• 20 اپریل, 2024

اللہ تعالیٰ کی راہ میں جان کی قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی

اللہ تعالیٰ کی راہ میں جان کی قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی
(حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز)

حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے موٴرخہ 20؍جنوری 2023ء کے خطبہ میں فرمایا:
جماعت احمدیہ میں گزشتہ سو سال سے زائد عرصہ سے الله تعالیٰ کی راہ میں جان کی قربانیاں پیش کی جا رہی ہیں۔ کیا اُن کی قربانیاں رائیگاں گئیں؟ نہیں! بلکہ جہاں الله تعالیٰ بمطابق اپنے وعدہ اِن شہداء کے مقام کو بلند کرتا رہا وہاں جماعت کو پہلے سے بڑھ کر ترقیات سے نوازتا رہا۔اِن شہیدوں نے جہاں اگلے جہان میں وہ مقام پایا جو اُنہی کا حصہ ہے اور اُن کے درجات ہمیشہ بڑھتے چلے جانے والے ہیں، وہاں اِس دنیا میں بھی ہمیشہ کے لئے اُن کے نام روشن ہیں اور اِن کا الله تعالیٰ کی راہ میں جان دینا نہ صرف اپنے لئے بلکہ جماعت کی زندگی کا بھی باعث بن رہا ہے۔ یہی تو ہیں جو پیچھے رہنے والوں کی زندگی اور ترقیات کا بھی ذریعہ بن رہے ہیں، پھر وہ مُردہ کس طرح ہو سکتے ہیں؟

دنیائے احمدیت میں قربانیوں کی ایک نئی رقم کی جانے والی تاریخ

حضرت صاحبزادہ سیّدعبداللطیف صاحب شہید رضی الله عنہ کی قربانی سے جماعت احمدیہ میں شروع ہونے والی جان کی قربانی عمومًا افغانستان اور برصغیر کے احمدیوں کے حصہ میں رہی۔ افریقہ میں بھی ایک مخلص احمدی نے کانگو میں اپنی جان کا نذرانہ 2005ء میں خالصتًا جماعت کی خاطر پیش کیا تھا لیکن گزشتہ دنوں براعظم افریقہ کے ملک برکینا فاسو میں عشق و وفا، اخلاص، ایمان اور یقین سے پُر افراد جماعت نے جو نمونہ مجموعی طور پر دکھایا وہ حیرت انگیز اور اپنی مثال آپ ہے۔ جن کو موقع دیا گیا کہ مسیح موعودؑ کی صداقت کا انکار کرو اور اِس بات کو تسلیم کرو کہ عیسیٰؑ آسمان پر زندہ ہیں اور آسمان سے اُتریں گےتو ہم تمہاری جان بخشی کر دیتے ہیں لیکن اِن ایمان اور یقین سے پُر لوگوں نے، جن کا ایمان پہاڑوں سے زیادہ مضبوط نظر آتا ہے، جواب دیا: جان تو ایک دن جانی ہے، آج نہیں تو کل، اِس کے بچانے کے لئے ہم اپنے ایمان کا سودا نہیں کر سکتے۔جس سچائی کو ہم نے دیکھ لیا ہے اُسے ہم چھوڑ نہیں سکتے اور یوں ایک کے بعد دوسرا اپنی جان قربان کرتا چلا گیا، اِن کی عورتیں اور بچے بھی یہ نظارہ دیکھ رہے تھے اور کوئی واویلا کسی نے نہیں کیا، پس یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نےافریقہ بلکہ دنیائے احمدیت میں اپنی قربانیوں کی ایک نئی تاریخ رقم کی ہے۔

بعد میں آکر پہلوں سے سبقت لے گئے

اپنی دنیاوی زندگیوں کی قربانی دے کر ہمیشہ کی زندگی حاصل کرنے والے بن گئے ہیں، جنہوں نے جان، مال، وقت کو قربان کرنے کا جب عہد کیا تو پھر نبھایا اور ایسا نبھایا کہ بعد میں آکر پہلے آنے والوں سے سبقت لے گئے، الله تعالیٰ اِن میں سے ہر ایک کو اُن بشارتوں کا وارث بنائے جو الله تعالیٰ نے اپنی راہ میں قربانیاں کرنے والوں کو دی ہیں۔

