ فرماتے ہیں کہ میں تو عرب کی ایک غریب بیوہ عورت کا بیٹا ہوں جو سوکھا ہوا باسی گوشت استعمال کیا کرتی تھی۔ آپؐ بادشاہ ہوکر گھر کے تمام کام خود کرلیتے ۔ کوئی ملازمہ، دربان یا ملازم نہ تھا۔

متاہل لوگوں کے لئے نمونہ

آپؐ کی نو بیویاں تھیں۔ گھر کے تمام کام کرتے۔ ان کے گھروں میں جاتے، حوصلہ بڑھاتے اور اپنی جان سے عزیز بیٹی فاطمہ کے گھر جاتے۔ بچوں سے ملتے۔آپؐ اس قدر مصروف الاوقات تھے کہ اللہ تعالیٰ نے آپؐ کے متعلق فرمایا اِنَّ لَکَ فِی النَّھَارِ سَبْحًا طَوِیْلا (مزمل 8) کہ سارادن تو کاموں میں مصروف رہتا ہے ۔ عشاء کی نماز ہوتی تو بستر پر جاکر تھوڑی سی استراحت فرما کر اٹھ کھڑے ہوتے اور اللہ تعالیٰ کے حضور اس قدر عبادت کرتے کہ آپؐ کے پاؤں سوج جاتے اور فرماتے أَفَلا أَكُونَ عَبْدًا شَكُورًا (متفقٌ عَلَيْهِ)

بادشاہ بالعموم سرکاری خزانہ سے خیانت کرجاتے ہیں مگر آپؐ نے مال غنیمت میں آئے ایک اونٹ کی پیٹھ پر ہاتھ مار کر کچھ بال اکھیڑے اور لوگوں کودکھایا کہ میرے لئے اس کے برابر مال بھی حرام ہے۔ ایک دفعہ عصر کی نماز کے بعد جلدی سے گھر گئے اور کچھ سونا چارپائی پر پڑا رہ گیا وہ اٹھا کر غرباء میں تقسیم کیا۔

آپؐ قومی کاموں میں بطور مزدور حصہ لیتے۔ مسجد نبوی کی تعمیر میں پتھر ڈھونڈتے نظر آئے۔ غزوہ احزاب میں خندق کھودتے دیکھے گئے۔ بدر میں جب دشمن نے تین بہادر میدان میں اترنے کے لئے پکارے تو آپؐ نے اپنے عزیز قریبی رشتہ داروں علی، حمزہ اور ابو عبیدہ رضی اللہ عنہم کو ترجیح دی۔

مجردوں اور شادی شدہ کے لئے کامل نمونہ

آپؐ 25 سال تک مجرد رہے جو عرب کی آب و ہوا کے مطابق ادھیڑ عمر بنتی ہے لیکن نہایت عفیف پاک دامن تھے۔ جب شادی کرلی تو متعدد عورتوں سے ، جن میں کنواری بھی تھیں اور بیوہ بھی۔ کم عمر کی بھی تھیں ، نوجوان بھی، ادھیڑ اور بوڑھی عمر کی بھی تھیں۔ تمام میں انصاف کیا۔ لکھا ہے کہ آپؐ اپنی بیویوں سے نہایت محبت رکھتے تھے۔ سب سے شفقت سے پیش آتے کبھی کسی بیوی کو تھپڑ نہیں مارا ، نہ جھڑکا۔ سب آپؐ سے خوش تھیں بلکہ ہر ایک آپؐ کی وفات کے بعد آپؐ سے جلد ملنے کی متمنی تھیں۔

عورتوں کے لئے کامل نمونہ

آپؐ نےفرمایا ۔سب سے اچھا وہ شخص ہے جو بیوی کے حق میں سب سے اچھا ہے۔ آپؐ اپنی بیوی حضرت خدیجہؓ کی وفات کے بعد بھی ان کا ذکر کرتے رہتے۔ ان کی سہیلیوں سے حسن سلوک فرماتے۔ سفروں میں بھی اپنی بیویوں کو ساتھ لے جاتے۔ آپؐ نے یہود و ہنود کے اس عقیدہ کی نفی کی کہ حائضہ عورت باورچی خانے میں نہیں جاسکتی بلکہ آپؐ ایسی حالت میں ساتھ سوتے۔ گود میں سر رکھ کر قرآن پڑھتے۔ ساتھ کھانا کھاتے۔ ایک برتن سے پانی پیتے۔ اسی طرح آپؐ نے عورتوں کو ورثہ میں بھی حقدار ٹھہرایا۔

