• 23 اپریل, 2024

خلاصہ خطبہ جمعتہ المبارک مؤرخہ 29؍اکتوبر 2021ء

خلاصہ خطبہ جمعتہ المبارک 

امیر المؤمنین سیدنا حضرت  خلیفتہ المسیحِ الخامس ایّدہ الله تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مؤرخہ 29؍اکتوبر 2021ء بمقام بیت المبارک، اسلام آباد؍ٹلفورڈ یوکے

جن لوگوں کو آنحضرتﷺ نے جنّت کی بشارت عطاء فرمائی تھی اُن میں حضرت عمرؓ بھی تھے۔۔۔ یہ دسّ لوگوں کے متعلق آپﷺ نے فرمایا تھا۔

عِلِّیِّین  والوں میں سے کوئی شخص جنّت  والوں پر جھانکے گا تو اُس کے چہرہ کی وجہ سےجنّت جگمگا اُٹھے گی گویا ایک چمکتا ہؤا ستارہ ہے، حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ بھی اُن میں سے ہیں۔

ابوبکرؓ اور عمرؓ جنّت کے اوّلین اور آخرین کے تمام بڑی عمر کے لوگوں کے سردار ہیں سوائے انبیاء اور مرسلین کے۔۔۔ عمرؓ بن خطاب اہلِ جنّت کے چراغ ہیں۔

اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو ضرور عمرؓ بن خطاب ہوتے۔۔۔ یہ فوری بعد نبوّت کی بات ہے ورنہ تو آنے والے مسیح اور مہدی کو آنحضرتﷺ نے خود نبی الله کہہ کے فرمایا ہے۔

جس شخص کی روحانی حالت عمرؓ کی روحانی حالت کے موافق ہو گئی، وہی ضرورت کے وقت پر محدث ہو گا ۔۔۔ چنانچہ اِس عاجز کو بھی ایک مرتبہ اِس بارہ میں الہام ہؤا تھا فِیْکَ مَادَۃٌ فَارُوْقِیَّۃٌ۔

صحاحِ ستّہ میں حضرت عمرؓ کی ۔۔۔۔ تین باتوں میں موافقت کا ذکر ملتا ہے، تاہم اگر صرف صحاحِ ستّہ کی روایات کو یکجائی صورت میں دیکھا جائے تو اُن کی تعداد سات تک بنتی ہے۔

اےمیرے بھائی! ہمیں اپنی دعا میں نہ بھولنا۔۔۔حضرت عمرؓ فرماتے  ہیں کہ یہ ایسا کلمہ ہے  کہ اگر مجھے اِس کے بدلہ  میں ساری دنیا بھی مِل جائے تو اتنی خوشی نہ ہو۔

غرض اصل شے تقویٰ الله ہے۔۔۔اگر تقویٰ الله کے حصول کے لیئے کوئی شے جو بظاہر عبادت معلوم ہوتی ہے چھوڑنی پڑے تو وہی کارِ ثواب ہو گا۔

حضورِ انور ایّدہ الله تعالیٰ بنصرہ العزیز نے تشہّد، تعوّذ اور سورۃ الفاتحہ کی تلاوت کے بعد ارشاد فرمایا!جن لوگوں کو آنحضرتﷺ نے جنّت کی بشارت عطاء فرمائی تھی اُن میں حضرت عمرؓ بھی تھے۔

جنّت کی بشارت

حضرت ابو موسیٰؓ بیان کرتے ہیں کہ نبیٔ کریم ﷺ کے ساتھ مدینہ کے باغوں میں سے ایک باغ میں تھا، اتنے میں ایک شخص آیا اور اُس نے دروازہ کھولنے کے لیئے کہا، نبیٔ کریم ﷺ نے فرمایا! اِس کے لیئے دروازہ کھولو اور اُس کو جنّت کی بشارت دو۔ مَیں نے اُس کے لیئے دروازہ کھولا تو مَیں کیا دیکھتا ہوں کہ حضرت ابوبکرؓ ہیں، مَیں نے اُن کو اِس بات کی بشارت دی جو نبیٔ کریم ﷺ نے فرمائی تھی، اُنہوں نے الحمدلله! کہا۔ پھر ایک اور شخص آیا اور اُس نے دروازہ کھولنے کے لیئے کہا، نبیٔ کریم ﷺ نے فرمایا! اِس کے لیئے دروازہ کھولو اور اُس کو جنّت کی بشارت دو۔ مَیں نے دروازہ کھولا تو دیکھتا ہوں کہ حضرت عمرؓ ہیں، مَیں نے اُن کو وہ بات بتائی جو نبیٔ کریم ﷺ نے فرمائی تھی، اُنہوں نے الحمدلله! کہا۔ پھر ایک اورشخص آیا ،دروازہ  اُس نےکھولنے کے لیئے کہا، آپﷺ فرمایا! اُس کے لیئے دروازہ کھولو اور اُس کو بھی  جنّت کی بشارت دو،  باوجود ایک مصیبت کے جو اُسے پہنچے گی ۔ تو کیا دیکھتا ہوں کہ وہ حضرت عثمانؓ ہیں، مَیں نے اُن کو وہ بات بتائی جو نبیﷺ نے فرمائی تھی ،اُنہوں نے بھی الحمدلله! کہا ، پھر کہا مصیبت سے محفوظ رہنے کے لیئے الله ہی سے مدد طلب کی جا سکتی ہے۔