تفصیلات المناک واقعہ شہادت

برکینا فاسو کا شہر ڈوری جہاں مہدی آباد نئی آبادی قائم ہوئی تھی 11؍جنوری کوعشاء کے وقت 9 احمدی بزرگوں کو مسجد کے صحن میں باقی نمازیوں کے سامنے اسلام احمدیت سے انکار نہ کرنے کی بنا پر ایک ایک کر کے شہید کر دیا گیا۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ! رپورٹ کے مطابق بوقت عشاء چار موٹر سائیکلوں پر آٹھ مسلح دہشت گردمسجد میں آئے تو اذان ہو رہی تھی، اُس وقت تک کچھ نمازی آ چکے تھے اور باقی ابھی آ رہے تھے۔ اذان ختم ہونے کے بعد دہشت گردوں نے مؤذن سے احباب کے مسجد میں جلد آنے کا اعلان کروایا کہ کچھ لوگ آئے ہیں اُنہوں نے بات کرنی ہے۔ جب نماز کا وقت ہو گیا تو امام ابراہیم بی دیگا صاحب نے اُن سے کہا کہ ہمیں نماز پڑھ لینے دیں لیکن اُنہوں نے اجازت نہ دی۔ اُنہوں نے امام صاحب سے جماعت احمدیہ کے عقائد کے متعلق کافی سوالات کئے جن کے جوابات امام صاحب نے تسلی اور بہادری سے دیئے اور بتایا کہ ہم لوگ مسلمان ہیں اور آنحضرت صلی الله علیہ و سلم کو ماننے والے ہیں۔ حضرت عیسیٰؑ وفات پا چکے ہیں اور مرزا غلام احمد صاحب قادیانی علیہ السلام امام مہدی اور مسیح موعود کے طور پر آئے ہیں۔ آخر پر مسلح افراد نے یہ باتیں سن کر کہا کہ احمدی مسلمان نہیں بلکہ پکے کافر ہیں اور نعوذ باللّٰه! آپؑ کے دعویٰ کو جھوٹا قرار دیا۔

میرا سر قلم کرنا ہے تو کر دیں لیکن مَیں احمدیت نہیں چھوڑ سکتا

پھر دہشت گردوں نے مسجد میں موجود احباب و خواتین سمیت ساٹھ سے ستّر نمازیوں میں سے بچوں، نوجوانوں اور بزرگوں کے الگ الگ گروپ بنائے۔ بلحاظ عمر گروپس بنانے کے بعد اُنہوں نے بڑی عمر کے افراد سے مسجد کے صحن میں آنے کا کہا، اُس وقت دس انصار مسجد میں موجود تھے جن میں سے ایک معذور کو یہ کہہ کر بٹھا دیا گیا کہ تم کسی کام کے نہیں ہو بیٹھے رہو۔ مسجد کے صحن میں کھڑا کر کے امام ابراہیم بی دیگا صاحب سے کہا! اگر وہ احمدیت سے انکار کر دیں تو اُنہیں چھوڑ دیا جائے گا۔ اُنہوں نے کہا: میرا سر قلم کرنا ہے تو کر دیں لیکن مَیں احمدیت نہیں چھوڑ سکتا۔ جس صداقت کو مَیں نے پا لیا ہے اِس سے پیچھے ہٹنا ممکن نہیں۔ ایمان کے مقابلہ میں جان کی حیثیت کیا ہے؟ اُنہوں نے امام صاحب کی گردن پر بڑا چاقو رکھا اور اُن کو لِٹا کر ذبح کرنا چاہا لیکن مزاحمت اور کہنے پر کہ مَیں لیٹ کر مرنے کی نسبت کھڑے رہتے ہوئے جان دینا پسند کروں گا۔ امام صاحب کو گولیاں مار کر شہید کر دیا گیا۔