صاحب اولاد کے لئے کامل نمونہ

آپؐ کو اللہ تعالیٰ نے اولاد جیسی عظیم نعمت سے بھی نوازا۔ آپؐ نے بچوں کی جو تربیت اور نگرانی ، شفقت اور ان کی صحت جسمانی و روحانی کا خیال رکھا جس کی بدولت آپؐ کی اولاد دوسروں کے لئے نمونہ ٹھہری اور حضرت فاطمہؓ کو اس تعلیم و تربیت کی وجہ سے سیدۃ نساءاھل الجنۃ کا خطاب ملا۔ اس ناطے آپؐ صاحب اولاد لوگوں کے لئے نمونہ ہیں کہ ان کو اپنے اولاد کی کس رنگ میں تربیت کرنی ہے۔

اولاد فوت ہونے پر صبر کا کامل نمونہ

پھر آپؐ کی بہت سی اولاد آپؐ کے سامنے فوت ہوگئی۔ لڑکے بھی اور لڑکیاں بھی اور آپؐ اس شخص کے لئے کامل نمونہ ہیں جس کی اولاد مرجاتی ہے جوان جوان بچے فوت ہوجاتے ہیں۔ آپؐ ان کو بلا کر کہہ سکتے ہیں کہ آئیں تیرا ہاتھ پکڑتا ہوں اور آ کہ میں تیرا رہبر بن سکتا ہوں اور آ کہ میں بھی تیری جیسی مصیبت برداشت کرچکا ہوں۔ میری اکثر جوان جوان بیٹیاں میری آنکھوں کے سامنے فوت ہوچکی ہیں۔ تمام لڑکے میری آنکھوں کے سامنے یکے بعد دیگرے اجل کا شکار ہوچکے ہیں مگر دیکھ میرا دل غمگین ، میری آنکھیں تر، مگر میری زبان اپنے مولیٰ کی حمد سے معمور ہے اور میری طرح اقرار کر کہ لَہُ مَا اَخَذَ وَلَہُ مَا اَعْطیٰ یعنی جس نے اولاد دی اسی نے واپس بلا لی ہے اور آ میری طرح اقرار کر کہ إِنَّا لِلّٰهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ

اور اپنے اکلوتے بیٹے صاحبزادہ ابراہیم کی وفات پر صرف فرمایا اَلْعَیْنُ تَدْمَعُ وَالْقَلْبُ یَحْزُنُ وَلَا نَقُوْلُ اِلَّا مَا یَرْضٰی بِہٖ رَبُّنَا آنکھیں آنسو بہاتی ہیں اور دل غم زدہ ہے مگر ہم صرف وہی کہتے ہیں جس سے ہمارا رب راضی ہوتا ہے۔

جرنیل اور فاتح کے لئے کامل نمونہ

آپؐ کا سردار اور بطور حاکم و بادشاہ نمونہ بیان ہوچکا ہے لیکن جب بادشاہ کسی جنگ یا معرکہ میں فاتح ٹھہرتا ہے تو ہم نے دنیاوی بادشاہوں اور فاتحین کو مخالفین کو تہس نہس کرتے دیکھا ہے۔ مگر آپؐ نے حکم دیا کہ کوئی عورت نہ ماری جائے، بچے نہ مارے جائیں، بوڑھوں سے تعرض نہ کیا جائے، درویشوں ، راہبوں، تارک الدنیا لوگوں کو کچھ نہ کہا جائے۔ دیکھو کسی کو آگ سے نہ جلایا جائے، دیکھو جانور قتل نہ کرنا، درخت نہ کاٹنا۔ یاد رکھو اپنے مخالفوں کی طرح کسی دشمن مقتول کے ناک ، کان نہ کاٹنا۔ جنگ احد میں جب کہ کفار نے مسلمان شہداء کے ناک کان کاٹ دیئے۔ حتی کہ اپنے واجب العزت چچا حمزہ کا جب مثلہ کیا گیا تو آپؐ نے جواباً ایسا کرنے پر منع فرمایا ۔جنگ بدر کے 70 قیدیوں کے ساتھ حسن سلوک نمایاں تھا۔ حتی کہ ان کو سواریوں پر سوار کروایا اور خود پیدل چلے۔ بتاؤ! دنیا کی آنکھ نے کبھی ایسا فاتح دیکھا جو احد اور حنین میں عارضی مغلوب ہونے کے وقت بھی میدان میں موجود رہا اور صحابہ کی حوصلہ افزائی کرتا رہا۔

