• 23 اپریل, 2024

والدہ کاحق

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے ایک شخص کو فرمایا کہ :
’’والدہ کا حق بہت بڑا ہے اور اس کی اطاعت فرض۔ مگر پہلے یہ دریافت کرنا چاہئے کہ آیا اس ناراضگی کی تہہ میں کوئی اور بات تو نہیں ہے۔ جو خدا کے حکم کے بموجب والدہ کی ایسی اطاعت سے بری الذمہ کرتی ہو۔ مثلا اگر والدہ اس سے کسی دینی وجہ سے ناراض ہو یا نماز روزہ کی پابندی کی وجہ سے ایسا کرتی ہو۔ تو اس کا حکم ماننے اور اطاعت کرنے کی ضرورت نہیں۔ اور اگر کوئی ایسا مشروع امر ممنوع نہیں ہے جب، (بیوی کے بارہ میں پوچھا تھا کہ والدہ یہ کہتی ہے) تو وہ خود (یعنی بیوی) واجب الطلاق ہو جاتی ہے۔

…… سب سے زیادہ خواہشمند بیٹے کے گھر کی آبادی کی والدہ ہوتی ہے اور اس معاملہ میں ماں کو خاص دلچسپی ہوتی ہے۔ بڑے شوق سے ہزاروں روپیہ خرچ کر کے خدا خدا کر کے بیٹے کی شادی کرتی ہے تو بھلا اس سے ایسی امید وہم میں بھی آسکتی ہے کہ وہ بے جا طور سے اپنے بیٹے کی بیوی سے لڑے جھگڑے اور خانہ بربادی چاہے۔ …… ایسے بیٹے کی بھی نادانی اور حماقت ہے کہ وہ کہتا ہے کہ والدہ توناراض ہے مگر میں ناراض نہیں ہوں۔ …… والدہ اور بیوی کے معاملہ میں اگر کوئی دینی وجہ نہیں تو پھر کیوں یہ ایسی بے ادبی کرتا ہے۔ اگر کوئی وجہ اور باعث اور ہے تو فوراً اسے دور کرنا چاہئے۔ …… بعض عورتیں اوپر سے نرم معلوم ہوتی ہیں مگر اندر ہی اندر وہ بڑی بڑی نیش زنیاں کرتی ہیں۔ پس سبب کو دور کرنا چاہئیے اور جو وجہ ناراضگی ہے اس کو ہٹا دینا چاہئے اور والدہ کو خوش کرنا چاہئیے۔ دیکھو شیر اور بھیڑئیے اور اور درندے بھی تو ہلائے سے ہل جاتے ہیں اور بے ضرر ہو جاتے ہیں۔ دشمن سے بھی دوستی ہو جاتی ہے اگر صلح کی جاوے تو پھر کیا وجہ ہے کہ والدہ کو ناراض رکھا جاوے۔‘‘

(ملفوظات جلد پنجم۔ صفحہ نمبر۴۹۷، ۴۹۸الحکم ۲۶؍ مارچ ۱۹۰۸ء)

پچھلا پڑھیں

ذریعہ معیشت میں تبدیلی

اگلا پڑھیں

ماں باپ کے حقوق