سب احمدی بزرگوں نے پہاڑوں جیسی استقامت کا مظاہرہ کیا

امام صاحب کو بےدردی سے شہید کرنے کے بعد دہشت گردوں نے خیال کیا کہ باقی لوگ خوفزدہ ہو کر ایمان سے پھر جائیں گے۔ چنانچہ اُنہوں نے اگلے احمدی بزرگ سے کہا کہ احمدیت سے انکار کرنا ہے یا تمہارا بھی وہی حشر کریں جو تمہارے امام کا کیا ہے؟ اُس بزرگ نے بڑی دلیری اور بہادری سے کہا کہ احمدیت سے انکار ممکن نہیں ہے۔ جس راہ پر چل کر ہمارے امام نے جان دی ہے ہم بھی اِسی راہ پر چلیں گے۔ اِس پر اُنہیں بھی سر میں گولیاں مار کر شہید کر دیا گیا۔پیچھے رہ جانے والے افراد سے بھی فرداً فرداً یہی مطالبہ کیا گیا کہ امام مہدیؑ کا انکار کر دیں اور احمدیت چھوڑ دیں تو اُنہیں کچھ نہیں کہا جائے گا اور زندہ چھوڑ دیا جائے گا۔سب احمدی بزرگوں نے پہاڑوں جیسی استقامت کا مظاہرہ کرتے ہوئے جرأت اور بہادری سے شہادت کو گلے لگانا قبول کر لیا۔ کسی ایک نے بھی ذرا سی کمزوری دکھائی اور نہ ہی احمدیت سے انکار کیا۔ ایک کے بعد ایک شہید گرتا رہا لیکن کسی کا ایمان متزلزل نہیں ہوا۔ سب نے ایک دوسرے سے بڑھ کر یقین محکم اور دلیری کا مظاہرہ کیا اور ایمان کا عَلم بلند رکھتے ہوئے الله کے حضور اپنی جانیں پیش کر دیں۔

ہر شہید کو کم و بیش تین گولیاں ماری گئیں

9 شہداء میں دو جڑواں بھائی بھی شامل تھے، جب آٹھ افراد کو شہید کیا جا چکا تو آخر پر سب شہداء سے چھوٹے چوالیس سالہ آگوما آگ عبدالرحمٰن صاحب سے دہشت گردوں نے پوچھا کہ تم جوان ہو، احمدیت سے انکار کر کے اپنی جان بچا سکتے ہو۔ اُنہوں نے بڑی شجاعت سے جواب دیا: جس راہ حق پر چل کر میرے بزرگوں نے قربانی دی ہے، مَیں بھی اپنےامام اور بزرگوں کے نقش قدم پر چل کر ایمان کی خاطر اپنی جان قربان کرنے کے لئے تیار ہوں، اِس پر اُنہیں بھی بڑی بے دردی سے چہرہ پر گولیاں مار کر شہید کر دیا گیا۔دہشت گردوں کے مسجد میں آنے سے لے کر سوال و جواب، عقائد پر تفصیلی بحث اور ساری کاروائی کر کے مسجد سے نکلنے تک کم و بیش ڈیڑھ گھنٹے کا وقت بنتا ہے، اِس دوران بچے اور باقی افراد جس کرب اور تکلیف سے گزرے ہوں گےاُس کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اُن کے سامنے اُن کے بزرگوں کو شہید کیا جا رہا تھا۔

ہم گواہ ہیں

حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحبؓ شہید کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مسیح موعودؑ نے تذکرۃ الشہادتین میں ایک رؤیا کا ذکر فرماتےہوئے آخر پر لکھاکہ خدا تعالیٰ بہت سے اُن کے قائمقام پیدا کر دے گا۔ آپؑ نے اپنی رؤیا سے یہ نتیجہ اخذ کیاکہ مجھے امید ہے کہ آپؓ کی شہادت کے بعد الله تعالیٰ بہت سے اُن کے قائمقام پیدا کر دے گا۔ ہم گواہ ہیں کہ آج افریقہ کے رہنے والوں نے اجتماعی طور پر اِس کا نمونہ دکھا دیا اور قائمقامی کا حق ادا کر دیا ہے۔

تدفین شہداء

دہشت گردوں نے مسجد میں ڈیڑھ گھنٹہ گزار کر اِس قدر خوف کی فضا پیدا کی تھی کہ جس مقام پر شہادتیں ہوئیں شہداء کی نعشیں رات بھر وہیں پڑی رہیں کیونکہ خدشہ تھا کہ دہشت گرد گاؤں سے باہر نہیں گئے اور اگر کوئی نعش اٹھانے گیا تو اُسے بھی مار دیا جائے گا۔ قریبی آرمی کیمپ سے باوجود اطلاع کے کوئی آیا اور نہ ہی سیکورٹی اداروں کا کوئی فرد صبح تک وہاں پہنچا، شہداء کی تدفین 12؍ جنوری کی صبح دس بجے پھر مہدی آباد میں کر دی گئی۔ مزید برآں حضورانورایدہ الله نے مختصرًا شہداء کا تعارف پیش فرمایا جس سے اِن کی ایمانی پختگی کا پتا چلتا ہے۔