عشرۂ مبشرہ

حضرت عبدالرّحمٰنؓ بن عوف سے مروی ہے کہ رسول اللهﷺ نے فرمایا! ابوبکر ؓجنّتی ہیں، عمر ؓجنّتی ہیں، عثمانؓ جنّتی ہیں، علیؓ جنّتی ہیں، طلحہؓ جنّتی ہیں، زبیرؓ جنّتی ہیں، عبدالرّحمٰنؓ بن عوف جنّتی ہیں، سعد ؓ بن ابی وقاص جنّتی ہیں اور سعید ؓ بن زید جنّتی ہیں، ابو عُبیدہؓ بن الجرّاح جنّتی ہیں۔ (یہ دسّ لوگوں کے متعلق آپﷺ نے فرمایا تھا)

وہ دونوں کیا ہی خوب ہیں

حضرت ابو سعید خُدریؓ سے روایت ہے کہ نبیٔ کریم ﷺ نے فرمایا!
عِلِّیِّین والوں میں سے کوئی شخص جنّت  والوں پر جھانکے گا تو اُس کے چہرہ کی وجہ سے جنّت جگمگا اُٹھے گی گویا ایک چمکتا ہؤا ستارہ ہے، حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ بھی اُن میں سے ہیں اور وہ دونوں کیا ہی خوب ہیں۔

اوّلین اور آخرین ، تمام بڑی عمر کے لوگوں کے سردار

اِسی طرح ایک روایت میں ہے، حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول الله ﷺ نے حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کے بارہ میں  فرمایا کہ یہ ابوبکرؓ اور عمرؓ جنّت کے اوّلین اور آخرین کے تمام بڑی عمر کے لوگوں کے سردار ہیں سوائے انبیاء اور مرسلین کے۔

اہلِ جنّت کے چراغ

پھر حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللهﷺ نے فرمایا! عمرؓ بن خطاب اہلِ جنّت کے چراغ ہیں۔

حضرت عمرؓ کا مقام

حضرت عَقبہؓ بن عامر بیان کرتے ہیں کہ رسول اللهﷺ نے فرمایا! اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو ضرور عمرؓ بن خطاب ہوتے۔ حضورِ انور ایّدہ الله تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اِس روایت کی تصریح یوں فرمائی، یعنی یہ فوری بعد نبوّت کی بات ہے ورنہ تو آنے والے مسیح اور مہدی کو آنحضرتﷺ نے خود نبی الله کہہ کے فرمایا ہے۔

رسول اللهﷺ کا حضرت عمرؓ کو محدث کہنا

اِس بارہ میں حضرت عائشہؓ روایت کرتی ہیں کہ رسول اللهﷺ نے فرمایا کہ یقینًا پہلی اُمّتوں میں محدثین ہوتے تھے، اگر میری اُمّت میں کوئی ہے تو وہ عمرؓ بن خطاب ہیں۔حضرت ابو ہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللهﷺ نے فرمایا! تم میں سے پہلے جو اُمّتیں تھیں اُن میں ایسے لوگ تھے جو محدث ہؤا کرتے تھے اور اگر میری اُمّت میں سے کوئی  ایسا ہے تو وہ عمرؓ ہے۔

حضورِ انور ایّدہ الله تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا! محدث وہ ہیں جن کوکثرت سے الہام و کشوف ہوتے ہیں۔پھر فرمایا! تم سے پہلے جو بنی اسرائیل ہوئے ہیں اُن میں ایسے آدمی آچکے ہیں جن سے الله کلام کیا کرتا تھا بغیر اِس کے کہ وہ نبی ہوتے تھے، اگر میری اُمّت میں بھی اُن میں  سے کوئی ایسا ہے تو وہ عمرؓ ہیں۔

