• 25 اپریل, 2024

حضرت امام ابو حنیفہؒ

تعارف

اسلام میں ایک نہایت ہی اعلیٰ پائے کے فارسی الاصل محدث فقیہ ماہر علم الکلام بزرگ تابعی گزرے ہیں جن کا نام ہے نعمان بن ثابت بن زوطیٰ بن مرزبان۔ آپ کی کنیت ابو حنیفہ اور آپؒ کا لقب امامِ اعظم ہے۔ آپؒ کی پیدائش بعض کے نزدیک 70 ہجری اور بعض کے نزدیک 80 ہجری میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دار الخلافہ کوفہ میں ہوئی۔

حضرت امام ابو حنیفہؒ کے دادا زوطیٰ حضرت علیؓ کی مجلس میں آیا کرتے تھے۔ جب امام کے والد کی پیدائش ہوئی تو زوطیٰ ان کو لے کر حضرت علیؓ کی خدمت میں آئے اور حضرت علیؓ نے ان کے لئے اور ان کی اولاد کے لئے برکت کی دعا کی۔

(امام الائمہ ابو حنیفہ صفحہ10-11 از محمد رفیق الاسلام رضوی)

تجارت میں صداقت و دیانت داری

حضرت امام ابو حنیفہؒ کے دادا اور والد کپڑوں کا کاروبار کرتے تھے۔ آپؒ نے بھی ابتدائی تعلیم کے بعد اسی کاروبار کو اپنایا اور بہت قابل تاجر ثابت ہوئے اور نہایت ترقی کی۔ یہانتک کہ بہت سی جگہوں پر آپ کے کاروبار کی مشہوری ہو ئی۔ آپؒ خاص طور پر خز کے کپڑے کا کاروبار کرتے تھے۔ حضرت امام ابو حنیفہؒ نہایت امین، سچے، دیانت دار تاجر تھے۔ فروخت کرتے ہوئے ہمیشہ صحیح قیمت لگاتے اور اگر کسی شے میں کوئی نقص ہوتا تو پورے طور پر خریدار کو اس نقص سے مطلع کرتے اور آپؒ کے کارندوں کو بھی یہی ہدایت تھی۔ چنانچہ آتا ہے کہ ایک دفعہ آپ نے اپنے کارندے کو بتایا کہ فلاں کپڑے میں عیب ہے، خریدار کو بیچنے سے پہلے اس نقص کے بارے میں ضرور بتا دینا۔ مگر وہ کارندہ بھول گیا اور کپڑا بغیر نقص بتائے بیچ دیا۔ جب امام ابو حنیفہؒ کو معلوم ہوا تو وہ ساری رقم صدقہ کر دی۔

(سیرت حضرت امام ابو حنیفہ صفحہ21 از محمد عاصم اعظمی)

اسی طرح ایک دفعہ آپ دکان پر نہیں تھے تو آپ کے ایک کارندے نے ایک کپڑا جو کہ چار سو درہم کا تھا اسے ہزار درہم کا بیچ دیا۔ خریدار مدینہ منورہ کا رہنے والا تھا۔ وہ خرید کر چلا گیا۔ جب امامؒ ابو حنیفہ آئے اور اس بات کا پتا چلا تو اس کارندے پر سخت ناراض ہوئے اور کہا کہ ’’تم لوگوں کو دھوکہ دیتے ہو حالانکہ تم دکان میں میرے ساتھ رہتے ہو۔‘‘ اس کے بعد آپؒ نے وہ ساری رقم لی اور مدینہ کا سفر کیا۔ اس خریدار کو پہچانتے تو نہ تھے اس لئے مسجد چلے گئے۔ مسجد میں دیکھا کہ ایک شخص نماز پڑھ رہا ہے اور وہی کپڑا پہنا ہے جو امام کی دکان سے خریدا تھا۔ امام ابو حنیفہؒ اس کے پاس گئے اور کہا کہ یہ کپڑا تمہیں زیادہ قیمت پر بیچا گیا ہے۔ یا تو اسے واپس کر کے ہزار درہم لے لو یا پھر زائد رقم جو کہ چھ سو درہم ہے وہ واپس لے لو۔ اس شخص نے کہا کہ یہ کپڑا تو میں چند دفعہ پہن چکا ہوں اور پیسے لینے سے انکار کر دیا۔ امام نے کہا کہ میں تو پیسے واپس دے کر جاؤں گا۔چاہو تو پوری رقم لے کر کپڑا واپس کر دو یا پھر زائد رقم واپس لے لو۔ آخر وہ شخص مان گیا اور کپڑا اور زائد رقم رکھ لی۔