امام الحاج ابراہیم بی دیگا صاحب

شہادت کے وقت اِن کی عمر اڑسٹھ سال تھی، بسلسلہ تعلیم سعودی عرب میں بھی مقیم رہے، تماشق زبان کے بہت بڑے عالِم اور اِس زبان میں قرآن مجید کے مفسّر بھی تھے۔ آپ نے 1999ء میں بیعت کی۔ قبول احمدیت سے قبل بھی آپ صاحب اثرورسوخ اور کئی دیہات کے چیف امام تھے۔۔ اِس زون کے دیگر علما آپ کے پاس آ کر بیٹھنے اور اِکتساب علم کرنے کو اپنی شان سمجھتے تھے۔

شہیدوں نے مخالفین کے بھی منہ بند کر دیئے ہیں

1998ء میں ڈوری میں باقاعدہ احمدیہ مشن قائم ہوا تو اِن تک بھی پیغام احمدیت کی بازگشت پہنچی۔ تبلیغی مہم کے دوران ایک مارکیٹ میں اِنہوں نے احمدیت کا نام پہلی بار سنا اور پتا چلا کہ احمدی وفات مسیح کے قائل نیز مسیح و مہدی کے آنے کی خبر دیتے ہیں تو آپ سات افراد کا ایک وفد لے کر تلاش حق کے لئے ڈوری مشن ہاؤس تشریف لائے۔ آپ نے بہت تحقیق کے بعداحمدیت قبول کی تھی۔ اپنے زون میں پہلا احمدی ہونے کا شرف پایا۔ یہ جو مخالفین کہتے ہیں غریب لوگ ہیں اِن کو لالچ دے کر بیعت کروا لیتے ہیں۔ اِن کو دین کا کچھ پتا نہیں ہے۔ اِن شہیدوں نے اِن کے بھی منہ بند کر دیئے ہیں۔ سمجھ کر صداقت کو قبول کیا اور پھر قربانی کی بھی اعلیٰ ترین مثال قائم کی۔

ایک نڈرجماعتی سپاہی اور بے خوف داعی اِلی الله

جماعت کے ایک نڈر سپاہی، بے خوف داعی اِلی الله اور حقیقی معنوں میں ایک فدائی احمدی تھے۔آپ کی تبلیغی کوششوں سے علاقہ بھر میں احمدیت کا پیغام پھیلا اور کئی جماعتیں قائم ہوئیں۔ آپ بڑھ چڑھ کر جماعتی پروگراموں میں حصہ لیتے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرّابع رحمہ الله کے زمانہ سن 2000ء میں اِن کو جلسہ سالانہ برطانیہ میں بھی شرکت کی توفیق ملی۔ تبلیغ کا ایک جنون اور شوق تھا۔ قبول احمدیت کے بعد آپ نے اپنے آپ کو تبلیغ کے لئے وقف کر دیا۔ یوں معلوم ہوتا تھا کہ اُنہیں کسی اور چیز کی پرواہ ہی نہیں ہے۔

خلافت سے بے انتہا وفا کا تعلق اور اظہار محبت

امیر صاحب برکینا فاسو بیان کرتے ہیں: اِس محبت کی ایک مثال ایم ٹی اے پر حضور انور ایدہ الله کی بچوں کے ساتھ ہونے والی کلاس، اردو زبان سے ناواقفیت کے باوجود بڑے انہماک سے دیکھتے رہتے تھے جس طرح سمجھ آ رہی ہوتی ہے اور یہی کہتے تھے میرے لئے یہاں اِس مجلس میں بیٹھنا، اِس کو دیکھنا ہی بہت ایمانی ترقی کا باعث بنتا ہے۔مہمان نواز اور خاموش طبع تھے لیکن جب جماعت کی خاطر بولنا پڑتا تو پھر بہت جذباتی ہو کر بولتے۔ ایک مکمل مبلّغ تھے۔ غیر احمدیوں سےاِنہوں نے انفرادی اور اجتماعی طور پر کافی مناظرے اور سوال جواب کئے۔