کنبہ والے کے لئے کامل نمونہ

آپؐ کنبہ والے تھے ۔ تمام کی خبر گیری فرماتے۔ خاندان میں بعض کافر اور فاسق بھی تھے۔ فرمایا کہ خاندان میں ایسے لوگوں کے ساتھ میرا کوئی قلبی تعلق نہیں ہاں وہ میرے رشتہ دار ہیں اور میں ان کا حصہ ادا کرتا رہوں گا۔

بطور دوست کامل نمونہ

آپؐ کے دوست مسلمانوں میں بھی تھے اور غیروں میں بھی۔ تمام کے ساتھ محبت کا سلوک کیا۔ کوئی آپ ؐ سے شاکی نہ تھا۔ دوستوں کے بیوی بچوں کا بھی خیال رکھا۔ ایک دفعہ آپؐ کے دوستوں کے بیوی بچے ایک شادی سے واپس آرہے تھے۔ آپؐ بے اختیار ہوکر ان کے سامنے جاکر کھڑے ہوکر فرمانے لگے کہ خدا کی قسم !تم لوگ تو مجھے سب سے پیارے ہو۔

اپنی وفات کے اعلان کے وقت فرمایا۔ میرے بعد جو خلیفہ ہو اسے میں وصیت کرتا ہوں کہ انصار کا خیال رکھے۔ کیونکہ وہ میرے دلی دوست ہیں۔ پھر آپؐ کے دشمن بھی تھے۔ دشمن بھی ایسے کہ خون کے پیاسے۔ سبحان اللہ آپؐ کے عدل کے مداح، آپؐ کی امانت کے قائل، آپؐ کی خوبیوں کے مقر۔ دشمن تو ہیں مگر آپؐ میں کوئی عیب نہیں نکالتے۔ صرف دعوی نبوت کی وجہ سے یہ سب ناراضگی ہے۔ کسی دشمن کو یہ ڈر نہیں کہ آپؐ قابو پاکر کوئی ناجائز کاروائی کریں گے۔ ہرقل جب ابوسفیان سے پوچھتا ہے کہ محمدؐ نے کبھی جھوٹ بولا۔ کبھی معاہدہ شکنی کی۔ تو اسے بھی یہی کہنا پڑا کہ کبھی نہیں۔

انکساری میں کامل نمونہ

آپؐ ایک زمانے میں کسمپرسی کی حالت میں تھے۔ پھر رَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَکَ کے تحت ذکر بلند ہوا اور لاکھوں آدمیوں کا مجمع آپؐ کے ساتھ ہوا۔ مکہ سے صرف ابو بکرؓ کے ساتھ نکلے مگر آٹھ سال بعد دس ہزار قدسیوں کے ساتھ مکہ میں داخل ہوئے۔ مگر نہایت عاجزی، انکساری سے سر جھکائے ہوئے، اللہ کے حضور جھکتے ہوئے۔

بطور قیدی کامل نمونہ

پھر آپؐ قید بھی ہوئے۔ تین سال تک شعب ابی طالب میں قید رہے۔ حضرت یوسف علیہ السلام بھی قید ہوئے۔ مگر قرآن کہتا ہے کہ قید کرنے والوں کی طرف سے کھانا ملتا تھا مگر حضورﷺ کو ظالموں نے اس طرح قید کیا کہ خود کھانا دینا تو کجا۔ پہنچنے بھی نہ دیتے تھے۔ لکھا ہے کہ رات کے وقت بنو ہاشم کے معصوم بچوں کے بھوک کے مارے رونے کی آوازیں سارا مکہ سنتا تھا مگر سبحان اللہ صبر ہو تو ایسا ۔ قید رہے مگر حق کو نہ چھوڑا۔ مصیبتیں برداشت کیں مگر سچائی سے منہ نہ موڑا اور تین سال تک قید رہے۔ مگر دین حق کو پیش کرنے میں قدم پیچھے نہ ہٹایا۔ یہاں تک کہ رات کو بچوں کے رونے کی آوازیں مکہ والے درندے بھی برداشت نہ کرسکے اور انہوں نے اپنا بائیکاٹ توڑ دیا اور حضورﷺ اور آپؐ کے کنبہ کے لوگ آزاد ہوگئے۔

زندگی کی تمام منازل میں کامل نمونہ

آپؐ پر بچپن، جوانی، ادھیڑ عمر اور بڑھاپا بھی آیا۔ بچپن تھا مگر آوارگی نہ تھی۔ جوانی تھی مگر دیوانی نہ تھی۔ ادھیڑ عمر مگر کسل نہ تھی۔ بڑھاپا تھا مگر حق کے پہنچانے میں کمزوری نہیں۔ نمازیں، نوافل وقت پر۔ ہمسایہ سے حسن سلوک ۔ بیویوں کو ترکاری بھجوانے کا حکم دیتے۔ نوکر، حاکم، لونڈی اور غلام تمام سے برابر کا حسن سلوک۔ کسی کواُف نہ کیا۔ حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ مجھے کبھی نہ جھڑکا حالانکہ میں دیر اندھیر کردیتا تھا۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں وَ اللّٰہِ مَا ضَرَبَ رَسُوْلُ اللّٰہِ خَادِماً کہ خدا کی قسم !حضرت محمدؐ نے کبھی کسی غلام کو نہ مارا۔