(سیرت امام ابو حنیفہ صفحہ22-23)

امام کی حصولِ علم کی طرف توجہ

روز مرہ کے تجارتی معمول کے دوران ایک مرتبہ آپؒ کی گفتگو مشہور محدث امام شعبی سے ہوئی۔ انہوں نے امام ابو حنیفہؒ سے کچھ باتیں پوچھیں اور اندازہ لگایا کہ آپؒ نہایت قابل اور ذہین ہیں اور نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’تم غفلت میں نہ پڑو، علم میں اپنے کو لگاؤ، علماء کی مجلسوں میں جایا کرو، میں تم میں بیدار مغزی اور کھوج لگانے کا مادہ پاتا ہوں۔‘‘ اس کے بعد آپؒ نے حصولِ علم کی طرف توجہ دی اور علماء کی مجلس میں جانا شروع کیا۔ اور علمِ کلام، علمِ حدیث اور علمِ فقہ میں مہارت حاصل کی۔ پہلے تو آپؒ نے علمِ کلام میں مہارت حاصل اور اس وقت کے کئی فرقہ باطلہ سے مباحثے کئے مگر غور کرنے کے بعد اس نتیجہ پر پہنچے کہ صحابا کرام اور تابعین کا اسوہ احادیث اور فقہ سیکھنا ہے۔ اس کے بعد آپؒ نے حدیث اور فقہ کا علم سیکھنے کی طرف توجہ کی۔ اس کے لئے آپؒ نے امام حماد کی درس گاہ میں بیٹھنا شروع کیا۔

امام کی خواب

حضرت امام ابو حنیفہؒ نے ایک خواب میں دیکھا کہ آپؒ حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و سلم کی ہڈیوں کو مزارِ مبارک سے نکال کر علیحدہ علیحدہ کر رہے ہیں۔ دہشت زدہ ہو کر بیدار ہوئے۔ حضرت امام ابن سیرین کے پاس آئے اور خواب کی تعبیر دریافت کی۔ انہوں نے کہا کہ بہت مبارک خواب ہے۔ آپ کو سنتِ نبویؐ کے پرکھنے میں وہ مرتبہ دیا جائے گا کہ احادیث صحیحہ کو موضوع حدیث سے جدا کرنے کی شناخت ہو جائے گی۔

(تذکرۃ الاولیاء زیرِ اسم حضرت ابو حنیفہؒ ، از حضرت فرید الدین عطارؒ )

امام کا ایک دہریہ سے مباحثہ

ایک دفعہ حضرت امام ابو حنیفہؒ کا ایک دہریہ سے مباحثہ طے ہوا۔ مباحثہ کے دن وہ دہریہ تو وقتِ مقررہ پر آگیا مگر حضرت امام ابو حنیفہؒ نے آنے میں بہت تاخیر کر دی۔ وہ دہریہ اور تمام ناظرین انتظار کرتے رہے۔ آخر جب امام ابو حنیفہؒ آئے تو وہ دہریہ کہنے لگا کہ جو امام وقت کی پابندی نہ کر سکے وہ کچھ اور کیسے کرے گا۔ اس پر امام صاحب نے کہا کہ پہلے میری بات سن لو۔ پھر فیصلہ کرنا۔ امام صاحب فرمانے لگے کہ ہوا یوں کہ میرے راستے میں ایک دریا آیا۔ میں وہاں کشتی کے انتظار میں کھڑا تھا کہ اچانک میرے پاس ایک درخت خود بخود آکھڑا ہوا اور پھر اس کی لکڑی کٹی، اس کے تختے بنے، اور پھر وہ خود بخود ایک کشتی بن گئی۔ پھر وہ کشتی میری طرف آئی اور میں اس میں بیٹھ گیا۔ وہ کشتی مجھے لے کر دوسرے کنارے پر آئی۔ پس اس میں کچھ دیر ہو گئی۔ اس پر وہ دہریہ ہنسنے لگا اور کہنے لگا کہ یہ دیکھو مسلمانوں کا امام کتنا کذاب ہے، بِنا بڑھئی کے کشتی بھی بنی اور بِنا ملاح کے چلی اور حضرت کو کنارے پر پہنچایا بھی۔ اس پر امام ابو حنیفہؒ نے کہا کہ بھئی یہی تو میں بھی کہنا چاہتا ہوں، جب ایک کشتی بِنا بنانے والے کے بن نہیں سکتی، بِنا چلانے والے کے چل نہیں سکتی تو اتنی بڑی کائنات بالکل درست طور خود بخود کیسے چل سکتی ہے۔ اس جواب پر وہ دہریہ مبہوت ہو گیا۔