تو محدث الله ہے، تجھ میں مادۂ فاروقی ہے

حضرت مسیحِ موعود علیہِ الصّلوٰۃ والسّلام ارشاد فرماتے ہیں کہ  خدا تعالیٰ ہمیشہ استعاروں سے کام لیتا ہے اور طبع اور خاصیّت اور اِستعداد کے لحاظ سے ایک کا نام دوسرے پر وارد کر دیتا ہے، جو ابراہیمؑ کے دل کے موافق دل رکھتا ہے وہ خدا تعالیٰ کے نزدیک ابراہیمؑ ہے اور جو عمر فاروقؓ کا دل رکھتا ہے وہ خدا تعالیٰ کے نزدیک عمر فاروقؓ ہے۔ کیا تم یہ حدیث پڑھتے نہیں کہ اگر اِس اُمّت میں بھی محدث ہیں جن سے الله تعالیٰ کلام کرتا ہے تو وہ عمرؓ ہے، اب کیا اِس حدیث کےیہ معنی ہیں کہ محدثیّت حضرت عمرؓ پر ختم ہو گئی، ہرگز نہیں۔ بلکہ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جس شخص کی روحانی حالت عمرؓ کی روحانی حالت کے موافق ہو گئی، وہی ضرورت کے وقت پر محدث ہو گا۔ چنانچہ اِس عاجز کو بھی ایک مرتبہ اِس بارہ میں الہام ہؤا تھا فِیْکَ مَادَۃٌ فَارُوْقِیَّۃٌ– حضورِ انور ایّدہ الله تعالیٰ بنصرہ العزیز نے  فرمایا! مکمل الہام اِس طرح ہے، اَنْتَ مُحَدَّثُ الله فِیْکَ مَادَۃٌ فَارُوْقِیَّۃٌ۔ یعنی تو محدث الله ہے، تجھ میں مادۂ فاروقی ہے۔

حفاظت و تدوینِ قرآن کی تجویز

 حضورِ انور ایّدہ الله تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اِس  کی بابت ارشاد فرمایا! جیسا کہ پہلے بھی مَیں ایک خطبہ میں بیان کر چکا ہوں، گزشتہ کوئی خطبات میں سے کہ حضرت عمرؓ نے حفاظت و تدوینِ قرآن کی تجویز دی تھی، اِس بارہ میں یہاں پھر ذکر کرتا ہوں،اِس ضِمن میں حضرت ابوبکرؓ کے دور میں  جنگِ یمامہ میں ستّر حفاظِ قرآن کی شہادت  کے تناظر میں حضرت زید بن ثابت انصاریؓ کی روایت پیش کی گئی۔حضرت عمرؓ نے کہا!میری یہ رائے ہے  کہ قرآن کو جمع کریں، اِس پرحضرت ابوبکرؓ نےحضرت عمرؓ کو  فرمایا! مَیں ایسی بات کیسے کروں جو رسول الله ﷺ نے نہیں کی، عمرؓ نے کہا، الله کی قسم! آپؓ کا یہ کام اچھاہے۔ پھر حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا! عمرؓ بار بار مجھے یہی کہتے رہے یہاں تک کہ الله تعالیٰ نے اِس کے لیئے میرا سینہ کھول دیا اور اب مَیں بھی وہی مناسب سمجھتا ہوں جو عمرؓ نے مناسب سمجھا یعنی اِس کی تدوین ہو جانی چاہیئے اور پھر زید بن ثابتؓ نے اِس کی تدوین کا کام شروع کیا۔

حضرت عمرؓ کا  حفظِ قرآن

حضرت المصلح الموعودؓ فرماتے ہیں، حضرت ابو عُبیدہؓ کہتے ہیں کہ رسول اللهﷺ کے مہاجر صحابہؓ میں سے مندرجہ ذیل کا حفظ ثابت ہے، ابوبکرؓ،  عمرؓ، عثمانؓ، علیؓ، طلحٰہؓ، سعدؓ ابنِ مسعودؓ، حُذیفہؓ، سالمؓ، ابوہریرہؓ، عبداللهؓ بن سائب اور عبداللهؓ بن عمرؓ اور عبداللهؓ بن عبّاسؓ۔

