• 26 اپریل, 2024

محترمہ ڈاکٹر نصرت جہاں مالک صاحبہ کا ذکرِ خیر

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے محترمہ ڈاکٹر نصرت جہاں صاحبہ کا جس انداز میں اپنے خطبہ جمعہ (فرمودہ 21 اکتوبر 2016) میں ذکر فرمایا ہے وہ بہت ہی قابل رشک ہے۔ مجھے یقین ہے کہ جنت الفردوس میں اس ذکر سے آگاہی پاکر محترمہ ڈاکٹر صاحبہ کی روح بے انتہا خوشی محسوس کررہی ہوگی۔ حضور انور کے بیان فرمودہ اس نہایت جامع ذکرِ خیر کے بعد کچھ مزید لکھنے کی کوئی ضرورت محسوس نہیں آتی تاہم اذکر و اموتا کم بالخیر کی تعمیل میں چند باتیں تحریر کر رہی ہوں۔

مکرمہ ڈاکٹر نصرت جہاں صاحبہ کی وفات کا بہت صدمہ ہوا۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند سے بلند تر فرماتا چلا جائے۔ اپنے قرب میں ، اپنے پیاروں کے ساتھ جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے ۔ آمین ۔ ان کی وفات ایک جماعتی نقصان ہے ۔ بہت نافع النّاس وجود تھیں۔ اللہ تعالیٰ یہ کمی پوری فرمائے اور جماعت کو ان جیسے بے لوث خدمت کرنے والے مخلص وجود اپنے فضل سے بکثرت عطا فرمائے۔ آمین

خاکسار کی ان سے پہلی ملاقات 2004 میں ہوئی۔ جب ہم رخصت پر ربوہ گئے تھے۔ ہسپتال دیکھنے گئے تو بہت محبت سے ملیں۔ ہسپتال کا زنانہ حصّہ بذاتِ خود بڑی تفصیل سے دکھایا اور بہت پُر تکلف چائے بھی پلائی ۔ اب تک اس ملاقات کا ذہن پر بہت خوشگوار اثر باقی ہے۔ اس کے بعد ان کے ہر سال لندن آنے پر ان سے ملاقات ہوتی رہی اور اس طرح سے ایک دلی تعلق قائم ہوگیا۔ آپ کے چہرہ پر ہمیشہ مسکراہٹ رہتی ۔ ہر ایک سے پیار سے ملتیں ، سلام کرنے میں پہل کرنے کی کوشش ہوتی۔ بہت منکسرالمزاج مگر باوقار ۔ نیکی کے مواقع کو ہاتھ سے نہ جانے دیتی تھیں۔ اگر کوئی ان سے معمولی سا بھی حسنِ سلوک کرتا تو اس کی بہت قدر کرتیں اور اس سے بڑھ کر حسن سلوک کرتیں۔ خلافت اور خلیفۂ وقت سے والہانہ عشق اور خلوص و وفا کا تعلق تھا۔ خلیفۂ وقت کے ہر ارشاد کو خاص اہتمام سے سننا اور اس پر عمل کرنا آپ کا ایک نمایاں وصف تھا۔ جب کبھی حضور ایدہ اللہ سے ملاقات کرکے آتیں تو بہت خوش نظر آتیں اور بار بار حضور انور کی شفقت کا ذکر شکر کے جذبات کے ساتھ کرتیں۔

مکرمہ محترمہ ڈاکٹر نصرت جہاں صاحبہ کو اللہ تعالیٰ نے بہت خوبیوں اور اخلاقِ فاضلہ سے نوازا تھا۔ اپنے شعبہ میں کامل مہارت ، علم اور وسیع تجربہ کے ساتھ ساتھ ان میں سادگی، خلوص اور خاکساری کی صفت بہت نمایاں تھی۔ اپنے نام کے مطابق انہوں نے اپنے آپ کو بے لوث انداز میں خدمتِ انسانیت کے لئے وقف رکھا۔ غریب مریضوں کی مدد اور نصرت ان کا ایک خاص وصف تھا۔