امام طلباء کا خیال رکھتے تھے

حضرت امام ابو حنیفہؒ نہایت ذہین تھے اور حافظہ بھی کمال کا تھا۔ حضرت امام حماد کی مجلس میں آپؒ تمام احادیث اور فقہی مسائل سیکھ لیتے اور جب امام حماد نے یہ دیکھا تو آپؒ کو اپنے ساتھ بٹھانا شروع کر دیا۔ پھر جب آپؒ بحیثیت معلم سامنے آئے تو نہایت ہی قابلیت کے ساتھ اپنے طلباء کو سکھایا۔ اپنے طلباء کا بہت خیال رکھتے تھے۔ ان کی تمام ضروریات کو پورا کرتے۔ اپنے طلباء کے وظیفے مقرر کئے ہوئے تھے۔ ہر ایک کی ضروریات کا خاص خیال رکھتے تھے۔ اگر کوئی طالب علم بہت غریب ہوتا تو اس کے گھر والوں کو کہہ دیتے کہ یہ علم حاصل کرے گا اور اس کے گھر کے اخراجات میں اٹھاؤں گا۔ ایک دفعہ ایک آپؒ کی ایک مجلس میں ایک شخص نہایت بوسیدہ کپڑے پہنے آیا۔ مجلس برخاست ہوئی اور سب چلے گئے اور صرف وہی شخص رہ گیا۔ امام ابو حنیفہؒ نے اسے کہا کہ جائے نماز اٹھاؤ اور اس کے نیچے جو کچھ ہے وہ لے لو۔ جب اس نے جائے نماز اٹھائی تو اس کے نیچے ہزار درہم پڑے تھے۔ آپؒ نے اسے کہا کہ اپنی حالت اچھی رکھو تاکہ تمہارا دوست تم کو دیکھ کر افسردہ دل نہ ہو۔

(سیرت امام ابو حنیفہ صفحہ148-149)

امام کی نیک نمونہ کے ذریعہ تبلیغِ اسلام

حضرت امام ابو حنیفہؒ بہت اعلیٰ اخلاق کے مالک تھے۔ ہمیشہ اپنا نیک عملی نمونہ دکھاتے۔ حضرت امام فخر الدین رازیؒ تفسیر کبیر میں واقعہ بیان کرتے ہیں کہ ’’ایک مرتبہ حضرت امام ابو حنیفہؒ کہیں جا رہے تھے۔ راستہ میں اتفاقاً آپؒ کی جوتی میں کچھ نجاست لگ گئی۔ آپؒ نے نجاست دور کرنے کے لئے جوتی کو جھاڑا تو کچھ نجاست اُڑ کر ایک مکان کی دیوار سے لگ گئی۔ آپؒ بڑے پریشان ہوئے کہ اگر نجاست یوں ہی چھوڑ دی جائے تو اس کی دیوار خراب ہو تی ہے اور اگر اسے کرید کر دیوار صاف کی جائے تو دیوار کی مٹی بھی اتر آئے گی اور اس کے مالک کا نقصان ہو گا۔ چنانچہ پریشانی میں آپؒ نے دروازا کھٹکھٹایا۔ گھر کا مالک باہر آیا۔ یہ شخص ایک مجوسی تھا اور امام ابو حنیفؒ ہ کا مقروض تھا۔ وہ آپ کو دیکھ کر سمجھا کہ آپؒ قرض واپس لینے آئے ہیں۔ وہ پریشان ہو کر عذر پیش کرنے لگا۔ آپؒ نے کہا کہ قرض کو چھوڑو پریشانی یہ ہے کہ تمہاری دیوار کیسے صاف کروں اور پھر ساری بات بتائی۔ وہ مجوسی آپؒ کا تقوی اور نیکی دیکھ کر بے ساختہ بولا آپؒ دیوار بعد میں صاف کیجئے گا پہلے کلمہ پڑھا کر میرا دل صاف کر دیں۔ چنانچہ وہ مجوسی آپؒ کی اس نیکی کی وجہ سے مسلمان ہو گیا۔‘‘