وحیٔ رسول اللهﷺ میں موافقات

صحاحِ ستّہ میں حضرت عمرؓ کی موافقات کا ذکر جن احادیث میں آیا ہے، تین باتوں میں موافقت کا ذکر ملتا ہے، تاہم اگر صرف صحاحِ ستّہ کی روایات کو یکجائی صورت میں دیکھا جائے تو اُن کی تعداد سات تک بنتی ہے۔ صحیح بخاری میں حضرت عمرؓ سے ایک روایت مروی ہے کہ حضرت عمرؓ نے کہا! تین باتوں میں میری رائے میرےربّ  کی منشاءکے موافق  ہوئی،مَیں نے کہا، یا رسول اللهﷺ! اگر ہم مقامِ ابراہیمؑ کو نماز گاہ بنا لیں تو آیت وَاتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرٰهٖمَ مُصَلًّى نازل ہوئی اور پردے کاحکم، مَیں نے کہا! پردے کا حکم نازل ہؤا، مَیں نے کہا یا رسول اللهﷺ! اگر آپﷺ اپنی بیویوں کو پردہ کرنے کا حکم دیں کیونکہ اُن سے بھلے بھی اور بُرے بھی باتیں کرتے ہیں تو پردہ کی آیت نازل ہوئی، پھر نبیٔ کریمﷺ کی بیویوں نے بوجۂ غیرت آپﷺ کے متعلق ایکا کیا تو حضرت عمرؓ کہتے ہیں مَیں نے اُنہیں کہا یعنی اُن بیویوں کو جن میں اِن کی بیٹی بھی تھیں، اگر تمہیں آنحضرتﷺ طلاق دے دیں تو مجھے امّید ہے کہ اُن کا ربّ تم سے بہتر بیویاں آنحضرتﷺ کو بدلہ میں دے گا، اِس پر یہ آیت نازل ہوئی عَسٰی رَبُّہٗۤ اِنۡ طَلَّقَکُنَّ اَنۡ یُّبۡدِلَہٗۤ اَزۡوَاجًا خَیۡرًا مِّنۡکُنَّ یعنی قریب ہے کہ اگر وہ تمہیں طلاق  دیدے تو اُس کا ربّ تمہارے بدلے ،اُس کے لیئے تم سے بہتر ازواج لے آئے۔

پھرصحیح مسلم میں ایک روایت ہے کہ حضرت عمرؓ نے فرمایا! تین مواقع پر مَیں نے اپنے ربّ سے موافقت کی، مقامِ ابراہیمؑ کے بارہ میں اور پردہ کے بارہ میں اور بدر کے قیدیوں کے بارہ میں۔

بدر کے قیدیوں کے بارہ میں روایت درست نہیں

اِس ضِمن  میں حضورِ انور ایّد الله تعالیٰ بنصرہ العزیز  نے وضاحت فرمائی ! لیکن بدر کے قیدیوں کے بارہ میں روایت درست نہیں ہے، اِس پر حضرت المُصلح الموعودؓ نے بھی بڑی بحث کی ہے، حضرت مرزا بشیر احمد صاحِبؓ نے بھی لکھا ہے بعض ثبوتوں سے، پرانے علماء اور مفسّرین نے بھی لکھا ہے، یہ ثابت کیا ہے کہ بدر کے قیدیوں کو سزاء دینے والی روایت صحیح نہیں ہے۔

علاوہ ازیں صحیح مسلم میں حضرت عمرؓ کے منافقین کا جنازہ نہ پڑھنے کے بارہ  وحیٔ قرآنی سے موافقت کا ذکر ملتا ہے، شراب کی حرمت کے بارہ میں حضرت عمرؓ کی وحیٔ قرآنی سے موافقت کا ذکر سُنُن ترمذی میں مِلتا ہے نیز صحاحِ ستّہ میں مذکور اِن موافقات کے علاوہ بھی سیرت نگاروں نے متعدد موافقات کا ذکر کیا ہے چنانچہ علّامہ سیوطیؒ نے بیس کے قریب موافقات کا ذکر کیا ہے۔

عمر رضی الله عنہ کا درجہ جانتے ہو

حضرت مسیحِ موعود علیہ الصّلوٰۃ والسّلام فرماتے ہیں، عمر رضی الله عنہ کا درجہ جانتے ہو کہ صحابہؓ میں کس قدر بڑا ہے یہاں تک کہ بعض اوقات اُن کی رائے کے موافق قرآنِ شریف نازل ہو جایا کرتا تھا اور اُن کے حق میں یہ حدیث ہے کہ شیطان عمرؓ کے سایہ سے بھاگتا ہے، دوسری یہ حدیث ہے کہ  اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو عمرؓ ہوتا، تیسری یہ حدیث ہے کہ پہلی اُمّتوں میں محدث ہوتے رہے ہیں اگر اِس اُمّت میں کوئی محدث ہے تو وہ عمرؓ ہے۔