خلیفۂ وقت سے محبت کی ایک زندہ تصویر

بینن کے ایک ریٹائرڈ لوکل معلّم صاحب کہتے ہیں: خلیفۂ وقت سے محبت کی ایک زندہ تصویر تھے۔ وہ کہا کرتے تھے کہ جب مجھے احمدیت کا پیغام بذریعہ پاکستانی مبلّغ ملا تو مَیں اُسی دن سے احمدی ہو چکا تھا۔ مَیں نے یہ سیکھا ہے کہ دنیا کی فلاح صرف نظام خلافت سے وابستہ ہے۔ یہی اصل راستہ ہے اور مرتے دَم تک اِسی پر قائم رہوں گا۔ معلّم صاحب کہتے ہیں کہ حقیقتاً جو اُنہوں نے کہا تھا کر دکھایا۔ حضور انور ایدہ الله نے اِس تناظر میں اپنے ذاتی مشاہدہ کا تذکرہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ! افریقہ کی جماعتوں میں سے برکینا فاسو کی جماعت میں مَیں نے ایک خاص بات دیکھی ہے کہ ملاقات کے وقت ہر ایک کی یہ کوشش ہوتی تھی کہ مجھ سے گلے لگے اور پھر اِن لوگوں کی محبت جو تھی وہ بھی دیکھنے والی ہوتی تھی۔

الحسن آگمالی ائیل صاحب

اکہتر سالہ پیشہ کے لحاظ سے کسان تھے۔ 1999ء میں احمدیت قبول کی گاؤں کے ابتدائی احمدیوں میں سے نیز الحاج ابراہیم صاحب کے ساتھ مل کر ڈوری مشن جانے والے تحقیقی وفد میں بھی شامل تھے۔ جب سے آپ نے بیعت کی اخلاص و وفا میں ترقی کرتے چلے گئے۔ خلافت کے ساتھ بہت اخلاص کا تعلق رکھتے تھے۔ نماز باجماعت کے پابند، تہجد گزار، چندہ جات میں باقاعدہ، اپنی فیملی کے لئے اپنے پیچھے ایک نیک نمونہ قائم کیا۔ مجموعی طور پر آپ نے جماعت کے لئےجان، مال اور وقت کی جو قربانی کی وہ غیر معمولی ہے۔

حسین آگمالی ائیل صاحب (زعیم انصار الله مہدی آباد)

الحسن آگمالی ائیل صاحب کےجڑواں بھائی تھے، اِنہوں نے بھی 1999ء میں بیعت کرنے کی توفیق پائی اور اپنے گاؤں کے ابتدائی احمدیوں میں سے نیز الحاج ابراہیم صاحب کے ساتھ ڈوری مشن میں جا کر تحقیق کرنے والے گروپ میں بھی شامل تھے۔ اِس وقت مہدی آباد میں بطور زعیم انصار الله خدمت کی توفیق پا رہے تھے۔ انصار بھائیوں کو بہت اچھے طریق سے منظم کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ اِن کو جماعتی پروگراموں اور سرگرمیوں میں متحرک رکھتے اور تربیت کے متعدد پروگرام منعقد کرواتے رہتے۔ مسجد کی صفائی اور دیگر مقامات پر وقار عمل کرواتے۔ چندہ جات میں باقاعدہ اور پانچوں نمازیں مسجد میں ادا کرنے کی پابندی کرتے۔ نماز تہجد باقاعدہ ادا کرنے والے تھے۔