(تفسیر کبیر امام الرازیؒ زیر آیت مالک یوم الدین)

امام کا قرض داروں کی مدد کرنا

حضرت امام ابو حنیفہؒ قرض داروں کی خوب مدد کرتے تھے۔ ایک شخص کے اوپر چار ہزار درہم کا قرض تھا۔ اس کے دوستوں نے ارادہ کیا کہ سب مل کر اس کی مدد کریں۔ جب اس کے دوست امام ابو حنیفہ کے پاس آئے کہ اس کی مدد کریں تو کہا کہ اتنی سی رقم کے لئے لوگوں کو کیوں تکلیف دیتے ہو۔ اس کے بعد پوری رقم خود ادا کر دی۔

(سیرت امام ابو حنیفہ صفحہ152)

تذکرۃ الاولیاء میں لکھا ہے کہ ایک شخص جو کہ امام ابو حنیفہؒ کا قرض دار تھا اس کے علاقہ میں کسی کی وفات ہوئی تو آپؒ نماز جنازہ کے لئے وہاں گئے۔ گرمی کا موسم تھا اور دھوپ سخت تھی۔ آپؒ کے مقروض کی دیوار کے پاس کچھ سایہ تھا۔ لوگوں نے آپؒ سے کہا کہ یہاں اس دیوار کے سائے میں بیٹھ جائیں۔ آپؒ نے منع کر دیا اور کہا کہ صاحب خانہ میرا مقروض ہے اس لئے اس کے مکان کے سایہ سے استفادہ کرنا میرے لئے جائز نہیں۔ کیوں کہ حدیث میں ہے کہ قرض کی وجہ سے جو نفع بھی حاصل ہو وہ سود ہے۔

(تذکرۃ الولیاء زیرِ اسم حضرت ابو حنیفہؒ )

یہ آپؒ کے تقویٰ کا معیار تھا۔

تقویٰ و فتویٰ

حضرت امام ابو حنیفہؒ بہت بڑے فقیہ تھے اور مختلف لوگ آپؒ سے فتوے پوچھتے تھے۔ ایک دفعہ آپؒ بازار جارہے تھے کہ گرد و غبار کے کچھ ذرات آپ کے کپڑوں پر آگئے تو آپؒ نے دریا پر جا کر کپڑے کو خوب اچھی طرح دھو کر پاک کیا اور جب لوگوں نے پوچھا کہ ’’آپ کے نزدیک تو اتنی نجاست جائز ہے پھر آپ نے کپڑا کیوں پاک کیا؟‘‘ اس پر آپؒ نے فرمایا کہ ’’وہ فتویٰ ہے اور یہ تقویٰ۔‘‘

(تذکرۃ الاولیاء)

اس واقعہ کے متعلق حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلاۃ و السلام فرماتے ہیں کہ ’’امامِ اعظم رحمۃ اللہ علیہ کی بابت لکھا ہے کہ آپ ایک مرتبہ بہت ہی تھوڑی سی نجاست جو ان کے کپڑے پر تھی دھو رہے تھے۔ کسی نے کہا کہ آپ نے اس قدر کے لئے تو فتویٰ نہیں دیا۔ اس پر آپ نے کیا لطیف جواب دیا کہ آں فتویٰ است و ایں تقویٰ۔ پس انسان کو دقائقِ تقویٰ کی رعایت رکھنی چاہئے۔‘‘

(ملفوظات جلد4 صفحہ442)