غزوات میں مشورہ دینا اور آنحضرت ﷺ کا قبول فرمانا

اِس ضِمن  میں حضورِ انور ایّد الله تعالیٰ بنصرہ  العزیز نے  غزوۂ تبوک  کے دن لوگوں کے سخت بھوک لگنےاور ایک  سفر میں  لوگوں کےزادِ راہ کی کمی کے تناظر میں بخاری اور مسلم کی روایات بیان  فرمائیں۔

آذان کی ابتداء

حضرت المُصلح الموعودؓ اِس بارہ میں بیان فرماتے ہیں، الله تعالیٰ کی وحی صحابہؓ پر نازل ہوئی، رسولِ کریم ﷺ کے زمانہ میں عبداللہ بن زیدؓ ایک صحابی تھے،  اللہ تعالیٰ نے ان کووحی کے ذریعہ سے آذان سکھائی اور رسول کریم ﷺ نے انہی کی وحی پرانحصار کرتے ہوئے مسلمانوں میں آذان کارواج ڈالا تھا، بعد میں قرآنی وحی نے بھی اس کی تصدیق کردی۔ حضرت عمرؓ فرماتے ہیں کہ مجھے بھی خدا تعالیٰ نے یہی آذان سکھائی تھی مگربیس دن تک مَیں خاموش رہا،  اِس خیال سے کہ ایک اَورشخص رسول کریم ﷺ سے یہ بات بیان کرچکا ہے۔ایک روایت میں یہ بات بھی ہے کہ ایک فرشتہ نے آکر مجھے آذان سکھائی اورمَیں اُس وقت پوری طرح سویا ہؤا نہیں تھا، (یہ حضرت عمرؓ نے فرمایا) کچھ کچھ جاگ رہا تھا۔حضورِ انور ایّدہ الله تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اِس حوالہ سے سُنُن ترمذی کی محمد بن عبدالله بن زید  ؓسے مروی روایت بیان فرمائی نیز اُس کے آخری الفاظ کے متعلق فرمایا کہ آخر میں جو الفاظ ہیں وہ بتاتے ہیں کہ آنحضرتﷺ  کے نزدیک حضرت عمرؓ کے خواب کی کتنی اہمیت تھی۔

حضرت رسولِ کریمﷺ کا ادب و احترام  اور مقام

 حضرت مسیحِ موعود علیہِ الصّلوٰۃ والسّلام ارشاد فرماتے ہیں، ایک دفعہ حضرت عمرؓ آپﷺ کے گھر میں  گئے اور دیکھا کہ گھر میں کچھ اسباب نہیں ہیں اور آپﷺ ایک چٹائی پر لیٹے ہوئے ہیں اور چٹائی کے نشان پیٹھ پر لگے ہیں تب حضرت عمرؓ کو یہ حال دیکھ کر رونا آیا، آپﷺ نے فرمایا کہ اے عمرؓ،توکیوں روتا ہے؟ حضرت عمرؓ نے عرض کی آپﷺ کی تکالیف کو دیکھ کر مجھے رونا آ گیا، قیصرا ور کسریٰ جو کافر ہیں آرام کی زندگی بسر کر رہے ہیں اور آپﷺ اِن تکالیف میں بسر کرتے ہیں، تب آنجنابﷺ نے فرمایا کہ مجھے اِس دنیا سے کیا کام! میری مثال اُس سوار کی ہے کہ جو شدّتِ گرمی کے وقت ایک اونٹنی پر جا رہا ہے اور جب دوپہر کی شدّت نے اُس کو سخت تکلیف دی تو وہ اِسی سواری کی حالت میں دَم لینے کے لیئے ایک درخت کے سایہ کے نیچے ٹھہر گیا اور پھر چند منٹ کے بعد اُسی گرمی میں اپنی راہ لی۔

آنحضرتﷺ کا حضرت عمرؓ کو دعا کے لیئے کہنا

حضرت عمرؓ فرماتے ہیں کہ مَیں نے نبیٔ کریمﷺ سے عُمرہ ادا کرنے کی اجازت چاہی  تو آپﷺ نے مجھے اجازت دی اور فرمایا!