عبدالرحمٰن آگ حمیدو صاحب

سڑسٹھ سالہ پیشہ کے لحاظ سے کسان تھے۔ 1999ء میں اِنہوں نے بھی احمدیت قبول کی۔ دل کے بہت صاف۔ بہت حلیم طبع ہمیشہ جماعتی پروگراموں میں حصہ لینے والے صف اوّل میں شمار ہوتے تھے۔ کسی پروگرام سے غیر حاضر ہوتے تو سمجھا جاتا یقیناً کوئی بہت اشد مجبوری یا بیماری ہوگی ورنہ غیر حاضر نہیں ہوتے تھے۔ امام ابراہیم صاحب کے مددگار ساتھیوں میں سے تھے۔ اپنی فیملی کو بھی نظام جماعت کے ساتھ جڑے رہنے اور جماعتی پروگرام میں شرکت کی تلقین کرتےرہتے۔ خلافت احمدیہ کے ساتھ وفا کا تعلق تھا۔ بہت سا وقت مسجد میں گزارتے۔ ایم ٹی اے کے پروگرام دیکھتے رہتے خاص طور پر خطبہ بہت باقاعدگی اور توجہ سے سنتے۔

صُلح آگ ابراہیم صاحب

سڑسٹھ سالہ پیشہ کے اعتبار سے کسان تھے۔ نماز باجماعت کے بہت پابند، باقاعدگی سے چندہ جات ادا کرنے والے، مجلس انصار الله کے متحرک رکن، کارکن اور جماعت کے بہت مخلص تھے۔ابراہیم صاحب کے دست راست اور مددگار تھے۔ الله تعالیٰ کے فضل سے صاحب علم تھے۔ مذہبی اور علمی گفتگو کرنا آپ کی عادت تھی۔ جب بھی انصار ممبران و جماعت میں علمی گفتگو ہو رہی ہوتی آپ ایسی محفل میں پائے جاتے۔ بہت حلیم اور شریف طبیعت کے مالک تھے۔ ہر چھوٹے، بڑے کے ساتھ حسن سلوک کرنا آپ کے اوصاف میں تھا۔ جلسہ سالانہ یا کسی اجتماع پر جاتے ہوئے اگر دیکھتے کہ کسی کے پاس کرایہ کی رقم نہیں یا کم ہے تو اپنی طرف سے اُس کی مدد کر دیتے تاکہ وہ بھی شامل ہو جائے۔

عثمان آگ سودے صاحب

انسٹھ سالہ مخلص اور جانثار احمدی تھے۔ جماعت کے لئے مال اور وقت کی قربانی کرنے والے تھے اور آخر پر الله تعالیٰ نے جان کی قربانی کی بھی توفیق عطا فرما دی۔ مہدی آباد کی مسجد کی تعمیر کے وقت پانی لے کر آتے اور تعمیر کے کام میں مسلسل تعاون کرتے اور بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے رہے۔ نمازوں کے بہت پابند، چندہ دینے میں باقاعدہ اور جو کچھ کما کر لاتے پہلے اُس سے چندہ کی رقم ادا کرتے۔حضور انور ایدہ الله نے ارشاد فرمایا! کیا ایسی سوچ رکھنے والے پیسوں کے لالچ میں بیعت کرتے ہیں جیسا کہ مخالفین کہہ رہے ہیں۔ باعتبار پیشہ آپ ایک تاجر اور جوتے کا کاروبار کرتے تھے۔ کسی کے پاس اگر جوتا خریدنے کی استطاعت نہیں تھی یا رقم کم ہوتی تو پھر بھی اُسے خالی ہاتھ نہیں جانے دیتے تھے۔

آگالی آگماگوئیل صاحب

1970ء میں پیدا ہوئے، والد صاحب کے ساتھ 1999ء میں احمدیت قبول کی۔ باعتبار پیشہ کسان تھے۔ جماعت احمدیہ دلارے کے مؤذن تھے۔ جب کچھ عرصہ قبل دہشت گردی کی وجہ سے اُن کو اپنے گاؤں سے نقل مکانی کرنی پڑی تو مہدی آباد میں سکونت اختیار کر لی۔ بہت مخلص احمدی تھے۔ نمازوں اور چندہ جات میں باقاعدہ اور جماعت کی تمام سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے۔