امام کی امانت داری

حضرت امام ابو حنیفہؒ نہایت امانت دار تھے۔ ایک دیہاتی نے آپؒ کے پاس ایک لاکھ ستر ہزار درہم بطور امانت رکھے مگر وہ فوت ہو گیا۔ اس نے کسی کو بتایا بھی نہ تھا۔ اس کے چھوٹے بچے تھے۔ جب اس دیہاتی کے بچے بالغ ہوئے تو حضرت امام اعظمؒ نے انہیں اپنے پاس بلایا اور ان کے والد کی ساری رقم لوٹادی اور فرمایا یہ تمہارے والد کی امانت تھی۔ آپؒ نے یہ امانت خفیہ طور پر لوٹائی تاکہ لوگوں کو اتنی بڑی رقم کا علم نہ ہو اور وہ انہیں تنگ نہ کریں۔

(سیرت امام ابو حنیفہ صفحہ160)

امام مجبوروں کی مدد کرتے تھے

حضرت امام ابو حنیفہؒ مجبور لوگوں کی بہت مدد کرتے تھے۔ ایک دفعہ امیر کوفہ ابن ہبیرہ کے ہاں تشریف لے گئے۔ وہاں پہلے سے ہی ابن ہبیرہ ایک شخص کو قتل کی دھمکی دے رہا تھا۔ جب اس شخص نے امام ابو حنیفہؒ کو داخل ہوتے اور ابن ہبیرہ کو آپؒ کی عزت کرتے دیکھا تو بغیر سوچے سمجھے کہہ دیا کہ یہ شخص مجھے اچھی طرح جانتا ہے۔ ابن ہبیرہ نے امام سے پوچھا کہ کیا ’’آپ اسے جانتے ہیں؟‘‘ امام ابو حنیفہؒ اسے نہ جانتے تھے۔ آپؒ جھوٹ بھی نہیں بول سکتے تھے اور یہ بھی چاہتے تھے کہ یہ شخص آزاد ہو جائے۔ آپؒ نے اس کی یہ راہ نکالی کہ آپؒ نے اس آدمی کو دیکھ کر پوچھا کہ ’’تم وہی ہو جو اذان دیتے ہوئے زور سے لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کہتے ہو؟‘‘ اس شخص نے کہا کہ ’’ہاں میں وہی ہوں۔‘‘ آپؒ نے فرمایا ’’اچھا اذان سناؤ۔‘‘ اس نے پوری اذان سنائی اور لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ زور سے کہا۔ اس پر امام ابو حنیفہؒ نے کہا کہ ’’یہ اچھا آدمی ہے اسے کچھ نہ کہو۔‘‘ اس پر ابن ہبیرہ نے اسے چھوڑ دیا اور مقدمہ بری کر دیا۔امام ابو حنیفہ نے اذان اسی لئے سنی کہ وہ اللہ اور رسول کی شہادت دے اور یہی شہادت اس کی رہائی کا ذریعہ بن گئی۔

(مناقب امام اعظم صفحہ199-200 از موفق بن احمد مکی)

امام کا صبر

حضرت امام ابو حنیفہؒ بہت صابر تھے۔ ایک دفعہ آپؒ کی مجلس میں ایک شخص آکر آپ کو گالیاں دینے لگ گیا۔ آپؒ خود بھی خاموش رہے اور دوسروں کو بھی خاموشی کا حکم دیا اور اسے بالکل نہیں روکا اور درس جاری رکھا۔ درس کے بعد اٹھے اور گھر کی طرف روانہ ہوئے۔ وہ شخص بھی آپؒ کے پیچھے گالیاں دیتے ہوئے آگیا۔ جب آپؒ گھر کے دروازے پر پہنچے تو آپؒ نے اُس شخص کو کہا کہ یہ میرا دروازہ ہے۔ میں اندر جانا چاہتا ہوں۔ تم یہاں بیٹھ کر جتنی گالیاں دینا چاہتے ہو دیتے رہو تا کہ تمہیں کچھ حسرت باقی نہ رہے۔ یہ سن کر وہ شخص بہت شرمندہ ہوا اور معافی مانگنے لگا تو آپؒ نے اسے معاف کر دیا۔

(مناقب امام اعظم صفحہ285-286)