اس سال ان کو رمضان یہاں لندن میں گزارنے کا موقعہ ملا۔ بہت خوش تھیں ۔ اظہارِ تشکر کے طور پر بارہااس کا ذکر خاکسار سے کیا کہ حضور انور نے ازراہِ شفقت انہیں مسجد کے قریب رہائش عطا فرمائی ہے۔ قربِ مسجد کا انہوں نے بھرپور فائدہ اٹھایا۔ ساری نمازوں اور اسکے علاوہ درسِ قرآنِ کریم اور فجر کے بعد درسِ حدیث میں باقاعدگی سے شامل ہوتیں۔ چنانچہ رمضان المبارک میں صبح کے درسِ حدیث کے نوٹس کی کاپی میرے ذریعہ راشد صاحب سے لے کر اپنے عزیزوں کو روزانہ بھیجتیں الغرض اس سارے ماحول سے بے حد خوش اور مطمئن تھیں اور کئی دفعہ اس بات کا اظہار کیا کہ یہاں تو مجھے ربوہ کے رمضان والا لطف اور مزہ آرہا ہے۔گذشتہ رمضان ان کی زندگی کا آخری بھرپور اور خوشکن رمضان بن گیا۔

اس سلسلہ میں ایک بظاہر چھوٹا سا واقعہ ہے جو آپ کی نفیس طبیعت کو ظاہر کرتا ہے۔ ایک روز انہوں نے مجھے چند سادہ کاغذ دیئے اور کہا کہ امام صاحب روزانہ درس حدیث کے نوٹس لکھ کر دیتے ہیں ۔ ان کویہ کاغذ دیدیں تاکہ یہ ان کے استعمال میں آسکیں۔

اسی طرح دینی مجالس میں شامل ہونے کا شوق رکھتیں تھیں۔ خاکسار کے متعلق علم ہوا کہ ہفتہ وار ترجمۃ القرآن کلاس لیتی ہوں تو اس میں شامل ہونے کی خواہش کی۔ مجھے جھجھک محسوس ہوئی اور میں نے کہا کہ آپ کو تو اس کی ضرورت نہیں کیونکہ آپ تو ترجمہ جانتی ہیں لیکن بہت اصرار کرکے کلاس میں شامل ہوتی رہیں۔ اور وقتاً فوقتاً بتاتیں کہ فلاں کلاس میں یہ نئی بات معلوم ہوئی اور میں نے اپنے عزیزوں کو بھی ٹیکسٹ کردی ہے۔

مسجد میں جس کسی کے متعلق پتہ چلتا کہ اسے کوئی تکلیف ہے، بغیر امیر غریب یا چھوٹے بڑے کی تفریق کئے بڑی ہمدردی سے ہر ایک کو مخلصانہ طبّی مشورہ دیتیں۔ جب دوبارہ ان سے ملاقات ہوتی تو خیریت دریافت کرتیں۔ اس ضمن میں ایک واقعہ لکھنامناسب سمجھتی ہوں جو ان کی تعزیت کے لئے آنے والی بہنوں میں سے ایک بہن نے ان کے بارہ میں اپنا ایک چشم دید واقعہ سنایا کہ ایک بہت غریب عورت کا زچگی کا کیس ان کے پاس آیا۔ بہت دیر ہو چکی تھی اور صورت ِ حال ایسی تھی کہ باوجود کوشش کے پانچ منٹ بعد مریضہ کی وفات ہوگئی۔ انہیں اس بات کا سخت ملال تھاکہ وہ اس غریب عورت کے کام نہ آسکیں۔ اس دلی بوجھ کو ہلکا کرنے کےلئے آپ اس غریب عورت کے گھر گئیں گھر والوں کو حوصلہ دلایا اور کہا کہ میں اس کی زندگی میں اس کے لئے کچھ نہ کرسکی ۔ اور پھر اصرار کرکے اس غریب عورت کو خود غسل دیا اور کفن پہنایا ۔ اور کہا کہ پہلے اس کے لئے کچھ نہ کرسکی تھی اس لئے سوچا کہ اب جو کچھ کر سکتی ہوں کر لوں۔

ڈاکٹر صاحبہ کی ایک اور خوبی یہ تھی کہ وہ اپنے وسیع تعلقات میں چھوٹے بڑے لوگوں کو تحائف دینے کا خوب اہتمام کرتی تھیں۔ تحائف دینے میں آپ کا یہ خاص سلیقہ تھا کہ جس کو بھی تحفہ دیتیں وہ اس کی ضرورت اور پسند کے مطابق ہوتا۔ خاص طور پر ایسی اشیاء تلاش کرکے بطور تحفہ دیتی تھیں۔

اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے اور پسماندگان کویہ صدمہ برداشت کرنے کی ہمت و حوصلہ کے ساتھ توفیق عطا فرمائے۔ نیز ان کی خوبیوں کو اپنانے کی بھی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

٭…٭…٭

(قانتہ شاہدہ راشد ۔ لندن)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 30 اکتوبر 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 31 اکتوبر 2020