غلاموں سے سلوک کا یہ عالم تھا کہ حضرت زیدؓ بن حارثہ آپؐ کے حسن سلوک کی وجہ سے آپ کو چھوڑنے کو تیار نہ تھے۔

آپؐ کی مظلومیت

حضرت میر محمد اسحاقؓ تحریر فرماتے ہیں
اب میں ایک آخری بات لکھ کر اپنے مضمون کو ختم کرتا ہوں کہ حضورﷺ تیرہ برس تک مکہ میں اور آٹھ برس تک مدینہ میں کفار عرب کے ظلموں کا تختہ مشق بنے رہے۔ انہوں نے آپؐ کو وطن سے بے وطن کیا۔ آپؐ کو اور آپؐ کے ساتھیوں کو مارا پیٹا۔ زخمی کیا۔ قتل کے درپے ہوئے۔ قید میں رکھا۔ طائف کے لفنگوں نے پتھر مارے۔ گالیاں دیں۔ اوباشوں اور کتوں کو پیچھے بھگاتے ہوئے گیارہ میل تک حضورﷺکا تعاقب کیا۔آپؐ نماز پڑھ رہے ہیں کہ پیٹھ پر اونٹ کی اوجھڑی گندگی سمیت لاکر رکھ دی۔ خانہ کعبہ میں نماز پڑھنے کے لئے آتے ہیں کہ پٹکہ ڈال کر گلا گھونٹنے لگے۔ جنگ احد میں آپؐ کو زخمی کیا۔ ہجرت کے موقع پر جو آپؐ کو زندہ یا مردہ لاوے اس کے لئے سو اونٹ کا انعام مقرر کرکے آپؐ کو اشتہاری مجرم قرار دیا۔ آپؐ کے ساتھیوں کو بے رحمی سے قتل کیا۔ آپؐ پر ایمان لانے والے غلاموں اور لونڈیوں کو مار مار کر اندھا کردیا۔ ظالموں نے مسلمانوں کا ایک اونٹ سے اور دوسرا پاؤں دوسرے اونٹ سے باندھ کر دونوں کو چلا کر جسم کے دوٹکڑے کردیئے۔ عفیفہ عورتوں کی شرمگاہوں میں نیزے مار مار کر شہید کیا۔ مدینہ پر متواتر چڑھ کر آئے۔ آپؐ کی جوان حاملہ صاحبزادی کو اس قدر پتھر مارے کہ اسقاط ہوگیا اور اسی میں وہ فوت ہوگئیں۔

آپؐ کے عفو کا کامل نمونہ

ان تمام ظلموں کے بعد جب مکہ فتح ہوتا ہے اور خدا کا نبیؐ دس ہزار قدوسیوں کے جھمگٹے میں إِنَّ الَّذِي فَرَضَ عَلَيْكَ الْقُرْآنَ لَرَادُّكَ إِلَىٰ مَعَادٍ کے مطابق مکہ میں داخل ہوتا ہے اور دوسرے روز سب مکہ والوں کو صحن کعبہ میں جمع کیا جاتا ہے تو بتاؤ نرم سے نرم دل آدمی کیا سزا تجویز کرے گا؟