وفات

حضرت امام ابو حنیفہؒ کو مختلف مسلمان بادشاہوں نے قضا اور عدلیہ کا عہدہ دینے کی کوشش کی اور بہت دفعہ جبر اور زبر دستی بھی کی۔ مگر آپؒ نے کبھی یہ عہدہ قبول نہیں کیا کیونکہ آپؒ کے نزدیک یہ بادشاہ ظلم کرنے والے تھے۔ چنانچہ اس انکار کی وجہ سے کئی مرتبہ آپؒ کو کوڑوں کی سزا ملی۔ قید خانہ میں رکھا گیا۔ یہاں تک کہ آپؒ کی وفات بھی قید خانہ میں ہوئی۔ بعض روایات میں آیا ہے کہ آپ کو قید خانہ میں زہر دیا گیا تھا۔ اس طرح آپؒ کو اللہ تعالیٰ نے شہادت کا مقام عطا فرمایا۔ آپؒ کی شہادت 150 ہجری میں ہوئی۔ حضرت امام ابو حنیفہؒ نے وصیت کی تھی کہ آپؒ کو خیزران کے قبرستان میں مشرقی جانب دفن کیا جائے کیونکہ اس کی زمین پاکیزہ ہے، غصب کی ہوئی نہیں۔

(سیرت امام ابو حنیفہ صفحہ145)

امام کا والدین کا احترام

حضرت امام ابو حنیفہؒ کو جب کوئی مسئلہ در پیش ہوتا تو آپ فرماتے کہ یہ مشکل میرے کسی گناہ کی وجہ سے ہے۔ اور پھر آپؒ اللہ تعالیٰ سے مغفرت چاہتے اور وضو کر کے دو رکعت نماز ادا کرتے اور استغفار کرتے تو مسئلہ حل ہو جاتا۔ آپؒ ہر نماز میں اپنے والدین اور اساتذہ کے لئے ضرور دعا کرتے۔ والدین کے ایصالِ ثواب کے لئے ہر جمعہ ان کی طرف سے خیرات کرتے تھے۔ آپؒ کے والد تو جلد ہی فوت ہو گئے تھے۔ آپ اپنی والدہ کا بہت خیال رکھتے اور ان کا بہت احترام کرتے تھے۔ گو کہ آپؒ خود ایک بہت بڑے فقیہ تھے مگر آپ کی والدہ کو عمرو بن ذر پر بڑا اعتبار تھا اور کوئی مسئلہ ہوتا تو آپؒ کو کہتیں کہ جا کر عمرو سے مسئلہ پوچھ آؤ۔ آپؒ جا کر عمرو سے پوچھ آتے۔ اگر عمرو کو جواب نہ آتا تھا تو آپؒ کو کہتے تھے کہ آپؒ مجھے فتویٰ بتا دیں میں آپؒ کے سامنے دہرا دوں گا اور آپؒ اپنی والدہ کو جا کر وہ فتویٰ بتا دیں۔

(سیرت امام ابو حنیفہ صفحہ176)

امام کی تابعیت

حضرت امام ابو حنیفہؒ کو تابعی ہونے کا شرف بھی حاصل تھا۔ آپؒ کی حضرت انس بن مالک، حضرت عبد اللہ بن حارث، حضرت عبد اللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہم سے ملاقات ثابت ہے۔ آپؒ کہتے ہیں کہ میں ایک حلقۂ درس میں گیا جو کہ صحابیٔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم عبد اللہ بن حارث بن جزءؓ کاتھا۔ آپؒ کہتے ہیں کہ میں نے ان کو فرماتے ہوئے سنا کہ ’’میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ ’’جو شخص اللہ کے دین میں تفقہ حاصل کرے گا اللہ تعالیٰ اس کی مہمات کے لئے کافی ہوگا اور اس کو بے شان و گمان روزی دے گا۔

(سیرت امام ابو حنیفہ صفحہ201)

امام کا حلیہ

حضرت امام ابو حنیفہؒ طویل القامت، کھلا اور بشاش چہرہ، کھلتا سفید گندمی رنگ، گھنی داڑھی، وضع قطع کے لحاظ سے خوش پوش، صاف ستھرے رہن سہن کے مالک بزرگ تھے اور ہمیشہ خوش رہنے والے مطمئن مزاج صابر و شاکر عالم سمجھے جاتے تھے۔