موسیٰ آگ ادراہی صاحب

ترپن سالہ کھیتی باڑی کا کام کرتے تھے اور جماعتی کاموں میں ہمیشہ پیش پیش رہتے۔ احمدی ہونے سے قبل وہابیہ فرقہ کے بہت سرگرم رکن تھے۔ نمازوں کی بہت پابندی کرنے والے۔ تہجد باقاعدگی سے ادا کرنے والےتھے۔ مغرب کی نماز پر مسجد میں آتے تو عشاء کی نماز پڑھ کر ہی واپس گھر جاتے۔ مغرب اور عشاء کا وقت مسجد میں گزارتے اور ذکر الٰہی میں مصروف رہتے۔ اِن کے متعلق ہر کوئی گواہی دیتا ہے کہ ایک حقیقی مؤمن اورمخلص فدائی احمدی ہونے کا عملی نمونہ تھے۔ حضور انور ایدہ الله کو باقاعدہ دعائیہ خطوط بھی لکھتے اور کہتے تھے کہ مَیں بھی خلیفۂ وقت کے لئے باقاعدہ دعا کرنے والا ہوں۔

آگوما آگ عبدالرحمٰن صاحب (نائب امام الصلوٰۃ مہدی آباد)

1999ء میں بیس سال کی عمر میں احمدیت قبول کی۔ اِس کے بعد جماعت کے ساتھ اخلاص اور وفا میں ترقی کرتے چلے گئے۔جماعت احمدیہ مہدی آباد کے بہت مخلص اور فدائی احمدی نیز امام ابراہیم صاحب کے دست راست تھے۔ جب دہشت گرد مسجد میں داخل ہوئے تو اُنہوں نے امام ابراہیم صاحب کا پوچھنے کے بعدپوچھا کہ نائب امام کون ہے تو آپ نے بغیر کسی ہچکچاہٹ کے بتایا کہ مَیں ہوں۔ آپ ہمیشہ مسجد میں آنے والے اوّلین افراد میں سے ہوتے۔ بہت خشوع و خضوع کے ساتھ نماز ادا کیا کرتے تھے۔ نماز تہجد کی پابندی کرنے والے تھے۔ مسجد میں اپنے بچوں کو بھی ساتھ لے کر آتے اور اُن کی تربیت کا بہت خیال رکھتے۔ حضور انور ایدہ الله کو خط لکھنے میں بھی بڑی باقاعدگی تھی۔ سائیکل چلانے کے بہت ماہر اور 2008ء میں خلافت جوبلی کے جلسہ میں برکینا فاسو سے گھانا سائیکلوں پر جانے والے قافلہ میں بھی شامل تھے۔

یہ احمدیت کے چمکتے ستارے ہیں

بعدازاں حضور انور ایدہ الله نے ارشاد فرمایا! یہ احمدیت کے چمکتے ستارے ہیں۔ اپنے پیچھے ایک نمونہ چھوڑ کر گئے ہیں۔ الله تعالیٰ اِن کی اولادوں اور نسلوں کو بھی اخلاص و وفا میں بڑھائے۔ دشمن سمجھتا ہے کہ اِن کی شہادتوں سے یہ اِس علاقہ میں احمدیت ختم کر دے گا لیکن پہلے سے بڑھ کر اِنْ شَآءَ اللّٰہُ احمدیت یہاں بڑھے اور پنپے گی۔ بابت کفالت خاندان شہداء حسب سابق سیّدنا بلال فنڈ کی مدّ میں ادائیگی کی یادہانی کروانے کے بعد حضور ایدہ الله نے اقتباس حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی روشنی میں ارشاد فرمایا! پس یہ قربانی کرنے والے تو اِس آزمائش میں پورا اُترے، اب پیچھے رہنے والوں کا بھی اپنے ایمان اور یقین میں بڑھنے کا امتحان ہے۔ الله تعالیٰ اِن کو بھی توفیق دے اور ہمیں بھی توفیق دے کہ ہم اپنے ایمان اور یقین میں کامل رہیں۔ الله تعالیٰ اِن شہداء کے مقام کو بلند تر فرماتا چلا جائے۔ اِن کی قربانیوں کو وہ پھل پھول لگائے کہ جس کے نتیجہ میں حضرت محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی حقیقی تعلیم کو جلد از جلد دنیا میں ہم پھیلتا دیکھنے والے ہوں۔ جہالت دنیا سے ختم ہو اور خدائے واحد کی حقیقی بادشاہت دنیا میں قائم ہو جائے۔

(مرتبہ: قمر احمد ظفر، نمائندہ الفضل آن لائن لندن)

پچھلا پڑھیں

تلخیص صحیح بخاری سوالاً جواباً (كتاب الحیض) (قسط 16)

اگلا پڑھیں

مہدی آباد کے شہداء