لَا تَنْسَنَا یَا اُخَیَّ مِنْ دُعَائِكَ

اےمیرے بھائی! ہمیں اپنی دعا میں نہ بھولنا۔

حضرت عمرؓ فرماتے ہیں کہ یہ ایسا کلمہ ہے کہ اگر مجھے اِس کے بدلہ میں ساری دنیا بھی مِل جائے تو اتنی خوشی نہ ہو۔

ایک اور روایت میں یہ الفاظ اِس طرح آتے ہیں کہ

اَشْرِکْنَا یَا اُخَیَّ فِی دُعَائِكَ

کہ  اےمیرے بھائی !ہمیں اپنی دعا میں شامل رکھنا۔

آنحضورﷺ سے  عاشقانہ تعلق کس حد تک تھا

اِس بارہ میں  حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ جب رسول الله ﷺ فوت ہو گئے تو یہ خبر سن کر حضرت عمرؓ کھڑے ہوئے اور کہنے لگے، الله کی قسم! رسول اللهﷺ فوت نہیں ہوئے۔ حضرت عائشہ ؓ کہتی تھیں حضرت عمرؓ کہا کرتے تھے بخدا! میرے دل میں یہی بات آئی تھی اور اُنہوں نے کہا! الله آپﷺ کو ضرور ضرور اُٹھائے گا تا بعض آدمیوں کے ہاتھ پاؤں کاٹ دے۔ بہرحال جب حضرت ابوبکرؓ آئے تو اُنہوں نے سورۂ   اٰل عمران  کی آیت پڑھی(145) ۔۔۔  اورپھر معاملہ ختم ہؤا۔

رسولِ کریمﷺ کی پیروی

اِس بارہ میں حضرت  ابنِ عمرؓ روایت کرتے ہیں کہ رسولِ کریمﷺ نے حجرِ اسود کی طرف منہ کیا پھر اپنےہونٹ اُس پر رکھ دیئے اور دیر تک روتے رہے، آپﷺ نے مُڑ کر دیکھا تو حضرت عمر ؓ بن خطاب کو بھی روتے پایا، آپﷺ نے فرمایا! اے عمرؓ ،یہ وہ جگہ ہے جہاں آنسو بہائے جاتے ہیں۔ عابسؓ نے حضرت عمرؓ سے روایت کی کہ وہ حجرِ اسود کے پاس آئے اور اُس کو چُوما اور کہا!مَیں خوب جانتا ہوں تو ایک پتھر ہی ہے، نہ نقصان دے سکتا ہے   نہ نفع ، اگر مَیں نے نبیٔ کریم ﷺ کو تجھے چُومتے نہ دیکھا ہوتا تو تجھے ہرگز نہ چومتا!

ایک سچے مؤمن کا مقام

اِس ضِمن میں حضرت المُصلح الموعودؓ ارشاد فرماتے ہیں، پس وہ ادب بھی کرتے تھے اور توحید کو بھی نظر انداز نہیں ہونے دیتے تھے، یہی ایک سچے مؤمن کا مقام ہے، ایک سچا مؤمن بیت الله کو ویسے ہی پتھروں کا مکان سمجھتا ہے جیسے دنیا میں اور ہزاروں مکان پتھروں کےبنے ہوئے ہیں، ایک سچا مؤمن حجرِ اسود کو ویسا ہی پتھر سمجھتا ہے جیسے دنیا میں اور کڑوڑوں پتھر موجود ہیں مگر وہ بیت الله کا ادب بھی کرتا ہے، وہ حجرِ اسود کو چُومتا بھی  ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ میرے ربّ نے اِن چیزوں  کے ادب کرنے کا مجھے حکم دیا ہے مگر باوجود اِس کے وہ اِس مکان کا ادب کرتا ہے، باوجود اِس کے کہ وہ حجرِ اسود کو چُومتا ہے، پھر بھی وہ اِس یقین پر پوری مضبوطی کے ساتھ قائم ہوتا ہے کہ  مَیں خُدائے واحد کا بندہ ہوں، کسی پتھر کا بندہ نہیں، یہی حقیقت تھی جس کا حضرت عمرؓ نے اظہار  فرمایا، آپؓ نے حجرِ اسود کو سوٹی ماری اور کہا!  مَیں تیری کوئی حیثیت نہیں سمجھتا تو ویسا ہی پتھر ہے جیسے اور کڑوڑوں پتھر دنیا میں نظر آتے ہیں مگر میرے ربّ نے کہا ہے کہ تیرا اَدب کیا جائے ، اِس لیئے مَیں ادب کرتا ہوں، یہ کہہ کر وہ آگے بڑھے اور اِس پتھر کو بوسہ دیا۔