(تاریخ افکار اسلام صفحہ112 از ملک سیف الرحمٰن)

قرآن مقدم ہے

حضرت امام ابو حنیفہؒ ہمیشہ قرآن کو مقدم رکھتے تھے۔ پھر سنت اور حدیث کو۔ اور جو بات حدیث سے مل جاتی پھر اس کے بعد کسی دوسری طرف توجہ نہ دیتے۔

امام ابو حنیفہؒ حضرت مسیح موعود ؑ کی نظر میں

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے حضرت امام ابو حنیفہ کو ’’فخر الائمہ‘‘ کے لقب سے یاد فرمایا۔

(الحق مباحثہ لدھیانہ، روحانی خزائن جلد4 صفحہ209)

مولوی بہاؤ الدین صاحب احمد آبادی نے پوچھا کہ مکتوبات امامِ ربانی میں مسیح موعود کی نسبت لکھا ہے کہ وہ حنفی مذہب پر ہوگا۔ اس کا کیا مطلب ہے۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلاۃ و السلام نے فرمایا کہ ’’اس سے یہ مراد ہے کہ جیسے حضرت امام اعظمؒ قرآن شریف ہی سے استدلال کرتے تھے، اسی طرح مسیح موعود بھی قرآن شریف ہی کے علوم اور حقائق کو لے کر آئے گا؛ چنانچہ اپنے مکتوبات میں دوسری جگہ انہوں نے اس راز کو کھول بھی دیا ہے اور خصوصیت سے ذکر کیا ہے کہ مسیح موعود کو قرآنی حقائق کا علم دیا جائے گا۔‘‘

(ملفوظات جلد1 صفحہ531)

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام حضرت امام ابو حنیفہؒ کے متعلق فرماتے ہیں کہ ’’امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ کا مسلک قابل قدر ہے انہوں نے قرآن کو مقدم رکھا ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد2 صفحہ445)

اسی طرح آپؑ فرماتے ہیں کہ ’’حضرت امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ تو اعلیٰ درجہ کے متقی تھے۔‘‘

(ملفوظات جلد1 صفحہ550)

پھر آپؑ نے ایک جگہ تحریر کیا کہ ’’۔۔۔امام بزرگ ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ بھی جنہوں نے بعض تابعین کو بھی دیکھا تھا اور جو علم دین کے ایک دریا تھے۔۔۔‘‘

(الحق مباحثہ لدھیانہ، روحانی خزائن جلد4 صفحہ90)

نیز آپؑ تحریر فرماتے ہیں کہ ’’وہ ایک بحر اعظم تھا اور دوسرے سب اس کی شاخیں ہیں اسکا نام اہل الرائے رکھنا ایک بھاری خیانت ہے! امام بزرگ حضرت ابو حنیفہ کو علاوہ کمالات علم آثار نبویہ کے استخراج مسائل قرآن ید طولیٰ تھا۔۔۔ امام اعظم صاحب کی آنیوالے مسیح کے ساتھ استخراج مسائل قرآن میں ایک روحانی نسبت ہے۔‘‘

(الحق مباحثہ لدھیانہ، روحانی خزائن جلد4 صفحہ101)

پھر ایک اور جگہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلاۃ و السلام حضرت امام ابو حنیفہؒ کے متعلق فرماتے ہیں کہ ’’امام صاحب موصوف اپنی قوت اجتہادی اور اپنے علم اور درایت اور فہم و فراست میں ائمہ ثلاثہ باقیہ سے افضل و اعلیٰ تھے اور ان کی قوت مدرکہ کو قرآن شریف کے سمجھنے میں ایک خاص دستگاہ تھی اور ان کی فطرت کو کلام الٰہی سے ایک خاص مناسبت تھی اور عرفان کے اعلیٰ درجہ تک پہنچ چکے تھے۔ اسی وجہ سے اجتہاد و استنباط میں ان کے لئے وہ درجہ علیا مسلم تھا جس تک پہنچنے سے دوسرے سب لوگ قاصر تھے۔‘‘

(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد3 صفحہ385)

(سید حاشر احمد۔ طالبعلم جامعہ احمدیہ کینیڈا)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 30 مئی 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