• 20 اپریل, 2024

دیکھیں! اپنے پر تنگی کرکے قربانیاں کرنے کے طریق اور نمونے

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
اب ان پاک نمونوں میں سے چند ایک کا مَیں ذکر کروں گا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: ایسا ہی مباہلہ کے بعد حبی فی اللہ شیخ رحمت اللہ صاحب نے مالی اعانت سے بہت سا بوجھ ہمارے درویش خانہ کا اٹھایا ہے۔ میں خیال کرتا ہوں کہ سیٹھ صاحب(حاجی سیٹھ عبدالرحمن، اللہ رکھا صاحب مدراس کے تاجر تھے) موصوف سے بعد نمبر دوم پر شیخ صاحب ہیں۔ جو محبت اور اخلاص سے بھرے ہوئے ہیں۔ شیخ صاحب موصوف اس راہ میں دو ہزار سے زیادہ روپیہ دے چکے ہوں گے اور ہر ایک طور سے وہ خدمت میں حاضر ہیں۔ (اس زمانے میں دو ہزار کی بڑی ویلیو (Value) تھی) اور اپنی طاقت اور وسعت سے زیادہ خدمت میں سرگرم ہیں۔ ایسا ہی بعض میرے مخلص دوستوں نے مباہلہ کے بعد اس درویش خانہ کے کثرت مصارف کو دیکھ کر اپنی تھوڑی تھوڑی تنخواہوں میں سے اس کے لئے حصہ مقرر کر دیا ہے۔ چنانچہ میرے مخلص دوست منشی رستم علی صاحب کورٹ انسپکٹر گورداسپور تنخواہ میں سے تیسرا حصہ یعنی 20روپیہ ماہوار دیتے ہیں۔

(ضمیمہ انجام آتھم، روحانی خزائن جلد11 صفحہ312-313 حاشیہ)

اس زمانے میں وہ بڑی چیز تھی۔ تو دیکھیں! اپنے پر تنگی کرکے قربانیاں کرنے کا جو طریق ہے وہ جاری کیا۔ وہ نمونے قائم کئے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہؓ میں تھے۔

پھر ایک اور ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’مَیں اپنی جماعت کے محبت اور اخلاص پر تعجب کرتا ہوں کہ ان میں سے نہایت ہی کم معاش والے جیسے میاں جمال الدین اور خیر الدین اور امام الدین کشمیری میرے گاؤں سے قریب رہنے والے ہیں وہ تینوں غریب بھائی بھی جو شاید تین آنہ یا چار آنہ روزانہ مزدوری کرتے ہیں۔ (آج ان کی اولادیں لاکھوں میں کھیل رہی ہیں۔) سرگرمی سے ماہواری چندہ میں شریک ہیں۔ ان کے دوست میاں عبدالعزیز پٹواری کے اخلاص سے بھی مجھے تعجب ہے کہ باوجود قلت معاش کے ایک دن سو روپیہ دے گیا۔ (یعنی اتنی طاقت نہیں تھی ایسا کاروبار نہیں تھا اس کے باوجود کہتے ہیں ایک دن مجھے ایک سو روپیہ دے گیا۔) مَیں چاہتا ہوں کہ خدا کی راہ میں خرچ ہو جائے۔ (تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:) وہ سو روپیہ شاید اس غریب نے کئی برسوں میں جمع کیاہو گا۔ مگر لِلّٰہی جوش نے خدا کی رضا کا جوش دلایا۔‘‘

(ضمیمہ انجام آتھم، روحانی خزائن جلد11 صفحہ313-314 حاشیہ)

جب مینارۃ المسیح کی تعمیر ہونے لگی تھی اس وقت کا ذکر ہے۔ فرمایا: ’’ان دنوں میں میری جماعت میں سے دو ایسے مخلص آدمیوں نے اس کام کے لئے چندہ دیا ہے۔ جو باقی دوستوں کے لئے درحقیقت جائے رشک ہیں۔ ایک ان میں سے منشی عبدالعزیز نام، ضلع گورداسپور میں پٹواری ہیں، جنہوں نے باوجود اپنی کم سرمائیگی کے ایک سو روپیہ اس کام کے لئے چندہ دیا ہے۔ (جن کا پہلے ذکر آیا ہے) اور مَیں خیال کرتا ہوں کہ یہ سوروپیہ کئی سال کا ان کا اندوختہ ہو گا اور فرمایا کہ یہ اس لئے زیادہ قابل تعریف ہیں کہ ابھی وہ ایک اور کام میں بھی ایک سو روپیہ چندہ دے چکے ہیں اور اپنے عیال کی بھی چنداں پرواہ نہیں کی (بالکل پرواہ نہیں رکھی) اور یہ چندہ پیش کر دیا۔


دوسرے مخلص جنہوں نے اس وقت بڑی مردانگی دکھلائی ہے، میاں شادی خاں لکڑی فروش ساکن سیالکوٹ ہیں۔ ابھی وہ ایک کام میں ڈیڑھ سو روپیہ چندہ دے چکے ہیں اور اب اس کام کے لئے دو سو روپیہ (چندہ) بھیج دیا ہے اور یہ وہ متوکل شخص ہے کہ اگر اس کے گھر کا تمام اسباب دیکھا جائے تو شاید تمام جائیداد 50روپے سے زیادہ نہ ہو (لیکن دو سو روپے چندہ دے دیا) انہوں نے اپنے خط میں لکھا ہے کہ کیونکہ ایام قحط ہیں اور دنیوی تجارت میں صاف تباہی نظر آتی ہے تو بہتر ہے کہ ہم دینی تجارت کر لیں۔ اس لئے جو کچھ اپنے پاس تھا سب بھیج دیا۔ (حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:) اور درحقیقت وہ کام کیا جو حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کیا تھا۔‘‘

(مجموعہ اشتہارات جلد سوم صفحہ314-315)

پھر فرمایا: ’’حبی فی اللہ میاں عبدالحق خلف عبدالسمیع یہ ایک اول درجہ کا مخلص اور سچا ہمدرد اور محض للہ محبت رکھنے والا دوست اور غریب مزاج ہے۔ دین کو ابتداء سے غریبوں سے مناسبت ہے کیونکہ غریب لوگ تکبر نہیں کرتے اور پوری تواضع کے ساتھ حق کو قبول کرتے ہیں۔ میں سچ سچ کہتا ہوں کہ دولت مندوں میں ایسے لوگ بہت کم ہیں کہ اس سعادت کا عشربھی حاصل کر سکیں جس کو غریب لوگ کامل طور پر حاصل کر لیتے ہیں۔ (دسواں حصہ بھی ان کے پاس نہیں ہوتا۔) فطوبٰی للغرباء۔ میاں عبدالحق با وجود اپنے اِفلاس اور کمی مقدرت کے ایک عاشق صادق کی طرح محض للہ خدمت کرتا رہتا ہے اور اس کی یہ خدمات اس آیت کا مصداق اس کو ٹھہرا رہی ہیں کہ وَیُؤۡثِرُوۡنَ عَلٰۤی اَنۡفُسِہِمۡ وَلَوۡ کَانَ بِہِمۡ خَصَاصَۃٌ (الحشر: 10) یعنی باوجود تنگی درپیش ہونے کے بھی اپنی جانوں پر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں۔

(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد3 صفحہ537)

(خطبہ جمعہ 7؍جنوری 2005ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

ٹبورا، تنزانیہ میں پہلی مسجد کی تعمیر

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 30 دسمبر 2022