احکام سب تقویٰ الله پیدا کرنے کے لیئے ہوتے ہیں

حضرت المُصلح الموعودؓ بیان  فرماتے ہیں کہ سونا پہننا مردوں کے لیئے جائز نہیں لیکن حضرت عمرؓ نے کسریٰ کےکڑے ایک صحابیؓ کو پہنائےاور جب اُس نے اُن کے پہننے سے انکار کیا تو اُس کو آپؓ نے ڈانٹا اور فرمایا کہ رسولﷺ نے فرمایا تھا کہ تیرے ہاتھوں میں  مجھے کسریٰ کے کڑے نظر آتے ہیں، اِسی طرح ایک موقع پر کسریٰ کا تاج  اور اِس کا ریشمی لباس جب غنیمت کے اموال میں آیا تو حضرت عمرؓ نے ایک شخص کو اِس تاج اور لباس کے پہننے کا حکم دیا، جب اُس نے پہن لیا تو آپؓ رو پڑے اور فرمایا!چند دن ہوئے کسریٰ اِس لباس کو پہن کر اور اِس تاج کو سَر پر رکھ کر مُلکِ ایران پر جابرانہ حکومت کرتا تھا اور آج وہ جنگلوں میں بھاگا پھر رہا ہے۔

دنیا کا یہ حال ہوتا ہے اور یہ حضرت عمرؓ کا فعل ظاہر بین انسان کو شائد درست معلوم نہ ہو کیونکہ ریشم اور سونا پہننا مردوں کے لیئے جائز نہیں لیکن ایک نیک بات سمجھانےاور نصیحت کرنے کے لیئے حضرت عمرؓ نے ایک شخص کو چند منٹ کے لیئے سونا اور  ریشم پہنا دیا ،غرض اصل شے تقویٰ الله ہے، احکام سب تقویٰ الله پیدا کرنے کے لیئے ہوتے ہیں، اگر تقویٰ الله کے حصول کے لیئے کوئی شے جو بظاہر عبادت معلوم ہوتی ہے چھوڑنی پڑے تو وہی کارِ ثواب ہو گا۔

مَیں نے کوئی شہ زور نہیں دیکھا

حضرت عبد اللہؓ بن عمرؓ  سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ خواب میں  مجھےدکھایاگیاکہ مَیں ایک کنویں پر کھڑا ڈول سے  جوچرخی پر رکھا ہؤا تھا پانی کھینچ کر نکال رہا ہوں، اتنے میں ابوبکرؓ آئے اور انہوں نے ایک یا دو ڈول کھینچ کر اِس طور سے نکالے کہ اُن کے کھینچنے میں کمزوری تھی اور  اللہ اُن کی کمزوری پر پردہ پوشی کرے گا اور اُن سے درگزر فرمائے گا، پھر عمرؓ بن خطاب آئے اور وہ ڈول بڑے ڈول میں بدل گیا تو مَیں نے کوئی شہ زور نہیں دیکھا جو ایسا حیرت انگیز کام کرتا ہو جیسا عمرؓ نے کیا، اتنا پانی نکالا کہ لوگ سیر

ہو گئے اور اپنے اپنے ٹھکانوں پر جا بیٹھے۔

یارسول اللهﷺ!آپﷺ نے اِس کی کیا تعبیر فرمائی

حضرت ابنِ عمرؓ نے کہا! مَیں نے رسول الله ﷺ سے سنا،  آپﷺ فرماتے تھے، ایک بار مَیں سویا ہؤا تھا کہ اِس اثناء میں میرے پاس دودھ کا ایک پیالہ لایا گیا اور مَیں نے اتنا پیا کہ مَیں نے اُس کی تراوت کو اپنے ناخنوں سےپھوٹتے ہوئے دیکھا، پھر مَیں نے اپنا بچا ہؤا دُودھ حضرت عمرؓ بن خطاب کو دیا۔ صحابہؓ نے پوچھا، یارسول اللهﷺ! آپﷺ نے اِس کی کیا تعبیر فرمائی، آنحضرتﷺ نے فرمایا! علم۔