کیا مسلمانوں کے خون کی کوئی قیمت نہیں؟ کیا حضورﷺ کی ہتک کا کوئی بدلہ نہیں؟ کیا زینبؓ کا اسقاط حمل بے انتقام جائے گا؟ کیا سمعیہؓ مرحومہ کی دردناک موت اور خبیبؓ کا خوفناک قتل ضائع جائے گا؟ کیا مدینہ پر چڑھائیاں اور بدر، احد اور خندق میں مسلمانوں کا قتل ہونا کوئی رنگ نہ لائے گا؟ کیوں نہیں لائے گا اور ضرور لائے گا اور میری طبیعت تو ایک منٹ کے لئے بھی تسلیم نہیں کرسکتی کہ مکہ والوں کو معاف کیا جائے گا نہیں اور ہرگز نہیں میں تو منتظر ہوں کہ ابھی تیر و تلوار کے چلنے، مکانوں کے گرنے، درختوں کے کاٹے جانے، خندقیں کھود کھود کر مکہ کے ظالم درندوں کے زندہ جلائے جانے اور مکہ کی اینٹ سے اینٹ بجائے جانے کی پے در پے آوازیں آئیں گی اور مسلمانوں کا لشکر مکہ سے تب واپس جائے گا جب کہ لوگ کہیں گے کہ مکہ بھی ایسی بستی ہوتی تھی مگر اب نہیں۔ لیکن میں حیران ہوں، میری عقل کام نہیں کرتی۔ میں سمجھتا ہوں کہ بیداری نہیں بلکہ خواب ہے کیونکہ چاروں طرف مکہ کے باشندوں کو خوشی سے اچھلتے کودتے گھروں کی طرف جاتے دیکھتا ہوں تو پوچھنے پر بتاتے ہیں کہ سب سے رحیم خدا کے سب سے رحیم بندےؐ نے ہم سب کو جمع کرکے صاف الفاظ میں اعلان فرما دیا کہ: اِذْهَبُوْا فَأَنْتُمْ الطُّلَقَاءُ لَا تَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ یعنی جاؤ میں نےتم سب کو معاف کیا اور میں تمہیں تمہارےکسی فعل پر ملامت نہیں کرتا۔

دنیا کے لوگو !بتاؤ کہ اس کا کوئی نمونہ ہے؟ حکومتوں کے نمائندو! نام لو کسی بادشاہ کا جس نے یہ نمونہ دیکھایا ہو۔

آنحضرتؐ اورحضرت یوسفؑ کے عفو کا مقابلہ

بےشک حضرت یوسفؑ نے اپنے قصورواروں کو معاف کیا مگر کس کو؟ اپنے سگے بھائیوں کو مگر محمدؐ نے بے شک اپنی برادری کے لوگوں کو معاف کیا مگر وہ سگے نہ تھے۔ پھر یوسفؑ کے ماں باپ زندہ تھے اگر یوسف ؑ اپنے بھائیوں کو معاف نہ کرتا تو کیا کرتا۔ کیا بھائیوں کو سزا دے کر ماں باپ کو زندہ درگور کردیتا؟ مگر محمد ؐ اگر سزا دیتے تو کیا مضائقہ تھا۔ پھر یوسفؑ کے بھائیوں نے یوسف کو قتل نہیں کیا بلکہ عمداً خشک کنویں میں ڈال دیا تاکہ یَلْتَقِطْہُ بَعْضُ السَّیَّارَۃِ یعنی کوئی مسافر اسے لے جائے مگر آپؐ کے دشمنوں نے آپؐ کو اپنی طرف سے قتل کرنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا۔ پھر یوسفؑ کے بھائی گھر سے نکال کر خاموش ہوگئے مگر مکہ کے کافروں نے مدینہ میں بھی چین نہ لینے دیا بلکہ بدر، احد اور خندق غرض ہر موقع پر آپؐ کو تباہ کرنے کی نیت سے حملہ آور ہوئے۔ اس لئے میرے آقاؐ کا اپنی قوم کو معاف کرنا یوسف ؑ کے معاف کرنے سے ہزار درجہ، لاکھ درجہ، کروڑوں درجہ بلکہ بے انتہا درجہ بڑھ کر ہے۔ آپؐ اس عورت کو بھی معاف کردیتے ہیں جس نے آپؐ کے چچا کا کلیجہ چبایا تھا۔ آپؐ اس وحشی کو بھی معاف فرماتے ہیں جس نے چھپ کر آپؐ کے چچا کو قتل کیا تھا۔ آپؐ اسے بھی معاف کردیتے ہیں۔ جو اپنے باپ کی طرح مسلمانوں کا جانی دشمن یعنی ابو جہل کا بیٹا عکرمہ تھا۔ یہ ہے عفو کی بےنظیر مثال اور اسے کہتے ہیں قابو پاکر معاف کرنا اور یہ ہے میرے آقاو مولیٰ اور سیدؐ کا بے نظیر نمونہ۔ فِدَاہُ اَبِی وَ اُمِّی

اور چونکہ ہر امر میں ہمارے رسول مقبولﷺ نمونہ ہیں اور کوئی انسانی حالت ایسی نہیں جس میں آپؐ نمونہ نہ ہوں اسی لئے اس وقت آسمان کے نیچے ساری دنیا کے لئے آپؐ کے سوا کوئی شخص کامل نمونہ نہیں ہو سکتا۔

اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍوَّ بَارِکْ وَّسَلِّمْ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 29 اکتوبر 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 30 اکتوبر 2020