فضل العلم سے اِس جگہ مراد علم نہیں

اِس  حدیث کےضِمن میں حضورِ انور ایّدہ الله تعالیٰ بنصرہ العزیز  نےحضرت زین العابدین  ولی الله شاہ صاحِب کی بیان کردہ تشریح  پیش فرمائی کہ فضل العلم سے اِس جگہ مراد علم کی فضیلت نہیں بلکہ علم کا بچا ہؤا حصہ، فضیلتِ علم کے متعلق الگ باب باندھا گیا ہے، آنحضرتﷺ کی رؤیاء اور اِس کی  تعبیر سے نیز اِن واقعات سے جن سے کہ اِس رؤیاء کی تصدیق ہوئی، یہ استدلال کرنا مقصود ہے کہ دُنیوی فتوحات اور عظمت جو مسلمانوں کو  حضرت عمرؓ کے ذریعہ سے نصیب ہوئی وہ علمِ نبویﷺ کا ایک بچا ہؤا حصہ تھا جو حضرت عمرؓ کو آنحضرتﷺ سے مِلا تھا۔

مجمع البحرین

 قرآنِ مجید میں آنحضرتﷺ کو بوجہ آپﷺ کےاِس جامع حیثیت کے مجمع البحرین، دُنیوی اور اُخروی بہبودی کے علوم کا جامع کہا گیا ہے۔ امام بخاریؒ نے سیاست کو العلم میں شمار کر کے اِس طرف اشارہ کیا ہے کہ آنحضرتﷺ کامل راستی لائے جو انسان کے حسنات الدّارین پر حاوی ہے جیسا کہ مسیح ؑ نے آپﷺ کے متعلق پیشگوئی کی تھی کہ جب وہ روئے حق آئے گی تو کامل سچائی لائے گی (یوحنا۔باب16،آیت12)۔ حضرت عمرؓ کے واقعات کا مطالعہ ٔ کرنے سے اِس بچے ہوئے دودھ کی حقیقت کا پتا چل سکتا ہے جو اُنہوں نے آنحضرتﷺ کے فیضان سے پیا۔

الله کے دین میں سب سے زیادہ مضبوط

 آنحضرتﷺ نے ایک موقع پر مختلف صحابہؓ کی خصوصیات بیان فرماتے ہوئے ،حضرت عمرؓ کے بارہ میں  فرمایا کہ میری اُمّت میں سے الله کے دین میں سب سے زیادہ مضبوط عمرؓ ہیں۔

اپنا محاسبہ کرو قبل اِس کے تمہارا محاسبہ کیا جائے

حضرت مالک بن اِغوال سے روایت ہے  کہ حضرت عمرؓ نے فرمایا! اپنا محاسبہ کرو قبل اِس کے تمہارا محاسبہ کیا جائے کیونکہ یہ زیادہ آسان ہےیا فرمایا! تمہارے حساب کے لیئے زیادہ آسان ہے اور اپنے نفس کو تولو! قبل اِس کے کہ تمہیں تولا جائے اور سب سے بڑھ کر بڑی پیشی کے لیئے تیاری کرو یَوْمَىٕذٍ تُعْرَضُوْنَ لَا تَخْفٰى مِنْكُمْ خَافِیَةٌ یعنی اُس دن تم پیش کیئے جاؤ گے کوئی مخفی رہنے والی تم سے مخفی نہیں رہے گی۔

سب سے زیادہ زاہد اور دنیا سے بے رغبت

حضرت سعدؓ بن ابی وقاص بیان کرتے ہیں کہ الله کی قسم!حضرتعمر ؓبن خطاب اسلام لانے میں ہم میں سے مقدّم نہ تھے لیکن مَیں نے جان لیا کہ آپؓ کس چیز میں ہم سے افضل تھے، آپؓ ہمارے مقابلہ میں سب سے زیادہ زاہد اور دنیا سے بے رغبت تھے۔

خطبۂ ثانیہ سے قبل مرحوم ڈاکٹر تاثیر مجتبیٰ صاحِب کا تفصیلی ذکرِ خیر

حضورِ انور ایّدہ الله تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خطبۂ ثانیہ سے قبل مکرم  ڈاکٹر تاثیر مجتبیٰ صاحِب ابن ڈاکٹر غلام مجتبیٰ صاحِب؍ فضلِ عمر اہسپتال کا تفصیلی ذکر خیر فرمایا نیز نمازِ جمعتہ المبارک کے بعد اُن کی نمازِ جنازہ پڑھانے کا اعلان فرمایا۔

(خاکسار قمر احمد ظفر۔ جرمنی)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 30 اکتوبر 2021

اگلا پڑھیں

خاتم النبىىن کے حقىقى معنىٰ